مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا ماتم کرنا غلط ہے؟‏

کیا ماتم کرنا غلط ہے؟‏

بائبل کا نقطۂ‌نظر

کیا ماتم کرنا غلط ہے؟‏

‏”‏اَے بھائیو!‏ ہم نہیں چاہتے کہ جو سوتے ہیں اُن کی بابت تُم ناواقف رہو تاکہ اَوروں کی مانند جو نااُمید ہیں غم نہ کرو۔‏“‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱۳‏۔‏

بائبل مُردوں کی بابت اُمید پیش کرتی ہے۔‏ یسوع کی تعلیمات اور اُسکا مختلف لوگوں کو قیامت بخشنا ایسے وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب مُردے دوبارہ زندہ کئے جائینگے۔‏ (‏متی ۲۲:‏۲۳-‏۳۳؛‏ مرقس ۵:‏۳۵،‏ ۳۶،‏ ۴۱،‏ ۴۲؛‏ لوقا ۷:‏۱۲-‏۱۶‏)‏ اس اُمید کا ہم پر کیا اثر ہونا چاہئے؟‏ پولس رسول کے مذکورہ‌بالا الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اُمید عزیزوں کی موت کے وقت تسلی کا باعث بن سکتی ہے۔‏

اگر آپ کا کوئی عزیز وفات پا گیا ہے تو آپ کو یقیناً دُکھ ہوا ہوگا۔‏ ٹریسا کا ۴۲ سالہ شوہر دل کی جراحی کے کچھ ہی عرصہ بعد فوت ہو گیا تھا۔‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏یہ بہت بڑا صدمہ تھا!‏ پہلے تو مجھ پر خوف طاری ہو گیا۔‏ اس کے بعد شدید درد پیدا ہوا جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہی گیا۔‏ مَیں بہت روتی تھی۔‏“‏ کیا ایسا ردِعمل مُردوں کی قیامت کی بابت یہوواہ کے وعدے پر ایمان کی کمی ظاہر کرتا ہے؟‏ کیا پولس کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ماتم کرنا غلط ہے؟‏

بائبل میں ماتم کی مثالیں

ہم بائبل میں ماتم کی مثالوں کا جائزہ لینے سے متذکرہ سوالوں کا جواب حاصل کر سکتے ہیں۔‏ کئی واقعات میں،‏ کسی فرد کی موت کے بعد خاندان کچھ عرصہ ماتم کرتا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲۷:‏۴۱؛‏ ۵۰:‏۷-‏۱۰؛‏ زبور ۳۵:‏۱۴‏)‏ ماتم کے دوران اکثر شدید غم اور دُکھ کا اظہار کِیا جاتا تھا۔‏

غور کریں کہ بعض ایماندار انسانوں نے اپنے عزیزوں کی موت پر ماتم کا اظہار کیسے کِیا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ابرہام خدا پر مضبوط ایمان رکھتا تھا کہ وہ مُردوں میں سے جلانے پر بھی قادر ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۹‏)‏ اس اعتماد کے باوجود اپنی بیوی،‏ سارہ کی موت پر وہ ”‏ماتم اور نوحہ کرنے کو .‏ .‏ .‏ گیا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲۳:‏۱،‏ ۲‏)‏ جب یعقوب کے بیٹوں نے اُس سے جھوٹ بولا کہ اُسکا عزیز بیٹا یوسف مر گیا ہے تو یعقوب نے ”‏اپنا پیراہن چاک کِیا اور .‏ .‏ .‏ اپنے بیٹے کے لئے ماتم کرتا رہا۔‏“‏ (‏پیدایش ۳۷:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ کئی سال بعد بھی یعقوب اپنے بیٹے کی موت کی یاد سے غمگین ہو گیا تھا!‏ (‏پیدایش ۴۲:‏۳۶-‏۳۸‏)‏ بادشاہ داؤد نے بھی اپنے دو بیٹوں،‏ ابی‌سلوم اور امنون کی موت پر سرِعام ماتم کِیا تھا۔‏ اگرچہ یہ دونوں داؤد اور اُس کے خاندان کے لئے بڑی پریشانی کا باعث بنے رہے توبھی،‏ وہ اُس کے بیٹے تھے اور اُن کی موت سے اُسے بہت دُکھ پہنچا تھا۔‏—‏۲-‏سموئیل ۱۳:‏۲۸-‏۳۹؛‏ ۱۸:‏۳۳‏۔‏

بعض‌اوقات،‏ پوری اسرائیلی قوم نے ماتم کِیا تھا جیسا کہ موسیٰ کی موت سے ظاہر ہوتا ہے۔‏ استثنا ۳۴:‏۸ ہمیں بتاتی ہے کہ اسرائیلی اُس کے لئے ۳۰ دن تک روتے رہے۔‏

