مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تصلبِ‌جِلد کے ساتھ نپٹنا

تصلبِ‌جِلد کے ساتھ نپٹنا

تصلبِ‌جِلد کے ساتھ نپٹنا

از مارک ہالینڈ

پانچ سال پہلے ہمارا خاندان مسیحی خدمتگزاری میں بہت زیادہ مصروف تھا۔‏ ہماری زندگی نہایت خوشگوار گزر رہی تھی۔‏

تاہم،‏ اپریل ۱۹۹۶ میں مجھے اور میری بیوی لیزا کو فلو ہو گیا۔‏ آہستہ آہستہ لیزا تو ٹھیک ہونا شروع ہو گئی مگر میرا مرض بڑھتا گیا۔‏ میرا فلو نمونیا میں بدل گیا جو تقریباً دس ہفتے چلتا رہا۔‏ اس کے بعد میرے ہاتھ اور پاؤں سوج گئے اور ان میں درد ہونے لگا۔‏ جب مَیں چلتا تو یوں محسوس ہوتا گویا مَیں پتھروں پر چل رہ ہوں۔‏ محض چند ماہ قبل—‏۴۵ سال کی عمر اور ۱۶۵ پاؤنڈ وزن کے ساتھ—‏مَیں بالکل تندرست تھا۔‏ سالانہ طبّی معائنے کے دوران میرے تمام ٹیسٹ نارمل تھے۔‏ مگر اب میرے ڈاکٹر میری علامات کی وجہ سے انتہائی پریشان تھے۔‏ میرے عضلات اور جوڑوں میں درد بڑھتا جا رہا تھا اور جولائی تک میری جِلد سخت ہونا شروع ہو گئی۔‏ مجھے بہت سردی لگتی تھی اور ائیرکنڈیشن تو مَیں بالکل برداشت نہیں کر سکتا تھا۔‏

فوراً ہم نے اس عجیب‌وغریب بیماری پر تحقیق شروع کر دی۔‏ جولائی ۱۹۹۶ میں ہمارے فیملی ڈاکٹر نے مجھے ایک ریوماٹولوجی کے ماہر کے پاس بھیجا۔‏ اُسکا دفتر بہت ٹھنڈا تھا اور ڈاکٹر کے اندر آنے تک میرے ہاتھ پاؤں اتنے نیلے ہو گئے تھے کہ گویا مَیں نے نیلے دستانے اور جرابیں پہنی ہوئی ہیں۔‏ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے اپنی مایوس‌کُن تشخیص پیش کر دی۔‏ مجھے تصلب‌جِلد (‏سیکلروڈرما)‏ کا مرض ہو گیا تھا۔‏—‏دیکھیں بکس ”‏تصلب‌جِلد—‏جب جسم خود اپنا دُشمن بن جاتا ہے۔‏“‏

ڈاکٹر نے بتایا کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے اور اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‏ آکلہ اور جوڑوں کے درد کی طرح تصلب‌جِلد بھی انتہائی تکلیف‌دہ مرض ہے۔‏ درد اور شدید نقاہت جیسی علامات کے نظر نہ آنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ دوسرے لوگ متاثرہ شخص کی مشکل کو نہ سمجھ سکیں۔‏

نئے چیلنج

ہمارے خاندان نے ہمیشہ ایک ٹیم کے طور پر یہوواہ کی خدمت کی تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم ایسی جگہ منتقل ہو گئے تھے جہاں بائبل سکھانے والوں کی زیادہ ضرورت تھی۔‏ ہمیں ریاستہائےمتحدہ اور اس سے باہر بھی بیشمار کنگڈم‌ہالز کی تعمیر کے سلسلے میں رضاکاروں کے طور پر خدمت انجام دینے کا شرف حاصل ہوا تھا۔‏ ہم نے دوسرے ملکوں میں ہنگامی صورتحال کے تحت امدادی اشیا پہنچانے کا کام بھی کِیا تھا۔‏ درحقیقت،‏ فلو سے ذرا پہلے،‏ ہم میکسیکو میں انگریزی بولنے والے یہوواہ کے گواہوں کے گروپوں کی مدد کرنے کے علاوہ تعمیراتی کام میں معاونت کیلئے وہاں منتقل ہونے والے تھے۔‏ اب ایسا لگ رہا تھا کہ ہماری سرگرم خدمتی زندگی یکسر بدل جائیگی۔‏

