مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا پر بھروسے نے مجھے بچائے رکھا

خدا پر بھروسے نے مجھے بچائے رکھا

خدا پر بھروسے نے مجھے بچائے رکھا

از راخل ساک‌سیونی لیوے

نازیوں کے لئے بمباری کے آلات بنانے سے میرے انکار کی وجہ سے جب ایک گارڈ بار بار میرے مُنہ پر مار رہی تھی تو اُس کی ساتھی نے سمجھایا:‏ ”‏بہتر ہے کہ تم اسے چھوڑ دو۔‏ یہ ’‏بائبل‌فورشر‏‘‏ اپنے خدا کے لئے مرنے کو تیار ہیں۔‏“‏

یہ واقعہ دسمبر ۱۹۴۴ میں شمالی جرمنی میں نمک کی کانوں کے قریب خواتین کے ایک بیگار کیمپ بینڈورف میں پیش آیا۔‏ مَیں وضاحت کرنا چاہونگی کہ مَیں یہاں کیسے پہنچی اور دوسری جنگِ‌عظیم کے آخری چند مہینوں کے دوران اپنی زندگی بچانے کے قابل کیسے ہوئی۔‏

مَیں نیدرلینڈز،‏ ایمسٹرڈیم کے ایک یہودی گھرانے میں ۱۹۰۸ میں پیدا ہوئی اور میری ایک بڑی اور ایک چھوٹی بہن تھی۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم سے پہلے ایمسٹرڈیم میں دیگر یہودیوں کی طرح میرے والد بھی ہیروں کی پالش کا کام کِیا کرتے تھے۔‏ جب مَیں ۱۲ سال کی تھی تو اُنکی موت واقع ہوئی اور بعدازاں میرے دادا ہمارے ساتھ رہنے لگے۔‏ ہمارے دادا جان ایک عقیدتمند یہودی ہونے کے ناطے ہماری پرورش یہودی رسومات کی مطابقت میں کرنے کیلئے پُرعزم تھے۔‏

والد کے نقشِ‌قدم پر چلتے ہوئے مَیں نے ہیروں کو تراشنے کے پیشے میں تربیت حاصل کی اور ۱۹۳۰ میں ایک ساتھی کارکُن سے شادی کر لی۔‏ ہمارے دو بچے ہوئے—‏ایک چاق‌وچوبند اور دیدہ‌دلیر لڑکا سلوان اور ایک پیاری سی شائستہ بچی کیری۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ہماری شادی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔‏ سن ۱۹۳۸ میں ہماری طلاق کے کچھ ہی دیر بعد مَیں نے لوئس ساک‌سیونی سے شادی کر لی اور وہ بھی ہیرے پالش کرنے کا کام کرتا تھا۔‏ فروری ۱۹۴۰ میں،‏ ہماری بیٹی یوہانا پیدا ہوئی۔‏

لوئس یہودی ہونے کے باوجود مذہب میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔‏ لہٰذا ہم اب کوئی یہودی تہوار نہیں مناتے تھے جنکی مَیں بچپن سے گرویدہ تھی۔‏ مَیں واقعی انکی کمی محسوس کرتی تھی لیکن میرا دل خدا پر ایمان رکھتا تھا۔‏

تبدیلیٔ‌مذہب

سن ۱۹۴۰ کے اوائل میں،‏ جب جرمنی نے نیدرلینڈز پر حملے شروع کئے تو ایک عورت ہمارے دروازے پر آئی اور میرے ساتھ بائبل پر بات‌چیت کرنے لگی۔‏ اُس کی زیادہ‌تر باتیں میری سمجھ سے بالاتر تھیں لیکن وہ جب بھی لٹریچر لیکر میرے پاس آتی تو مَیں اِسے قبول کر لیا کرتی تھی۔‏ تاہم مَیں اُسکے لٹریچر کو نہیں پڑھتی تھی کیونکہ مَیں یسوع کی بابت کچھ بھی جاننا نہیں چاہتی تھی۔‏ مجھے تعلیم دی گئی تھی کہ وہ ایک برگشتہ یہودی تھا۔‏

