مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کون دُنیا کو سیر کریگا؟‏

کون دُنیا کو سیر کریگا؟‏

کون دُنیا کو سیر کریگا؟‏

کیا نسلِ‌انسانی حیاتیاتی تنوع کو تباہ کرنے کی بجائے کبھی اسے بچانے کی بھی کوشش کرے گی؟‏ ماہرِحیاتیات جان ٹک‌سل کے مطابق اس کیلئے ”‏حکمتِ‌عملی میں بنیادی تبدیلی“‏ کی ضرورت ہے۔‏ تاہم،‏ وہ مزید بیان کرتا ہے کہ یہ تبدیلی ”‏اُس وقت تک واقع نہیں ہو سکتی جب تک لوگوں میں نباتات کے حیاتیاتی تنوع کے فوائد کی بابت شعور،‏ موجودہ کارگزاریوں کو بدلنے کی خواہش اور نئے طریقوں کو آزمانے کیلئے رضامندی پیدا نہیں ہو جاتی۔‏“‏

بہتیروں کے خیال میں ایسی بڑی تبدیلیوں کا وقوع میں آنا بہت مشکل ہے۔‏ نیز بیشتر لوگ ٹک‌سل کے اخذکردہ نتیجے سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔‏ بعض ماحولیاتی سائنسدان محسوس کرتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کے کردار کی واضح سمجھ ابھی تک حاصل نہیں ہوئی اسلئے ان کے کچھ ساتھی اس کی اہمیت کو بڑھاچڑھا کر پیش کر سکتے ہیں۔‏ جس دوران سائنسدان اس معاملے پر بحث‌وتکرار میں اُلجھے ہوئے ہیں تو بعض ماہرین کے اندیشوں پر غور کرنا بظاہر فائدہ‌مند ہو سکتا ہے۔‏ وہ نہ صرف حیاتیاتی تنوع کی کمی بلکہ ایسی کمی کے پسِ‌پُشت لالچ اور کوتاہ‌بینی کی بابت بھی فکرمند ہیں۔‏ مختلف مصنّفین کے اِن تبصرہ‌جات پر غور کریں۔‏

‏”‏صرف ایک صدی پہلے دُنیابھر کے لاکھوں کسان اپنے بیج کے ذخائر کی خود دیکھ‌بھال کِیا کرتے تھے۔‏ .‏ .‏ .‏ تاہم آجکل عالمگیر تجارتی کمپنیاں بیج کے بیشتر ذخائر کو متعارف،‏ ان میں ردوبدل اور انکی ایجاد کا قانونی حق حاصل کرنے سے اِنہیں اپنی تحویل میں رکھتی ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ بائیوٹیک صنعت نے فوری فوائد پر توجہ مرتکز رکھنے سے جینیاتی وراثت کو تباہی کے خطرے میں ڈال دیا ہے جو مستقبل میں کسی نئی مزاحم بیماری یا کیڑے سے تحفظ فراہم کرنے میں گراں‌بہا ثابت ہو سکتی ہے۔‏“‏—‏سائنسی مصنف جیریمی رِف‌کن۔‏

‏”‏میڈیا درحقیقت مسلسل عالمگیر منڈی،‏ معیشت اور آزادانہ تجارت کو اہمیت کا حامل قرار دیتا ہے۔‏ جب میڈیا بڑے اداروں کی دولت‌وشہرت اور مفادات کے زیرِاثر ہو تو یہی معاشی نظریہ ایک مذہبی عقیدے کی طرح پُختہ ہو جاتا ہے جسے کوئی جھٹلانے کی جسارت نہیں کرتا۔‏“‏—‏ماہرِجینیات ڈیوڈ سوزوکی۔‏

اپنی کتاب سیڈز آف چینج—‏دی لوِنگ ٹریژر میں مصنف کینی آسوبیل ترقی‌یافتہ ممالک کی ریاکاری کو نمایاں کرتا ہے جب انکی ”‏حکومتیں اور ادارے انسان کے ’‏عام ورثے‘‏ جین پول کے ناپید ہونے کے ناگزیر عالمگیر خطرے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔‏“‏ وہ بیان کرتا ہے کہ یہ خود بھی یک‌جنسی فصلوں اور کاشتکاری کے جدید طریقۂ‌کار کے استعمال کو فروغ دینے سے حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‏

ماہرینِ‌ماحولیات کے ایسے ہولناک اندیشے جائز ہوں یا ناجائز اس سیارے کے مستقبل کی بابت پُراعتماد محسوس کرنا آپ کیلئے مشکل ہو سکتا ہے۔‏ نسلِ‌انسانی کے لالچ کے پیشِ‌نظر اس کا بچاؤ کیسے ممکن ہے؟‏ ایسے سوالوں کے جواب کے متلاشی بہتیرے لوگ اُمید کرتے ہیں کہ سائنس اس سلسلے میں ہماری مدد کریگی۔‏

کیا سائنس اور ٹیکنالوجی ہمیں بچا سکتی ہیں؟‏

دی رائل سوسائٹی آف ایڈن‌برگ نے حال ہی میں فکرمندی ظاہر کی کہ سائنسی کامیابیاں اسقدر تیزرو اور جدیدترین ہیں کہ سائنسدانوں کو اِن کی بابت پوری سمجھ حاصل نہ کرنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‏ ڈیوڈ سوزوکی نے لکھا،‏ ”‏سائنس قدرت کی بابت جو بصیرت فراہم کرتی ہے وہ نامکمل اور خفیف ہے۔‏ ہم زمین پر موجود جانداروں کی حیاتیاتی ساخت کی بابت بہت کم علم رکھتے ہیں اور ہمیں ان کے باہمی تعلقات اور انحصار کے طریقوں کی بابت بھی کچھ معلوم نہیں ہے۔‏“‏

