مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

علامات کو پہچاننا

علامات کو پہچاننا

علامات کو پہچاننا

‏”‏اُداسی ایک عام،‏ فطری جذبہ ہے جب‌کہ ڈپریشن ایک بیماری ہے۔‏ اصل مسئلہ اِن کے مابین فرق کو سمجھنا اور پہچاننا ہے۔‏“‏—‏ڈاکٹر ڈیوڈ جی.‏ فاس‌لر۔‏

بیشتر بیماریوں کی طرح،‏ ڈپریشن کی بھی واضح علامات ہوتی ہیں۔‏ تاہم اِن علامات کو پہچاننا اتنا آسان بھی نہیں۔‏ کیوں؟‏ اسلئے کہ تقریباً تمام نوجوانوں کے مزاج میں بالغوں کی طرح اکثروبیشتر تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔‏ ڈپریشن اور محض اُداسی میں کیا فرق ہے؟‏ اسکا انحصار حالت کی شدت اور دورانیے پر ہے۔‏

شدت میں کسی نوجوان کو متاثر کرنے والے منفی احساسات کی حد یا وسعت شامل ہے۔‏ وقتی مایوسی کے برعکس،‏ ڈپریشن ایک ایسی سنگین جذباتی بیماری ہے جو نوجوان کی معمول کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔‏ ڈاکٹر اینڈریو سلابی مرض کی شدت کو یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏اگر آپ ہڈی ٹوٹنے کے درد،‏ دانت کے درد یا دردِزہ کا تصور کریں اور پھر یہ فرض کرتے ہوئے اس میں دس گُنا اضافہ کر لیں کہ آپ اسکی وجہ سے ناواقف ہیں تو اسطرح آپ غالباً ڈپریشن کی تکلیف کا اندازہ لگا سکیں گے۔‏“‏

دورانیہ سے مُراد ہے کہ مایوسی کی حالت کتنی دیر تک رہتی ہے۔‏ کلینیکل پروفیسر لیون سٹران اور جونیئر ڈونلڈ ایچ.‏ میک‌نیو کے مطابق،‏ ”‏کسی بھی وجہ سے افسردہ‌خاطر ہو جانے کے تقریباً ایک ہفتے کے اندر اندر یا شدید نقصان پہنچنے کے چھ ماہ بعد تک اگر ایک بچہ اپنا کام‌کاج معمول کے مطابق تندہی سے نہیں کر پاتا یا طبیعت میں بےچینی محسوس کرتا ہے تو اُسکے ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔‏“‏

عام علامات

ڈپریشن کی تشخیص صرف اُسی صورت میں ہوتی ہے جب ایک نوجوان ہر روز،‏ دن کے بیشتر اوقات میں اور کم‌ازکم دو ہفتوں تک کئی ایک علامات ظاہر کرتا ہے۔‏ مرض کے نسبتاً مختصر دورے کو ضمنی ڈپریشن کہا جاتا ہے۔‏ کم یا درمیانے درجے کے ڈپریشن،‏ ڈس‌تھی‌میا کی تشخیص اس بات سے ہوتی ہے کہ اسکا دورانیہ کم‌ازکم ایک سال ہوتا ہے جس کے دوران شاید دو ماہ آرام رہتا ہے۔‏ دونوں صورتوں میں ڈپریشن کی چند عام علامات کیا ہیں؟‏ *

مزاج اور طرزِعمل میں اچانک تبدیلی۔‏ ایک اطاعت‌شعار نوجوان اچانک ہی غیرمعمولی چڑچڑےپن کا شکار ہو جاتا ہے۔‏ ڈپریشن میں مبتلا نوجوان عموماً باغیانہ رویہ دکھاتے اور گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔‏

سماجی لاتعلقی۔‏ ڈپریشن میں مبتلا نوجوان اپنے دوستوں سے دُور رہنے لگتا ہے۔‏ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوست‌احباب ڈپریشن میں مبتلا نوجوان کے مزاج اور طرزِعمل میں ناپسندیدہ تبدیلی کی وجہ سے خود ہی اُس سے دُور رہنے لگیں۔‏

دلچسپیوں کا فقدان۔‏ ڈپریشن میں مبتلا نوجوان غیرمعمولی طور پر سُست ہو جاتا ہے۔‏ جن مشاغل کو کچھ عرصہ پہلے تک بہت پسند کِیا جاتا تھا اب اُنہیں اُکتا دینے والا خیال کِیا جاتا ہے۔‏