پھر ایک دن ایک شخص میرے دروازے پر آیا۔‏ مَیں نے اُس سے کئی سوال پوچھے،‏ مثلاً ”‏خدا نے آدم اور حوا کے گناہ کرنے کے بعد اُنکی جگہ دوسرے لوگوں کو کیوں نہیں خلق کِیا؟‏ اتنی زیادہ تکلیف کی کیا وجہ ہے؟‏ لوگ ایک دوسرے سے نفرت اور جنگ کیوں کرتے ہیں؟‏“‏ اُس نے مجھے یقین دلایا کہ اگر مَیں تحمل سے کام لوں تو وہ بائبل میں سے میرے سوالوں کا جواب دیگا۔‏ لہٰذا ایک گھریلو بائبل مطالعے کا بندوبست کِیا گیا۔‏

مَیں پھربھی اس خیال کی مزاحمت کرتی رہی کہ یسوع مسیحا ہے۔‏ لیکن بعدازاں اس معاملے پر دُعا کرنے کے بعد مَیں نے ایک نئے نقطۂ‌نظر سے بائبل میں مسیحائی پیشینگوئیوں کو پڑھنا شروع کِیا۔‏ (‏زبور ۲۲:‏۷،‏ ۸،‏ ۱۸؛‏ یسعیاہ ۵۳:‏۱-‏۱۲‏)‏ یہوواہ نے یہ سمجھنے میں میری مدد کی کہ یہ پیشینگوئیاں یسوع پر پوری اُترتی تھیں۔‏ میرا شوہر میری سیکھی ہوئی باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا لیکن اُس نے میرے یہوواہ کے گواہ بننے پر اعتراض نہیں کِیا۔‏

خفیتہً منادی جاری رکھنا

نیدرلینڈز پر جرمنی کا تسلط میرے لئے ایک خطرناک وقت تھا۔‏ اسلئےکہ مَیں ایک یہودی ہونے کیساتھ ساتھ یہوواہ کی گواہ بھی تھی جنہیں جرمن فوج جیل کیمپوں میں ڈال رہی تھی اور نازی اِس مذہبی تنظیم کو ختم کر دینا چاہتے تھے۔‏ تاہم مَیں نے ہر مہینے اوسطاً ۶۰ گھنٹے سرگرمی سے اپنی نئی مسیحی اُمید کی بابت دوسروں کو بتانا جاری رکھا۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

دسمبر ۱۹۴۲ کی ایک شام میرا شوہر کام سے گھر واپس نہیں لوٹا۔‏ بعدازاں مجھے پتہ چلا کہ اُسے اور اُسکے ساتھی کارکنوں کو جائےملازمت پر سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔‏ مَیں نے اُسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔‏ ساتھی گواہوں نے مجھے اپنے بچوں کیساتھ روپوش ہو جانے کی مشورت دی۔‏ مَیں ایمسٹرڈیم کی دوسری طرف ایک مسیحی بہن کیساتھ رہنے لگی۔‏ ہم چاروں کا ایک ہی جگہ پر رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا لہٰذا مجھے اپنے بچوں کو دوسروں کیساتھ چھوڑنا پڑا۔‏

مَیں اکثر گرفتار ہونے سے بال‌بال بچ جاتی تھی۔‏ ایک شام ایک گواہ مجھے اپنی سائیکل پر چھپنے کی ایک نئی جگہ پر لیجا رہا تھا۔‏ تاہم اُسکی سائیکل کی لائٹ کام نہیں کر رہی تھی جسکی وجہ سے ہمیں دو ڈچ پولیس افسروں نے روک لیا۔‏ اُنہوں نے اپنی ٹارچ میرے چہرے پر چمکائی اور وہ بآسانی پہچان سکتے تھے کہ مَیں یہودی ہوں۔‏ خوش‌قسمتی سے اُنہوں نے محض یہ کہا:‏ ”‏یہاں سے فوراً نکل جاؤ مگر پیدل۔‏“‏

