نفرت کی عالمگیر وبا
نفرت کی عالمگیر وبا
ایک خطرناک درندہ پوری دُنیا میں کھلمکھلا گھوم رہا ہے۔ اسکا نام نفرت ہے۔
بلقانی ریاستوں کا ایک صوبہ حالیہ نسلی صفائی کی مہم کے بھیانک نتائج بھگت رہا ہے۔ صدیوں پُرانی رقابتیں قتلِعام، زنابالجبر، بےدخلی، گھروں اور دیہادتوں میں لوٹمار اور آتشزدگی، فصلوں اور مویشیوں کی تباہی اور بھوکوافلاس کا باعث بنی ہیں۔ زمیندوز سرنگیں بھی ابھی تک کثرت سے موجود ہیں۔
جنوبمشرقی ایشیا میں، مشرقی تیمور کے اندر ۰۰۰،۰۰،۷ دہشتزدہ لوگوں کو قتلوغارت، مارپیٹ، اندھادُھند فائرنگ اور جبراً گھروں سے بےدخلی کی وجہ سے فرار ہونا پڑا۔ وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے جسے لوٹمار کرنے والے ملیشیا فوجیوں نے اُجاڑ دیا تھا۔ متاثرین میں سے ایک نے روتے ہوئے کہا، ”مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مَیں کوئی جانور ہوں جسکے پیچھے شکاری کتے لگے ہوئے ہیں۔“
ماسکو میں دہشتگردوں کے بہت بڑے بم دھماکے کی وجہ سے ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ تہسنہس ہو گئی۔ دھماکے سے بچوں سمیت ۹۴ معصوم لوگوں کی لاشیں اِدھراُدھر بکھری پڑی تھیں۔ اس میں ۱۵۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ ایسی دہشتگردی کے نتیجے میں لوگ پوچھتے ہیں، ’اب کس کی باری ہے؟‘
لاساینجلز، کیلیفورنیا میں ایک نسلپرست نے ایک نرسری سکول کے یہودی بچوں پر حملہ کِیا اور بعدازاں ایک فلپائنی ڈاکیے کو ہلاک کر ڈالا۔
نفرت کو ایک عالمگیر وبا کہا جا سکتا ہے۔ تقریباً ہر روز اخبارات بیان کرتے ہیں کہ جب نسلیاتی، علاقائی یا مذہبی رقابتیں تمام قانونی بندشوں کو توڑ دیتی ہیں تو کیا واقع ہوتا ہے۔ ہم قوموں، گروہوں اور خاندانوں میں جدائی واقع ہوتے دیکھتے ہیں۔ ہم وسیع پیمانے پر ملکوں کے اندر نسلکشی دیکھتے ہیں۔ ہم محض رنگونسل ”مختلف“ ہونے کی وجہ سے ناقابلِبیان غیرانسانی کاموں میں اضافے کو دیکھتے ہیں۔
اگر ہم نفرت نامی درندے کو پنجرے میں قید کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نفرتانگیز تشدد کے ماخذ کا پتہ لگانا ہوگا۔ کیا نفرت انسانی فطرت میں شامل ہے؟ کیا نفرت کو سیکھا جاتا ہے؟ کیا نفرت کی دیوار گِرانا ممکن ہے؟
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
Kemal Jufri/Sipa Press