مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

منشیات کا مسئلہ—‏حل ممکن ہے!‏

منشیات کا مسئلہ—‏حل ممکن ہے!‏

منشیات کا مسئلہ‏—‏حل ممکن ہے!‏

‏”‏شراب کی بوتلوں میں کوکین کی بڑی کھیپ پکڑی گئی۔‏“‏ اس شہ‌سرخی کے تحت اخبار کے مضمون نے بیان کِیا کہ کیسے جوہانزبرگ،‏ جنوبی افریقہ کی پولیس نے جنوبی امریکہ کا شراب کی ۶۰۰،‏۱۱ بوتلوں والا ایک کنٹینر پکڑا۔‏ شراب میں تقریباً ۱۵۰ سے ۱۸۰ کلوگرام کوکین ملی ہوئی تھی۔‏ خیال ہے کہ یہ آج تک مُلک میں آنے والی کوکین کی سب سے بڑی کھیپ تھی۔‏

اگرچہ منشیات کے خلاف ایسی کارروائیاں حوصلہ‌افزا نظر آتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی پیمانے پر پولیس اندازاً ۱۰ سے ۱۵ فیصد منشیات ہی پکڑ پاتی ہے۔‏ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی مالی کسی زہریلی جڑی‌بوٹی کے چند پتے تو توڑ کر پھینک دیتا ہے مگر اُسکی جڑیں زمین میں رہنے دیتا ہے۔‏

منشیات سے حاصل ہونے والا بڑا منافع انکی پیداوار اور فروخت پر پابندی لگانے والی حکومتوں کی کاوشوں میں رکاوٹ بنتا ہے۔‏ صرف ریاستہائےمتحدہ میں،‏ ہر سال منشیات کا اندازاً کئی بلین ڈالر کا غیرقانونی کاروبار ہوتا ہے۔‏ اتنی بڑی رقم کے پیشِ‌نظر یہ کوئی حیران‌کُن بات نہیں کہ پولیس،‏ حکومتی اہلکار،‏ حتیٰ‌کہ بعض اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ بھی بدعنوانی کی طرف مائل ہیں۔‏

دی گارڈین ویکلی کے ایلکس بیلوز نے برازیل سے رپورٹ پیش کی کہ ایک پارلیمانی تفتیش کے مطابق،‏ ”‏تین کانگریسی،‏ ۱۲ سٹیٹ ڈپٹی اور تین میئر برازیل میں منظم جُرم اور منشیات کے ناجائز کاروبار میں ملوث ۸۰۰ لوگوں کی فہرست میں شامل تھے۔‏“‏ اس فہرست میں،‏ ”‏۲۷ میں سے ۱۷ ریاستوں کی پولیس،‏ وکیل،‏ کاروباری لوگ اور کسان“‏ بھی شامل تھے۔‏ اِن اعدادوشمار کی بابت براسلیا یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر نے کہا:‏ ”‏یہ الزام دراصل تمام برازیلی معاشرے پر عائد ہوتا ہے۔‏“‏ یہی بات اُن تمام معاشروں کی بابت بھی کہی جا سکتی ہے جنہیں منشیات نے کافی زیادہ متاثر کِیا ہے۔‏ مسئلے کی اصل وجہ طلب‌ورسد کے کاروباری قوانین ہیں۔‏

قانونی پابندیوں کی محدود کامیابی کے پیشِ‌نظر کچھ لوگ بعض منشیات کو قانونی طور پر جائز قرار دینے کی حمایت کرتے ہیں۔‏ عام رُجحان یہ ہے کہ لوگوں کو ذاتی استعمال کیلئے منشیات کی تھوڑی مقدار اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہونی چاہئے۔‏ خیال ہے کہ ایسا کرنے سے حکومت کیلئے اس پر قابو پانا آسان ہو جائیگا اور منشیات کا کاروبار کرنے والوں کو بھی خطیر منافع حاصل نہیں ہوگا۔‏