اہم فیصلوں اور ذمہ‌داریوں کا بوجھ لیزا کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔‏ بعض‌اوقات تیزی سے بدلتے حالات کو دیکھ کر وہ صرف اتنا کہتی،‏ ”‏اَے یہوواہ دانشمندانہ فیصلے کرنے میں ہماری مدد فرما۔‏“‏

ابھی تک اس بیماری کے اسباب اور علاج دونوں ہی دریافت نہیں ہوئے ہیں۔‏ بس اس کی علامات کی شدت میں کمی کی کوشش کی جاتی ہے۔‏ میرے جتنے بھی ٹیسٹ کئے گئے اُن سے پتہ چلا کہ میرے پھیپھڑے صرف ۶۰ فیصد کام کر رہے ہیں اور بعدازاں یہ صرف ۴۰ فیصد کام کرنے کے قابل ہونگے۔‏ میرے پھیپھڑے سخت ہو رہے تھے اور اسکا واحد علاج کیموتھراپی تھا تاکہ میرے مدافعتی‌نظام کو سُست یا بند کِیا جا سکے۔‏ اس سے مَیں زیادہ بیمار ہو سکتا تھا اور اگرچہ قلیل وقت کیلئے تو اسکا فائدہ یقینی تھا مگر کسی دائمی اثر کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی تھی۔‏ پہلے ہی کافی بیمار ہونے کی وجہ سے ہم نے اس طریقۂ‌علاج کو مسترد کر دیا۔‏ چار مرتبہ میرے خاندان نے میرے کفن‌دفن کا انتظام کِیا۔‏

تصلبِ‌جِلد کے تدریجی اثرات

بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے میرے جیسا مریض پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‏ یہ بیماری اتنی شدت اختیار کر گئی کہ ستمبر ۱۹۹۶ میں میری جِلد سر سے لیکر پاؤں تک سخت ہو چکی تھی۔‏ جب مَیں اپنی ٹھوڑی اُوپر کرتا تو مجھے اپنی رانوں کی کھال کھینچتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔‏ میرا وزن کم اور درد ناقابلِ‌برداشت ہوتا جا رہا تھا۔‏ ایسے میں ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ شاید مَیں مزید ایک سال زندہ رہ پاؤنگا۔‏

وقت آہستہ‌آہستہ گزر رہا تھا۔‏ فلو کے چھ مہینے بعد مَیں بالکل معذور ہو گیا تھا اور ۲۴ گھنٹے بستر پر لیٹا رہتا تھا۔‏ میرا اندازاً ایک تہائی وزن کم ہو گیا تھا۔‏ مَیں خود سے نہ تو کپڑے بدل سکتا تھا اور نہ ہی اچھی طرح کھا پی سکتا تھا کیونکہ مجھ سے بستر اور کپڑوں پر کھانا گِر جاتا تھا جس سے مجھے بڑی مایوسی ہوتی تھی۔‏ میرے ہاتھ اندر کو مڑنا شروع ہو گئے تھے گویا ایسا لگتا تھا جیسے مَیں نے ہاتھ میں کوئی چھوٹی گیند پکڑی ہوئی ہے اور مَیں اپنی کلائیاں موڑنے سے بھی قاصر تھا۔‏ حلق سے کچھ نِگلنا بھی دشوار ہوتا جا رہا تھا کیونکہ میری غذا کی نالی بھی سخت ہو رہی تھی۔‏ مجھے باتھ‌ٹب میں بیٹھنےاُٹھنے نیز بیت‌اُلخلا استعمال کرنے کیلئے بھی مدد درکار تھی۔‏ درد روزبروز شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔‏ مَیں زیادہ سے زیادہ سونے لگا بعض‌اوقات تو مَیں ۱۸ سے ۲۰ گھنٹے تک سویا رہتا تھا۔‏

تصلب‌جِلد پر ذاتی تحقیق کرنے کے بعد لیزا نے یہ دریافت کر لیا کہ اس بیماری کے علاج کیلئے اینٹی‌بائیوٹک استعمال کی جا سکتی ہیں۔‏ * ہم نے بہت سے ایسے مریضوں سے رابطہ کِیا جو یہ علاج آزما چکے تھے اور اُنکے تبصرے کافی مثبت تھے۔‏ ہم نے یہ تمام معلومات اکٹھی کیں اور اپنے ڈاکٹر کے پاس لے گئے کہ وہ اس پر غور کرے۔‏ یہ سوچتے ہوئے کہ اب اَور کچھ تو ہو نہیں سکتا ڈاکٹر نے یہ اینٹی‌بائیوٹکس تجویز کر دیں۔‏ کچھ عرصہ کے لئے اُنہوں نے مجھے کافی آرام دیا۔‏