گرفتاری اور قید

مئی ۱۹۴۴ کی ایک صبح جب مَیں اپنی خدمتگزاری شروع کرنے ہی والی تھی تو مجھے گرفتار کر لیا گیا—‏اسلئے نہیں کہ مَیں گواہ تھی بلکہ اسلئےکہ مَیں یہودی تھی۔‏ مجھے ایمسٹرڈیم کے ایک قیدخانہ میں لیجایا گیا جہاں مَیں دس دن رہی۔‏ پھر مجھے دوسرے یہودیوں کیساتھ ریل‌گاڑی پر نیدرلینڈز کے شمال‌مشرقی علاقے میں ویسٹربورک کے کیمپ میں لیجایا گیا جہاں سے قیدیوں کو مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا تھا۔‏ یہاں سے یہودیوں کو جرمنی بھیجا گیا۔‏

ویسٹربورک میں مجھے میرا دیور اور اُسکا بیٹا ملا جنہیں میری طرح گرفتار کر لیا گیا تھا۔‏ مَیں ان یہودیوں میں واحد گواہ تھی اور مَیں اپنی حفاظت کیلئے یہوواہ سے مستقل طور پر دُعا کرتی رہی۔‏ دو دن بعد مَیں،‏ میرا دیور اور اُسکا بیٹا مویشیوں کی ایک ریل‌گاڑی میں بیٹھے تھے جو پولینڈ کے موت کے کیمپوں آؤش‌وِٹز یا سوببور کیلئے روانہ ہونے والی تھی۔‏ اچانک میرا نام پکارا گیا اور مجھے ایک دوسری ٹرین میں بٹھایا گیا جس میں مسافر سفر کرتے تھے۔‏

اس میں ہیروں کا کاروبار کرنے والے میرے سابقہ ساتھی بھی بیٹھے تھے۔‏ تقریباً ایک سو ہیروں کے کاریگروں کو جرمنی کے شمالی علاقے برگن‌بلزن منتقل کِیا گیا۔‏ بعدازاں مجھے پتہ چلا کہ میرے پیشے نے میری جان بچائی تھی کیونکہ آؤش‌وِٹز اور سوببور جانے والے یہودی اکثر سیدھے گیس چیمبرز جاتے تھے۔‏ میرے شوہر،‏ دو بچوں اور دیگر رشتہ‌داروں کیساتھ بھی یہی واقع ہوا تھا۔‏ تاہم اُس وقت مَیں نہیں جانتی تھی کہ اُن کیساتھ کیا ہوا ہے۔‏

برگن-‏بلزن میں ہم ہیرے تراشنے والوں کو ایک خاص بیرک میں ٹھہرایا گیا تھا۔‏ اس نفیس کام کیلئے ہمارے ہاتھوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ہمیں کوئی دوسرا کام نہیں دیا جاتا تھا۔‏ مَیں اپنے گروپ میں واحد گواہ تھی سو مَیں نے دلیری سے ساتھی یہودیوں کو اپنے نئے ایمان کی بابت بتایا۔‏ تاہم پہلی صدی میں پولس رسول کی طرح وہ مجھے بھی برگشتہ خیال کرتے تھے۔‏

میرے پاس بائبل نہیں تھی اور مجھے روحانی خوراک کی اشد ضرورت تھی۔‏ کیمپ میں ایک یہودی ڈاکٹر کے پاس ایک بائبل تھی جو اُس نے روٹی کے کچھ ٹکڑوں اور مکھن کے بدلے میں مجھے دی۔‏ مَیں نے برگن-‏بلزن میں ’‏ڈائمنڈ تراشنے والے گروپ‘‏ کے ساتھ سات مہینے گزارے۔‏ دوسروں کے مقابلے میں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کِیا جاتا تھا جسکی وجہ سے دوسرے یہودی قیدیوں کیساتھ ہمارے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔‏ آخرکار ہمارے کام کیلئے کوئی ہیرے باقی نہ رہے۔‏ لہٰذا دسمبر ۵،‏ ۱۹۴۴ میں مجھے تقریباً ۷۰ یہودی عورتوں کیساتھ بینڈورف میں خواتین کے ایک بیگار کیمپ میں منتقل کِیا گیا۔‏

