مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مرغ—‏دل‌پسند اور باافراط

مرغ—‏دل‌پسند اور باافراط

مرغ‏—‏دل‌پسند اور باافراط

کینیا سے جاگو!‏ کا رائٹر

مرغ غالباً بڑا عام زمینی پرندہ ہے۔‏ تخمیناً ۱۳ بلین سے بھی زائد مرغ پائے جاتے ہیں!‏ نیز اسکا گوشت اسقدر پسند کِیا جاتا ہے کہ ہر سال ۳۳ بلین کلوگرام سے بھی زیادہ گوشت استعمال ہو جاتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں دُنیابھر میں مرغیاں ہر سال کوئی ۶۰۰ بلین انڈے دیتی ہیں۔‏

مغربی دُنیا میں مرغی باافراط اور سستی ہے۔‏ عشروں پہلے،‏ یو.‏ایس.‏ میں ووٹ ڈالنے والوں سے یہ وعدہ کِیا گیا کہ اگر بعض اُمیدوار منتخب ہو گئے توپھر ہر گھر میں مرغی پکے گی۔‏ تاہم آجکل مرغی ایک پُرتکلف خوراک یا صرف امیروں کی غذا نہیں رہی۔‏ یہ منفرد پرندہ اتنا عام اور اسقدر دل‌پسند کیسے بن گیا؟‏ نیز غریب ممالک کی بابت کیا ہے؟‏ کیا اُنکے اس باافراط خوراک سے لطف‌اندوز ہونے کا کوئی امکان ہے؟‏

اس پرندے کا ریکارڈ

مرغ ایشیا کے لال جنگلی مرغ کی نسل سے ہے۔‏ انسانوں نے بہت جلد یہ دریافت کر لیا کہ مرغ کو بآسانی گھر میں پالا جا سکتا ہے۔‏ بیشک،‏ یسوع مسیح نے تقریباً ۰۰۰،‏۲ سال پہلے مرغی کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کِیا کہ وہ کیسے اپنے بچوں کو اپنے محفوظ پَروں تلے چھپا لیتی ہے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۳۷؛‏ ۲۶:‏۳۴‏)‏ اس تمثیل کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ عام طور پر لوگ اس پرندے سے واقف تھے۔‏ تاہم ۱۹ ویں صدی کے بعد مرغیوں اور انڈوں کی کثیر پیداوار ایک تجارتی صنعت بن گئی۔‏

آجکل تمام پالتو پرندوں کی نسبت مرغی کا گوشت سب سے زیادہ پسند کِیا جاتا ہے۔‏ شہروں میں رہنے والے لوگوں سمیت—‏ہزاروں لوگ—‏گھریلو اور تجارتی استعمال کیلئے مرغیاں پالتے ہیں۔‏ درحقیقت،‏ بہت کم جانور ایسے ہیں جو مرغی کی طرح اتنے زیادہ متنوع جغرافیائی علاقوں میں بھی نسل‌کشی کے قابل ہوتے ہیں۔‏ بہتیرے ممالک اپنے علاقائی موسم اور ضروریات کی مناسبت سے مختلف نسل کی مرغیاں پال لیتے ہیں۔‏ ان کی بعض اقسام میں:‏ آسٹریلیا کی آسٹرالورپ؛‏ عام مشہور لیگارن جو اصل میں بحیرۂروم سے ہے مگر اب ریاستہائےمتحدہ میں بھی مقبول ہے؛‏ نیو ہیم‌شائر،‏ پلائی‌ماؤتھ راک،‏ رھوڈ آئی‌لینڈ ریڈ اور وائین‌ڈاٹ جو کہ سب ریاستہائےمتحدہ میں پالی جاتی ہیں؛‏ نیز انگلینڈ کی کورنش،‏ اورپنگ‌ٹن اور سس‌اِکس۔‏

