مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کیلئے امید

جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کیلئے امید

جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کیلئے امید

‏”‏جوڑوں کا درد عارضۂ‌قلب یا کینسر کی طرح موت کا بڑا سبب نہیں ہے،‏“‏ ڈاکٹر فاٹم ملی بیان کرتی ہے،‏ ”‏لیکن یہ زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالتا ہے۔‏“‏ جوڑوں کا درد مریض کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتا ہے۔‏ پس،‏ جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کو بعض کونسے مسائل درپیش ہیں؟‏ کیا اِن پر قابو پانا ممکن ہے؟‏

اٹلی کی ۲۸ سالہ کاتیا * بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں ۲۰ سال کی تھی جب یہ تشخیص ہوئی کہ مجھے جوڑوں کے درد کی بیماری ہے۔‏ تب سے میری زندگی بہت بدل گئی ہے۔‏ درد اتنی شدید تھی کہ مجھے اپنی ملازمت اور کُل‌وقتی خدمت چھوڑنا پڑی۔‏“‏ پوری دُنیا میں جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کو شدید تکلیف کا تجربہ ہوتا ہے۔‏ انگلینڈ سے ۶۳ سالہ ایلن بیان کرتا ہے:‏ ”‏آپکو جسم کے کسی نہ کسی حصے میں ہر وقت درد رہتا ہے خواہ یہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔‏“‏ تھکاوٹ بھی ایک چیلنج ہے۔‏ اس سلسلے میں ۲۱ سالہ سارہ بیان کرتی ہے کہ ”‏اگر آپ درد اور سوزش برداشت کر بھی لیں تو تھکاوٹ ناقابلِ‌برداشت ہو جاتی ہے۔‏“‏

جذباتی تکلیف

جاپان کی ۶۱ سالہ سی‌تسوکو کے مطابق،‏ ہر روز درد جھیلنا ”‏آپکو جذباتی اور ذہنی طور پر نڈھال“‏ کر دیتا ہے۔‏ ایک قلم یا ٹیلیفون اُٹھانا بھی محال ہو جاتا ہے!‏ کازومی،‏ جسکی عمر ۴۷ سال ہے،‏ اظہارِافسوس کرتی ہے:‏ ”‏مَیں تو ایسے معمولی کام بھی نہیں کر سکتی جو ایک بچہ بآسانی کر لیتا ہے۔‏“‏ ساٹھ سالہ جانس جو اپنے پاؤں پر بھی زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی،‏ یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏میرے لئے یہ بڑی حوصلہ‌شکنی کا باعث ہے کیونکہ مَیں اب پہلے جتنا کام نہیں کر سکتی۔‏“‏

ایسی معذوری مایوسی اور منفی احساسات پیدا کرتی ہے۔‏ جاپان سے ایک ۲۷ سالہ یہوواہ کا گواہ،‏ گاکو بیان کرتا ہے:‏ ”‏منادی میں بھرپور شرکت کرنے اور کلیسیائی تفویضات کو انجام دینے میں ناکامی کے باعث مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میری کوئی وقعت نہیں۔‏“‏ دو سال کی عمر سے جوڑوں کی درد میں مبتلا فران‌سسکا کے خیال میں وہ ”‏دن‌بدن مایوسی کے بھنور میں پھنستی جا رہی ہے۔‏“‏ ایسی مایوسی روحانی طور پر بڑی نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔‏ جنوبی افریقہ کی ایک گواہ،‏ جوئس تسلیم کرتی ہے کہ اُس نے مسیحی اجلاسوں پر جانا چھوڑ دیا۔‏ وہ کہتی ہے کہ ”‏میرے لئے کسی کا سامنا کرنا بہت مشکل تھا۔‏“‏