کھانے کی عادات میں خاطرخواہ تبدیلی۔‏ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ بھوک کی کمی یا شدت اور بہت زیادہ کھانا کھانا ایسی مشکلات ہیں جو اکثر ڈپریشن کی وجہ ہی سے رونما ہوتی ہیں۔‏

نیند سے متعلق مسائل۔‏ نوجوان یا تو بہت زیادہ سونے لگتا ہے یا پھر اُسے نیند نہیں آتی۔‏ ڈپریشن میں مبتلا بعض نوجوان سونے کی عجیب‌وغریب عادات کا شکار ہو جاتے ہیں یعنی وہ ساری رات جاگتے ہیں اور سارا دن سوتے رہتے ہیں۔‏

ناقص تعلیمی کارکردگی۔‏ ڈپریشن میں مبتلا نوجوان کو اساتذہ اور دوستوں کیساتھ گزارا کرنا مشکل لگتا ہے اور وہ پڑھائی میں کمزور ہو جاتا ہے۔‏ جلد ہی وہ نوجوان سکول جانے سے ہچکچاتا ہے۔‏

نقصاندہ اور خودشکستگی کے کام۔‏ اکثر موت کو دعوت دینے والے کام کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس نوجوان کو اپنی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں۔‏ اعضابُریدگی (‏جیسےکہ اپنی جِلد کاٹ لینا)‏ بھی ڈپریشن کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔‏

خود کو بیکار اور گنہگار خیال کرنا۔‏ نوجوان خود پر بہت زیادہ تنقید کرنے لگتا ہے،‏ گویا وہ یکسر ناکام ہے اگرچہ حقائق شاید اسکے بالکل برعکس ہی کیوں نہ ہوں۔‏

ذہنی اور جسمانی مسائل۔‏ جب بظاہر کوئی جسمانی تکلیف نظر نہ آئے تو سردرد،‏ پیٹ‌درد،‏ کمردرد اور اسی طرح کے دیگر مسائل ڈپریشن کے عارضے کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔‏

باربار موت یا خودکُشی کے خیال آنا۔‏ دیگر غیرصحتمندانہ موضوعات پر سوچنا اور خودکُشی کی دھمکیاں بھی ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کر سکتا ہے۔‏—‏نیچے دیئے گئے بکس کو دیکھیں۔‏

دَوری اختلالِ‌دماغی

اِن میں سے بعض علامات ایک اَور پریشان‌کُن مرض—‏دَوری اختلالِ‌دماغی—‏میں بھی واقع ہو سکتی ہیں۔‏ ڈاکٹر بابرا ڈی.‏ انگرسول اور سیم گولڈسٹین کے مطابق،‏ دَوری اختلالِ‌دماغی (‏جسے جنونِ‌افسردگی کا عارضہ بھی کہا جاتا ہے)‏ ایک ایسی ”‏حالت ہے جس میں ڈپریشن کی کیفیت کے دوران مریض کے مزاج اور توانائی میں معمول سے زیادہ شدت آ جاتی ہے۔‏“‏

اس شدید حالت کو جنون کہتے ہیں۔‏ اس کی علامات میں بہت زیادہ پُرجوش نظر آنا،‏ بہت زیادہ بولنا اور کم سونا شامل ہے۔‏ حقیقت تو یہ ہے کہ مریض کسی قسم کی نقاہت محسوس کئے بغیر شاید کئی کئی دن تک نہ سوئے۔‏ دُوری اختلالِ‌دماغی کے مرض کی ایک اَور علامت نتائج سے قطع‌نظر اضطراری کیفیت ہے۔‏ یو.‏ایس.‏ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی ایک رپورٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏خبط اکثر سوچنےسمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے علاوہ معاشرتی طرزِعمل پر بھی اثر ڈالتا ہے جو سنگین مسائل اور شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔‏“‏ جنون کا یہ دورانیہ کتنے عرصہ تک رہتا ہے؟‏ بعض‌اوقات شاید چند دن؛‏ بصورتِ‌دیگر کئی ماہ تک رہنے کے بعد یہ ڈپریشن میں بدل جاتا ہے۔‏

جن لوگوں میں دَوری اختلالِ‌دماغی کا یہ مرض نسل‌درنسل چلا آ رہا ہے اُن کیلئے اس میں مبتلا ہونے کا اندیشہ بالخصوص زیادہ ہوتا ہے۔‏ تاہم خوشخبری یہ ہے کہ اس مرض سے دوچار لوگوں کیلئے شفایابی کی اُمید ہے۔‏ کتاب دی بائی‌پولر چائلڈ کہتی ہے:‏ ”‏اگر اس بیماری کی تشخیص جلد ہو جائے اور مناسب علاج شروع کر دیا جائے تو متاثرہ بچے اور انکے خاندان بڑی حد تک متوازن زندگیاں گزار سکتے ہیں۔‏“‏

اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کوئی ایک علامت ڈپریشن یا دَوری اختلالِ‌دماغی کی نشاندہی نہیں کرتی۔‏ اکثراوقات کافی عرصے تک رہنے والی بہت سی علامات اور شکایات اسکی تشخیص کا باعث بنتی ہیں۔‏ تاہم،‏ ابھی تک یہ سوال باقی ہے کہ نوجوان ہی کیوں اس عجیب‌وغریب بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 ذیل میں درج علامات تشخیص کی خاطر معیار قائم کرنے کے برعکس سرسری جائزے کیلئے پیش کی گئی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

جب کوئی بچہ مرنا چاہتا ہے

یو.‏ایس.‏ کے بیماری پر قابو پانے والے مراکز کے مطابق،‏ حال ہی میں ریاستہائےمتحدہ کے اندر ایک برس میں،‏ مشترکہ طور پر کینسر،‏ امراضِ‌قلب،‏ ایڈز،‏ پیدائشی نقائص،‏ فالج،‏ نمونیا،‏ انفلوائنزا اور پھیپھڑوں کے دائمی امراض سے اتنے نوجوان نہیں مرے جتنے کہ خودکُشی سے مرے ہیں۔‏ ایک اَور پریشان‌کُن حقیقت یہ ہے کہ ۱۰ سے ۱۴ برس کی عمر کے لوگوں کے درمیان خودکُشی میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔‏

کیا نوجوانوں میں خودکُشی کو روکا جا سکتا ہے؟‏ بعض صورتوں میں ایسا ممکن ہے۔‏ ڈاکٹر کیتھلین میک‌کوئے لکھتی ہے:‏ ”‏اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ بیشتر صورتوں میں خودکُشی سے پہلے اسکی کوشش کی جاتی یا دھمکی دی جاتی ہے۔‏ اسلئے جب آپکا نوعمر بچہ خودکُشی کا ذکر ہی کرتا ہے تو یہ توجہ دینے اور ممکنہ پیشہ‌ورانہ مدد حاصل کرنے کا وقت ہوتا ہے۔‏“‏

نوجوانوں میں ڈپریشن کا عام ہونا اس بات پر زور دیتا ہے کہ والدین اور دیگر بالغ اشخاص کو نوجوان کی طرف سے اپنی جان لینے کی دھمکی کو سنجیدہ خیال کرنا چاہئے۔‏ ڈاکٹر اینڈریو سلابی اپنی کتاب نو وَن ساو مائے پین میں لکھتا ہے:‏ ”‏خودکُشی کی تقریباً جتنی بھی وارداتیں میری نظر سے گزری ہیں اُن میں نوجوانوں کے منصوبوں کو یا تو نظرانداز کر دیا گیا یا پھر اُن پر سنجیدگی سے دھیان ہی نہیں دیا گیا تھا۔‏ خاندان کے افراد اور دوست‌احباب اُن تبدیلیوں کی غیرمعمولی شدت کو سمجھنے سے قاصر رہے جو اُنہیں نظر آ رہی تھیں۔‏ اُنہوں نے اصل مسئلے کی بجائے اُسکے نتائج پر توجہ دی اور یوں ’‏خاندانی مسائل‘‏ یا ’‏منشیات کا استعمال‘‏ یا ’‏بھوک کی کمی‘‏ تشخیصی علامات بن گئیں۔‏ بعض‌اوقات غصے،‏ پریشانی اور چڑچڑےپن کا تو علاج کِیا گیا مگر ڈپریشن کا نہیں۔‏ بنیادی مسئلہ جوں کا توں اذیتناک اور اشتعال‌انگیز ہی رہا۔‏“‏

بات بالکل واضح ہے:‏ خودکُشی کے رُجحانات کی تمام علامات اور اشاروں کو سنجیدہ خیال کریں!‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

بعض‌اوقات،‏ باغیانہ روش ڈپریشن کی علامت ہوتی ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

ڈپریشن کا شکار نوجوان اکثر ایسے کاموں میں دلچسپی کھو بیٹھتے ہیں جو کبھی اُنہیں بہت پسند ہوتے تھے