بعض کامیاب ہو جاتے ہیں

منشیات کے عادیوں کا علاج کرنے کے لئے سب سے پہلے اُنہیں مزید منشیات کے استعمال سے روک کر تندرست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‏ افسوس کی بات ہے کہ جب نشے کا عادی اپنے اصل ماحول میں واپس جاتا ہے تو وہ دوبارہ منشیات استعمال کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتا ہے۔‏ مصنف لیوجی زوجا اس کی وجہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مریض کی توجہ بالکل نئی سمت میں لگائے بغیر اُس کی عادت کو بدلنا ناممکن ہے۔‏“‏

پچھلے مضمون میں متذکرہ ڈیرن کو ”‏نئی سمت“‏ مل گئی جس نے اُس کی زندگی بدل ڈالی۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں دہریہ تھا مگر ایک وقت آیا کہ سارا دن منشیات کے نشے میں چور رہنے کے باوجود مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کوئی خدا ضرور ہے۔‏ مَیں نے دو تین مہینے منشیات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی مگر میرے دوست مجھے ایسا کرنے سے روکتے تھے۔‏ منشیات استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مَیں نے سونے سے پہلے باقاعدہ بائبل پڑھنی شروع کر دی۔‏ اب مَیں اپنے دوستوں سے کم ملتا تھا۔‏ ایک شام مَیں نے اور میرے دوست نے بہت زیادہ نشہ کِیا ہوا تھا۔‏ مَیں نے اُس کے سامنے بائبل کا ذکر کِیا۔‏ اگلی ہی صبح اُس نے اپنے بڑے بھائی کو ٹیلیفون کِیا جو یہوواہ کا گواہ تھا۔‏ اُس نے ہمیں ایک گواہ کا پتا دیا جو ہمارے شہر میں ہی رہتا تھا لہٰذا مَیں اُس سے ملنے کیلئے گیا۔‏

‏”‏ہم رات ۱۱ بجے تک گفتگو کرتے رہے اور مَیں وہاں سے بائبل مطالعے کے لئے تقریباً ایک درجن امدادی کُتب لیکر آیا۔‏ مَیں نے اُس کے ساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا اور منشیات اور تمباکونوشی ترک کر دی۔‏ تقریباً نو مہینے بعد مَیں نے یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏“‏

منشیات کی عادت ترک کرنا آسان نہیں ہے۔‏ پچھلے مضمون میں متذکرہ مائیکل بیان کرتا ہے کہ ۱۱ سال تک منشیات استعمال کرنے کے بعد جب اُس نے اِنہیں ترک کر دیا تو اُسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا:‏ ”‏مجھے بھوک نہیں لگتی تھی جسکی وجہ سے میرا وزن بڑی تیزی سے کم ہونے لگا۔‏ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا کوئی میرے بدن میں سوئیاں چبھو رہا ہے اور بار بار پسینے آتے تھے اور مجھے چلتےپھرتے لوگ بھی صاف دکھائی نہیں دیتے تھے۔‏ میرے اندر منشیات کی طرف لوٹ جانے کی شدید خواہش اُٹھتی تھی مگر دُعا میں یہوواہ کے قریب جانے اور بائبل کا مطالعہ کرنے سے مجھے منشیات سے دُور رہنے میں مدد ملی۔‏“‏ ماضی میں منشیات استعمال کرنے والے یہ لوگ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اُن کیلئے اپنے سابقہ دوستوں سے بالکل دُور رہنا نہایت ضروری تھا۔‏

انسانی کاوشوں کی وجۂ‌ناکامی

منشیات کا ناجائز استعمال عالمگیر مسئلے کا صرف ایک حصہ ہے۔‏ بدکاری،‏ تشدد اور ظلم کے بڑھتے ہوئے اثرات نے ساری دُنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ یوحنا رسول مکاشفہ ۱۲:‏۹ میں ”‏اُس شریر“‏ کی شناخت کراتا ہے:‏ ”‏وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پُرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے زمین پر گِرا دیا گیا اور اُسکے فرشتے بھی اُسکے ساتھ گِرا دئے گئے۔‏“‏