سائنس رسالے کی وضاحت کے مطابق ”‏جی‌ای‌او [‏جینیائی ردوبدل والے نامیاتی اجسام]‏ کے فوائد اور نقصانات دونوں ہی یقینی یا ہمہ‌گیر نہیں ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ جی‌ای‌او سمیت نباتات‌وحیوانات کی مختلف اقسام کو ایک نئے ماحول میں متعارف کرانے کے اثرات کی بابت پیشگوئی کرنے کی ہماری صلاحیت قابلِ‌اعتبار نہیں۔‏“‏

درحقیقت بہتیری ”‏کامیابیوں“‏ کے دو پہلو ہیں جن میں سے ایک مفید اور دوسرا مُضر ہے۔‏ یہ کسی حد تک فائدہ پہنچانے کے علاوہ نسلِ‌انسانی میں حکمت کی کمی اور لالچ کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳‏)‏ مثال کے طور پر،‏ زرعی انقلاب نے جہاں پیداوار میں کثیر اضافہ کِیا اور بہتیرے لوگوں کے لئے خوراک مہیا کی وہاں یہ حیاتیاتی تنوع میں کمی کا باعث بھی بنا۔‏ ڈاکٹر مےوان ہو نے لکھا کہ زرعی انقلاب نے کیڑےمار ادویات اور کاشتکاری کے دیگر مہنگے طریقوں کے استعمال کو فروغ دینے سے انجام‌کار ”‏عام لوگوں کو نقصان پہنچا کر پودوں کی نشوونما کرنے والے بڑے اداروں اور ترقی‌پذیر ممالک کے امرا“‏ کو فائدہ پہنچایا۔‏ یہ رُجحان بڑھتا جا رہا ہے جبکہ بائیوٹیکنالوجی پر مشتمل زراعت ایک بہت بڑا اور زیادہ طاقتور کاروبار بن رہا ہے اور ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف لے جا رہا ہے جہاں غذائی رسد کا انحصار بڑی حد تک سائنس پر ہوگا۔‏

تاہم،‏ ہمیں ان مسائل سے افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ درحقیقت،‏ یہ محض ایک اہم نکتے کو اُجاگر کرتے ہیں۔‏ بائبل یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ ہمیں اس وقت اس سیارے اور اسکے وسائل کو منظم کرنے والے ناکامل انسانوں سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔‏ اس وقت ناکامیاں اور بدنظمی دراصل انسان کی ناکاملیت کا نتیجہ ہیں۔‏ لہٰذا،‏ زبور ۱۴۶:‏۳ نصیحت کرتی ہے:‏ ”‏نہ اُمرا پر بھروسا کرو نہ آدم‌زاد پر۔‏ وہ بچا نہیں سکتا۔‏“‏ لیکن ہم یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ وہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے اور وہ ایسا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔‏—‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

عنقریب—‏ایک خوشحال زمین

کسی شکستہ گھر کی مرمت کرنے سے پہلے آپ کو اس میں سے کوڑاکرکٹ صاف کرنا پڑتا ہے۔‏ اسی طرح یہوواہ خدا زمین کو تمام بُرائی اور ایسے لوگوں سے پاک کریگا جو محض ذاتی مفادات اور دولت کمانے کیلئے ہمارے سیارے،‏ اسکے قدرتی اثاثوں اور ساتھی انسانوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ مکاشفہ ۱۱:‏۱۸‏)‏ لیکن یہوواہ ان تمام لوگوں کو زندہ اور محفوظ رکھیگا جو اُس سے محبت رکھتے ہیں اور اُسکی مرضی بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

اسکے بعد خدا کی قائم‌کردہ حکومت،‏ مسیحائی بادشاہت فرمانبردار انسانوں سمیت زمین اور اُس کے لاتعداد جانداروں پر حکمرانی کرے گی۔‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ متی ۶:‏۱۰‏)‏ نیز اس پُرحکمت حکمرانی کے تحت زمین بکثرت خوراک پیدا کریگی!‏ زبور ۷۲:‏۱۶ بیان کرتی ہے:‏ ”‏زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہوگی۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اُس وقت خوراک نزاع اور پریشانی کا باعث نہیں ہوگی۔‏ اسکی بجائے یہ محفوظ اور باافراط ہوگی۔‏

لہٰذا،‏ اس موجودہ نظام میں افسردگی اور غیریقینی کی حالت جُوں‌جُوں بڑھتی جاتی ہے یہوواہ پر بھروسا کرنے والے لوگ اسی زمین پر ایک درخشاں مستقبل کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏ یہ اُمید ”‏بادشاہی کی اِس خوشخبری“‏ میں پنہاں ہے جو یہوواہ کے گواہ خوشی کیساتھ اُن تمام لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو ایک بہتر اور انصاف‌پسند دُنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ اس یقینی اُمید اور اپنے لوگوں کیلئے خدا کی مشفقانہ فکرمندی کی بدولت ہم اب بھی ”‏محفوظ .‏ .‏ .‏ آفت سے نڈر ہوکر اطمینان سے“‏ رہ سکتے ہیں۔‏—‏امثال ۱:‏۳۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

خدا کی بادشاہت کے تحت خوراک محفوظ اور باافراط ہوگی

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر کا حوالہ]‏

FAO Photo/K. Dunn

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر کا حوالہ]‏

Tourism Authority of Thailand