مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کوریا کے خاندانوں کا دوبارہ ملاپ—‏ایک نیا آغاز؟‏

کوریا کے خاندانوں کا دوبارہ ملاپ—‏ایک نیا آغاز؟‏

کوریا کے خاندانوں کا دوبارہ ملاپ‏—‏ایک نیا آغاز؟‏

جنوبی کوریا سے جاگو!‏ کا رائٹر

یہ ایک ہیجان‌خیز حقیقی واقعہ تھا۔‏ یہ ۳۰۰،‏۱ مقامی رپورٹروں اور ۴۰۰ سے زائد غیرملکی مراسلہ‌نگاروں کی توجہ کا مرکز تھا۔‏ یہ کوریا کے شمالی اور جنوبی علاقہ‌جات کے تقریباً ۵۰ برس پہلے بچھڑے ہوئے خاندانوں کے دوبارہ ملاپ کا موقع تھا۔‏

نصف صدی سے کوریا کے بیشتر لوگوں کا اپنے رشتہ‌داروں سے خط،‏ فیکس یا ٹیلیفون کے ذریعے کوئی رابطہ نہیں تھا۔‏ یہ ملک ایک غیرفوجی علاقے کی وجہ سے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے جس سے دونوں طرف کے خاندان ایک دوسرے سے الگ ہیں۔‏ کس چیز نے اس میل‌ملاپ کو ممکن بنایا؟‏ *

ایک اہم ملاپ

اگست ۱۵،‏ ۲۰۰۰ کو شمالی کوریا کے جھنڈے سے آراستہ ایک ہوائی جہاز جنوبی کوریا کے کیم‌پو انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اُترا۔‏ جہاز میں شمالی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایسے مسافر تھے جنکے پاس انٹرنیشنل ریڈ کراس کے توسط سے ایسی شہادتیں موجود تھیں کہ اُن کے بعض رشتہ‌دار ابھی تک جنوبی علاقے میں زندہ ہیں۔‏ یہی جہاز پھر جنوبی کوریا سے ۱۰۰ مسافروں کو شمالی کوریا لیکر گیا تاکہ وہ وہاں اپنے رشتہ‌داروں سے مل سکیں۔‏ ذرا تصور کریں اگر اِن میں آپکا بھائی،‏ بہن،‏ ماں،‏ باپ،‏ بیٹا،‏ بیٹی یا رفیقِ‌حیات شامل ہو جسے آپ نے گزشتہ ۵۰ برس سے نہیں دیکھا!‏ میل‌ملاپ کے لئے آنے والوں میں سے بیشتر ۶۰ اور ۷۰ سال سے زیادہ عمر کے تھے جنہوں نے نوعمری کے وقت سے اپنے رشتہ‌داروں کو نہیں دیکھا تھا!‏

اِس میل‌ملاپ کیلئے صرف چار دن اور تین راتوں کا بندوبست کِیا گیا تھا جس کے بعد سب لوگوں نے اپنے اپنے علاقے میں واپس لوٹ جانا تھا۔‏ یقیناً اسی وجہ سے دوبارہ ملنے والے بعض خاندانی اراکین مسلسل بولتے جا رہے تھے!‏ کسی بھی صدمے اور شدتِ‌جذبات کے باعث پیدا ہو جانے والی ہنگامی صورتحال سے بچنے کیلئے ڈاکٹر،‏ نرسیں اور ایمبولینس بالکل تیار کھڑی تھیں۔‏ کسی بھی وقت اِنکی ضرورت پڑ سکتی تھی۔‏

بچھڑنے والے خاندانوں کی بہت تھوڑی تعداد اس وقت دوبارہ مل رہی تھی۔‏ بعض کا اندازہ ہے کہ ۶۰ برس سے زیادہ عمر کے ۰۰۰،‏۹۰،‏۶ اشخاص اور ۷۰ برس سے زیادہ عمر کے ۰۰۰،‏۶۰،‏۲ سے زیادہ لوگ ہیں جو ابھی تک اپنے عزیزوں سے جُدا ہیں۔‏ تاہم،‏ جنوبی کوریا سے ۰۰۰،‏۷۶ لوگوں نے مخصوص تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد شمال میں اپنے رشتہ‌داروں سے ملاقات کیلئے درخواست دی مگر اُن میں سے صرف ۱۰۰ کو ملاقات کی اجازت ملی تھی۔‏

