انسان کا انسان پر ظلم
انسان کا انسان پر ظلم
تاریخ واعظ ۸:۹ کی تصدیق کرتی ہے: ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔“ کیتھولک جیروصیلم بائبل اِسے یوں بیان کرتی ہے: ”انسان انسان پر ظلم کرکے خود ہی نقصان اُٹھاتا ہے۔“ آج تک انسان نے جتنے بھی حکومتی نظام آزمائے ہیں اُن سب میں لاکھوں انسان ناانصافی کا نشانہ بنے ہیں۔ آفس آف انڈین افیرز کے قیام کی ۱۷۵ ویں سالگرہ کے موقع پر یو.ایس. ڈیپارٹمنٹ آف انٹیرئیر کی شاخ انڈین افیرز کے معاون سیکرٹری کی تقریر میں اسی دُکھتکلیف کی یاددہانی کرائی گئی تھی۔
اُس نے کہا کہ یہ جشن منانے کی بجائے ”افسوسناک سچ بولنے بلکہ اظہارِندامت کا وقت ہے۔“ اُس نے تسلیم کِیا کہ ۱۸۳۰ کے دہے میں اِس ادارے کا اصل مقصد جنوبمشرقی قبائلی اقوام—چیروکی، کریک، چوکتاؤ، چیکاساؤ اور سمینولی—کو اُن کے وطن سے بےدخل کرنا تھا۔ ”اِن بڑی قبائلی اقوام کو مکروفریب کے علاوہ ڈرادھمکا کر زبردستی ۶۰۰،۱ کلومیٹر دُور مغربی علاقے میں بھیج دیا گیا۔ اِس جبری جلاوطنی کے باعث اِنہیں طویل سفر کے دوران مرنے والے اپنے ہزاروں عمررسیدہ لوگوں، بچوں اور معذوروں کو راستے میں ہی گڑھے کھود کر دفن کرنا پڑا۔“
اُس نے مزید بیان کِیا: ”اِس جدید اور روشنخیال زمانے میں بھی ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دانستہ طور پر بیماری پھیلانا، جسیم بایسن بھینس کے گلّوں کا خاتمہ کرنا، ذہن اور بدن کو تباہ کرنے کیلئے زہریلی الکحل استعمال کرنا اور عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرنا اتنے افسوسناک اور خوفناک المیے کا باعث بنتا ہے کہ اِسے محض امریکی ہندیوں اور سفیدفام آبادکاروں میں اختلاف کا ناگزیر نتیجہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا۔“ * اُس نے یہ بھی تسلیم کِیا: ”اس ادارے نے ہندیوں سے وابستہ ہر چیز کا نامونشان مٹانے کی ٹھان رکھی تھی۔ اِس ادارے نے ہندی زبانوں کو بولنے پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ ہندیوں کی بہت تذلیلوتحقیر بھی کی۔ سب سے گھناؤنی بات تو یہ ہے کہ بیورو آف انڈین افیرز نے اُن بچوں کیساتھ ایسی بدسلوکی کی جنہیں اِسکے بورڈنگ سکولوں میں اِسکے سپرد کِیا گیا تھا۔ یہاں ان بچوں کو جذباتی، نفسیاتی، جسمانی اور روحانی ایذا پہنچائی گئی۔“
اُس نے اپنی تقریر کے اختتام پر یوں کہا: ”آئیے ہم اس ادارے کے ماضی کے کاموں پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک نیا آغاز کریں۔ . . . ہم پھر کبھی ہندی املاک پر غاصبانہ قبضہ نہیں کرینگے۔ ہم پھر کبھی آپکے مذہب، آپکی زبان، آپکے دستورات اور آپکی کسی قبائلی رسم پر حملہ نہیں کرینگے۔“ اُس نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ ”ہم سب کو ملکر گزشتہ سات پُشتوں کے آنسو پونچھنے چاہئیں۔ ہمیں ملکر اپنے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کی چارہجوئی کرنی چاہئے۔“—وائٹل سپیچز آف دی ڈے، اکتوبر ۱، ۲۰۰۰۔
ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ انسانیتسوز سلوک کا واحد حقیقی اور دائمی حل خدا کی بادشاہت ہے جو عدل کو بحال کریگی اور سب کی ”آنکھوں کے . . . آنسو پونچھ [دیگی]۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“—مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 امریکی ہندیوں کی تاریخ اِس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ قبیلے ”اکثر مخصوص علاقوں، گھوڑوں اور بھینسوں“ کے لئے آپس میں لڑتے رہتے تھے۔—دی پیپل کالڈ اپاچی۔
[صفحہ ۳۱ پر تصویروں کے حوالہجات]
:Indian: Artwork based on photograph by Edward S. Curtis; Map
Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc.; Indian
Leslie’s :dwellings