دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
میڈیکل ریکارڈز میں ٹیلیویژن دیکھنے کی عادات کا اندراج
سپین میں ماہرینِاطفال کا ایک گروہ اس بات کی سفارش کرتا ہے کہ ایک بچے کے میڈیکل ریکارڈز میں ٹیلیویژن دیکھنے کی عادات کا بھی اندراج ہونا چاہئے۔ ہسپانوی اخبار ڈائیریو میڈیکو کے مطابق، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بیمار بچہ دن میں کتنے گھنٹے ٹیوی دیکھتا ہے نیز وہ کس کیساتھ کس قسم کے پروگرام دیکھتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ماہرینِاطفال کے منعقدکردہ ایک سروے نے آشکارا کِیا کہ ٹیوی دیکھنا ہر وقت بیٹھے رہنے کی عادت، جارحانہ طرزِعمل، چیزیں خریدنے کے رُجحان میں اضافے، سکول میں ناقص کارکردگی اور ٹیوی دیکھنے کا عادی بن جانے کا باعث بنتا ہے۔ ”ماہرینِاطفال اس بات کی سفارش کرتے ہیں کہ ٹیلیویژن بچوں کے کمروں میں یا ایسی جگہوں پر نہ رکھے جائیں جہاں بچے پروگرام کو اپنی مرضی سے لگا سکتے ہیں،“ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے۔ ”علاوہازیں، کھانے کے دوران ٹیلیویژن نہ دیکھیں اور والدین کو چاہئے کہ بچوں کو دو گھنٹے سے زیادہ ٹیلیویژن دیکھنے کی اجازت نہ دیں اگرچہ دن میں ایک گھنٹہ ٹیوی دیکھنا ہی کافی ہوگا۔“
چین کی آبادی میں اضافہ
”چین کی آبادی ۲۶.۱ بلین ہو گئی ہے اور وہاں کے لوگ لمبی عمر پانے کے علاوہ اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور پہلے سے زیادہ تہذیبیافتہ ہوتے جا رہے ہیں،“ اےبیسینیوز.کوم بیان کرتا ہے۔ محکمۂشماریات کے ڈائریکٹر جُو جےشن کے مطابق، ۱۹۹۰ سے آبادی میں ۲.۱۳۲ ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ چین میں ۱۹۷۰ کے دہے سے نافذ ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے آبادی میں اضافے کی کم سے کم شرح ۰۷.۱ فیصد ہے۔ تاہم، حکومت کو اسلئے تشویش لاحق ہے کہ ۱۹۹۹ کے سروے نے آشکارا کِیا کہ لڑکیوں کا اسقاط کرانے کے نتیجے میں لڑکوں کی شرحِپیدائش ۱۱۷ جبکہ لڑکیوں کی ۱۰۰ ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ”ماہرِعمرانیات کو اس بات کا خدشہ ہے کہ پیدائش کی اس غیرمتوازن شرح کے پیشِنظر دلہنوں کی کمی اور عصمتدری، شادی کے لئے لڑکیوں کے اغوا اور فروخت کی صورتحال بدترین ہو جائیگی۔“
”زیرِزمین خزانہ“
برازیلی ہائیڈروجیولوجسٹ ہیرلڈو کیمپوس کی قیادت میں ماہرین نے جنوبی امریکہ کے زیرِزمین پانی کے بڑے بڑے ذخائر کا مفصل خاکہ تیار کرنے کا سات سالہ پروجیکٹ مکمل کر لیا ہے۔ برازیل، یوراگوئے، پیراگوئے اور ارجنٹینا کے مختلف حصوں میں واقع زیرِزمین گوارانی آباندوخت کا کُل رقبہ تقریباً ۰۰۰،۰۰،۵ مربع میل ہے اور اس میں اندازاً ۰۰۰،۱۰ کیوبک میل پانی ہے۔ گلوبل انوائرمنٹ فیسیلٹی کی رپورٹ کے مطابق، ”آبی ذخائر میں اتنا پانی ہے کہ آئندہ ۵۰۰،۳ سال تک برازیل کی کُل آبادی کو فراہم کرنے کیلئے کافی ہوگا۔“ مستقبل میں یہ ”زیرِزمین خزانہ“ صحرائی علاقوں کو بھی سیراب کر سکتا ہے اور پانی کے درجۂحرارت کی بدولت اسے متبادل توانائی کے ماخذ کے طور پر بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے۔ آبی اندوختوں کا خاکہ تیار کرنے سے ماہرین پُراُمید ہیں کہ وہ ایسے حصوں کو جہاں سے پانی پھوٹ نکلتا ہے کیڑےمار ادویات اور کھاد سے آلودہ ہونے سے بچانے کے قابل ہونگے۔
جِلدی کینسر میں اضافہ
سپین کی الپایس ڈیجیٹل نیوز سروس کے مطابق، جِلد کی سیاہ رسولی یعنی سب سے خطرناک رسولیوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط تک سیاہ رسولی کا تناسب ۵۰۰،۱ میں سے ۱ تھا۔ تاہم، دھوپ میں جِلد کو سانولا بنانے کی وجہ سے ۲۰۰۰ تک، یہ تعداد بڑھ کر ۷۵ میں سے ۱ ہو گئی ہے۔ یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکالوجی کے ایک کنونشن میں، پروفیسر جے. کرکوُڈ نے بیان کِیا کہ سیاہ رسولیوں میں سے ۴۰ فیصد کا تعلق جینیاتی عناصر سے ہے جبکہ باقی ۶۰ فیصد کا تعلق دھوپ میں رہنے سے ہے۔ اس لئے ۲۳ سے ۵۰ سال کی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ کرکوُڈ نے واضح کِیا کہ طفولیت اور بلوغت کے دوران شمسی شعاعیں جِلد کے رنگدار مادے میں تبدیلی کو تیز کر دیتی ہیں اگرچہ جِلد کا کینسر کئی سال بعد تک منظرِعام پر نہیں آتا۔ کرکوُڈ نے بیان کِیا، ”مگر جِلد پر اِن شمسی شعاعوں کا اثر برقرار رہتا ہے۔“
شکر کو پلاسٹک میں تبدیل کرنا
برازیل کے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ریسرچ کے سائنسدانوں نے بیکٹریا کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جو شکر کو پلاسٹک میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جن اقسام کو پہلے دریافت کِیا گیا تھا وہ شکر کے چھوٹے سالموں یا مالیکیولز میں تبدیل ہو جانے کے بعد ہضم اور تبدیل کرتے ہیں جبکہ ”اس نئے دریافتشُدہ جرثومے (بیکٹریئم) کی بابت یہ امکان ہے کہ اس میں شکر کا براہِراست استحالہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے،“ انجینیئر او ایسٹاڈو ڈی ایس. پاولو بیان کرتا ہے کہ ماہرین کے مطابق آپ، ”تین کلوگرام شکر سے ایک کلوگرام پلاسٹک حاصل کر سکتے ہیں۔“
کارلس روسل بیان کرتا ہے۔ جب اسے بہت زیادہ شکر کھلائی جاتی ہے تو یہ اضافی شکر کو بائیوڈیگریڈبل پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرّوں میں تبدیل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے جسے سائنسدان ایک محلل کی مدد سے خارج کرتے ہیں۔ اخبارمرغن غذائیں دماغ کو کُند کرتی ہیں
نیو سائنٹسٹ میگزین بیان کرتا ہے کہ ”مرغن غذائیں آپکے دماغ نیز آپکی کارونری شریانوں میں رکاوٹ پیدا کر سکتی ہیں۔“ دماغ پر انتہائی مرغن غذاؤں کے اثرات کو سمجھنے کیلئے، کینیڈا میں ماہرین نے ”ایک مہینے کے چوہوں کو چار ماہ تک حیوانی اور نباتاتی روغن سے بھرپور غذائیں دیں۔“ زیرِنگرانی ایک دوسرے گروہ کو غیرمرغن غذائیں دی گئیں۔ اسکے بعد دونوں گروہوں کو سیکھنے کا کچھ کام دیا گیا۔ نتیجہ؟ زیادہ مرغن غذا کھانے والے چوہوں کی ”کارکردگی غیرمرغن غذائیں استعمال کرنے والے چوہوں کے مقابلے میں نہایت ناقص ثابت ہوئی۔“ محقق گورڈن ونکر کہتا ہے: ”مرغن غذائیں عملاً ہر قسم کی کارکردگی کو ناقص بنا دیتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جانور اتنے بےعقل کیوں ہوتے ہیں۔“ رپورٹ کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ ”چربی خون میں شکر کی مقدار کی جانچ کرنے والی انسولین کے عمل میں مداخلت کرتی ہے اور دماغ کو گلوکوز حاصل کرنے سے محروم رکھتی ہے۔“
تعذیبی آلات کی فروخت