ہتھیار بنانے سے انکار

کیمپ کی کانوں میں زمین سے تقریباً ۵۰۰،‏۱ فٹ نیچے قیدیوں کو بمباری کے آلات بنانے کا کام سونپا گیا۔‏ جب مَیں نے اس کام سے انکار کِیا تو مجھے گھونسوں سے مارا گیا۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴‏)‏ گارڈ نے غصے سے مجھے بتایا کہ مَیں اگلے دن کام کیلئے تیار رہوں۔‏

اگلے روز جب ہماری حاضری ہوئی تو مَیں بیرک ہی میں رہی۔‏ مجھے یقین تھا کہ مَیں گولی کا نشانہ بننے والی تھی لہٰذا مَیں نے دُعا کی کہ یہوواہ مجھے میرے ایمان کا اجر دے۔‏ مَیں بائبل کے اس زبور کو دہراتی گئی:‏ ”‏میرا توکل خدا پر ہے۔‏ مَیں ڈرنے کا نہیں۔‏ انسان میرا کیا کر سکتا ہے؟‏“‏—‏زبور ۵۶:‏۱۱‏۔‏

بیرکوں کی تلاشی لی گئی اور مجھے پیش کِیا گیا۔‏ اُس وقت ایک گارڈ نے مجھے بار بار مارتے ہوئے پوچھا:‏ ”‏تمہیں کام کرنے سے کون روکتا ہے؟‏“‏ ہر بار مَیں نے خدا کا نام لیا۔‏ اُس وقت ایک اَور گارڈ نے اُسے بتایا:‏ ”‏بہتر ہے کہ تم اسے چھوڑ دو۔‏ یہ بائبل‌فورشر * اپنے خدا کیلئے مرنے کو تیار ہیں۔‏“‏ اُسکے الفاظ نے مجھے بیحد تقویت بخشی۔‏

بیت‌الخلا کی صفائی کو سب سے غلیظ کام خیال کِیا جاتا تھا جو سزا کے طور پر مجھے سونپا گیا اور مَیں نے اس کام کو کرنے کی حامی بھر لی تھی۔‏ مَیں نے یہ کام اِسلئے خوشی سے قبول کر لیا تھا کیونکہ مَیں صاف ضمیر کے ساتھ ایسا کر سکتی تھی۔‏ ایک صبح کیمپ کمانڈر وہاں آیا جس سے سب ڈرتے تھے۔‏ وہ میرے سامنے کھڑے ہوکر کہنے لگا:‏ ”‏تو تم وہ یہودی ہو جو کام نہیں کرنا چاہتی؟‏“‏

مَیں نے جواب دیا،‏ ”‏آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مَیں کام کر رہی ہوں۔‏“‏

‏”‏لیکن تم جنگ میں حصہ نہیں لوگی؟‏

‏”‏نہیں،‏“‏ مَیں نے جواب دیا۔‏ ”‏یہ خدا کی مرضی نہیں۔‏“‏

‏”‏لیکن تم کسی کو قتل تو نہیں کر رہی۔‏ کیا یہ سچ نہیں؟‏“‏

مَیں نے وضاحت کی کہ ہتھیار بنانے سے مَیں اپنے مسیحی ضمیر کی خلاف‌ورزی کرونگی۔‏

اُس نے میرا جھاڑو پکڑا اور کہا:‏ ”‏مَیں اس سے تمہیں قتل کر سکتا ہوں یا نہیں؟‏“‏

‏”‏جی بالکل“‏ مَیں نے جواب دیا،‏ ”‏مگر بندوق کے برعکس جھاڑو اس کام کیلئے نہیں بنایا گیا۔‏“‏

