مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

میٹاٹو—‏کینیا کی انوکھی سواری

میٹاٹو—‏کینیا کی انوکھی سواری

میٹاٹو‏—‏کینیا کی انوکھی سواری

کینیا سے جاگو!‏ کا رائٹر

کینیا کی سیاحت کرنے والے شخص کے پاس اپنے سفرنامے سے متعلق بیشمار دلچسپ واقعات ہوتے ہیں۔‏ سردار ہتھنی،‏ شیر بادشاہ،‏ سرخی‌مائل غروبِ‌آفتاب کے محاکاتی منظر کو بھلایا نہیں جا سکتا۔‏ یہاں ہر قسم کی خوبصورتی پائی جاتی ہے۔‏ تاہم علاقے کی کئی سڑکوں پر ایک اَور قسم کی دلکشی—‏رنگ‌برنگے میٹاٹو—‏بھی نظر آتی ہے۔‏ یہ نام ایک عوامی سواری کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے دلچسپ خصوصیات کی بدولت کینیا میں انتہائی مقبول ذرائع آمدورفت کا درجہ حاصل ہے۔‏

جتنا میٹاٹو کا آغاز دلچسپ ہے اُتنی ہی اس کی بناوٹ بھی دلچسپ ہے۔‏ اسکا پہلا ماڈل فورڈ تھیمز کی خستہ‌حال گاڑی تھی جو کہ ایتھیوپیا میں دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی فوجیوں کے استعمال میں آنے والے ٹرک کی یادگار تھی۔‏ سن ۱۹۶۰ کے اوائل میں،‏ نیروبی کے ایک مکین نے اپنے بعض ساتھیوں کو شہر پہنچانے کیلئے اس پُرانی گاڑی کو استعمال کِیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اُسے ایندھن کیلئے صرف ۳۰ سینٹ دے دیا کریں۔‏ * جلد ہی دوسروں نے بھی اس بات پر غور کِیا کہ اِن پُرانی گاڑیوں سے کیسے کمائی کی جا سکتی ہے۔‏ لہٰذا بہت سی گاڑیوں کو ۲۱ سواریوں والے کیرئر بنا دیا گیا جس میں بیٹھنے کیلئے لکڑی کے تین بینچ تھے۔‏ یہ نقشہ بالکل نائیجیریا کے پُرانے بولیکاجاز کا ہے۔‏ ہر شخص فی پھیرا ۱۰ سینٹ ادا کرتا تھا۔‏ اس سے شاید آپ سمجھ جائیں کہ اس سواری کا نام میٹاٹو‏—‏سواحلی لفظ ٹاٹو سے لیا گیا ہے—‏جس کا مطلب ”‏تین“‏ ہے۔‏ اُس وقت سے لیکر میٹاٹو کی ساخت یکسر بدل گئی ہے کیونکہ اب نئے ماڈلز اپنے پُرانے فرسودہ ماڈلز سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے۔‏ جی‌ہاں،‏ آج کا میٹاٹو ایک بھڑکیلی سواری ہے جسے کینیا کا ایک ڈیلی اخبار ”‏جہازنما اور قوسِ‌قزح کے رنگوں والا پروجیک‌ٹائل“‏ کہتا ہے۔‏ یہ ۶۰ کے دہے کی گھریلو صنعت کی پیداوار نہیں ہے!‏

میٹاٹو میں سفر ایک خوشگوار تجربہ ہو سکتا ہے،‏ بالخصوص اُسوقت جب ڈرائیور شہر میں بہت زیادہ ٹریفک میں سے اپنا راستہ بناتا ہے!‏ آئیے میٹاٹو میں بیٹھ کر نیروبی کا مختصر سا چکر لگائیں اور اس خوشگوار تجربے سے لطف‌اندوز ہوں۔‏

ایک دلکش سواری میں سفر

ہمارے سفر کا آغاز اِن گاڑیوں کے اڈے سے ہوتا ہے جہاں وہ مختلف سمت میں روانہ ہونے کے لئے تیار کھڑی ہیں۔‏ دوپہر کا ایک بجا ہے اور علاقے میں بڑا رش ہے کیونکہ ہر شخص اُس میٹاٹو کی تلاش میں ہے جو اُسے اُسکی منزل تک پہنچائے گی۔‏ بعض مسافر دُوردَراز کا سفر کر رہے ہیں جس میں کئی گھنٹے لگ جائیں گے۔‏ دیگر شاید کھانا کھانے کے لئے شہر کے مرکز سے چند کلومیٹر دُور جا رہے ہیں۔‏ ان سب کے لئے میٹاٹو نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔‏

کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ اِن میں سے بیشتر گاڑیوں کے رنگ بہت شوخ ہیں؟‏ مسافر بھی بڑے رنگین‌مزاج ہیں جو سب سے دلکش نظر آنے والی میٹاٹو میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔‏ گاڑیوں کا قریبی جائزہ لینے سے اسکی اطراف میں مختلف نام تحریر نظر آتے ہیں۔‏ اِن میں سے بعض تازہ‌ترین واقعات کی عکاسی کرتے ہیں،‏ مثلاً،‏ ”‏ایل نینو،‏“‏ ”‏ملینیئم،‏“‏ ”‏دی ویب‌سائٹ،‏“‏ ”‏انٹرنیٹ،‏“‏ اور ”‏ڈاٹ کام۔‏“‏ دیگر پر ”‏حلیم“‏ اور ”‏مشنری“‏ جیسے الفاظ پسندیدہ انسانی اوصاف یا کارِنمایاں کو ظاہر کرتے ہیں۔‏ میٹاٹوز کی اس خوش‌رنگ وضع‌قطع کا سب سے بڑا دُشمن فلپائن کی بس (‏جیپ‌نی)‏ ہے۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ یہ جیپ‌نی بھی دوسری عالمی جنگ کی ضمنی پیداوار ہے۔‏

مسافروں کے اصراروتکرار کا منظر بھی قابلِ‌دید ہوتا ہے۔‏ گاڑی کے ونڈشیلڈ پر لکھے روٹ کے باوجود،‏ کنڈکٹر زور زور سے آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں جبکہ ڈرائیور ہارن بجا رہے ہوتے ہیں۔‏ بعض میٹاٹوز پر ”‏یروشلیم“‏ یا ”‏یریحو“‏ لکھا دیکھ کر حیران نہ ہوں۔‏ اگر آپ اِن میں سے کسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو آپ مشرقِ‌وسطیٰ تو نہیں البتہ اِن بائبلی ناموں سے منسوب نیروبی کے مشرقی مضافات میں پہنچ جائینگے۔‏ ہر میٹاٹو کا کنڈکٹر مسافروں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے لہٰذا اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اُنہیں صحیح گاڑی کا انتخاب کرنے میں کافی دُشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے!‏

ہم آپکو سٹرابری میں خوش‌آمدید کہتے ہیں!‏ شاید یہ سفر اس پھل کی مانند خوشگوار ثابت ہو۔‏ ایسا لگتا ہے کہ بیشتر لوگ اس خاص میٹاٹو کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ جلدی بھر جاتی ہے۔‏ چھت سے لٹکتے چھوٹے چھوٹے سپیکروں سے آنے والی مدھم موسیقی مسافروں کے کانوں کو بھاتی ہے۔‏ لیکن تمام میٹاٹوز کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔‏ بعض نشستوں کے نیچے بڑے بڑے سپیکر لگے ہیں جن سے آنے والی موسیقی کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہوتی ہے۔‏ تمام نشستوں پر مسافروں کو بیٹھے ہوئے دس منٹ ہو چکے ہیں۔‏ اسکے باوجود،‏ ہماری میٹاٹو ابھی تک ایک انچ بھی نہیں سرکی۔‏ تاخیر کیوں؟‏ ابھی تو نشستوں کے درمیان وقفے میں مسافروں نے کھڑا ہونا ہے۔‏ جلد ہی اتنے مسافر بھر جاتے ہیں کہ اِدھراُدھر مڑنے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔‏ سچ تو یہ ہے کہ اَور زیادہ سواریاں بٹھانے کیلئے غالباً میٹاٹو راستے میں کئی بار رکے گی۔‏

بالآخر ہمارے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔‏ ایک دوسرے سے بالکل ناآشنا لوگ روزمرّہ کے موضوعات پر پُرجوش گفتگو کرنے لگتے ہیں۔‏ ایسا لگتا ہے کہ یہ گاڑی نہیں کوئی بازار ہے۔‏ تاہم،‏ گفتگو میں زیادہ دلچسپی نہ لیں کیونکہ گرماگرم بحث میں اُلجھ کر بعض اپنے سٹاپ سے آگے نکل جاتے ہیں۔‏

