کیا انسان اپنی غذائی رسد کو تباہ کر رہا ہے؟
کیا انسان اپنی غذائی رسد کو تباہ کر رہا ہے؟
”آجکل ہمارا حقیقی مسئلہ قرضے اور خسارے یا عالمی مقابلہبازی کی بجائے اپنے زمینی سیارے کے حیاتی کُرے کو نقصان پہنچائے بغیر بامقصد اور تسکینبخش زندگی بسر کرنا ہے۔ انسانیت کو اس سے پیشتر کبھی بقائےحیات کیلئے ضروری عناصر کے خاتمے کے خطرے کا سامنا نہیں ہوا۔“—ماہرِجینیات ڈیوڈ سوزوکی۔
ایک سیب ہماری نظر میں معمولی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں سیب کثرت سے پیدا ہوتا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آسانی سے دستیاب ہے اور اِس سے بھی بڑھکر آپ کئی مختلف اقسام سے انتخاب کر سکتے ہیں۔ تاہم، کیا آپ جانتے ہیں کہ سو سال پہلے کی نسبت آج سیب کی بہت کم قسمیں ہیں جن سے انتخاب کِیا جا سکتا ہے؟
ریاستہائےمتحدہ میں ۱۸۰۴ اور ۱۹۰۵ کے درمیان ۰۹۸،۷ قسموں کے سیب کاشت کئے جاتے تھے۔ آج اِن میں سے ۱۲۱،۶—۸۶ فیصد—اقسام ناپید ہو چکی ہیں۔ ناشپاتی کیساتھ بھی یہی واقع ہوا ہے۔ اس کی ۶۸۳،۲ اقسام میں سے اب تقریباً ۸۸ فیصد ناپید ہو چکی ہیں۔ سبزیوں کے سلسلے میں تو یہ شرح اَور بھی افسوسناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ دراصل حیاتیاتی تنوع ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جانداروں کی مختلف اقسام کے علاوہ اِن کی ذیلی اقسام میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ ریاستہائےمتحدہ میں اُگائی جانے والی سبزیوں کی مختلف اقسام میں ۸۰ سال سے بھی کم عرصے کے اندر ۹۷ فیصد کمی ہوئی ہے! تاہم کیا تنوع واقعی ضروری ہے؟
بہتیرے سائنسدان اسے ضروری خیال کرتے ہیں۔ اگرچہ حیاتیاتی تنوع کا کردار ابھی بھی زیرِبحث ہے تاہم ماہرینِماحولیات کے مطابق یہ زمین پر زندگی کیلئے لازمی ہے۔ اُنکا خیال ہے کہ یہ جتنا دُنیا کے جنگلات اور سبزہزاروں میں اُگنے والے پودوں کیلئے ضروری ہے اُتنا ہی غذائی پودوں کیلئے بھی ضروری ہے۔ تنوع بہت ہی اہم ہے۔ مثال کے طور پر، چاول کی مختلف اقسام کی بدولت عام وباؤں کی مزاحمت کا امکان بڑھتا ہے۔ لہٰذا ورلڈواچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون نے بیان کِیا ہے کہ ہماری غذائی رسد پر اثر نوعِانسان کو حیاتیاتی تنوع میں کمی کی سنگینی کا سب سے زیادہ احساس دلا سکتا ہے۔
نباتات کی ناپیدگی اناج کو کمازکم دو طریقوں سے متاثر کر سکتی ہے: اوّل، فصلوں کیساتھ اُگنے والی متعلقہ جڑیبوٹیوں کا خاتمہ جو آئندہ پیداوار کیلئے ضروری جینز فراہم کرتی ہیں، دوم، کاشتہ اقسام کی ذیلی اقسام میں کمی۔ مثال کے طور پر، ۲۰ ویں صدی کے اوائل میں ایشیا میں چاول کی ۰۰۰،۰۰،۱ مختلف اقسام اُگائی جاتی تھیں جن میں سے ۰۰۰،۳۰ اقسام صرف انڈیا میں کاشت کی جاتی تھیں۔ اب انڈیا کی ۷۵ فیصد فصل محض دس اقسام پر مشتمل ہے۔ سریلنکا میں چاول کی ۰۰۰،۲ اقسام کی جگہ اب تقریباً ۵ اقسام ہی کاشت کی جاتی ہیں۔ مکئی کی پیداوار کے گڑھ میکسیکو میں ۱۹۳۰ میں پائی جانے والی اقسام میں سے اب صرف ۲۰ فیصد باقی رہ گئی ہیں۔
تاہم صرف ہماری خوراک ہی خطرے میں نہیں ہے۔ تقریباً ۲۵ فیصد تجارتی ادویات پودوں سے بنتی ہیں اور نئے ادویاتی پودوں کی دریافت ابھی جاری ہے۔ اسکے باوجود پودوں کو مسلسل ناپید کِیا جا رہا ہے۔ کیا ہم درحقیقت اُسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر ہم بیٹھے ہیں؟
ورلڈ کنزرویشن یونین کے مطابق، نباتات اور حیوانات کی تقریباً دی یونیسکو کورئیر بیان کرتا ہے کہ بعض لوگوں کے مطابق، ناپیدگی ”تباہکُن تیزرفتاری کیساتھ“ وقوعپذیر ہے۔
۰۰۰،۱۸ دریافتشُدہ اقسام میں سے ۰۰۰،۱۱ ناپیدگی کے خطرے میں ہیں۔ انڈونیشیا، ملیشیا اور لاطینی امریکہ جیسے ممالک میں جہاں کاشتکاری کیلئے وسیع پیمانے پر جنگلات کاٹے جا رہے ہیں، محققین صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ کتنی اقسام ناپید ہونے والی ہیں یاپھر ہو چکی ہیں۔ تاہم،بیشک، زمین اب بھی وافر مقدار میں خوراک پیدا کر رہی ہے۔ تاہم اگر اس سیارے کا حیاتیاتی تنوع ایسے ہی کم ہوتا رہا تو تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کب تک اپنا پیٹ بھر سکے گی؟ اس پریشانی سے نپٹنے کیلئے مختلف ممالک نے سیڈ بینک تعمیر کئے ہیں تاکہ ضروری پودوں کو ناپیدگی سے بچایا جا سکے۔ بعض نباتیاتی باغات نے بھی پودوں کی اقسام کے تحفظ کی ذمہداری اُٹھائی ہے۔ سائنس نے جنیٹک انجینیئرنگ کے نئے بااثر آلات فراہم کئے ہیں۔ تاہم کیا سیڈ بینک اور سائنس واقعی اس مسئلے سے نپٹ سکتے ہیں؟ اگلے مضمون میں اس سوال پر غور کِیا جائیگا۔