اپنی کمزوریوں کے علاوہ انسان کو اس طاقتور دُشمن کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔‏ شیطان ہی شروع میں انسانی زوال کا باعث بنا تھا۔‏ وہ نسلِ‌انسانی کو مزید پست کرنے اور اُنہیں خدا سے دُور کرنے پر تلا ہوا ہے۔‏ ایسا لگتا ہے کہ انسانوں میں منشیات کا غلط استعمال اُسکی حکمتِ‌عملی کا ایک حصہ ہے۔‏ وہ شدید غصے میں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کا ”‏تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۲‏۔‏

خدائی حل کیا ہے؟‏

بائبل نسلِ‌انسانی کو گنہگارانہ حالت سے نجات دلانے کے لئے خالق کے پُرمحبت بندوبست کی بابت بتاتی ہے۔‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۲ بیان کرتی ہے:‏ ”‏جیسے آدؔم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔‏“‏ یسوع نے ایک کامل انسان کے طور پر بخوشی زمین پر آ کر نسلِ‌انسانی کو گناہ اور موت کے اثرات سے آزاد کرنے کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔‏

موت کے سبب اور انسان کو درپیش مسائل کے حل سے واقف ہونا بہتیرے لوگوں کو منشیات کا استعمال ترک کرنے کی تحریک اور حوصلہ دیتا ہے۔‏ لیکن بائبل انفرادی طور پر منشیات کے مسئلے سے نپٹنے کے لئے مدد فراہم کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ بتاتی ہے۔‏ یہ اُس وقت کی بابت بیان کرتی ہے جب شیطان کے اثرورسوخ کے ختم ہو جانے کے بعد منشیات کے مسئلے کے ساتھ ساتھ دُنیا کی دیگر بُرائیاں بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی۔‏

مکاشفہ کی کتاب ’‏بلور کی طرح چمکتے ہوئے آبِ‌حیات کے ایک دریا‘‏ کا ذکر کرتی ہے ’‏جو خدا اور برّہ کے تخت سے نکلکر بہتا ہے۔‏‘‏ (‏مکاشفہ ۲۲:‏۱‏)‏ یہ علامتی دریا یسوع مسیح کے وسیلے زمینی فردوس میں کامل انسانی زندگی بحال کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کے بندوبست کی تصویرکشی کرتا ہے۔‏ مکاشفہ کی کتاب دریا کے وارپار حیات کے درختوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہے:‏ ”‏اُس درخت کے پتوں سے قوموں کو شفا ہوتی تھی۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲۲:‏۲‏)‏ یہ علامتی پتے نسلِ‌انسانی کو روحانی اور جسمانی کاملیت عطا کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کی شفائی فراہمیوں کی تصویرکشی کرتے ہیں۔‏

بالآخر انسان نہ صرف منشیات سے بلکہ اس بدکار نظام میں درپیش دیگر بُرائیوں اور مسائل سے بھی آزاد ہو جائینگے!‏

‏[‏صفحہ ۹ پر بکس/‏تصویر]‏

چرس کتنی بےضرر ہے؟‏

کئی ممالک طبّی وجوہات کی بِنا پر چرس کو قانونی طور پر جائز قرار دینے کی بابت سوچ رہے ہیں۔‏ پتہ چلا ہے کہ یہ کیمیائی ادویات سے علاج کے باعث ہونے والی متلی کو روکنے کے علاوہ ایڈز سے متاثرہ اشخاص میں بھوک کی کمی پر قابو پانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔‏ اسے مانع‌درد کے طور پر بھی استعمال کِیا گیا ہے۔‏

