مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

میانمار—‏”‏ارضِ‌زریں“‏

میانمار—‏”‏ارضِ‌زریں“‏

میانمار‏—‏‏”‏ارضِ‌زریں“‏

میانمار سے جاگو!‏ کا رائٹر

یہ ”‏ارضِ‌زریں“‏ ایشیا کے پڑوسی ملکوں کے درمیان قدرتی سرحد فراہم کرنے والے کوہستانی سلسلے میں واقع ہے۔‏ اس کے تقریباً ۰۰۰،‏۲ کلومیٹر وسیع ساحلی علاقے کے جنوب‌مغرب میں خلیج‌بنگال اور بحیرۂانڈمان کا پانی بہتا ہے۔‏ مغرب میں بنگلہ‌دیش اور انڈیا؛‏ شمال میں چین اور مشرق میں لاؤس اور تھائی‌لینڈ ہے۔‏ یہ ملک مڈغاسکر سے تھوڑا بڑا مگر شمالی امریکہ کی ریاست ٹیکساس سے نسبتاً چھوٹا ہے۔‏ اُس ملک کا کیا نام ہے؟‏ یہ میانمار،‏ سابقہ برما ہے۔‏

میانمار میں شروع میں آکر آباد ہونے والے اسے ارضِ‌زریں کہا کرتے تھے اور یہاں کئی وسائل،‏ مثلاً پٹرول اور گیس،‏ تانبا،‏ ٹین،‏ چاندی،‏ ٹنگ‌سٹن اور دیگر معدنیات کے علاوہ یاقوت،‏ زُمرد،‏ سرخ یاقوت اور یشم جیسے قیمتی پتھر بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔‏ ان بیش‌قیمت ذخائر میں حاری برساتی جنگلات کی گراں‌بہا پیداوار ٹیک،‏ خوشبودار لکڑی اور بڑے درختوں کی منفرد قیمتی لکڑی بھی شامل ہے۔‏ یہ جنگلات بندر،‏ شیر،‏ ریچھ،‏ ایشیائی بھینس اور ہاتھی جیسے کئی جنگلی جانوروں کی زادبوم بھی ہے۔‏ تاہم ارضِ‌زریں کا حقیقی خزانہ اُسکے لوگ ہیں۔‏

میانمار کے لوگ

میانمار کے لوگ روایتی طور پر حلیم اور امن‌پسند ہونے کے ساتھ ساتھ خوش‌اخلاق اور مہمان‌نواز بھی ہوتے ہیں۔‏ وہ مہمانوں کیساتھ عزت‌واحترام سے پیش آتے ہیں۔‏ بچے عموماً عمررسیدہ مردوں کو انکل اور عورتوں کو آنٹی کہہ کر پکارتے ہیں۔‏

میانمار کا دورہ کرنے والے اشخاص اکثر وہاں کے عمررسیدہ لوگوں کی ملائم جِلد کی تعریف کرتے ہیں۔‏ عورتوں کے مطابق اُنکی تروتازہ جِلد کا راز درحقیقت چہرے پر لگائی جانے والی ایک ہلکے سنہری رنگ کی مقبول زیبائشی کریم—‏تھاناکا—‏ہے جو تھاناکا کے درخت سے بنتی ہے۔‏ عورتیں ایک مضبوط چپٹے پتھر سے اسکی شاخ کے ایک ٹکڑے کو پیسنے اور اس میں تھوڑا سا پانی ملانے سے ایک نرم مرکب تیار کرتی ہیں جسے وہ اپنے چہروں پر منفرد ڈیزائنوں میں لگاتی ہیں۔‏ تھاناکا جِلد کو کھینچ کر رکھنے اور ٹھنڈک پہنچانے کے علاوہ حاری علاقے کی تیز دھوپ سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔‏

میانمار میں عورتوں اور مردوں کا معیاری لباس لُنگی ہے جو جسم کے گرد باندھنے کیلئے تقریباً دو میٹر کپڑے سے بآسانی بن جاتی ہے۔‏ عورتیں اس لُنگی کو اپنے گرد ساڑھی کی طرح لپیٹ کر اسکا پلو اپنی کمر پر باندھ لیتی ہیں۔‏ اسکے برعکس مرد اسکے دونوں کناروں کو ایک ڈھیلے انداز میں اپنی کمر کے آگے باندھ لیتے ہیں۔‏ حیادار اور آرام‌دہ ہونے کے باعث لُنگی حاری علاقوں کیلئے ایک نہایت موزوں لباس ہے۔‏

میانمار کے بازاروں سے گزرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے لوگ ریشم کا کپڑا بُننے،‏ جواہرات کی دستکاری اور لکڑی کی کندہ‌کاری میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔‏ ٹیک اور دوسرے بڑے درختوں کی قیمتی لکڑی بڑے دلکش انداز میں انسانوں،‏ شیروں،‏ گھوڑوں،‏ بھینسوں اور ہاتھیوں کی مورتوں میں تبدیل کی گئی ہے۔‏ روزمرّہ کی چیزوں جیساکہ میز کا اوپر کا حصہ،‏ کمروں کو تقسیم کرنے والی لکڑی کی دیواروں اور کُرسیوں پر بھی نفیس کندہ‌کاری کی جاتی ہے۔‏ تاہم اگر آپ واقعی ان مصنوعات کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو سودےبازی کے لئے تیار رہنا ہوگا!‏

میانمار کے لوگوں کو ڈھکنوں والے ڈبوں،‏ پیالوں اور تھالیوں جیسی دیگر مصنوعات پر لاکھ روغن کی خوبصورت استرکاری کرنے میں بھی ملکہ حاصل ہے۔‏ تاہم ان مصنوعات کو منفرد بنانے والی چیز دراصل ان کے نئے ڈیزائن اور کندہ نمونے ہیں۔‏ سب سے پہلے بانس کے تراشے ہوئے ٹکڑوں کی بنی ہوئی جالی تیار کی جاتی ہے۔‏ (‏اعلیٰ معیار کی مصنوعات کی تیاری میں پہلے بانس کے ساتھ گھوڑے کے بالوں کو بنا جاتا ہے۔‏)‏ دستکار اس ڈھانچے پر تقریباً سات مرتبہ لاکھ روغن کی استرکاری کرتا ہے جو لاکھ روغن کے درخت کے تیل اور جانوروں کی پسی اور جلائی ہوئی ہڈیوں کا مرکب ہوتا ہے۔‏

لاکھ روغن کے سوکھ جانے پر دستکار اشیا کی سطح پر سٹیل کے ایک نوکیلے آلے سے ڈیزائن کندہ کرتا ہے۔‏ اسے کچھ دیر رنگ کرنے اور چمکانے کے بعد جو چیز وجود میں آتی ہے وہ ایک عمدہ فن‌پارہ ہونے کیساتھ ساتھ گھر کی ایک کارآمد اشیا بھی ثابت ہوتی ہے۔‏

مذہب گہرا اثر ڈالتا ہے

میانمار کے تقریباً ۸۵ فیصد لوگ بدھسٹ ہیں جبکہ باقی آبادی مسلمانوں اور مسیحیوں پر مشتمل ہے۔‏ جنوب مشرقی ایشیا کے بہتیرے ممالک کی طرح میانمار میں بھی مذہب بیشتر لوگوں کی زندگیوں میں ایک نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔‏ تاہم یہاں پر آنے والے بیشتر لوگ بعض مذہبی رسومات سے ناواقف ہیں۔‏

