ویانا کا ہردلعزیز آسمانی جھولا
ویانا کا ہردلعزیز آسمانی جھولا
آسٹریا سے جاگو! کا رائٹر
آپ پیشمنظر میں ویانا کا دلکش شہر پھیلا ہوا دیکھتے ہیں جبکہ ویانا کا ہرابھرا پہاڑی سلسلہ ذرا دُور نظر آتا ہے۔ اتنی عمدہ تصویرکشی کی گئی ہے کہ آپ فضا میں سٹارس والٹس کی متوازن دُھنیں سُن سکتے ہیں۔ ایک جوان شخص نے جانبوجھ کر اس مقام کا انتخاب کِیا ہے لیکن اب وہ اپنی محبوبہ کو پرپوز کرنے سے پہلے اپنے دل کی دھڑکن پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ زمین سے ۲۰۰ فٹ اُوپر ہیں۔ آپکو کیسا لگا؟ یقیناً ایسے خاص موقع پر وہ ویانا کے ہردلعزیز رائزنراڈ یا آسمانی جھولے میں بیٹھنے والا پہلا اور آخری شخص نہیں ہے۔
ویانا کے بڑے پارک پراٹر میں نصب یہ جھولا تقریباً ۱۰۰ سال سے زیادہ عرصہ سے اس خوبصورت شہر کا نشانِامتیاز ہے۔ اس کے مدخل پر دلکش اشتہار کہتا ہے، ’آپ اس جھولے میں بیٹھنے کے بعد ہی ویانا شہر کے دیکھنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔‘ تاہم دُنیا کے دیگر جھولوں کی نسبت زیادہ عرصہ سے موجود اس جھولے کو بیشمار مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ سٹیل کا یہ کالوسس کیسے وجود میں آیا؟ اس نے مختلف بحرانوں کا مقابلہ کیسے کِیا؟
سب سے پہلا جھولا
جھولے کی تاریخ جاننے کے لئے ہمیں ۱۹ ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے دَور میں جانا پڑے گا۔ اُس دَور میں سٹیل کو صنعتی تعمیرات میں ترجیح دی جانے لگی۔ دُنیا کے مختلف بڑے شہروں—لندن میں گلاس اینڈ کرسٹل پیلس، ویانا میں پام ہاؤس اور پیرس
میں ایفل ٹاور—جیسی سٹیل کی بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ تاہم، اس قسم کے فنِتعمیر کا سب سے قابلِدید شہر شکاگو تھا اور یہیں ۱۸۹۳ کے عالمی میلے کی تقریب میں، امریکی انجینیئر جارج فیرس نے پہلا جھولا تعمیر کِیا تھا۔فیرس کے حواسباختہ کر دینے والے اس جھولے کا قطر ۷۶ میٹر تھا اور اس کے ۳۶ خانے تھے جن میں سے ہر ایک میں ۴۰ مسافر بیٹھ کر ۲۰ منٹ تک شکاگو اور اس کے گردونواح کا پُرشکوہ نظارہ کر سکتے تھے۔ میلے میں آنے والے بیشتر سیاحوں کیلئے یہ جھولا یقیناً نہایت دلچسپ یادگار تھا۔ مگر جلد ہی شکاگو کا یہ فیرس جھولا اپنا انوکھاپن کھو بیٹھا اور دو مرتبہ اسکی منتقلی کے بعد ۱۹۰۶ میں اسے سکریپ کے طور پر مسمار کر دیا گیا۔ بہرصورت، جھولے کا نمونہ دوسری جگہ بننا شروع ہو چکا تھا۔
جھولے کی ویانا آمد
شکاگو کے عظیم جھولے کی بابت انجینیئر اور ریٹائرڈ برطانوی بحری افسر والٹر باسٹ کے اندر بظاہر ابھی تک بہت جوشوخروش تھا۔ سن ۱۸۹۴ میں اُس نے لندن میں ایرلز کورٹ میں جھولا نصب کرنے کیلئے ایک ڈیزائن تیار کِیا اور بعدازاں اُس نے بلیکپول انگلینڈ اور پیرس میں بھی جھولے نصب کئے۔ اسی دوران، ویانا کا ایک تفریحی مہمکار گیبر سٹینر ویانا کیلئے کسی نئی چیز کی جستجو میں لگا ہوا تھا۔ ایک دن والٹر باسٹ کے نمائندے نے سٹینر کو تجویز پیش کی کہ کیوں نہ وہ دونوں ملکر ویانا میں جھولا نصب کریں۔ جلد ہی دونوں اس بات پر متفق ہو گئے اور انگلینڈ سے آنے والی اس نئی ایجاد کیلئے مناسب جگہ کا تعیّن کر لیا۔ مگر تعمیر کی اجازت کی بابت کیا تھا؟