ان میں ۸۲ سالہ یانگ زن یول بھی تھا۔‏ اُسے ریڈ کراس کی جانب سے اطلاع ملی کہ شمالی کوریا میں اُسکا ۷۰ سالہ بھائی یانگ ون یول جنوبی کوریا میں اپنے رشتہ‌داروں سے ملنے کا متمنی ہے۔‏ یانگ زن یول کا چھوٹا بھائی سن ۱۹۵۰ میں جب سیول میں ایک یونیورسٹی کا طالبعلم تھا تو کورین جنگ کے دوران لاپتا ہو گیا تھا۔‏ اُسوقت سے اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔‏ وہ دونوں بھائی اور اُنکی دو بہنیں ۵۰ سال تک جُدا رہنے کے بعد دوبارہ ملے تھے!‏

لی پوک یان جس کی عمر ۷۳ سال تھی اپنی ۷۰ سالہ بیوی اور دو بیٹوں سے دوبارہ ملا۔‏ آخری مرتبہ جب وہ اپنے خاندان سے ملا تو اسوقت اُس کے بیٹوں کی عمریں دو اور پانچ سال تھیں۔‏ جنگ کے دوران ایک دن وہ یہ کہہ کر گھر سے نکلا کہ مَیں ایک بائیسکل خریدنے جا رہا ہوں۔‏ وہ لاپتا ہو گیا اور اُس کے بعد اُس کی کوئی خبر نہ ملی۔‏ اُن کی اس جذباتی ملاقات کے موقع پر اُس کی بیوی جو اب فالج اور ذیابیطس کی مریضہ ہے،‏ بار بار اس سے یہی سوال کر رہی تھی جو کئی دہوں سے اُس کے ذہن میں تھا:‏ اُسے بائیسکل خریدنے میں اتنی دیر کیوں لگی؟‏

لی چون پل جس کی عمر ۶۹ برس ہے،‏ ۱۹۵۰ میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا جب وہ اپنے خاندان سے بچھڑ گیا اور اُسے گم‌شُدہ کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔‏ وہ جنوب میں رہنے والی اپنی ۹۹ سالہ ماں چو وان ہو،‏ اپنے دو بھائیوں اور دو بہنوں سے ملا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ اُسکی عمررسیدہ ماں اُسے پہچان بھی نہ سکی۔‏

یہ اُن رقت‌انگیز واقعات میں سے محض چند ایک ہیں جو اس میل‌ملاپ کے وقت رونما ہوئے۔‏ کئی مقامی اور غیرملکی ٹیلیویژن سٹیشنوں سے اس میل‌ملاپ کے منظر کو براہِ‌راست دکھایا گیا۔‏ میل‌ملاپ کے اس منظر کو دیکھ کر ناظرین کی آنکھیں بھی خوشی کے آنسوؤں سے پُرنم ہو گئی تھیں!‏ بہتیرے یہ سوچ رہے تھے کہ کیا دوبارہ بھی ایسا ہوگا۔‏ بہرصورت،‏ ملاقات کا یہ سلسلہ جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور یہ جُدائی پہلے سے بھی زیادہ تکلیف‌دہ ثابت ہوئی۔‏ عزیزواقارب اس تذبذب کا شکار تھے کہ آیا وہ پھر کبھی مل پائینگے۔‏

کیا نصف صدی کی جُدائی ختم ہونے والی ہے؟‏

اگست ۱۵،‏ ۱۹۴۵ کو کوریا جاپان کی ۳۶ سالہ استعماریت سے آزاد ہو گیا تھا۔‏ تاہم،‏ جلد ہی کوریا سیاسی وجوہات کی بِنا پر تقسیم ہو گیا۔‏ جاپانیوں کو جزیرہ‌نما کوریا سے نکالنے کے بعد خطِ‌استوا کے متوازی ۳۸ ویں دائرے کے جنوبی علاقے پر امریکی فوجوں نے اور شمالی علاقے پر سوویت فوجوں نے قبضہ کر لیا۔‏ جلد ہی جنگ شروع ہو گئی مگر اس سے بھی معاملات حل نہ ہو پائے۔‏ اب کوریا میں دو حکومتیں تھیں۔‏ سن ۱۹۴۵ کے بعد سے اور کوریا کی جنگ کے دوران ہزاروں خاندان بچھڑ گئے۔‏ جب ۱۹۵۳ میں جنگ ختم ہوئی تو غیرعسکری علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا کر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔‏

کئی سال بعد بھی میل‌ملاپ کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔‏ تاہم،‏ جون ۱۳،‏ ۲۰۰۰ کو جنوبی کوریا کے صدر کیم ڈائی جنگ کا طیارہ پونگیانگ سونان ائیرپورٹ پر اُترا۔‏ شمالی کوریا کا صدر کیم جانگ اِل رن‌وے پر اُسکے استقبال کا منتظر تھا۔‏ اُمید کا اچانک اور غیرمتوقع دروازہ کھلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔‏ اس سے پہلے یہ دونوں راہنما کبھی نہیں ملے تھے۔‏ مگر اس موقع پر وہ عرصۂ‌دراز سے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی طرح ملے۔‏ تین روزہ سیاسی ملاقات میں دونوں راہنماؤں نے نصف صدی پر محیط رقابت کو ختم کرنے اور دوبارہ میل‌ملاپ کرانے کی کوششوں پر زور دیا۔‏ اس ملاقات کا پہلا نتیجہ بچھڑے ہوئے خاندانی ارکان کا ملاپ تھا۔‏ دیگر اقدام پر بھی بہت جلد عمل ہونے والا تھا۔‏