جانوروں کی پرورش کے جدید سائنسی طریقوں نے مرغیاں پالنے کو ایک کامیاب‌ترین زرعی صنعت بنا دیا ہے۔‏ ریاستہائےمتحدہ میں،‏ کسان مرغیوں کو خوراک ڈالنے اور انہیں پنجروں میں بند رکھنے کے علاوہ بیماری کی روک‌تھام کیلئے بھی بہت احتیاط کیساتھ سائنسی طریقوں کو استعمال کرتے ہیں۔‏ بہتیرے لوگ کثیر پیداوار کے ان طریقوں کو ظالمانہ سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔‏ اس کے باوجود کسانوں نے ان پرندوں کو پالنے کے نہایت کامیاب طریقے دریافت کرنا بند نہیں کئے ہیں۔‏ جدید تکنیکوں کے ذریعے اب صرف ایک شخص ۰۰۰،‏۲۵ سے ۰۰۰،‏۵۰ مرغیوں کی دیکھ‌بھال کر سکتا ہے۔‏ صرف تین ماہ میں ان پرندوں کا وزن اتنا ہو جاتا ہے کہ انہیں مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔‏ *

گوشت کا ذریعہ

آپ کو تقریباً ہر ہوٹل،‏ ریسٹورانٹ یا دیہات میں کھانےپینے کی جگہوں پر اس پالتو پرندے کا گوشت مینیو میں نظر آئیگا۔‏ سچ تو یہ ہے کہ دُنیابھر میں فاسٹ فوڈ کی بیشتر دُکانیں مرغی کا گوشت تیار کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔‏ ایسے بھی معاشرے ہیں جہاں مرغی کو ابھی بھی خاص مواقع پر پیش کِیا جاتا ہے۔‏ نیز انڈیا جیسے بعض ممالک میں اس پرندے کو پیش کرنے کے دلکش طریقے اپنائے گئے ہیں۔‏ کچھ کھانے جیساکہ ریڈ پیپر چکن،‏ لال مرغی؛‏ شریڈڈ چکن،‏ قرغی مرغی؛‏ اور ادرک میں پکائی گئی مرغی،‏ ادرک مرغی واقعی بہت لذیذ ہیں!‏

مرغی کو اتنا پسندکیوں کِیا جاتا ہے؟‏ ایک وجہ تو یہ ہے کہ بہت کم کھانے ایسے ہیں جو اسکی طرح مختلف مسالوں کے ساتھ تیار کئے جا سکتے ہیں۔‏ آپ اسے کیسے پکانا پسند کرتے ہیں،‏ فرائی،‏ روسٹ،‏ بریان،‏ دم‌پخت یا اسٹیو؟‏ کھانا تیار کرنے کی ترکیبوں والی کوئی بھی کتاب کھولیں آپ کو مرغی پکانے کی بیشمار ترکیبیں نظر آئینگی جن میں سے ہر طریقہ ایک مختلف اور لذیذ ذائقہ پیدا کرتا ہے۔‏

بہتیرے ممالک میں مرغی کے بآسانی دستیاب ہونے کی وجہ سے یہ نسبتاً سستی ہے۔‏ ماہرِغذائیت بھی اسے پسند کرتے ہیں کیونکہ اس میں جسم کیلئے درکار ضروری پروٹین،‏ حیاتین اور معدنیات موجود ہوتی ہیں۔‏ تاہم مرغی میں کیلوریز،‏ خالص روغن اور دوسری قسم کی چربی کم مقدار میں ہوتی ہے۔‏

ترقی‌پذیر ممالک کو خوراک فراہم کرنا

یقیناً تمام ممالک میں پولٹری کی پیداوار کثیر نہیں ہوتی۔‏ یہ بات اسلئے اہمیت کی حامل ہے کہ کونسل فار ایگریکلچرل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے ایک خاص مقصد کے تحت تشکیل دئے گئے ایک گروپ کی رپورٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ایک اندازے کے مطابق،‏ سن ۲۰۲۰ تک دُنیا کی آبادی ۷.‏۷ بلین ہو جائیگی۔‏ .‏ .‏ .‏ تاہم پیشگوئی کے مطابق،‏ آبادی میں نصف سے زیادہ اضافہ (‏۹۵٪)‏ ترقی‌پذیر ممالک میں ہوگا۔‏“‏ جب آپ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس وقت کوئی ۸۰۰ ملین لوگ پہلے ہی ناقص خوراک کا شکار ہیں تو یہ بیان اَور بھی سنجیدگی کا حامل ہو جاتا ہے!‏