جب سٹینر نے اپنا تعمیراتی نقشہ منظوری کیلئے بلدیہ کو پیش کِیا تو ایک افسر نے نقشے کو دیکھنے کے بعد ایک نظر سٹینر پر ڈالی اور پھر نقشے کو دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے سر ہلا کر پوچھا: ”آپکے خیال میں کیا واقعی کوئی شخص آپکو اتنی بڑی چیز بنانے کی اجازت دے دیگا اور اسکی ذمہداری قبول کر لیگا؟“ سٹینر نے درخواست کی: ”مگر اسطرح کے جھولے لندن اور بلیکپول میں بھی ہیں اور وہ بڑے آرام سے چل رہے ہیں!“ تاہم اِن تمام دلائل سے افسر کو قائل نہ کِیا جا سکا۔ اُس نے کہا، ”انگریز سب کچھ کر سکتے ہیں مگر مَیں اسکا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔“ بالآخر سٹینر کی مسلسل کوشش کے نتیجے میں اُسے تعمیر کرنے کی اجازت مل گئی۔
سٹیل کے اتنے بڑے ڈھانچے کو نصب کرنا ہی بذاتِخود انتہائی سنسنیخیز تھا۔ متجسس تماشائی ہر روز تعمیر کی جگہ پر پہنچ جاتے اور اسکی تعمیروترقی کی بابت اپنی اپنی آراء کا اظہار کرتے۔ آٹھ ماہ میں یہ مکمل ہو گیا۔ جون ۲۱، ۱۸۹۷ کو ویانا میں انگریز سفیر کی اہلیہ لیڈی ہوریس رمبولڈ نے اس میں آخری کیل ٹھونکا۔ چند دنوں بعد جھولا چلنے لگا۔ جیسےکہ سٹینر بیان کرتا ہے: ”سب لوگ بہت خوش تھے اور ٹکٹ کے دفاتر میں لوگوں کا ہجوم قابلِدید تھا۔“
جھولے کے نشیبوفراز
آسٹریو ہنگری کا بادشاہ آرچڈیوک فرانسس فرینانڈ جھولے میں بیٹھ کر اُوپر سے سلطنت کے
داراُلحکومت کا جائزہ لینے سے محظوظ ہوا تھا۔ جون ۱۹۱۴ میں—پہلی عالمی جنگ سے پہلے—اُس کے قتل نے اِس جھولے کو بھی متاثر کِیا تھا۔ یہ جھولا نہ صرف اپنے مشہور مہمان سے محروم ہو گیا بلکہ جب اِسے عسکری مقاصد یعنی جنگی پیشقدمیوں کی نگرانی کرنے کیلئے استعمال کِیا جانے لگا تو عام پبلک کیلئے بھی اسے بند کر دیا گیا۔ مئی ۱۹۱۵ میں اس جھولے نے دوبارہ کام شروع کر دیا۔ تاہم، اُس وقت ملک میں لوہے کی قلّت تھی اور سب کی نظریں اس جھولے پر لگی ہوئی تھیں کہ کب اسے توڑا جائے! سن ۱۹۱۹ میں اس جھولے کو پراگ کے ایک تاجر کو فروخت کر دیا گیا جس نے تین مہینوں کے اندر اندر اسے توڑ دیا۔ تاہم، اس پیچیدہ ڈھانچے کو توڑنا اس میں لگے لوہے سے زیادہ مہنگا ثابت ہوا ہوگا۔ یوں یہ مشہور جھولا ٹوٹنے سے بال بال بچا اور اپنے قدردانوں کیلئے تفریح مہیا کرتا رہا۔جنگ اور آسٹریو ہنگرین شہنشاہیت کا زوال ویانا میں اہم تبدیلیوں پر منتج ہوا۔ سن ۱۹۳۰ کے دہے میں معیشت کمزور اور سیاسی صورتحال غیرمحفوظ ہو گئی۔ مشہورومعروف سٹینر کو یہودی نژاد ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی بچانے کیلئے فرار ہونا پڑا۔ بہرصورت، سن ۱۹۳۹ اور ۱۹۴۰ میں اس جھولے کو لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو تفریحی سواری کرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اسی دوران شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ نے تو شاید لوگوں کو تفریح کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ تاہم ستمبر ۱۹۴۴ میں، شہر میں ایک خوفناک خبر پھیل گئی کہ جھولے کو آگ لگ گئی ہے! ایک قریبی بچوں کی ریل (رولر کوسٹر) میں سرکٹ شارٹ ہو جانے سے آگ لگ گئی جو جھولے تک بھی پہنچ گئی اور اس کی چھ کاروں کو تباہ کر دیا۔ تاہم ابھی اس سے بھی بدتر صورتحال واقع ہونے والی تھی۔
اپریل ۱۹۴۵ میں، دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے قریب، جھولے کو دوبارہ آگ لگ گئی۔ اس مرتبہ کنٹرول کرنے والے آلات سمیت تمام کی تمام ۳۰ کاریں جل گئیں۔ جھولے کا جلا ہوا لوہے کا فریم باقی بچا۔ مگر یہ بھی جھولے کا خاتمہ نہیں تھا۔ اگرچہ جنگ کے بعد گھر کھنڈرات میں بدل گئے تھے تاہم، جھولے کا سٹیل کا ڈھانچہ ناقابلِتسخیر نظر آ رہا تھا۔ ایک بار پھر یہ اندازہ لگایا گیا کہ اسے توڑنا کافی مہنگا ثابت ہوگا۔ کیا اسکا کوئی نعماُلبدل تھا؟
جیہاں، اسے ایک بار پھر تعمیر کِیا گیا اور اس مرتبہ تحفظ کی خاطر ایک چھوڑ کر ایک کار دوبارہ رکھی گئی۔ مئی ۱۹۴۷ سے لیکر آج تک یہ جھولا مسافروں کو جھولے جھلا رہا ہے۔ دی تھرڈ مین جیسی فلموں کے ذریعے جھولا سنتور پر بجنے والی اپنی یادگار موسیقی کیساتھ آج ویانا سے باہر بھی مقبول ہو گیا۔
ویانا کا جھولا ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے جبکہ شروع میں شکاگو، لندن، بلیکپول اور پیرس میں نصبکردہ جھولے سکریپ کا لوہا بن چکے ہیں۔ یہ جنگ سے پہلے کی قوموں کے ازسرِنو تعمیر کرنے کے عزمِمُصمم کا مُنہبولتا ثبوت اور ویانا کی پہچان بن گیا ہے۔ اگر آپ کو کبھی ویانا جانے کا اتفاق ہوا تو یقیناً آپ جھولے کی سیر کرنا چاہیں گے۔ وہاں شاید آپ کسی عمررسیدہ شخص کو اپنے اسباط کو یہ کہانی سناتے سنیں کہ جھولے میں بیٹھ کر اُونچائی پر پہنچ کر اُس نے کیسے اُس وقت اپنے دھڑکتے دل کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی تھی تو اُن کی نانی یا دادی نے شادی کی پیشکش قبول کر لی تھی۔
[صفحہ ۱۹ پر بکس/تصویر]
رائزنراڈ (آسمانی جھولا)
سن ۱۸۹۷ میں تعمیر ہوا
بلندی: ۲۱۲ فٹ
چکر کا قطر: ۲۰۰ فٹ
چکر کا وزن: ۲۴۵ ٹن
لوہے کے مکمل ڈھانچے کا وزن: ۴۳۰ ٹن
رفتار: ۷.۲ کلومیٹر فی گھنٹہ
[تصویر کا حوالہ]
by Helmut Jahn and Peter ,The Vienna Giant Ferris Wheel :Source
39 Petritsch, 1989, page
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
آسمانی جھولے سے ویانا کے شمالمشرقی اُفق کا منظر