روحانی سرگرمیوں میں کوتاہی نہیں برتی

مَیں مسیحی اجلاسوں پر جانے کی کوشش کرتا رہا۔‏ اس سلسلے میں معاونت کیلئے ہم نے ایک وین خریدی کیونکہ اپنے اکڑے ہوئے جسم کی وجہ سے مَیں کار میں نہیں بیٹھ سکتا تھا۔‏ مَیں اکثر اپنے ساتھ ایک برتن رکھتا تھا کیونکہ مجھے سفر میں متلی ہوتی تھی۔‏ خود کو گرم رکھنے کے لئے مَیں اپنے ساتھ کمبل اور ہیٹنگ پیڈ بھی ساتھ رکھتا تھا۔‏ تقاریر پیش کرنے کیلئے عموماً مجھے پلیٹ‌فارم پر لیجایا جاتا اور ایک کرسی پر بیٹھا دیا جاتا تھا کیونکہ میرے جوڑ حرکت نہیں کرتے تھے۔‏

مَیں گھرباگھر کی مُنادی میں شرکت نہیں کر سکتا تھا جو مجھے بیحد پسند تھا اور میری زندگی کا اہم حصہ تھا۔‏ تاہم،‏ مَیں اپنے ڈاکٹروں اور نرسوں کو غیررسمی گواہی دینے کے قابل تھا۔‏ مَیں اپنے سابقہ بائبل طالبعلموں کے ساتھ بھی ٹیلیفون پر بات کرتا تھا۔‏ ہماری سرگرم تھیوکریٹک زندگی میں ٹھہراؤ انتہائی حوصلہ‌شکن اور مایوس‌کُن تھا۔‏ اس دوران ہم اپنے بیٹے رئین کو بھی گھرباگھر کی خدمت میں نہیں لیجا سکتے تھے کیونکہ میری بیوی کو ۲۴ گھنٹے میرے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔‏ مگر ہماری کلیسیا کے چند پائنیروں،‏ کُل‌وقتی مبشروں نے اس سلسلے میں مدد پیش کی۔‏

تاہم جوں‌جوں میری بیماری میں افاقہ ہونے لگا ہم نے اپنی مسیحی خدمتگزاری پر توجہ دینی شروع کر دی۔‏ ہم اپنا گھر بیچ کر اپنی بیٹی ٹریسی اور داماد سیت کے قریب چلے گئے تاکہ وہ ہماری عملی اور جذباتی مدد کر سکیں۔‏

معذور مگر سرگرم

مَیں بستر یا ویل‌چیئر تک محدود ہو جانے کی وجہ سے ملازمت نہیں کر سکتا تھا۔‏ تاہم،‏ ہماری نئی کلیسیا کے بھائیوں نے مجھے چند ذمہ‌داریاں سونپ دیں۔‏ مَیں نے اتوار کے روز کنگڈم ہال میں تقاریر پیش کرنے کا شیڈول تیار کرنے کی تفویض بخوشی قبول کر لی۔‏ آہستہ آہستہ مَیں مقامی کلیسیا کیلئے اَور زیادہ کام کرنے کے قابل ہو گیا۔‏ اگرچہ اب مَیں کافی بہتر ہو گیا ہوں اور پہلے کی طرح محدود نہیں رہا تاہم ابھی بھی میرے لئے کھڑا ہونا مشکل ہے۔‏ لہٰذا،‏ مَیں بیٹھ کر اپنی تقاریر پیش کرتا ہوں۔‏

تعمیراتی کام میں ہمارے تجربے کی بدولت ہمیں کنگڈم ہال پروجیکٹس پر کام کرنے کیلئے کہا گیا۔‏ لہٰذا مَیں اور لیزا ضروری سامان کی خریداری میں مدد کرتے ہیں۔‏ مَیں یہ کام اپنے بستر پر ہی کرتا ہوں۔‏ اضافی خدمت کے ایسے مواقع مجھے اور لیزا کو ہر روز چند گھنٹے خوب مصروف رکھتے ہیں۔‏

میری دیکھ‌بھال کرنے میں ہمارے بیٹے رئین نے بڑا اہم کردار ادا کِیا ہے حالانکہ جب یہ مشکل ہمارے سر آن پڑی تو وہ صرف ۱۳ سال کا تھا۔‏ مگر اب اُسے روحانی شخص کے طور پر ترقی کرتے دیکھنا باعثِ‌مسرت ہے۔‏ ہمارے یہاں چلے آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد اُس نے پائنیر خدمت شروع کر دی۔‏

دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنا

ہم نے شدید یا دائمی امراض میں مبتلا لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کرنا بخوبی سیکھ لیا ہے۔‏ تصلب‌جِلد کی درد اور نقاہت کی علامات نظر تو نہیں آتیں مگر یہ جسمانی اور جذباتی طور پر بہت متاثر کرتی ہیں۔‏ بعض‌اوقات،‏ مَیں بہت افسردہ ہو جاتا ہوں۔‏ زیادہ وقت لیٹے رہنے سے بننے والے زخم،‏ جسم کی بدنمائی اور ہاتھوں کی معذوری میرے لئے نہایت تکلیف‌دہ ثابت ہوئی ہے۔‏

تاہم،‏ دوستوں کی طرف سے کارڈز اور ٹیلیفون کالز نے مجھے سہارا دیا ہے۔‏ ہم بالخصوص اُن دوستوں کے مشکور ہیں جنہوں نے یہ تسلی دی کہ وہ ہمیں اپنی دُعاؤں میں یاد رکھتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ ہم نے بھی اس مرض میں مبتلا دوسرے لوگوں کی تیمارداری اور حوصلہ‌افزائی کی ہے۔‏ اس دوران ہم نے کچھ اچھے نئے دوست بھی بنا لئے ہیں۔‏

ہماری زندگی سہل نہیں ہے۔‏ سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک کئی کئی دن بہت ہی ناخوشگوار ہوتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ آئندہ کیا ہوگا۔‏ اگرچہ ہم وہ سب تو کرنے کے قابل نہیں جس کی ہم نے منصوبہ‌سازی کی تھی مگر پھربھی ہم خوش رہ سکتے ہیں۔‏ بنیادی طور پر ہم یہوواہ کے ساتھ اچھے رشتے سے خوشی حاصل کرتے ہیں۔‏ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اپنے حالات سے قطع‌نظر مسیحی کارگزاریوں میں مصروف رہنے سے ہم کسی حد تک اپنی خوشی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ ہم اس حقیقت کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہوواہ مواقع فراہم کرتے ہوئے ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ عطا کرتا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ ہم خدا کے اس وعدے سے بھی تقویت حاصل کرتے ہیں کہ بہت جلد وہ وقت آئے گا جب ”‏کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 14 اِن میں مائنوسائیک‌لن (‏مائنوسن)‏ اور ٹیٹراسائیک‌لن شامل تھیں۔‏ جاگو!‏ کوئی علاج تجویز نہیں کرتا۔‏ صحت سے متعلق مسائل اور طریقۂ‌علاج کی بابت فیصلے کرنا قطعی طور پر ذاتی معاملہ ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر بکس/‏تصویر]‏

تصلبِ‌جِلد جب جسم خود اپنا دُشمن بن جاتا ہے

”‏تصلب‌جِلد“‏ سے مُراد جِلد کا سخت ہو جانا ہے۔‏ لیکن اس میں جِلد کے علاوہ تمام نسیج‌واصل بھی متاثر ہوتے ہیں۔‏ یہ جسم کے مدافعتی نظام کے اضمحلال سے پیدا ہونے والی ایسی بیماری ہے جو بنیادی طور پر خواتین کو متاثر کرتی ہے اور اسکی پہچان جِلد کے مختلف حصوں کا غیرمعمولی طور پر موٹا ہو جانا ہے۔‏ چونکہ ہر مریض میں اس کی علامات مختلف ہوتی ہیں لہٰذا بعض‌اوقات کئی سال تک اسکی صحیح تشخیص نہیں ہو پاتی۔‏

تصلب‌جِلد کے اسباب ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔‏ سائنسدان اس بات سے متفق ہیں کہ تصلب‌جِلد کے مریضوں کے جسم میں کولاجن زیادہ مقدار میں بنتا ہے جو اس کے صحتمند نسیج کو متاثر کرتا ہے۔‏ لہٰذا عام رائے کے مطابق تصلب‌جِلد ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم خود اپنا دُشمن بن جاتا ہے۔‏

تصلب‌جِلد کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے دو بہت ہی عام ہیں جبکہ دیگر اتنی عام نہیں ہیں۔‏ سب سے سنگین قسم ڈفیوز یا سس‌ٹمک کہلاتی ہے جس میں جِلد موٹی ہو جاتی ہے اور یہ ہاتھوں اور مُنہ سے شروع ہو کر بازوؤں اور کمر تک پھیل جاتی ہے۔‏ ڈفیوز تصلب‌جِلد سے متاثرہ لوگوں میں بیماری کے شروع ہی میں اندرونی اعضا کے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔‏ دوسری بڑی قسم کو اکثر محدود تصلب‌جِلد کہا جاتا ہے۔‏