مثال کے طور پر،‏ بدھسٹ راہب تجرد کا عہد کرتے ہیں۔‏ لہٰذا عورتیں احتراماً راہبوں کے قریب جانے سے بھی اجتناب کرتی ہیں۔‏ بس میں سفر کرتے وقت بھی مذہبی رسومات کا اثر پایا جاتا ہے۔‏ بس میں لکھی ہوئی یہ عبارت مغربی دُنیا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو اُلجھن میں ڈال سکتی ہے:‏ ”‏براہِ‌مہربانی ڈرائیور سے اپنی منزل پر پہنچنے کے متوقع وقت کی بابت نہ پوچھیں۔‏“‏ کیا ڈرائیور غیرمتحمل مسافروں سے عاجز آ جاتے ہیں؟‏ جی‌نہیں۔‏ وہاں کے بدھسٹ لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ناٹس (‏روحیں)‏ اس سوال سے ناراض ہوکر بس کا سفر طویل کر سکتی ہیں!‏

میانمار کی تاریخ

میانمار کی ابتدائی تاریخ مبہم ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پڑوسی ممالک کے کئی قبائل یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔‏ بظاہر مان قبیلے نے اس ملک کا نام سوانابھومی یعنی ”‏ارضِ‌زریں“‏ رکھا تھا۔‏ تبتی برمی کوہِ‌ہمالیہ کے مشرق سے اور تائی نسل کے لوگ جنوب‌مغربی چین سے یہاں آئے تھے۔‏ میانمار کی ناہموار جگہوں نے ان قبائل کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جسکی وجہ سے یہاں بیشمار قبائل اور مختلف زبانیں بولنے والے گروہ آباد ہو گئے۔‏

اُنیسویں صدی کے شروع میں انڈیا میں نوآباد برطانوی لوگوں نے یہاں آنا شروع کر دیا تھا۔‏ وہ سب سے پہلے جنوبی علاقے میں آباد ہوئے اور بالآخر وہ پورے ملک پر چھا گئے۔‏ برما کے نام سے مشہور سن ۱۸۸۶ تک میانمار برٹش انڈیا کا حصہ بن گیا تھا۔‏

دوسری جنگِ‌عظیم کے دوران یہ ملک شدید لڑائی کا مرکز بن گیا اور کچھ ماہ بعد ۱۹۴۲ میں جاپانی فوج نے انگریزوں کو اس علاقے سے باہر نکال دیا۔‏ نتیجتاً رسوائےزمانہ ”‏ڈیتھ ریل‌روڈ“‏ کی تعمیر کی گئی تھی۔‏ یہ ۴۰۰ کلومیٹر لمبی لائن بنجر جنگل اور کوہستانی علاقے سے گزرتی ہوئی برما میں تھانبائیوزایات اور تھائی‌لینڈ میں نانگ پلاڈک کے شہروں کو منسلک کرتی تھی۔‏ دھات کی کمی کے باعث اس لائن کے بیشتر حصے کیلئے وسطی ملایا (‏موجودہ ملیشیا)‏ کی ریل کی پٹڑیوں کو نکالا گیا تھا۔‏ اس منصوبے کے ایک چھوٹا سے حصے—‏دریائےکوائی پر ایک پُل کی تعمیر—‏نے بعدازاں ایک مقبول فلم کی بنیاد ڈالی۔‏

تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۳ سے زیادہ جنگی قیدیوں اور بھارتی اور برمی شہریوں نے ۴۰۰ ہاتھیوں کی مدد سے اس ریلوے کو تعمیر کِیا۔‏ اس کام میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں۔‏ جنگی اتحادیوں کی بمباری نے اس لائن کو زیادہ استعمال نہ ہونے دیا اور آخرکار اسے بند کر دیا گیا۔‏ بعدازاں اس میں سے بیشتر پٹڑیوں کو نکال کر دوسری جگہوں پر استعمال کِیا گیا۔‏

آخرکار برطانیہ نے ۱۹۴۵ میں ایک بار پھر کامیاب حملہ کرکے جاپان سے یہ ملک چھین لیا۔‏ تاہم برطانوی دورِحکومت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا کیونکہ برمیوں نے جنوری ۴،‏ ۱۹۴۸ میں برطانیہ سے خودمختاری حاصل کر لی۔‏ جون ۲۲،‏ ۱۹۸۹ میں اقوامِ‌متحدہ نے اس ملک کے نئے نام میانمار کو قبول کر لیا۔‏

زریں دارالحکومتوں کا ملک

صدیوں کے دوران میانمار کے کئی دارالحکومت رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ میانمار کے وسط میں واقع مانڈلے کو عموماً سنہری شہر کہا جاتا ہے۔‏ ماضی کے ہر دَور سے تعلق رکھنے والے پگوڈوں کے جگہ جگہ موجود ہونے کے ساتھ ۰۰۰،‏۰۰،‏۵ کی آبادی پر مشتمل یہ شہر برطانوی تسلط سے پہلے آخری دارالحکومت رہ چکا تھا۔‏ منڈن بادشاہ نے ۱۸۵۷ میں مانڈلے میں اپنے اور اپنی رانیوں کیلئے ایک بڑا محل تعمیر کرکے اس شہر کو بڑی عزت بخشی۔‏ اس ۴ مربع کلومیٹر کے قدیم شہر کے گرد ۲۵ فٹ لمبی دیواریں ہیں جنکی بنیادیں ۱۰ فٹ موٹی ہیں۔‏ دیواروں کیساتھ ایک ۲۰۰ فٹ چوڑی کھائی بنائی گئی ہے۔‏

سن ۱۸۸۵ میں برطانوی فوج منڈن کے جانشین بادشاہ تھی‌باؤ کو قید کرکے انڈیا لے گئی لیکن اُنہوں نے محل کو ویسے ہی رہنے دیا۔‏ تاہم دوسری جنگِ‌عظیم میں ایسا نہ ہوا اور یہ محل بمباری سے تباہ‌وبرباد ہو گیا۔‏ اس تباہی نے میانمار کے لوگوں کو زیادہ متاثر نہیں کِیا جنہوں نے محل کی ایک شاندار نقل کے علاوہ اصلی تعمیراتی جگہ پر عالیشان لال اور سنہری لکڑی کی عمارتیں بھی دوبارہ تعمیر کر لیں۔‏ سیاحوں کو اس جگہ کا نظارہ کرنے کی اجازت حاصل ہے۔‏

مانڈلے سے دو سو کلومیٹر دُور پےگن ہے۔‏ پہلی ہزاری کے دوران قائم ہونے والا یہ ایک اَور سابقہ دارالحکومت تھا جس نے ۱۱ویں صدی کی ابتدا میں شہرت کی بلندیوں کو چُھو لیا لیکن ۲۰۰ سال بعد یہ ویران ہو گیا تھا۔‏ اسکے باوجود یہاں پر موجود کچھ چھوٹی بستیوں کے درمیان اور اِنکے گرداگرد ہزاروں خستہ‌حال پگوڈے اور مندر اسکی سابقہ شان‌وشوکت کی یاد دلاتے ہیں۔‏

موجودہ دارالحکومت یانگون (‏جو ۱۹۸۹ تک رنگون کہلاتا تھا)‏ تین ملین سے زائد آبادی پر مشتمل ایک پُررونق شہر ہے جہاں گاڑیوں،‏ بسوں اور کُھلی ٹیکسیوں کی آمدورفت کی ہلچل رہتی ہے۔‏ اگرچہ یانگون کے درختوں سے آراستہ وسیع سڑکوں کے کناروں پر کئی پُرانی عمارتیں برطانوی دورِحکومت کی یاد دلاتی ہیں تاہم ہوٹلوں اور دفتروں کی اُونچی اُونچی عمارتیں اب اس شہر کا حصہ بن چکی ہیں۔‏

اس آسمانی پسِ‌منظر میں ۵۰۰،‏۲ سال پُرانے شویڈاگن پگوڈے کے ۳۲۰ فٹ اُونچے سونے کی پتر والے مخروطے کا ایک رُخی خاکہ قدیم وقتوں کی شان‌وشوکت اور فنِ‌تعمیر کے فن‌پارے کو ظاہر کرتا ہے۔‏ مبیّنہ طور پر اس مخروطے کے گرد کوئی ۰۰۰،‏۷ ہیرے اور دوسرے قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔‏ ایک ۷۶ قیراط کا ہیرا اسکی چوٹی کو آراستہ کرتا ہے۔‏ میانمار کی کئی پُرانی عمارتوں کی طرح شویڈاگن بھی زلزلوں اور جنگوں سے متاثر ہوا ہے اور اسکا بیشتر حصہ دوبارہ تعمیر کِیا گیا ہے۔‏

تاہم بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یانگون کی حقیقی زینت دراصل سونے کا سولے پگوڑا ہے۔‏ ایک سو پچاس فٹ بلند،‏ ۰۰۰،‏۲ سال پُرانا سولے پگوڑا شہر کی چار مرکزی سڑکوں کے درمیان ایک سنہری قطعہ فراہم کرتا ہے۔‏ پگوڑے کے گرد مختلف دُکانیں موجود ہیں۔‏

روحانی سونا

دو انٹرنیشنل بائبل طالبعلم (‏اُس زمانہ کے یہوواہ کے گواہ)‏ ۱۹۱۴ میں زیادہ معیاری سونے یعنی روحانی سونے کی قدر کرنے والے لوگوں کی تلاش میں ہندوستان سے رنگون آئے۔‏ سن ۱۹۲۸ اور ۱۹۳۰ میں اَور مشنری بھی یہاں پہنچ گئے اور ۱۹۳۹ تک ۲۸ گواہوں پر مشتمل تین کلیسیائیں قائم ہو چکی تھیں۔‏ انڈیا،‏ بمبئی میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس نے ۱۹۳۸ تک اس ملک میں منادی کے کام کی نگرانی کی۔‏ اس کے بعد ۱۹۴۰ تک آسٹریلیا برانچ نے کام کی نگرانی کی۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم کے بعد ۱۹۴۷ میں میانمار کے پہلے برانچ آفس کی ابتدا رنگون میں ہوئی۔‏

جنوری ۱۹۷۸ میں برانچ آفس انیا روڈ پر منتقل ہو گیا۔‏ یہ ہیڈکوارٹرز کی تین منزلہ عمارت میانمار بیت‌ایل ہوم کہلاتی ہے۔‏ بیت‌ایل خاندان کے ۵۲ ارکان ملک کے کوئی ۰۰۰،‏۳ سرگرم گواہوں کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہیں۔‏ میانمار میں بولی جانے والی کئی قبائلی زبانوں کی وجہ سے برانچ میں ترجمے کے کام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔‏ یہوواہ کے گواہوں کی محنت اِس ارضِ‌زریں کے وسائل میں اضافہ کرتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

بنگلہ‌دیش

انڈیا

چین

لاؤس

تھائی‌لینڈ

میانمار

مانڈلے

پیگن

یانگون

خلیج‌بنگال

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

اُوپر کی جانب:‏ مرد اور عورتیں لُنگیاں پہنتے ہیں؛‏ ایک نوجوان بدھسٹ راہب؛‏ عورتیں ”‏تھاناکا“‏ لگائے ہوئے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

مونگ‌پھلی کے ایک کھیت میں منادی

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

مقامی بازاروں میں لکڑی پر کندہ‌کاری والی چیزوں کی خریدوفروخت

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

chaang.com

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

میز کے اوپر والے حصے پر لاکھ روغن کی استرکاری پر کندہ‌کاری

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

لاکھ روغن کی ایک خوبصورت پیالی پر نفیس کندہ‌کاری

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

chaang.com

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

میانمار میں یہوواہ کے گواہوں کی برانچ آفس

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر کا حوالہ]‏

Jean Leo Dugast/Panos ©