مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مرد خواتین پر تشدد کیوں کرتے ہیں؟‏

مرد خواتین پر تشدد کیوں کرتے ہیں؟‏

مرد خواتین پر تشدد کیوں کرتے ہیں؟‏

بعض ماہرین کے مطابق خواتین جرائم‌پیشہ اشخاص کی بجائے اپنے بیاہتا ساتھیوں کے ہاتھوں زیادہ قتل ہوتی ہیں۔‏ بیاہتا ساتھی کی طرف سے بدسلوکی کے میلان کو ختم کرنے کی کوشش میں بیشمار طریقے آزمائے گئے ہیں۔‏ کس قسم کا مرد اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے؟‏ اُسکا بچپن کیسا تھا؟‏ کیا وہ کورٹ‌شپ کے دوران متشدّد واقع ہوا تھا؟‏ مارپیٹ کرنے والا شخص اپنے علاج کیلئے کیسا ردِعمل دکھاتا ہے؟‏

ماہرین ایک بات سمجھ پائے ہیں کہ مارپیٹ کرنے والے تمام مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔‏ ایک طرف تو ایسا شخص ہے جو کبھی‌کبھار تشدد کرتا ہے۔‏ وہ کوئی ہتھیار استعمال نہیں کرتا اور اپنے ساتھی کیساتھ بدسلوکی کرنے والے کے طور پر مشہور بھی نہیں ہوتا۔‏ وہ اکثر قہرآلودہ نہیں ہوتا اور یوں لگتا ہے کہ کچھ بیرونی عناصر اُسے ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‏ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس نے مارپیٹ کرنا اپنا شعار بنا رکھا ہے۔‏ وہ تشدد کا سلسلہ جاری رکھتا اور اپنے کئے پر بالکل پشیمان نہیں ہوتا ہے۔‏

تاہم تشدد کرنے والوں کی مختلف اقسام کا یہ مطلب نہیں کہ تشدد کی بعض اقسام زیادہ سنگین نہیں ہیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا تشدد—‏نقصان پہنچا سکتا ہے—‏حتیٰ‌کہ اِس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‏ لہٰذا،‏ یہ حقیقت کہ فلاں شخص زیادہ تشدد کرتا ہے جبکہ دوسرا کبھی‌کبھار یا کم تشدد کرتا ہے اس فعل کو قابلِ‌معافی نہیں بنا دیتی۔‏ ‏”‏قابلِ‌قبول“‏ تشدد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ کونسے عناصر ایک شخص کے اُس عورت پر تشدد کرنے کا سبب بن سکتے ہیں جسے اُس نے اپنی ساری زندگی پیار کرنے کا عہد کِیا تھا؟‏

خاندانی اثرورسوخ

یہ حیران‌کُن بات نہیں کہ کئی تشددپسند مردوں نے ایسے خاندانوں میں پرورش پائی ہے جہاں تشدد کرنا روزمرّہ کا معمول تھا۔‏ تقریباً دو عشروں سے بیاہتا ساتھیوں کیساتھ بدسلوکی پر تحقیق کرنے والے مائیکل گرویچ نے لکھا:‏ ”‏تشدد کرنے والے بیشتر مردوں نے ایسے خاندانوں میں پرورش پائی تھی جنہیں ’‏میدانِ‌جنگ‘‏ کہنا غلط نہیں ہوگا۔‏ اُنہوں نے کمسن اور نوعمر بچوں کے طور پر ایسے ناخوشگوار ماحول میں پرورش پائی جہاں جذباتی اور جسمانی تشدد ’‏روز کا معمول‘‏ تھا۔‏“‏ ایک محقق کے مطابق،‏ ایسے ماحول میں پرورش پانے والا مرد ”‏اپنی عمر کے اوائل ہی میں اپنے باپ کیطرح عورتوں سے نفرت کرنا سیکھ جاتا ہے۔‏ عام طور پر لڑکا یہ سیکھتا ہے کہ عورتوں کو ہمیشہ مردوں کے قابو میں ہونا چاہئے چنانچہ اُنہیں ڈرانا،‏ انہیں دُکھ دینا اور اُنکی تذلیل کرنا انہیں قابو میں رکھنے کیلئے ضروری ہے۔‏ اس کیساتھ ساتھ وہ یہ بھی سیکھتا ہے کہ اپنے باپ کا منظورِنظر بننے کا واحد طریقہ اپنے باپ کیطرح کا رویہ ظاہر کرنا ہے۔‏“‏

بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ والدین کا چال‌چلن خواہ اچھا ہے یا بُرا بچے کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۲:‏۶؛‏ کلسیوں ۳:‏۲۱‏)‏ بیشک،‏ خاندان کے ماحول کو مرد کی طرف سے تشدد کا جواز نہیں بنایا جا سکتا تاہم اس سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ پُرتشدد مزاج کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔‏

سماجی اثرورسوخ

بعض ممالک میں عورت پر تشدد کرنا عام حتیٰ‌کہ قابلِ‌قبول خیال کِیا جاتا ہے۔‏ ”‏کئی معاشروں میں یہ تسلیم کِیا جاتا ہے کہ شوہر کو اپنی بیوی پر جسمانی تشدد کرنے یا اُسے خوفزدہ کرنے کا حق حاصل ہے،‏“‏ اقوامِ‌متحدہ کی ایک رپورٹ بیان کرتی ہے۔‏

اُن ممالک میں بھی جہاں ایسی بدسلوکی قابلِ‌قبول نہیں وہاں کئی اشخاص پُرتشدد طورطریقوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں بعض مردوں کی نامعقول سوچ حیران‌کُن ہے۔‏ جنوبی افریقہ کے ویکلی میل اینڈ گارڈین کے مطابق،‏ کیپ‌ٹاؤن جزیرے کے ایک سروے نے آشکارا کِیا کہ اپنی بیویوں کیساتھ بدسلوکی نہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے مردوں کی بڑی تعداد بھی یہ محسوس کرتی ہے کہ عورت کو زدوکوب کرنا معقول ہے اور یہ کہ ایسا رویہ تشدد کی غمازی نہیں کرتا ہے۔‏

بدیہی طور پر،‏ ایسا غلط نظریہ اکثر بچپن ہی میں جڑ پکڑتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ برطانیہ میں ایک سروے نے آشکارا کِیا کہ ۱۱ اور ۱۲ سال کی عمر کے ۷۵ فیصد لڑکے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر آدمی کو اشتعال دلایا جاتا ہے تو اس صورت میں اُس کا عورت کو زدوکوب کرنا معقول ہے۔‏

مارپیٹ کا کوئی جواز نہیں

مذکورہ‌بالا عناصر بیاہتا ساتھی کے ساتھ بدسلوکی کی وضاحت کرنے میں معاون تو ہو سکتے ہیں مگر یہ اسکی توجیہ نہیں کرتے۔‏ سادہ الفاظ میں،‏ اپنے ساتھی کو مارناپیٹنا خدا کی نظر میں سنگین گناہ ہے۔‏ خدا کے کلام بائبل میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔‏ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔‏ کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دشمنی نہیں کی بلکہ اسکو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کو۔‏“‏—‏افسیوں ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

بائبل نے بہت پہلے ہی پیشینگوئی کر دی تھی کہ اس نظام‌اُلعمل کے ”‏اخیر زمانہ“‏ میں لوگ ”‏بدسلوکی کرنے والے“‏ ہونگے جو ”‏طبعی محبت سے خالی۔‏ سنگدل۔‏ .‏ .‏ .‏ تُندمزاج“‏ ہوں گے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۳‏،‏ دی نیو انگلش بائبل‏)‏ بیاہتا ساتھی کیساتھ بدسلوکی کا رواج اس بات کا ایک اَور ثبوت ہے کہ ہم عین اس پیشینگوئی کے زمانہ میں رہ رہے ہیں۔‏ تاہم جسمانی بدسلوکی کا نشانہ بننے والے لوگوں کی مدد کرنے کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏ کیا اس بات کی کوئی اُمید ہے کہ ظلم‌وستم کرنے والے اپنے رویے میں تبدیلی لا سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۵ پر عبارت]‏

‏”‏اپنی بیوی پر تشدد کرنے والا اور کسی اجنبی کو گھونسا مارنے والا دونوں برابر کے مجرم ہیں۔‏“‏—‏جب مرد خواتین پر تشدد کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

مردانگی دکھانا ایک عالمگیر مسئلہ

انگریزی بولنے والے لوگوں نے لفظ ”‏ماچزمو“‏ (‏مردانگی دکھانا)‏ لاطینی امریکہ سے مستعار لیا ہے۔‏ یہ مردوں کے جارحانہ تکبّر اور خواتین کے ساتھ اُن کے توہین‌آمیز سلوک کی نشاندہی کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ درج‌ذیل رپورٹ کی روشنی میں ماچزمو محض لاطینی امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے۔‏

مصر:‏ سکندریہ میں تین ماہ کے سروے نے ظاہر کِیا کہ خواتین کو لگنے والی چوٹوں کی بنیادی وجہ گھریلو تشدد ہی ہے۔‏ زخمیوں کیلئے تعمیرکردہ مقامی سہولیات میں آنے والی ۹.‏۲۷ فیصد خواتین کے آنے کی وجہ یہی ہوتی ہے۔‏—‏ریزیومے 5 آف دی فورتھ ورلڈ کانفرنس آن ویمن۔‏

تھائی‌لینڈ:‏ بنکاک کے سب سے بڑے قصبے کے مضافات میں،‏ ۵۰ فیصد خواتین مسلسل تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔‏—‏پیسی‌فک انسٹیٹیوٹ فار ویمنز ہیلتھ۔‏

