منشیات—لوگ اِنہیں کیوں استعمال کرتے ہیں؟
منشیات—لوگ اِنہیں کیوں استعمال کرتے ہیں؟
”مَیں ۱۳ برس کا تھا جب ایک شام میرے بہت ہی اچھے دوست کی بہن نے ہمیں اپنے اپارٹمنٹ میں مدعو کِیا۔ سب نے چرس پینا شروع کر دی۔ پہلے تو مَیں انکار کرتا رہا مگر جب بہت اصرار کِیا گیا تو مَیں نے بھی لے لی۔“ جنوبی افریقہ میں رہنے والا مائیکل اسطرح منشیات کا عادی بنا۔
”مَیں ایک قدامتپسند گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں جو کلاسیکی موسیقی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ مَیں ایک ایسے آرکسٹرا کا رُکن تھا جسکے سازندوں میں سے ایک وقفے کے دوران چرس پیا کرتا تھا۔ وہ کئی ماہ تک مجھے مسلسل اسکی پیشکش کرتا رہا۔ بالآخر مَیں نے بھی اسے پیا اور پھر اسے باقاعدہ استعمال کرنے لگا۔“ یوں کینیڈا کے ڈیرن نے منشیات استعمال کرنا شروع کیں۔
یہ دونوں لڑکے ایلایسڈی، افیم اور عارضی چستی پیدا کرنے والی دیگر منشیات بھی استعمال کرنے لگے۔ ماضی میں منشیات استعمال کرنے والوں کے طور پر، اب وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ منشیات کی عادت میں پڑنے کی بنیادی وجہ دوستوں کا دباؤ تھا۔ مائیکل کہتا ہے کہ ”مَیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مَیں منشیات استعمال کرونگا مگر اپنی دوستی کی وجہ سے قدرتی بات ہے کہ مَیں اُنکا ساتھ دینا چاہتا تھا۔“
تفریحی صنعت
سچ ہے کہ بہتیرے لوگوں کو منشیات کا عادی بنانے میں دوستوں کا دباؤ اہم کردار ادا کرتا ہے اور بالخصوص نوجوان بہت جلد اس سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ علاوہازیں، وہ تفریحی دُنیا کی ممتاز شخصیات کی تقلید کرتے ہیں جو اپنے نوجوان پرستاروں کی سوچ اور افعال پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔
تفریحی صنعت میں منشیات کا استعمال بہت عام ہے۔ موسیقی کے بڑے بڑے فنکار اپنے پیشے کے کسی نہ کسی موڑ پر آ کر اکثر منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ بیشتر فلمی ستارے بھی منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔
تفریح فراہم کرنے والے منشیات کو پُرکشش بنا کر پیش کر سکتے ہیں جس کے اثر سے بچنا نوجوانوں کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ سن ۱۹۹۶ میں نیوزویک نے بیان کِیا: ”سیٹل کی سڑکیں ایسے بچوں سے بھری پڑی ہیں جو وہاں ہیروئن پینے کے لئے محض اسلئے آئے ہیں کہ [راک میوزیشن] کوبین نے بھی یہاں ہیروئن پی تھی۔“
منشیات کو رسالوں، فلموں اور ٹیلیویژن پر بھی پُرکشش انداز میں پیش کِیا جاتا ہے۔ اسی طرح فیشن کی دُنیا کے چند مشہور ڈیزائنرز نے نشے کے عادی لوگوں جیسے دبلےپتلے اور کمزور لوگوں کو ماڈلز کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
لوگ عادی کیوں بن جاتے ہیں؟
بیشمار دیگر عناصر منشیات کے استعمال میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اِن میں شدید مایوسی اور بےمقصد زندگی شامل ہے۔ اضافی وجوہات معاشی مسائل، بیروزگاری اور والدین کے ناقص نمونے ہیں۔
بعض لوگ جنہیں انسانی رشتےناطوں میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہ دوسرے لوگوں کیساتھ میلجول کے مسائل پر قابو پانے کے لئے منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ منشیات اُنہیں زیادہ پُراعتماد، ہنسمکھ اور پسندیدہ شخصیت بناتی ہیں۔ دیگر اپنی زندگیوں کو کامیاب بنانے کی ذمہداری قبول کرنے کی بجائے منشیات کا استعمال سہل پاتے ہیں۔
بیزاری ایک اَور وجہ ہے جو نوجوانوں کو منشیات کی طرف راغب کرتی ہے۔ کتاب دی رومانس آف رسک—وائے ٹینایجرز ڈو دی تھنگز دے ڈو بیزاری اور والدین کی نگرانی کے فقدان پر تبصرہ کرتی ہے: ”بچے جب سکول سے واپس آتے ہیں تو گھر پر کوئی نہیں ہوتا۔ بِلاشُبہ وہ تنہا ہوتے ہیں اور تنہائی اُنہیں پسند نہیں آتی۔ دوست اُنکے پاس آ جاتے ہیں مگر اُنکی موجودگی کے باوجود وہ اکثر بیزاری کا شکار رہتے ہیں۔ وہ تفریح کیلئے دیر تک ٹیلیویژن اور میوزک ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں یا پھر انٹرنیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔ سگریٹنوشی، منشیات اور مےنوشی بڑی آسانی سے اُنکی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔“
مائیکل جسکا شروع میں ذکر کِیا گیا تھا، گھر میں والدین کی نگرانی کے فقدان کی بابت کہتا ہے: ”میری خاندانی زندگی نہایت پُرمسرت تھی۔ غیرمعمولی طور پر ہم سب ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ میرے ماں اور باپ دونوں کام کرتے تھے لہٰذا دن کے دوران گھر میں نگرانی کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ اسکے علاوہ ہمارے والدین نے ہمیں بہت زیادہ آزادی دے رکھی تھی۔ کسی قسم کی تادیب نہیں کی جاتی تھی۔ میرے والدین کو گمان بھی نہیں تھا کہ مَیں منشیات استعمال کر رہا ہوں۔“
ایک دفعہ جب عادت پڑ جائے تو بہتیرے لوگ محض مزے کی خاطر منشیات استعمال کرتے رہتے ہیں۔ مائیکل ہر روز منشیات استعمال کرتا تھا، لہٰذا وہ اِنکے اثرات کی بابت کہتا ہے: ”مَیں خوابوں کی دُنیا میں رہتا تھا۔ مَیں ہر طرح کے دباؤ سے آزاد تھا۔ مجھے کبھی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ سب کچھ خوبصورت نظر آتا تھا۔“
جنوبی افریقہ سے، ماضی میں منشیات استعمال کرنے والے ڈِک نے بتایا کہ جب اُس نے ۱۳ برس کی عمر میں چرس پینا شروع کی تو اسکے اُس پر کیا اثرات ہوئے: ”مَیں بات بات پر ہنستا تھا کیونکہ مجھے سب کچھ مضحکہخیز معلوم ہوتا تھا۔“
نوجوان منشیات کے نقصان کی بابت آگاہیوں سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے۔ اُنکا رُجحان یہ ہے کہ ”میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔“ کتاب ٹاکنگ وِد یؤر ٹینایجر بیان کرتی ہے کہ نوجوان منشیات کے صحت کے لئے مُضر ہونے سے متعلق آگاہیوں کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں: ”بہت صحتمند اور توانا ہونے کی وجہ سے وہ یہ سوچتے بھی نہیں کہ اُنکی صحت کو کچھ نقصان ہوگا۔ نوجوانوں میں ’خطرے سے محفوظ رہنے‘ کا یہ احساس بڑا عام ہے۔ جواںسال لوگ سمجھتے ہیں کہ پھیپھڑوں کا کینسر، شرابخوری، منشیات کی عادت اُنکی بجائے عمررسیدہ اشخاص کو متاثر کرتی ہے۔“ بیشتر لوگ خطرات سے بےبہرہ ہیں جسکی ایک مثال ایکسٹیسی نامی نشہآور دوا کی بیحد مقبولیت ہے۔ یہ کیا ہے؟
ایکسٹیسی اور محفلِرقص
ایمفیٹامائن سے بنی ہوئی نشہآور دوا ایمڈیایماے جو ایکسٹیسی کے نام سے مشہور ہے عام طور پر ساری رات جاری رہنے والی رقصوسُرود کی محفلوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اسے فروخت کرنے والے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ایکسٹیسی کا استعمال جنونی بشاشت کے احساس کے علاوہ پوری رات ناچنے کیلئے بےپناہ قوت حاصل کرنے کا محفوظترین ذریعہ ہے۔ ایک مصنف کے مطابق اس دوا سے لوگ اُس وقت تک ناچتے رہتے ہیں جبتک کہ وہ بالآخر ’مدہوش نہیں ہو جاتے۔‘ ایک نوجوان ایکسٹیسی کی کشش کے بارے میں کہتا ہے: ”جنونی کیفیت آپکے پاؤں سے شروع ہوتی ہے اور دھیرےدھیرے آپکے سارے بدن کو ناقابلِبیان محبت اور گرمجوشی سے سرشار کرتی ہوئی سر تک پہنچ جاتی ہے۔“