ڈفیوز تصلب‌جِلد کے مریضوں میں،‏ کافی زیادہ جِلد سخت ہو جاتی ہے اور جسم کے دونوں اطراف میں ایسا واقع ہوتا ہے۔‏ ڈفیوز تصلب‌جِلد میں عضلات کی سوزش اور انگلیوں،‏ ہاتھوں اور پاؤں کی سوجن بھی شامل ہے۔‏ پیٹ کی تکالیف بہت عام ہیں مگر پھیپھڑوں،‏ دل اور گردوں کے مسائل زیادہ سنگین ثابت ہوتے ہیں۔‏

عروقی‌نظام بھی متاثر ہوتا ہے،‏ اکثراوقات اس کا آغاز مرضِ‌ریناڈ سے ہوتا ہے جس میں ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے اندر خون کی گردش کم ہو جاتی ہے اور وہ سردی میں سفید،‏ سُرخ یا نیلی ہو جاتی ہیں اور اِن میں شدید درد ہوتا ہے۔‏

تاحال کسی بھی قسم کے تصلب‌جِلد کا کوئی خاطرخواہ علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر بکس/‏تصویر]‏

تصلبِ‌جِلد سے متاثرہ لوگوں کو سمجھنا

تصلب‌جِلد کے متاثرین کو مفید مدد فراہم کرنے کے لئے اُنہیں بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔‏ اس بیماری کی تشخیص عموماً غلط ہوتی ہے،‏ اس لئے تصلب‌جِلد میں مبتلا شخص بیماری کی نوعیت کو سمجھے بغیر ہی کئی سال تک اس کا شکار رہ سکتا ہے۔‏ ابتدائی مراحل میں،‏ مریض کٹھن تشخیصی عمل کا نشانہ بن سکتا ہے۔‏ اگر تشخیص فوری طور پر نہیں ہوتی تو وہ اپنے جسم میں ہونے والی ناقابلِ‌بیان تبدیلیوں کے باعث کمزوری،‏ احساسِ‌تنہائی اور خوف محسوس کر سکتا ہے۔‏

متاثرین اکثر مختلف مراحل میں محرومیوں،‏ معذوریوں اور تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہیں۔‏ اگر جسمانی معذوریاں اُسے دوسروں کا محتاج بنا دیتی ہیں تو اس سے اُسکی آزادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‏ شخصی طور پر،‏ جب خاندانی کردار اور ذمہ‌داریاں دوسرے کو سونپی جاتی ہیں تو عزیزوں کیساتھ تعلقات میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔‏ متاثرہ شخص شاید دوستوں کیساتھ وقت گزارنے اور تفریحی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے۔‏ یہ بھی ممکن ہے کہ اُسے اپنے پیشے میں تبدیلی لانی پڑے یا شاید بالکل ملازمت ترک کرنی پڑے۔‏

جب ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو متاثرہ شخص کیلئے خود کو ناکارہ محسوس کرنا ایک عام بات ہے۔‏ متاثرہ شخص کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ بیماری کی صورت میں ایسے احساسات فطری ہیں۔‏

مثبت پہلو یہ ہے کہ تصلب‌جِلد کے بیشتر مریضوں نے یہ محسوس کِیا ہے کہ جب خاندان کے لوگ اور دیگر لوگ مدد کی پیشکش کرتے ہیں تو متاثرہ اشخاص کی زندگیاں محبت،‏ خوشی اور اُمید سے معمور ہو جاتی ہیں۔‏ اگرچہ مریض اور اُس کے عزیزوں کو کٹھن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بھی وہ اُمید کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے مثبت میلان برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏ مایوسی اور محرومی کے احساسات اپنی جگہ ہیں مگر متاثرہ شخص کو اِن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہئے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ہماری بیٹی ٹریسی اور اُسکا شوہر،‏ ہمارا بیٹا رئین اور میری بیوی لیزا

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

مَیں اپنے بستر پر ہی تعمیراتی پروجیکٹس میں مدد کرتا ہوں

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ہماری بیٹی ٹریشا اپنے شوہر میتھیو کیساتھ بیت‌ایل میں خدمت کرتی ہے