ہانگ‌کانگ:‏ ‏”‏اپنے ساتھیوں کے تشدد کا نشانہ بننے کی دعویدار خواتین کی تعداد میں گزشتہ سال کے دوران ۴۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔‏“‏—‏ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ،‏ جولائی ۲۱،‏ ۲۰۰۰۔‏

جاپان:‏ تحفظ حاصل کرنے کی خواہاں خواتین کی تعداد ۱۹۹۵ میں ۸۴۳،‏۴ سے بڑھ کر ۱۹۹۸ میں ۳۴۰،‏۶ ہو گئی ہے۔‏ ”‏اِن میں سے تقریباً ایک تہائی نے کہا کہ وہ اپنے شوہروں کے متشدّد رویے سے تحفظ چاہتی ہیں۔‏“‏—‏دی جاپان ٹائمز،‏ ستمبر ۱۰،‏ ۲۰۰۰۔‏

برطانیہ:‏ ‏”‏برطانیہ میں ہر چھ سیکنڈ میں کسی نہ کسی گھر کے اندر زنابالجبر،‏ مارپیٹ یا گھائل کرنے کی وارداتیں رونما ہوتی ہیں۔‏“‏ لندن کے پولیس ہیڈکوارٹرز کی رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏پولیس کو خانگی تشدد کا نشانہ بننے والوں کی طرف سے ہر روز ۳۰۰،‏۱ پیغام اور سال میں ۰۰۰،‏۷۰،‏۵ پیغام وصول ہوتے ہیں۔‏ اکاسی فیصد خواتین مردوں کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔‏“‏—‏دی ٹائمز،‏ اکتوبر ۲۵،‏ ۲۰۰۰۔‏

پیرو:‏ پولیس میں درج کرائی جانے والی جرائم کی رپورٹوں میں سے ستر فیصد رپورٹیں شوہروں کی مارپیٹ کا نشانہ بننے والی خواتین کی طرف سے ہوتی ہیں۔‏—‏پیسی‌فک انسٹیٹیوٹ فار ویمنز ہیلتھ۔‏

روس:‏ ‏”‏ایک سال میں،‏ ۵۰۰،‏۱۴ روسی خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوئیں،‏ مزید ۴۰۰،‏۵۶ گھریلو جھگڑوں میں معذور یا شدید زخمی ہوئیں۔‏“‏—‏دی گارڈین۔‏

چین:‏ ‏”‏یہ ایک نیا مسئلہ ہے۔‏ بالخصوص شہری علاقوں کے اندر اس میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے،‏“‏ جنگلن فیملی سینٹر کا ڈائریکٹر پروفیسر چن یون بیان کرتا ہے۔‏ ”‏آس‌پڑوس کا اثرورسوخ بھی اب گھریلو تشدد کو روکنے میں ناکام ہو گیا ہے۔‏“‏—‏دی گارڈین۔‏

نکاراگوا:‏ ‏”‏نکاراگوا میں خواتین پر تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ ایک سروے نے بیان کِیا کہ صرف گزشتہ سال کے اندر نکاراگوا کی ۵۲ فیصد خواتین اپنے مردوں کے ہاتھوں کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا نشانہ بنی تھیں۔‏“‏—‏بی‌بی‌سی نیوز۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس]‏

خطرے کی علامات

جزیرۂرھوڈ یو.‏ایس.‏اے.‏ کی یونیورسٹی میں رچرڈ جے.‏ جلز کی زیرِنگرانی منعقد ہونے والے ایک سروے کے مطابق،‏ ذیل میں درج خطرے کی علامات گھروں کے اندر جسمانی اور جذباتی زیادتی کی نشاندہی کرتی ہیں:‏

۱.‏ آدمی پہلے بھی خانگی تشدد کرتا رہا ہے۔‏

۲.‏ وہ بیروزگار ہے۔‏

۳.‏ وہ کم‌وبیش سال میں ایک مرتبہ منشیات استعمال کرتا ہے۔‏

۴.‏ اُس نے گھر میں اپنی والدہ کو اپنے والد کے ہاتھوں زدوکوب ہوتے دیکھا ہے۔‏

۵.‏ ایک جوڑا شادی کئے بغیر اکٹھے رہتا ہے۔‏

۶.‏ اگر اس کی نوکری ہے تو تنخواہ بہت کم ہے۔‏

۷.‏ اُس کی تعلیم کافی نہیں ہے۔‏

۸.‏ اُس کی عمر ۱۸ سے ۳۰ سال کے درمیان ہے۔‏

۹.‏ والدین میں سے ایک یا دونوں گھر میں بچوں پر تشدد کرتے ہیں۔‏

۱۰.‏ آمدنی خطِ‌افلاس سے نیچے ہے۔‏

۱۱.‏ مرد اور عورت مختلف سماجی پس‌منظر رکھتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

گھریلو تشدد بچوں پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے