مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏شاید وہ اِس بار بدل جائے“‏

‏”‏شاید وہ اِس بار بدل جائے“‏

‏”‏شاید وہ اِس بار بدل جائے“‏

چار بچوں کی ماں رخسانہ * ایک ہنس‌مکھ اور خوبصورت خاتون ہے جسکی شادی جنوبی امریکہ کے ایک مشہور سرجن سے ہوئی ہے۔‏ رخسانہ کہتی ہے کہ ”‏میرا شوہر عورتوں کا بڑا رسیا ہے اور آدمیوں میں کافی مقبول ہے۔‏“‏ مگر رخسانہ کے شوہر کا ایک دوسرا روپ بھی ہے،‏ جس سے اُس کے قریبی دوست بھی واقف نہیں ہیں۔‏ وہ کہتی ہے،‏ ”‏گھر میں وہ وحشتناک اور انتہائی شکی‌مزاج انسان ہے۔‏“‏

اپنی داستان سناتے وقت رخسانہ کے چہرے سے پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔‏ ”‏مسئلہ ہماری شادی کے چند ہفتے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔‏ میرے بھائی اور والدہ ہمیں ملنے کیلئے آئے،‏ اُنکے ساتھ ہنسی‌مذاق اور بات‌چیت میں میرا وقت کافی اچھا گزرا۔‏ مگر اُنکے جانے کے بعد میرے شوہر نے بڑے غصے سے مجھے اُٹھا کر صوفے پر پٹک دیا۔‏ مَیں سمجھ ہی نہ سکی کہ یہ کیا ہو رہا تھا۔‏“‏

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ تو رخسانہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کا محض آغاز ہی تھا کیونکہ اِن تمام سالوں کے دوران وہ مسلسل تشدد کا نشانہ بنتی رہی ہے۔‏ جسمانی اور لفظی بدسلوکی روز کا معمول بن چکی تھی۔‏ رخسانہ کا شوہر اُسے زدوکوب کرنے کے بعد باربار معافی مانگتے ہوئے وعدہ کرتا ہے کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریگا۔‏ کچھ عرصہ کیلئے اُسکے رویے میں تبدیلی آ جاتی ہے لیکن اچانک ہی یہ مظالم دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں۔‏ ”‏مَیں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ شاید وہ اِس بار بدل جائے،‏“‏ رخسانہ کہتی ہے۔‏ ”‏اِسی لئے جب مَیں تنگ آ کر گھر سے بھاگ جاتی ہوں تو پھر اُسی کے پاس واپس لوٹ آتی ہوں۔‏“‏

رخسانہ کو خدشہ ہے کہ کسی نہ کسی دن اُس کے شوہر کا تشدد ساری حدیں پار کر جائے گا۔‏ ”‏اُس نے مجھے،‏ بچوں اور اپنے آپ کو بھی ختم کرنے کی دھمکی دی ہے،‏“‏ رخسانہ بیان کرتی ہے۔‏ ”‏ایک مرتبہ تو اُس نے میرے گلے پر قینچی رکھ دی۔‏ ایک دوسرے موقع پر اُس نے میری کنپٹی پر بندوق رکھ کر لبلبی دبا دی۔‏ خوف کے مارے میری تو جان ہی نکل گئی!‏ مگر اتفاق سے اُس میں کوئی گولی نہیں تھی۔‏“‏

خاموشی کا ترکہ

پوری دُنیا میں،‏ رخسانہ کی طرح لاکھوں خواتین مردوں کے ظلم‌وستم کا نشانہ بن رہی ہیں۔‏ * اُن میں سے بیشتر اس ظلم کے خلاف آواز تک نہیں اُٹھاتیں۔‏ اُنکا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں رپورٹ درج کرانا بیکار ہے۔‏ بیشتر صورتوں میں بدسلوکی کرنے والا شوہر یہ کہتے ہوئے اپنے اُوپر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کر دیتا ہے،‏ ”‏میری بیوی تو جلد غصے میں آ جاتی ہے“‏ یا ”‏یہ ہمیشہ بات کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتی ہے۔‏“‏

یہ بڑے دُکھ کی بات ہے کہ خواتین اپنے ہی گھر میں—‏جہاں اُنہیں سب سے زیادہ تحفظ حاصل ہونا چاہئے—‏ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہیں۔‏ تاہم،‏ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر ظلم سہنے والوں کی بجائے ظلم ڈھانے والوں کیلئے ہمدردی دکھائی جاتی ہے۔‏ سچ تو یہ ہے کہ بعض کیلئے یہ سمجھنا ہی بہت مشکل ہوتا ہے کہ ایک معزز شہری اپنے ساتھی پر کیسے ظلم‌وستم کر سکتا ہے۔‏ انیتا نامی خاتون کیساتھ پیش آنے والے واقعات پر غور کریں جس نے بتایا کہ اُسکا اچھی شہرت رکھنے والا شوہر اُسکے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔‏ ”‏ہمارے ایک رشتہ‌دار نے کہا،‏ ’‏تم ایک شریف آدمی پر کیسی تہمت لگا رہی ہو؟‏‘‏ دوسرے نے کہا کہ تم نے اُسے ضرور غصہ دلایا ہوگا!‏ میرے شوہر کا اصلی روپ سامنے آنے کے باوجود،‏ میری بعض سہیلیوں نے مجھ سے کنی‌کترانی شروع دی۔‏ اُن کا کہنا تھا کہ مجھے برداشت کرنا چاہئے تھا کیونکہ ’‏آدمی تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔‏‘‏“‏

جیساکہ انیتا کا تجربہ ظاہر کرتا ہے،‏ زیادہ‌تر لوگوں کیلئے بیاہتا ساتھی کی طرف سے بدسلوکی کی حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے۔‏ کیا چیز ایک مرد کو اُس عورت پر ظلم کرنے کی تحریک دیتی ہے جس سے وہ محبت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے؟‏ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔‏

^ پیراگراف 7 ہم مانتے ہیں کہ بہتیرے مرد بھی تشدد کا شکار ہیں۔‏ مگر تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ عورتوں کو زیادہ سنگین نوعیت کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‏ لہٰذا یہ مضامین ایسی بدسلوکی پر گفتگو کرتے ہیں جسکا شکار خواتین ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر بکس/‏تصویر]‏

گھریلو تشدد کی وسعت

خواتین پر کئے جانے والے تشدد کے خاتمے کے سلسلے میں اقوامِ‌متحدہ کے اعلامیہ کے مطابق،‏ ”‏خواتین کے خلاف تشدد“‏ کے اظہار کو ”‏جنس پر مبنی تشدد کے کسی کام کا نام دیا جا سکتا ہے جو کہ عورتوں کو جسمانی،‏ جنسی،‏ دماغی نقصان پہنچانے پر منتج ہوتا یا ہو سکتا ہے،‏ اس میں عام یا نجی زندگی میں واقع ہونے والے ایسے کاموں کی دھمکیاں،‏ جبراً یا زبردستی آزادی سے محروم رکھنا شامل ہو سکتا ہے۔‏“‏ دیگر باتوں کیساتھ ساتھ ایسے تشدد میں ”‏خاندان کے اندر اور باہر رونما ہونے والا جسمانی،‏ جنسی اور نفسیاتی تشدد،‏ مارپیٹ،‏ لڑکیوں کیساتھ جنسی بدسلوکی،‏ جہیز سے متعلق تشدد،‏ زنابالجبر،‏ زنانہ اعضائے مخصوصہ کی بیونت اور دیگر ایسے روایتی کام شامل ہیں جو خواتین کیلئے نقصاندہ ہیں۔‏“‏