جرمن اخبار زڈویسٹ پریسی کا ایک مضمون بیان کرتا ہے کہ ”تعذیبی آلات کی تجارت میں دنبدن اضافہ ہو رہا ہے۔“ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، دُنیابھر میں ۱۵۰ کمپنیاں سرِعام اس ہولناک تجارت میں ملوث ہیں جن میں سے ۳۰ جرمنی سے اور ۹۷ ریاستہائےمتحدہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُنکی اشیائےتجارت میں نہ صرف ٹانگوں کو جکڑنے والی زنجیریں اور دندانےدار ہتھکڑیاں بلکہ ہائی وولٹیج الیکٹرک شاک دینے والے آلات بھی شامل ہیں۔ ریاستہائےمتحدہ کی ایک کمپنی کی بابت کہا گیا کہ وہ ریموٹکنٹرول بیلٹیں بھی بیچتی ہے جو اذیت کا نشانہ بننے والے شخص کے جسم کو ۰۰۰،۵۰ وولٹ بجلی کے جھٹکے دیتی ہیں۔ تعذیبی لوگ ایسے اعلیٰ تکنیکی آلات کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ متاثرین کے جسموں پر کسی قسم کے نشان نہیں چھوڑتے۔
برف میں مکڑے
اخبار دی ایشین ایج بیان کرتا ہے کہ سرطان عنکبوت پر تحقیق کرنے والے مینز یونیورسٹی کے جرمن محقق پیٹر یاگر نے ”۵۰ نئی انواع کا سراغ لگایا ہے جو ۸۰۰،۳ میٹر کی بلندی پر ہمالیہ کی برف میں پھلتیپھولتی ہیں۔ اگرچہ اُنکا سائز چار سینٹیمیٹر [۶.۱ انچ] ہوتا ہے توبھی انسانوں کو اِن بڑے سرطان عنکبوت سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا۔“ یہ چٹانوں کی دراڑوں یا درختوں کی چھال کے نیچے چھپے رہتے ہیں اور کیڑےمکوڑے کھاتے ہیں جنہیں وہ اپنی سننے کی تیز حس کی بدولت جلدی تلاش کر لیتے ہیں۔ تاہم، یہ مکڑے موسمِسرما میں منجمد کیوں نہیں ہوتے؟ یاگر کا کہنا ہے کہ گرم موسموں میں رہنے والے دیگر مکڑوں کے برعکس، ہمالیہ کی اقسام ”حیاتیاتی مانعِمنجمد“ سے لیس ہوتی ہیں۔ ”اُن کے جسموں میں موجود سیال مادے میں الکحل کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور اسکی بدولت وہ نقطۂانجماد سے بھی کم درجۂحرارت میں زندہ رہتے ہیں۔“
سونگھنے سے بیماریوں کو پہچاننا
جرمن سائنس میگزین نیچر اینڈ کاسموس بیان کرتا ہے کہ ”سنفنگ ٹیسٹ پارکنسن (رعشہ) یا الزیمر جیسی اعصابی بیماریوں کی ابتدائی تشخیص میں معاون ہو سکتا ہے۔“ پارکنسن کے ابتدائی مراحل میں قوتِشامہ میں کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہ اس کی انتہائی عام علامات میں سے ایک ہے۔ پروفیسر گرٹ کوبل کی بدولت اب مریض کی قوتِشامہ میں کمی کا اندازہ لگانے کیلئے ایک عملی طریقہ دریافت ہو گیا ہے۔ پارکنسن کی دیگر علامات جیسے کہ کپکپی، عضلات کا سخت ہو جانا بہت بعد میں ظاہر ہوتی ہیں لیکن قوتِشامہ میں کمی کافی مہینے یا کئی سال پہلے پہچانی جا سکتی ہے جس کیلئے ہمیں نئے دریافتشُدہ سنفنگ ٹیسٹ کا مشکور ہونا چاہئے۔ اس کی مدد سے تاحال اس ناقابلِعلاج مرض کو ابتدائی مراحل ہی میں دریافت کرنا اور اسکی بڑھنے کی رفتار کو کم کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
کھانے کا ضیاع
جاپان کا مائنچی ڈیلی نیوز بیان کرتا ہے کہ ”شادی کی تقریبات اور دیگر ضیافتوں پر بہت زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔“ ضائع کئے جانے والے کھانے کی بابت حکومت کے ایک سروے نے آشکارا کِیا کہ خاندان اپنی خوراک کا اوسطاً ۷.۷ فیصد، خردہفروش ۱.۱ فیصد اور ریسٹورانٹ ۱.۵ فیصد غیرتیارشُدہ کھانا ضائع کرتے ہیں۔ تاہم، اخبار مزید بیان کرتا ہے، ”بڑی بڑی بوفے ضیافتوں میں ۷.۱۵ فیصد کھانا پھینک دیا جاتا ہے“ اور شادی کی ضیافتوں کیلئے تیارکردہ کھانے کا تقریباً ۲۴ فیصد ”یا تو بچ جاتا ہے یا پھینک دیا جاتا ہے۔“ صرف خوراک پیدا کرنے والوں کے ہاں ”کھانا ضائع نہیں ہوتا۔“