ہمارے قارئین کی رائے
ہمارے قارئین کی رائے
نرسیں مَیں تقریباً تین سال سے نرس ہوں۔ بیماری اور تکلیف سے براہِراست نپٹنا واقعی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سلسلہوار مضامین ”نرسیں—ان کے بغیر ہمارا کیا ہوتا؟“ (نومبر ۸، ۲۰۰۰) میں اس بات کو پڑھنا میرے لئے واقعی حوصلہافزا تھا کہ دوسرے بھی ہمارے کام کی قدر کرتے ہیں! تاہم، اس سے بھی زیادہ حوصلہافزا بات یہ ہے کہ بائبل کے وعدے کے مطابق بہت جلد نرسوں کی ضرورت نہیں رہیگی۔—یسعیاہ ۳۳:۲۴۔
جے. ایس. بی.، برازیل
مَیں اور میرا شوہر نرسنگ ہوم چلاتے ہیں اور یہ سلسلہوار مضامین ہمارے لئے بہت تقویتبخش ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے اپنے پیشے اور مریضوں کیلئے اپنے رُجحان میں بہتری پیدا کرنے کیلئے ہماری مدد ہوئی ہے۔ آفرین!
ایس. ایس.، جرمنی
مَیں ہمیشہ یہ سوچتی تھی کہ نرسوں کا کام ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ان مضامین نے میری یہ سمجھنے میں مدد کی ہے کہ نرسیں کافی حد تک نفسیاتی تکلیف کم کرنے کے علاوہ ایسی ہمدردی اور مدد بھی پیش کرتی ہیں جو مصروف ڈاکٹر اکثر نہیں دے سکتے۔ مَیں نے اس رسالے کی کاپیاں اپنے سابقہ ہمجماعتوں کو بھیجی ہیں جو اب نرسنگ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
ایف. جی.، اٹلی
ان مضامین کیلئے آپ کا شکریہ جن میں دوسروں کے احساسات کیلئے فکرمندی کا اظہار کِیا گیا ہے۔ نرسنگ نے پختگی حاصل کرنے میں مختلف طریقوں سے میری مدد کی ہے۔ یہ اُن عناصر میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے مَیں نے زندگی کے مقصد کی بابت غوروخوض اور بائبل کا مطالعہ شروع کِیا۔ اویک! کا یہ شمارہ قدردانی کا سب سے بڑا اظہار ہے جو مجھے حاصل ہوا ہے۔ مَیں اس سے طویل عرصہ تک حوصلہافزائی حاصل کرونگی!
جے. ڈی.، چیک ریپبلک
ان مضامین کیلئے شکریہ۔ مَیں کئی سالوں سے ایک رجسٹرڈ نرس ہوں۔ مجھے اپنے مریضوں سے اسقدر ہمدردی ہے کہ انکی آنکھوں میں دوائی کے قطرے ڈالتے وقت میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دُنیابھر کی نرسیں اس اویک! کیلئے مثبت جوابیعمل دکھائینگی۔
ایل. اے. آر.، ریاستہائےمتحدہ
بچوں کے دانت مَیں ایک ڈینٹسٹ کلینک میں کام کرتی ہوں اور ماؤں کو بچوں کے دانتوں کی دیکھبھال کرنا سکھاتی ہوں۔ مضمون ”دودھ کے دانتوں کی حفاظت“ (نومبر ۲۲، ۲۰۰۰) بڑا معاون ثابت ہوا ہے کیونکہ یہ جراثیم اور تخمیر کے نقصان کی وضاحت کرتا ہے۔ میرے پاس مشورے کیلئے آنے والی تمام ماؤں کو اب اس رسالے کی ایک کاپی ملتی ہے جسکے نتائج شاندار رہے ہیں!
ٹی. سی. ایس.، برازیل
ٹانگوں کا درد مَیں نے ابھیابھی آپکا مضمون ”کیا آپ کی ٹانگوں میں درد رہتا ہے؟“ (نومبر ۲۲، ۲۰۰۰) پڑھا ہے۔ مَیں ۱۸ سال سے اس تکلیف کو برداشت کر رہی ہوں اور مَیں سمجھتی تھی کہ صرف مَیں ہی اس کا شکار ہوں۔ مَیں اکثر مایوسی اور نیند نہ آنے کی وجہ سے رو پڑتی تھی اور مَیں نے طرح طرح کے نسخے بھی آزمائے۔ بیشک، اس کا واحد اور مکمل علاج یہوواہ کی بادشاہت میں ہی ہوگا۔
ایس. ٹی.، سکاٹلینڈ
جب مَیں نے یہ مضمون پڑھا تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ اس میں اُن تمام علامات کی وضاحت کی گئی تھی جن سے مَیں دوچار ہوں۔ اگرچہ ڈاکٹروں نے تو مجھے یہ نہیں بتایا کہ مجھے ٹانگوں میں درد کا مرض ہے توبھی یہ جاننا میرے لئے اطمینانبخش تھا کہ دوسرے بھی اس تکلیف کو برداشت کر رہے ہیں۔ اب مَیں پہلے کی نسبت زیادہ اپنی حالت سے نپٹنا سیکھ رہی ہوں۔ مَیں اب ناخوشگوار احساسات سے نپٹنے کا طریقہ جانتی ہوں لہٰذا مَیں جذباتی طور پر زیادہ بہتر محسوس کرتی ہوں۔
اے. کے.، جاپان
میری عمر ۴۳ سال ہے لیکن مَیں ابھی تک ٹانگوں اور بازوؤں میں اعصابی درد کے باعث رات کو اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ اس مضمون کو پڑھنے سے پہلے مَیں سمجھتی تھی کہ صرف مَیں ہی اس حالت میں مبتلا ہوں۔ مجھے بالکل بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ دوسرے بھی میری طرح اس تکلیف سے دوچار ہیں۔ ایسے مضامین شائع کرکے دوسروں کو ایسی غیرمعمولی حالتوں سے آگاہ کرنے کے لئے آپ کا بہت شکریہ۔
ڈی. ایل.، کینیڈا