ہم نے یسوع کے یہودی ہونے اور اور اس بات کی بابت بات‌چیت کی کہ یہودی ہونے کے باوجود مَیں یہوواہ کی گواہ بن گئی تھی۔‏ جب وہ چلا گیا تو ساتھی قیدی کیمپ کے کمانڈر کیساتھ اتنے مطمئن انداز میں بات کرنے کی میری ہمت پر حیران ہوکر میرے پاس آئے۔‏ مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ میری ہمت نہیں بلکہ میرے خدا کی طاقت تھی جسکی وجہ سے مَیں ایسا کر پائی تھی۔‏

جنگ کے اختتام پر بچ نکلنا

اپریل ۱۰،‏ ۱۹۴۵ میں،‏ جب اتحادی‌فوجیں بینڈورف پہنچیں تو ہماری حاضری لینے کیلئے ہمیں پورا دن صحن میں کھڑا رہنا پڑا۔‏ بعدازاں،‏ ہم تقریباً ۱۵۰ عورتوں کو کھانےپینے کے بغیر مویشیوں کی ریل‌گاڑی کی نہایت تنگ جگہ میں بٹھایا گیا۔‏ ریل‌گاڑی کسی نامعلوم علاقے کیلئے روانہ ہوئی اور ہم کئی دنوں تک جنگی علاقے میں سفر کرتے رہے۔‏ گاڑیوں میں جگہ بنانے کیلئے بعض قیدیوں نے اپنے ساتھیوں کے گلے گھونٹ دئے جس کی وجہ سے بیشتر عورتیں اپنا دماغی توازن کھو بیٹھیں۔‏ یہوواہ کے تحفظ پر میرے بھروسے نے مجھے برداشت کرنے کی طاقت عطا کی۔‏

ایک دن ہماری ریل‌گاڑی مردوں کے ایک کیمپ پر رُکی اور ہمیں باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔‏ ہم میں سے کچھ قیدیوں کو کیمپ سے پانی لانے کیلئے بالٹیاں دی گئیں۔‏ نل کے پاس پہنچ کر سب سے پہلے مَیں نے جی‌بھر کر پانی پیا اور پھر اپنی بالٹی بھر لی۔‏ جب مَیں واپس لوٹی تو سب عورتیں جنگلی جانوروں کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑیں۔‏ بالٹی کا سارا پانی گِر گیا۔‏ ایس‌ایس (‏ہٹلر کے خاص گارڈ)‏ وہاں کھڑے ہنستے رہے۔‏ گیارہ دن بعد ہم ہیمبرگ کے نواح میں ایک کیمپ آئڈل‌سٹیڈ میں پہنچے۔‏ سفر کی دشواریوں کے باعث ہمارے گروپ کے آدھے لوگ فوت ہو چکے تھے۔‏

مَیں آئڈل‌سٹیڈ میں ایک روز کچھ عورتوں کیلئے بائبل پڑھ رہی تھی۔‏ اچانک کیمپ کا کمانڈر کھڑکی سے جھانکنے لگا۔‏ ہم بہت خوفزدہ ہوئیں کیونکہ کیمپ میں بائبل کی موجودگی ممنوع تھی۔‏ کمانڈر اندر آیا،‏ بائبل اُٹھائی اور کہا:‏ ”‏اچھا تو یہ بائبل ہے؟‏“‏ مَیں نے سکون کا سانس لیا جب اُس نے اسے لوٹا کر کہا:‏ ”‏اگر کسی عورت کی موت واقع ہو تو تمہیں اس میں سے کچھ باآواز پڑھنا ہوگا۔‏“‏

ساتھی گواہوں کیساتھ واپسی ملاقات

چودہ دن کے بعد ہماری رہائی پر ریڈ کراس کی تنظیم ہمیں سویڈن،‏ مالمو کے قریب ایک سکول میں لے گئی۔‏ وہاں ہمیں کچھ دیر تک علیٰحدگی میں زیرِعلاج رکھا گیا۔‏ مَیں نے دیکھ‌بھال کرنے والی ایک خاتون سے یہوواہ کے گواہوں کو یہ خبر کرنے کی درخواست کی کہ مَیں بھی پناہ‌گزینوں میں شامل ہوں۔‏ کچھ دن بعد میرا نام پکارا گیا۔‏ جب مَیں نے اُس عورت سے کہا کہ مَیں گواہ ہوں تو وہ رونے لگی۔‏ وہ بھی گواہ تھی!‏ اپنے جذبات پر قابو پانے کے بعد اُس نے مجھے بتایا کہ سویڈن کے گواہوں نے ہمیشہ نازی جیل کیمپوں میں موجود اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کیلئے دُعا کی تھی۔‏