دونوں راہنما شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان ریلوے لائن کو دوبارہ شروع کرنے پر بھی متفق ہو گئے۔‏ کوریا کے جنوبی حصے میں بارہ کلومیٹر اور شمالی حصے میں آٹھ کلومیٹر لمبی پٹڑی کی ستمبر ۲۰۰۱ تک مرمت متوقع ہے۔‏ یہ ریلوے لائن شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان غیرعسکری علاقے سے گزرے گی اور یوں ایک بار پھر ان دونوں حصوں کو ملا دیگی۔‏ لہٰذا جب یہ ریلوے لائن چائنیز ریلوے لائن سے جڑ جائیگی تو پھر یہ جزیرہ‌نما کوریا کو چین اور یورپ سے ملا دیگی۔‏ واقعی یہ صدر کیم ڈائی جنگ کے الفاظ کے مطابق،‏ ”‏آہنی شاہراہِ‌ریشم“‏ ہوگی۔‏ ایک دوسری پٹڑی بھی غیرعسکری علاقے میں سے گزرتی ہوئی ٹرانس سائبیرین ریل‌روڈ سے ملکر روس تک پہنچ جائیگی۔‏

خواہ یہ اقدام نئے آغاز پر منتج ہوتے ہیں یا نہیں اس کی بابت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‏ اس اثنا میں،‏ خاندانوں کو دوبارہ میل‌ملاپ سے متعلق کاوشیں قابلِ‌تعریف ہیں۔‏ تاہم،‏ یہ بالکل عیاں ہے کہ نوعِ‌انسان کو خدا کی بادشاہت کی زیرِنگرانی عالمی حکمرانی کی ضرورت ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ سن ۱۹۱۲ کے لگ‌بھگ یہوواہ کے گواہوں نے اہلِ‌مشرق میں یہ اُمیدافزا پیغام پھیلانا شروع کِیا۔‏ کوریا کے شمالی علاقے میں رہنے والے بیشتر لوگوں کو اس پیغام کو سننے کا موقع ملا اور کئی ایک نے اسے قبول بھی کِیا۔‏ تاہم،‏ جاپانی دورِحکومت میں ان میں سے سینکڑوں کو جنگ پر جانے سے انکار کرنے کے باعث قید میں ڈال دیا گیا تھا۔‏

دوسری عالمی جنگ اور قید سے رہائی کے بعد،‏ اِن مسیحیوں یعنی یہوواہ کے گواہوں نے باہم جمع ہونا شروع کر دیا۔‏ اُن میں سے زیادہ‌تر جنوب میں آباد ہو گئے جہاں وہ آزادی کیساتھ پرستش کر سکتے تھے۔‏ جون ۱۹۴۹ میں سیول میں پہلی کلیسیا قائم ہوئی جو آج جنوبی کوریا میں ۰۰۰،‏۸۷ سرگرم گواہوں کی ایک بڑی تنظیم بن گئی ہے۔‏ اِن میں بھی ہزاروں لوگ شمالی علاقے میں آباد اپنے رشتہ‌داروں سے بچھڑے ہوئے ہیں۔‏

شاید حالات میں کوئی ایسی تبدیلی آ جائے کہ کوریا کے تمام خاندان ایک دوسرے سے پھر مل جائیں۔‏ سب سے بڑھکر،‏ اس جُدائی کے خاتمے سے شمالی کوریا کے ۲۲ ملین لوگوں کیلئے بائبل کا پیغام سننا ممکن ہوگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 حکومت کی طرف سے ۱۹۸۵ میں بھی دونوں کو ملوایا گیا تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویریں]‏

شوہر اور بیوی (‏اُوپر)‏ اور ماں اور بیٹا (‏نیچے)‏ مل رہے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

آباؤاجداد کی پرستش کرنے والا ایک شخص اپنے باپ کی تصویر کے آگے جھکا ہوا ہے جو اُسے ملنے سے پہلے ہی وفات پا گیا

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یانگ ین یول (‏انتہائی بائیں طرف)‏ شمال سے آنے والے اپنے بھائی (‏درمیان میں)‏ سے دوبارہ ملا

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

Pictures on pages 13-​15: The Korea Press Photojournalists

Association