ہم نے ذکر کِیا تھا کہ میٹاٹو ایک ہی روٹ پر نہیں چلتی بلکہ یہ اپنا روٹ بدلتی رہتی ہے۔‏ اپنے مقررہ وقت پر پہنچنے کی غرض سے ڈرائیور راہ‌گیروں پر بھی گاڑی چڑھا دیتا ہے اور بعض‌اوقات تو لوگ مشکل سے خود کو بچاتے ہیں۔‏ اس دوران کنڈکٹر کا کام بھی کچھ آسان نہیں ہوتا۔‏ وہ شوروغل میں مصروف سواریوں سے کرایہ وصول کرنے کی کوشش کر رہا ہے جن میں سے بیشتر زیادہ تعاون نہیں کرتے۔‏ تاہم وہ چھوٹی‌موٹی جھڑپوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔‏ مسافر یا تو کرایہ ادا کر دیتا ہے یا پھر میٹاٹو کو فوراً روک کر اُسے گاڑی سے اُتر جانے کیلئے کہا جاتا ہے اور بعض‌اوقات تو نہایت سختی کیساتھ ایسا کِیا جاتا ہے!‏ کنڈکٹر ڈرائیور کو اُترنے والوں کی بابت مطلع کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مزید نئی سواریاں چڑھانے کی تلاش میں رہتا ہے۔‏ وہ سیٹی بجا کر،‏ چھت پر زور سے ہاتھ مار کر یا دروازے کے نزدیک لگی گھنٹی بجا کر ڈرائیور کو اشارہ دیتا ہے۔‏ اگرچہ تمام پبلک گاڑیوں کے مخصوص سٹاپ ہوتے ہیں تاہم،‏ میٹاٹو مسافروں کو اُتارنے اور چڑھانے کیلئے کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ رُک سکتی ہے۔‏

شہر کے مرکز سے روانہ ہونے کے بعد اب ہم ایک چھوٹے سے نواحی علاقے میں ہیں جہاں مسافروں کی بڑی تعداد اُتر رہی ہے۔‏ اب میٹاٹو کی واپسی کا وقت ہو گیا ہے۔‏ اب اسے راستے میں زیادہ لوگ ملیں گے۔‏ اُنہیں بھی ہم جیسا تجربہ ہوگا۔‏ بِلاشُبہ،‏ ناہموار سڑک کے باوجود سٹرابری میں ہمارا سفر انتہائی خوشگوار تھا۔‏

صدا قائم‌ودائم

اوسطاً ۰۰۰،‏۳۰ گاڑیوں کیساتھ کینیا میں ٹرانسپورٹ کی انڈسٹری نے جنگ کی باقیات کو میٹاٹو میں تبدیل کر کے اِن عشروں کے دوران اسے بڑی بھاری تجارت بنا دیا ہے۔‏ تاہم،‏ اس کی مختلف بناوٹ نے چند مسائل بھی پیدا کر دئے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ڈرائیوروں پر ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور اس صنعت کو کم کرنے کے لئے حکومت نے مختلف قوانین نافذ کئے ہیں۔‏ اس کے جواب میں کبھی‌کبھار اِن گاڑیوں نے ہڑتال کر کے روزانہ میٹاٹو میں سفر کرنے والے ہزاروں لوگوں کے لئے مشکل پیدا کی ہے۔‏ سب لوگ تو شاید میٹاٹو کی سواری کو پسند نہ کریں تاہم اِس علاقے کے کم آمدنی والے لوگوں کے لئے اِن گاڑیوں نے سبک‌رفتار سواری کا ایک متبادل انتظام کر دیا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 کینیا کے مالی نظام کی معیاری اکائی شیلنگ،‏ کینیا کے ۱۰۰ سینٹ میں تقسیم ہوتی ہے۔‏ ایک یو.‏ایس.‏ ڈالر تقریباً ۷۸ شیلنگ کے برابر ہوتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲،‏ ۲۳ پر تصویر]‏

ایک فورڈ تھیمز کا ماڈل

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Noor Khamis/The People Daily