ایکسٹیسی کا باقاعدہ استعمال کرنے والوں کے دماغ کی تصویروں نے اس بات کا ثبوت
فراہم کر دیا ہے کہ یہ بےضرر دوا نہیں جیسے کہ اسے فروخت کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں۔ ایکسٹیسی دراصل دماغ کے عصبی ریشوں کو نقصان پہنچاتی اور سیروٹونن کی سطح کو کم کرتی ہے۔ ایسا نقصان عموماً دائمی ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد یہ ڈپریشن اور حافظے کی کمزوری جیسے امراض کا باعث بن سکتا ہے۔ ایکسٹیسی استعمال کرنے والوں میں اموات کی رپورٹیں بھی ملی ہیں۔ اس کے باوجود، منشیات فروخت کرنے والے کئی لوگ اپنے گاہکوں کو نشے کا عادی بنانے کیلئے ایکسٹیسی اور ہیروئن ملا کر بیچتے ہیں۔کیا یہ بآسانی دستیاب ہیں؟
بیشتر ممالک میں سپلائی بڑھ جانے سے منشیات کی قیمت گِر گئی ہے۔ کسی حد تک اسکی وجہ سیاسی اور معاشی تبدیلیاں ہیں۔ اسکی ایک خاص مثال جنوبی افریقہ ہے جہاں سیاسی تبدیلی دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت اور مبادلۂاشیا میں اضافے پر منتج ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سرحدوں پر ناقص نگرانی کی وجہ سے بھی منشیات کی تجارت بہت بڑھ گئی ہے۔ بیروزگاری میں اضافے کی بدولت ہزارہا لوگ منشیات کے ناجائز کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی پر گزارہ کرتے ہیں۔ جہاں منشیات کی افراط ہو وہاں پُرتشدد جُرائم بھی عام ہوتے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق، کاؤٹن، جنوبی افریقہ میں سکول جانے والے بچے جن میں سے بعض کی عمر صرف ۱۳ برس ہے، منشیات کے کاروبار کی وجہ سے پولیس کے زیرِنگرانی ہیں۔ اس علاقے کے کئی سکولوں نے یہ معلوم کرنے کیلئے بچوں کے ٹیسٹ کرانے شروع کر دئے ہیں کہ آیا اُنکے جسم میں منشیات تو نہیں ہیں۔
بنیادی وجہ کیا ہے؟
لوگ بہت سی وجوہات کی بِنا پر منشیات استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ سب کسی بنیادی وجہ اور سنگین مسئلے کی علامات ہیں۔ مصنف بین واٹکر نے اسکی طرف اشارہ کِیا: ”ہمارے زمانے میں منشیات کے استعمال میں اضافہ دراصل تنہائی اور مایوسی کے علاوہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی کمزوریوں اور خامیوں کے خلاف ایک آگاہی ہے۔ ورنہ فطری صلاحیت اور مخصوص حقوق کے مالک اتنے زیادہ لوگ حقیقت سے نظریں چرا کر منشیات کو ترجیح کیوں دیں؟“
یہ ایک معقول سوال ہے جو ہمیں احساس دِلاتا ہے کہ مادہپرست اور کامیابی کے نشے میں چور ہمارا معاشرہ اکثر ہماری جذباتی اور روحانی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ بیشتر مذاہب بھی اِن ضروریات کو پورا نہیں کر سکے کیونکہ اُنہوں نے انسانی مسائل کی بنیادی وجہ کو نظرانداز کر دیا ہے۔
منشیات کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے سے پہلے ہمیں اس بنیادی وجہ کو جاننے اور اسکا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلے مضمون میں اس پر گفتگو کی جائیگی۔
[صفحہ ۷ پر تصویر]
ممتاز شخصیات بعضاوقات منشیات کے استعمال کو پُرکشش بنا دیتی ہیں
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
آجکل موسیقی کے پیشے میں منشیات کا استعمال عام ہے
[صفحہ ۸ پر تصویریں]
رقصوسُرود کی محفلوں میں ایکسٹیسی نامی دوا بآسانی دستیاب ہوتی ہے
[تصویروں کے حوالہجات]
AP Photo/Greg Smith
Gerald Nino/U.S. Customs