کیا خدا نے غلاموں کی تجارت سے چشمپوشی کی تھی؟
بائبل کا نقطۂنظر
کیا خدا نے غلاموں کی تجارت سے چشمپوشی کی تھی؟
کپاس کی گانٹھوں کے بوجھ سے جھکے اور پسینے سے شرابور سیاہ جسم جہاز تک جانے والے تختوں پر پاؤں گھسیٹگھسیٹ کر چل رہے ہیں۔ بیرحم نگران اُنہیں تیزی سے آگے بڑھنے کیلئے کوڑے لگا رہے ہیں۔ چیخوپکار کرتے ہوئے بچوں کو سسکتی ماؤں کی بانہوں سے چھین کر نیلامی میں بھاری بولی لگانے والے کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جب آپ غلامی کی بابت سوچتے ہیں تو یقیناً آپکے ذہن میں ایسے انتہائی ظالمانہ اور بھیانک تصورات آتے ہونگے۔
ستمظریفی کی بات تو یہ ہے کہ غلاموں کی خریدوفروخت کرنے والے بیشتر لوگ انتہائی مذہبی تھے۔ مؤرخ جیمز والوِن نے لکھا: ”سینکڑوں یورپی اور امریکی لوگ غلاموں سے بھرے جہازوں کیساتھ نئی دُنیا (مغربی نصفکرہ جس میں شمالی اور جنوبی امریکہ شامل ہیں) کی طرف روانہ ہوتے وقت خدا کی ستائش کی اور اس کا شکر ادا کِیا کہ اُس نے اُنہیں افریقہ میں نفعبخش اور محفوظ کاروبار کرکے واپس لوٹنے کے قابل بنایا۔“
بعض لوگوں نے تو یہ بھی دعویٰ کِیا ہے کہ خدا نے غلاموں کی تجارت سے چشمپوشی کی تھی۔ مثال کے طور پر، ۱۸۴۲ میں میتھوڈسٹ پروٹسٹنٹ چرچ کی جنرل کانفرنس میں ایک تقریر کے دوران، الیگزینڈر میککین نے بیان کِیا کہ غلامی کو ”خدا نے خود رائج کِیا تھا۔“ کیا میککین نے صحیح کہا تھا؟ کیا خدا نے لڑکیوں کے اغوا اور زنابالجبر، خاندانوں کے بیرحمی سے جُدا کئے جانے اور ظالمانہ مارپیٹ جیسے کاموں کی اجازت دی تھی جو کہ میککین کے زمانے میں غلاموں کی تجارت کا اہم حصہ تھے؟ نیز اُن لاکھوں لوگوں کی بابت کیا ہے جنہیں آجکل استبدادی حالتوں کے تحت غلاموں کے طور پر زندگی بسر کرنے پر اور کام کرنے پر مجبور کِیا جاتا ہے؟ کیا خدا ایسے انسانیتسوز برتاؤ سے چشمپوشی کرتا ہے؟
غلامی اور اسرائیلی
بائبل بیان کرتی ہے کہ ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔“ (واعظ ۸:۹) شاید اسکا واضح ثبوت انسان کی وضعکردہ غلامی کی مختلف استبدادی اقسام میں زیادہ نظر آتا ہے۔ یہوواہ خدا اُس تکلیف سے غافل نہیں ہے جو غلامی کی وجہ سے آتی ہے۔
مثال کے طور پر، اسرائیلیوں کے سلسلے میں واقع ہونے والی اس حالت پر غور کریں۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ مصریوں نے ”اُن سے سخت محنت سے گارا اور اِینٹ بنوا بنوا کر اور کھیت میں ہر قِسم کی خدمت لے لیکر انکی زندگی تلخ کی۔ اُنکی سب خدمتیں جو وہ اُن سے کراتے تھے تشدد کی تھیں۔“ لہٰذا بنیاِسرائیل ”اپنی غلامی کے سبب سے آہ بھرنے لگے اور روئے اور خروج ۱:۱۴؛ ۲:۲۳، ۲۴؛ ۶:۶-۸۔
اُنکا رونا جو اُنکی غلامی کے باعث تھا خدا تک پہنچا۔“ کیا یہوواہ اُنکی مصیبت سے غافل تھا؟ اس کے برعکس، ”خدا نے اُنکا کراہنا سنا اور خدا نے اپنے عہد کو جو اؔبرہام اور اضحاؔق اور یعقوؔب کے ساتھ تھا یاد کِیا۔“ مزیدبرآں، یہوواہ نے اپنے لوگوں کو بتایا: ”مَیں تمکو مصریوں کے بوجھوں کے نیچے سے نکال لونگا۔ اور مَیں تمکو اُنکی غلامی سے آزاد کرونگا۔“—واضح طور پر، یہوواہ نے استبدادی غلامی کے ذریعے ’انسان کے انسان پر حکومت کرنے‘ کو ناپسند کِیا تھا۔ تاہم، کیا بعد میں خدا نے اپنے لوگوں کے درمیان غلامی کی اجازت نہیں دی تھی؟ جیہاں، اُس نے اجازت دی تھی۔ تاہم، اسرائیل میں غلامی تاریخ کے اندر واقع ہونے والی غلامی کی دیگر جابرانہ اقسام سے بالکل مختلف تھی۔