مریض اپنے مستقبل کی بابت بھی فکرمند ہوتا ہے—‏بےحس‌وحرکت اور دوسروں کی محتاجی کا خوف،‏ کسی محافظ کے بغیر تنہا چھوڑ دئے جانے کا خوف،‏ گِرنے اور ہڈی ٹوٹنے کا خوف،‏ خاندان کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہنے کا خوف۔‏ یوکو،‏ جس کی عمر ۵۲ سال ہے،‏ یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏اپنے جسم کے مختلف جوڑوں کی صورت بگڑتے دیکھ کر مَیں اس بات سے خوفزدہ ہو جاتی ہوں کہ ابھی اِس میں اَور اضافہ ہوگا۔‏“‏

خاندان کے افراد بھی جذباتی کرب سے گزرتے ہیں کیونکہ اُنہیں ہر روز اپنے عزیز کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ بعض لوگوں کا ازدواجی بندھن بھی کشیدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔‏ ڈینس نامی انگلینڈ کی ایک خاتون یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہماری شادی کے ۱۵ سال بعد میرے شوہر نے بالآخر کہہ ہی دیا کہ ’‏مَیں اب مزید تمہاری اِس بیماری سے نبھا نہیں کر سکتا!‏‘‏ اُس نے مجھے اور اپنی ۵ سالہ بچی کو چھوڑ دیا۔‏“‏

لہٰذا،‏ جوڑوں کا درد مریضوں اور اُنکے خاندانوں کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔‏ لیکن کچھ لوگ اِسے برداشت کرنے میں کامیاب رہے ہیں!‏ آئیے اس بات پر غور کریں کہ وہ کیسے اِس قابل ہوئے ہیں۔‏

اپنی حدود کا لحاظ رکھیں

اگر آپ جوڑوں کے درد میں مبتلا ہیں تو آپ کیلئے مناسب آرام کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے آپکی تھکاوٹ کم ہو سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ بالکل ہی زندگی سے ہاتھ دھو کر بیٹھ جائیں۔‏ تیموتھی بیان کرتا ہے:‏ ”‏آپکو سرگرمِ‌عمل رہنا چاہئے تاکہ جوڑوں کا درد آپکو ذہنی طور پر مغلوب نہ کر سکے کیونکہ ایسی صورتحال میں آپ بیٹھے درد ہی محسوس کرتے رہینگے۔‏“‏ میو کلینک کا ریموٹولوجسٹ ولیم گنزبرگ بیان کرتا ہے:‏ ”‏بہت زیادہ اور بہت کم کام کرنے میں خفیف سا فرق ہے۔‏ بعض‌اوقات لوگوں کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ اپنی بیماری کا لحاظ رکھتے ہوئے ذرا اپنی کارگزاریوں کو کم کر دیں۔‏“‏

اس کیلئے آپکو اپنی حدود کی بابت اپنے نظریے میں تبدیلی کرنی پڑ سکتی ہے۔‏ جنوبی افریقہ کی ڈفن کہتی ہے:‏ ”‏مجھے حقیقت‌پسندی سے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ابھی بھی مجھ میں کچھ کام کرنے کی صلاحیت ہے لیکن اب مجھے ذرا پہلے کی نسبت آہستہ کام کرنا ہوگا۔‏ پریشان اور مایوس ہونے کی بجائے،‏ مَیں تھوڑا تھوڑا کام کرتی رہتی ہوں۔‏“‏

دستیاب مختلف امدادی آلات سے واقف ہونا بھی اچھا ہے جنکی بابت آپ شاید اپنے ڈاکٹر یا فزیکل تھراپسٹ سے گفتگو کر سکتے ہیں۔‏ کائیکو بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم نے اپنے گھر میں سٹیر لفٹ لگوائی ہے۔‏ دروازے کے گول دستوں کو گھمانے سے میری کلائیوں میں درد ہوتا تھا اسلئے ہم نے انہیں بھی بدل دیا۔‏ اب مَیں اپنے سر سے دھکیل کر تمام دروازے کھول سکتی ہوں۔‏ ہم نے گھر میں پانی کے نلکوں کو بھی لیورنما ہینڈل لگوائے تاکہ مَیں کوئی کام تو کر سکوں۔‏“‏ جوڑوں کے درد کی ایک اَور مریضہ گال بیان کرتی ہے:‏ ”‏میری گاڑی اور گھر کی چابیوں کو ایک لمبا ہینڈل لگا ہوا ہے جس سے مَیں انہیں بآسانی گھما سکتی ہوں۔‏ میری کنگھی اور برش کیساتھ بھی لمبے دستے لگے ہوئے ہیں جن میں بال بنانے کے لئے مَیں مختلف زاویوں سے تبدیلی کر سکتی ہوں۔‏“‏