تاہم بہتیرے ماہرین کا خیال ہے کہ بھوک‌وافلاس کی ماری آبادی کو خوراک مہیا کرنے اور کسانوں کو درکار آمدنی فراہم کرنے میں مرغی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‏ مسئلہ یہ ہے کہ ان پرندوں کو وسیع پیمانے پر پالنا حاجتمند کسانوں کیلئے واقعی ایک چیلنج بن سکتا ہے۔‏ اوّل تو یہ کہ غریب ممالک میں مرغیاں اکثر دیہاتوں میں چھوٹے فارمز یا پھر گھروں کے صحنوں میں پالی جاتی ہیں۔‏ نیز ایسے علاقوں میں مرغیوں کو ایک محفوظ ماحول میں نہیں رکھا جاتا۔‏ دن‌بھر ان پرندوں کو آزادی سے گھومنے اور کھانا تلاش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور گھر لوٹنے پر یہ درختوں کی شاخوں یا لوہے کے پنجروں میں رات گزارتے ہیں۔‏

اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اس طرح پالے گئے بہتیرے پرندے مر جاتے ہیں،‏ بعض تو مُہلک بیماری نیوکیسل ڈیزیز کا شکار ہو جاتے ہیں اور دوسرے انسانوں اور حیوانوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔‏ کسانوں کی بڑی تعداد اپنے پرندوں کو مناسب خوراک،‏ رہنے کی جگہ یا بیماریوں سے بچاؤ کے سلسلے میں نہ تو کوئی علم رکھتے ہیں اور نہ وہ اس قابل ہوتے ہیں۔‏ اسی وجہ سے ترقی‌پذیر ممالک میں کسانوں کو تعلیم دینے میں مدد کیلئے تربیتی پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ یونائیٹڈ نیشنز فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے ”‏مرغیوں کی کثیر پیداوار کے سلسلے میں افریقہ کی غریب دیہی آبادی کے فائدے کیلئے“‏ حال ہی میں ایک پانچ سالہ منصوبے کا آغاز کِیا ہے۔‏

اب دیکھنا یہ ہے کہ نیک‌نیتی کیساتھ شروع کئے گئے ان منصوبوں کے نتائج کیا ہونگے۔‏ پس ترقی‌یافتہ ممالک میں رہنے والے لوگوں کیلئے اس بات پر غور کرنا معقول ہے کہ زمین پر رہنے والے بہتیرے لوگوں کیلئے مرغی کے گوشت کا ایک ٹکڑا کسی دعوت سے کم نہیں ہے جبکہ ان کے ممالک میں یہ عام دستیاب ہے۔‏ ایسے لوگوں کیلئے ’‏ہر گھر میں مرغی پکانے‘‏ کا خیال ایک ایسا خواب ہے جسکی تعبیر فی‌الحال بہت مشکل ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 اگرچہ مرغیوں کو انڈوں کیلئے بھی پالا جاتا ہے تاہم ریاستہائےمتحدہ میں ۹۰ فیصد مرغیاں گوشت کیلئے پالی جاتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر بکس/‏تصویریں]‏

مرغی کے گوشت کیساتھ احتیاط برتنا

”‏کچے گوشت میں سالمونیلا بیکٹریا جیسے نقصاندہ نامیاتی اجسام پیدا ہو سکتے ہیں لہٰذا اسکی تیاری میں احتیاط برتنا لازمی ہے۔‏ ہمیشہ گوشت کاٹنے سے پہلے اور اسکے بعد،‏ اپنے ہاتھ،‏ چاپنگ بورڈ،‏ چھری اور گوشت صاف کرنے کے دیگر آلات کو صابن والے گرم پانی میں دھوئیں۔‏ ایسا چاپنگ بورڈ استعمال کرنا بہتر ہے جو تیز گرم پانی میں دھویا جا سکتا ہے .‏ .‏ .‏ اور اگر ممکن ہو تو اس چاپنگ بورڈ کو صرف کچا گوشت تیار کرنے کیلئے استعمال کریں۔‏ برف میں لگے ہوئے گوشت کو پکانے سے پہلے اسے مکمل طور پر پگھلنے دیں۔‏“‏—‏دی کوکس کچن بائبل۔‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویریں]‏

مرغی کی بعض اقسام وائٹ لیگارن،‏ گرے جنگل فاؤل،‏ اورپنگ‌ٹن،‏ پولش اور سپیکلڈ سس‌اِکس ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

All except White Leghorn: © Barry Kolffer/www.feathersite.com

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویریں]‏

ترقی‌پذیر ممالک میں مرغیوں کی کثیر پیداوار کے سلسلے میں کسانوں کی مدد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

ریاستہائےمتحدہ میں ۹۰ فیصد مرغیاں گوشت کیلئے پالی جاتی ہیں