اگرچہ تحقیق کے نتائج کی بابت اختلافِ‌رائے پائی جاتی ہے توبھی نیو سائنٹسٹ میگزین میں جن ٹیسٹوں کا ذکر کِیا گیا اُن سے اس کے چند مُضر اثرات سامنے آئے ہیں۔‏

ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک ٹیسٹ نے روزانہ چرس پینے والے ایک گروپ کا موازنہ ایک ایسے گروپ سے کِیا جو اسے قدرے کم استعمال کرتا تھا۔‏ معیاری دماغی ٹیسٹ میں بہت کم فرق نظر آیا۔‏ تاہم،‏ مطابقت‌پذیری سے متعلق ایک ٹیسٹ میں زیادہ چرس استعمال کرنے والوں کی کارکردگی تسلی‌بخش نہیں تھی۔‏

ایک دوسری یونیورسٹی نے ۱۵ سال سے باقاعدہ چرس پینے والے گروپ اور سگریٹ‌نوشی کرنے والے گروپ کا ٹیسٹ کِیا۔‏ چرس پینے والے عموماً دن میں تین یا چار مرتبہ اِسے پیتے تھے جبکہ سگریٹ‌نوش دن میں ۲۰ یا اس سے بھی زیادہ سگریٹ پیتے تھے۔‏ تاہم،‏ دونوں گروپوں کی یکساں تعداد کھانسی اور سانس کی بیماری میں مبتلا پائی گئی۔‏ پھیپھڑوں کی جانچ نے بھی ظاہر کِیا کہ دونوں گروپوں میں خلیوں کو ایک ہی جیسا نقصان پہنچا ہے۔‏

اگرچہ چرس پینے والے بہت کم مرتبہ اِسے پیتے تھے توبھی یہ دریافت ہوا کہ چرس سے بھری ایک سگریٹ تین دوسری سگریٹوں جتنا تارکول خارج کرتی ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ نیو سائنٹسٹ نے بیان کِیا:‏ ”‏چرس پینے والے زیادہ گہرا کش لیتے اور زیادہ دیر تک سانس روکے رکھتے ہیں۔‏“‏

مزیدبرآں،‏ سگریٹ‌نوشی کرنے والوں کے خلیوں کی نسبت چرس پینے والوں کے پھیپھڑوں کے مدافعتی خلیوں میں جراثیم کا مقابلہ کرنے کیلئے ۳۵ فیصد کم طاقت ہوتی ہے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

U.S. Navy photo

‏[‏صفحہ ۱۱ پر بکس]‏

والدین پر ”‏تکلیف‌دہ الزام“‏

جنوبی افریقہ کے اخبار سیٹرڈے سٹار کے اداریے نے جنوبی افریقہ میں نوجوانوں کے اندر منشیات استعمال کرنے کے رُجحان میں حیران‌کُن اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا:‏

”‏بچوں کا منشیات استعمال کرنا نہ صرف والدین بلکہ سارے معاشرے پر تکلیف‌دہ الزام عائد کرتا ہے۔‏ مادی حاصلات کی تگ‌ودَو میں ہم مسلسل سخت محنت کرتے ہیں۔‏ ہمارے بچوں کے مطالبات حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔‏ لیکن کیا ہم اُنہیں اپنا بہترین وقت دیتے ہیں؟‏ اُنہیں اپنے سر سے اُتارنے کیلئے پیسے دے دینا بہت آسان ہے یعنی اُنکی اُمنگوں،‏ اندیشوں اور اختلافات کو سننے کی نسبت اُنہیں پیسے دے کر پیچھا چھڑانا آسان لگتا ہے۔‏ مگر آج رات ریسٹورانٹ میں کسی میز پر یا گھر میں ٹی‌وی کے سامنے بیٹھے ہوئے کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے بچے کیا کر رہے ہیں؟‏“‏

یا یوں کہہ لیجئے کہ کیا ہم جانتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

بہتیرے لوگوں نے منشیات ترک کرنے کی تحریک پائی ہے