خاندانی حمایت—‏”‏باعثِ‌تحفظ“‏

برازیل کی کارلا کہتی ہے:‏ ”‏میرے شوہر کی حمایت نہایت اہم ثابت ہوئی ہے۔‏ اُسکا میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا مجھے بڑی تقویت دیتا ہے۔‏ ہم دونوں نے ملکر یہ دریافت کِیا کہ یہ بیماری میرے جسم پر کیا اثر ڈال رہی ہے،‏ اسکی علامات کیا ہیں اور کونسا علاج ضروری ہوگا۔‏ مَیں اس بات سے مطمئن تھی کہ وہ جانتا ہے کہ مَیں کس کرب سے گزر رہی ہوں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اپنے ساتھی کی حدود اور حالت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے والے شوہر اور بیویاں حمایت اور تقویت کا بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔‏

مثال کے طور پر،‏ جب بیٹی کا شوہر جوڑوں کے درد کی وجہ سے اپنا عمارتی کام نہیں کر سکتا تھا تو بیٹی نے صفائی کرنے کا کام شروع کر دیا۔‏ کازومی کا شوہر نہ صرف اُسکی دیکھ‌بھال کرتا تھا بلکہ ایسے گھریلو کام بھی کرتا تھا جو وہ نہیں کر سکتی تھی۔‏ مزیدبرآں،‏ اُس نے اپنے بچوں کو بھی کچھ کام کرنا سکھائے تاکہ وہ بھی مدد کر سکیں۔‏ کازومی کہتی ہے:‏ ”‏میرا شوہر میرے لئے باعثِ‌تحفظ ہے۔‏ اُسکی مدد کے بغیر میری حالت بدتر ہوتی۔‏“‏

آسٹریلیا سے کیرل نامی خاتون اِس احتیاط پر غور کرنے کا مشورہ دیتی ہے:‏ ”‏حد سے زیادہ کام کرنے کی کوشش نہ کریں۔‏ جب مَیں اپنے خاندان جیسی رفتار کیساتھ کام نہیں کر پاتی تو میرے اندر نااہلی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔‏“‏ جب خاندان حقیقی سمجھ اور پاس‌ولحاظ کیساتھ حمایت فراہم کرتا ہے تو یہ مریض کیلئے باعثِ‌تحفظ ثابت ہوتی ہے۔‏

روحانی مدد

کاتیا بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو کوئی دوسرا اُس کی تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔‏ ایسی صورت میں خدا کی طرف رجوع کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ہماری جسمانی اور جذباتی حالت کو واقعی سمجھتا ہے۔‏ (‏زبور ۳۱:‏۷‏)‏ اُس کے ساتھ اچھے رشتے نے مجھے ذہنی سکون عطا کِیا ہے تاکہ مَیں اپنی بیماری کے باوجود بطریقِ‌احسن زندگی بسر کر سکوں۔‏“‏ بائبل موزوں طور پر یہوواہ کو ”‏ہر طرح کی تسلی کا خدا“‏ کہتی ہے جو ”‏ہماری سب مصیبتوں میں ہم کو تسلی دیتا ہے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

لہٰذا،‏ دائمی مرض کے شکار شخص کیلئے دُعا تسلی کا اثرآفرین ماخذ ہو سکتی ہے۔‏ کازومی بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب مَیں درد کے باعث ساری ساری رات سو نہیں پاتی تو مَیں آنسو بہاتے ہوئے یہوواہ سے فریاد کرتی ہوں کہ وہ مجھے اس درد کو برداشت کرنے کی قوت اور تمام مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے حکمت عطا فرمائے۔‏ یہوواہ نے واقعی میری دُعا کا جواب دیا ہے۔‏“‏ فران‌سسکا نے بھی خدا کی مشفقانہ حمایت کا تجربہ کِیا ہے۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏مجھے فلپیوں ۴:‏۱۳ کی تکمیل کا تجربہ ہوا ہے:‏ ’‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏‘‏“‏