آخر میں،‏ یسوع مسیح کی مثال بھی موجود ہے۔‏ اُس کا قریبی دوست،‏ لعزر مر گیا۔‏ جب یسوع نے لعزر کی بہنوں،‏ مرتھا اور مریم اور اُن کے عزیزواقارب کو روتے دیکھا تو ”‏دل میں نہایت رنجیدہ ہؤا اور [‏گھبرایا]‏۔‏“‏ وہ یہ جانتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں وہ اپنے دوست کو دوبارہ زندہ کر دے گا لیکن پھربھی اُس کے ”‏آنسو بہنے لگے۔‏“‏ یسوع اپنے عزیزوں،‏ مرتھا اور مریم سے محبت رکھتا تھا۔‏ پس انہیں اپنے بھائی کی موت پر ماتم کرتا دیکھ کر وہ بہت غمگین ہوا۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۳۳-‏۳۶‏۔‏

ابرہام،‏ یعقوب،‏ داؤد اور یسوع نے یہوواہ اور اُسکے وعدوں پر مضبوط ایمان رکھنے کے باوجود غم کا اظہار کِیا تھا۔‏ کیا انکا ماتم روحانی کمزوری کی علامت اور قیامت پر ایمان کی کمی کو ظاہر کرتا تھا؟‏ ہرگز نہیں!‏ عزیزوں کی موت پر ماتم کرنا ایک فطری عمل ہے۔‏

ماتم کی وجہ

نسلِ‌انسانی کی موت خدا کے مقصد کا حصہ نہیں تھی۔‏ یہوواہ نے آدم اور حوا پر ظاہر کِیا کہ وہ زمین کو ایک خوبصورت فردوس بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں ایک پُرمحبت خوشحال خاندان آباد ہوگا۔‏ لیکن اگر اِس پہلے انسانی جوڑے نے یہوواہ کی نافرمانی کی تو اُنہیں موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۸؛‏ ۲:‏۱۷‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے نافرمانی کی جسکی وجہ سے ”‏موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔‏“‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲؛‏ ۶:‏۲۳‏)‏ لہٰذا،‏ موت ایک ایسا ظالم دشمن ہے جس کی خدا کے ابتدائی مقصد میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏۔‏

کسی شخص کی غیرمتوقع موت پر اسکے قریبی ساتھیوں کا غمگین اور دُکھی ہونا قابلِ‌فہم بات ہے۔‏ اس سے اُنکی زندگیوں میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔‏ مسبوق‌اُلذکر بیوہ،‏ ٹریسا نے اپنے شوہر کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏مجھے پورا یقین ہے کہ مَیں قیامت میں اُسے دوبارہ دیکھونگی لیکن مجھے اب اُسکی بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے۔‏ یہی میرے دُکھ کی وجہ ہے۔‏“‏ والدین کی موت ہمیں احساس دِلا سکتی ہے کہ ہم فانی ہیں۔‏ کسی نوجوان کی موت ہمیں اسلئے غمزدہ کر دیتی ہے کہ وہ زندگی سے بھرپور فائدہ ہی نہیں اُٹھا پایا۔‏—‏یسعیاہ ۳۸:‏۱۰‏۔‏

جی‌ہاں،‏ موت غیرفطری ہے۔‏ لہٰذا،‏ رنج‌وغم کی توقع کرنا معقول ہے اور یہوواہ ماتم کو قیامت پر ایمان کی کمی خیال نہیں کرتا۔‏ ابرہام،‏ یعقوب،‏ داؤد،‏ اسرائیلی قوم اور یسوع کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دلی صدمے کا اظہار کرنا روحانی کمزوری کی علامت نہیں ہے۔‏ *

مسیحیوں کے طور پر ہم واقعی موت کی وجہ سے غمگین ہو جاتے ہیں لیکن ہم ”‏اَوروں کی مانند جو نااُمید ہیں“‏ غم نہیں کرتے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱۳‏)‏ ہم اظہارِغم میں انتہاپسندی اختیار نہیں کرتے کیونکہ ہم مُردوں کی حالت کی بابت ابتری کا شکار نہیں ہیں۔‏ ہم جانتے ہیں کہ وہ تکلیف یا اذیت میں نہیں بلکہ گہری،‏ پُرسکون نیند جیسی حالت میں ہیں۔‏ (‏واعظ ۹:‏۵؛‏ مرقس ۵:‏۳۹؛‏ یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ ہم اس بات پر بھی پورا اعتماد رکھتے ہیں کہ یسوع جو ”‏قیامت اور زندگی“‏ ہے،‏ اپنے وعدے کے مطابق ان سب کو زندہ کریگا جو ”‏قبروں میں ہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ ۱۱:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

لہٰذا،‏ اگر آپ اس وقت غمزدہ ہیں تو اس علم سے تسلی حاصل کریں کہ یہوواہ آپ کے درد کو سمجھتا ہے۔‏ دُعا ہے کہ یہ علم اور قیامت پر آپ کی اُمید اپنے غم اور اپنے عزیز کی کمی کو برداشت کرنے میں آپ کی مدد کرے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 غم کا مقابلہ کرنے میں مدد کیلئے یہوواہ کے گواہوں کے شائع‌کردہ بروشر وین سم‌وَن یو لَو ڈائیز کے صفحہ ۱۴-‏۱۹ کو پڑھیں۔‏