خدا کی شریعت نے بیان کِیا تھا کہ اغوا اور انسانوں کو فروخت کرنے کی سزا موت تھی۔ مزیدبرآں، یہوواہ نے غلاموں کے تحفظ کے سلسلے میں ہدایات فراہم کی تھیں۔ مثال کے طور پر، مالک کی وجہ سے معذور ہو جانے والے غلام کو آزاد کر دیا جاتا تھا۔ اگر ایک غلام اپنے مالک کی مارپیٹ سے مر جاتا تو مالک کو موت کی سزا ہو سکتی تھی۔ اسیر عورتوں کو یا تو لونڈیاں بنا لیا جاتا تھا یا پھر اُنہیں بیوی کا درجہ بھی دیا جا سکتا تھا۔ مگر اُنہیں محض جنسی تسکین کیلئے استعمال نہیں کِیا جا سکتا تھا۔ شریعت نے راستدل اسرائیلیوں کو غلاموں کے ساتھ عزتواحترام اور مہربانی سے پیش آنے اور اُنہیں اُجرت پر رکھے گئے مزدور خیال کرنے کی تحریک دی ہوگی۔—خروج ۲۰:۱۰؛ ۲۱:۱۲، ۱۶، ۲۶، ۲۷؛ احبار ۲۲:۱۰، ۱۱؛ استثنا ۲۱:۱۰-۱۴۔
بعض یہودی قرض ادا کرنے کی غرض سے اپنی مرضی سے ساتھی یہودیوں کے غلام بن گئے۔ اس عمل نے لوگوں کو فاقہزدگی سے محفوظ رکھا اور بیشتر کو غربت سے نکلنے میں مدد دی۔ علاوہازیں، یہودی تقویم میں خاص خاص موقعوں پر غلاموں کو اگر وہ چاہیں تو آزاد کر دیا جاتا تھا۔ * (خروج ۲۱:۲؛ احبار ۲۵:۱۰؛ استثنا ۱۵:۱۲) غلاموں کی بابت اِن قوانین پر تبصرہ کرتے ہوئے، یہودی عالم موزیز ملزینر بیان کرتا ہے کہ ”غلام کا ایک انسان ہونا کبھی ختم نہیں ہو سکتا ہے، اُسے ہمیشہ ایک ایسا شخص خیال کِیا جاتا تھا جسکے کچھ انسانی حقوق ہیں جن میں مالک کبھی بیجا مداخلت نہیں کر سکتا تھا۔“ یہ غلامی کے اِس استبدادی نظام کے بالکل برعکس ہے جو انسانی تاریخ پر ایک بدنما دھبا ہے!
غلامی اور مسیحی
پہلی صدی کے مسیحی جس رومی سلطنت کے تحت رہتے تھے، غلامی اُسکے معاشرتی نظام کا حصہ تھی۔ لہٰذا، بعض مسیحی غلام تھے اور دیگر غلام رکھتے تھے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۱، ۲۲) لیکن کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ یسوع کے شاگرد غلاموں پر ظلم کرنے والے مالک تھے؟ ہرگز نہیں! رومی قانون کی اجازت سے قطعنظر، ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ مسیحی اپنے تابع لوگوں سے بدسلوکی نہیں کرتے تھے۔ پولس رسول نے تو فلیمون کو یہ نصیحت کی تھی کہ اپنے غلام اُنیسمس کیساتھ جو کہ مسیحی بن چکا تھا ”بھائی“ جیسا برتاؤ کرے۔ *—فلیمون ۱۰-۱۷۔
بائبل اس بات کی نشاندہی نہیں کرتی کہ انسانوں کا انسانوں کی غلامی کرنا نسلِانسانی کیلئے خدا کے ابتدائی مقصد کا حصہ تھی۔ علاوہازیں، کوئی بھی بائبل پیشینگوئی یہ بیان نہیں کرتی کہ خدا کی نئی دُنیا میں انسان ساتھی انسانوں کو غلام رکھیں گے۔ بلکہ اُس آنے والے فردوس میں، راستباز آدمی ”اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا اور اُنکو کوئی نہ ڈرائیگا۔“—میکاہ ۴:۴۔
پس صاف ظاہر ہے کہ بائبل دوسروں کیساتھ کسی بھی طرح کی بدسلوکی کو نظرانداز نہیں کرتی۔ اسکے برعکس، یہ انسانوں کے اندر عزتواحترام اور مساوات کی حوصلہافزائی کرتی ہے۔ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) یہ انسانوں کو نصیحت کرتی ہے کہ جیسا وہ چاہتے ہیں کہ اُنکے ساتھ برتاؤ کِیا جائے ویسا ہی وہ دوسروں سے برتاؤ کریں۔ (لوقا ۶:۳۱) اس کے علاوہ بائبل مسیحیوں کی حوصلہافزائی کرتی ہے کہ وہ اپنے معاشرتی مرتبے سے قطعنظر دوسروں کو فروتنی کیساتھ اپنے سے بہتر خیال کریں۔ (فلپیوں ۲:۳) یہ اُصول بیشتر قوموں میں بالخصوص حالیہ وقتوں میں پائی جانے والی غلامی کی غلط اقسام کے بالکل متضاد ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 بعض غلاموں کو اپنے مالک کیساتھ رہنے کی اجازت دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل میں غلامی استبدادی نہیں تھی۔
^ پیراگراف 13 اسی طرح آجکل بھی بعض مسیحی آجر ہیں جبکہ دیگر اجیر ہیں۔ جس طرح مسیحی آجر اپنے ماتحت کام کرنے والوں کیساتھ بدسلوکی نہیں کریگا اُسی طرح پہلی صدی میں یسوع کے شاگرد بھی اپنے خادموں کیساتھ مسیحی اُصولوں کے مطابق برتاؤ کرتے تھے۔—متی ۷:۱۲۔