یہوواہ خدا اکثر مسیحی کلیسیا کے ذریعے مدد فراہم کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ گال اُس مدد کا ذکر کرتی ہے جو اُس نے یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا کے روحانی بہن‌بھائیوں سے حاصل کی تھی۔‏ گال کہتی ہے کہ ”‏اُنکی محبت نے مجھے افسردہ ہونے سے بچایا۔‏“‏ اسی طرح،‏ جب کائیکو سے پوچھا گیا کہ ”‏آپکی زندگی میں اچھی چیز کونسی ہے؟‏“‏ تو اُس نے جواب دیا:‏ ”‏کلیسیا کی محبت اور ہمدردی!‏“‏

یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں نگہبان ایسی مدد فراہم کرنے میں پیشوائی کرتے ہیں۔‏ سی‌تسوکو بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب بزرگ بیماری سے نبردآزما کسی شخص کی بات سنتے اور اُسے تسلی دیتے ہیں تو یہ ناقابلِ‌بیان اثر ڈالتا ہے۔‏“‏ تاہم،‏ جوڑوں کے درد کا ایک مریض،‏ ڈینئل ہمیں یاددہانی کراتا ہے کہ ”‏ہمارے روحانی بہن‌بھائی صرف اُسی صورت میں ہماری مدد کریں گے جب ہم اُنہیں اس کا موقع دیں گے۔‏“‏ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مریض ساتھی مسیحیوں کے ساتھ رابطہ رکھے اور کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونے کی بھرپور کوشش کرے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ یہاں اُنہیں برداشت کیلئے درکار روحانی حوصلہ‌افزائی ملے گی۔‏

تکلیف کا خاتمہ

جوڑوں کے درد کے مریض طبّی شعبے میں ہونے والی ترقیوں کے لئے شکرگزار ہیں۔‏ تاہم،‏ بہترین علاج بھی حقیقی شفا پر منتج نہیں ہوتا۔‏ لہٰذا،‏ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مریض نئی دُنیا کی بابت خدا کے وعدوں پر ایمان لانے سے ہی تسلی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ * (‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ اُس دُنیا میں ”‏لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھریں گے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۶‏)‏ جوڑوں کا درد اور نوعِ‌انسان کو دِق کرنے والی دیگر تمام بیماریاں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائینگی!‏ سپائنل آرتھرائٹس کا ایک مریض پیٹر بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں اب جس تاریک غار سے گزر رہا ہوں اُس کے دہانے پر مجھے روشنی دکھائی دیتی ہے۔‏“‏ ایک مسیحی خاتون جولیانہ کہتی ہے:‏ ”‏ہر گزرنے والا دن اس جنگ میں میری فتح کا یقین دلاتے ہوئے مجھے یہ احساس بخشتا ہے کہ خاتمہ آنے سے پہلے برداشت کی گھڑیاں رفتہ‌رفتہ کم ہوتی جا رہی ہیں!‏“‏ جی‌ہاں،‏ نہ صرف جوڑوں کے درد بلکہ ہر طرح کی تکلیف کے خاتمے کا وقت قریب آ پہنچا ہے!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

^ پیراگراف 24 اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی یہوواہ کا گواہ بائبل کے وعدوں کو سمجھنے میں مدد کرنے کیلئے آپ سے ملاقات کرے تو یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا سے رابطہ کریں یا پھر اس رسالے کے ناشرین کو لکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

ایسے بہتیرے آلات دستیاب ہیں جو مریضوں کی معیاری اور سُودمند زندگی بسر کرنے میں مدد کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

مسیحی اجلاسوں سے مشفقانہ مدد حاصل کی جا سکتی ہے