اُس وقت سے ایک بہن روزانہ میرے لئے کافی اور کھانے کیلئے کچھ میٹھی چیز لایا کرتی تھی۔‏ مجھے پناہ‌گزینوں کے کیمپ سے ایک قریبی علاقے گوٹےبورگ میں منتقل کِیا گیا۔‏ وہاں کے گواہوں نے سہ‌پہر کو میرے لئے ایک عمدہ اجتماع منظم کِیا۔‏ اگرچہ مَیں اُنکی زبان سمجھنے سے قاصر تھی توبھی اپنے بہن‌بھائیوں کے درمیان موجود ہونا ایک خوش‌کُن تجربہ تھا۔‏

گوٹےبورگ میں مجھے ایمسٹرڈیم کے ایک گواہ نے خط میں لکھا کہ میرے بچے سلوان اور کیری اور میرے تمام رشتہ‌دار قید سے واپس نہیں لوٹے تھے۔‏ صرف میری بیٹی یوہانا اور میری سب سے چھوٹی بہن زندہ تھی۔‏ مَیں نے حال ہی میں رجسٹر میں اُن یہودیوں کیساتھ اپنے بیٹے اور بیٹی کے نام بھی دیکھے جنہیں آؤش‌وِٹز اور سوببور میں گیس کے ذریعے مارا گیا تھا۔‏

جنگ کے بعد کارگزاری

ایمسٹردیم میں پانچ سالہ یوہانا سے دوبارہ ملنے کے بعد مَیں نے فوراً اپنی خدمتگزاری ایک بار پھر شروع کی۔‏ بعض‌اوقات جرمنی کیساتھ اشتراک کرنے والی سیاسی تنظیم این‌ایس‌بی،‏ ڈچ نیشنل سوشلسٹ موومنٹ کے ارکان سے میری ملاقات ہوتی تھی۔‏ میرے پورے خاندان کو نیست‌ونابود کرنے میں ان لوگوں کا ہاتھ تھا۔‏ انہیں خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانے کیلئے مجھے منفی احساسات پر قابو پانا پڑا۔‏ مَیں یہ سوچتی رہی کہ یہوواہ دلوں کو دیکھتا ہے اور آخرکار مَیں نہیں بلکہ وہی انصاف کریگا۔‏ اور یہ فیصلہ میرے لئے کتنا بابرکت ثابت ہوا!‏

مَیں نے ایک ایسی عورت کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کِیا جسکا شوہر نازیوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے قیدخانہ میں تھا۔‏ جب مَیں انکے گھر کی سیڑھیاں چڑھتی تھی تو مجھے پڑوسیوں کی آواز سنائی دیتی تھی:‏ ”‏دیکھو!‏ وہ یہودی این‌ایس‌بی کے لوگوں سے دوبارہ ملنے جا رہی ہے۔‏“‏ تاہم یہودیوں سے نفرت کرنے والے اُسکے قیدی شوہر کی سخت مخالفت کے باوجود یہ عورت اور اسکی تین بیٹیاں یہوواہ کی گواہ بنیں۔‏

میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات تھی کہ میری بیٹی یوہانا نے بعدازاں یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کی۔‏ ہم دونوں ایسی جگہ منتقل ہوئے جہاں بادشاہت کے مُنادوں کی زیادہ ضرورت تھی۔‏ ہم کئی روحانی برکات سے مستفید ہوئے۔‏ اب مَیں نیدرلینڈز کے جنوب میں ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتی ہوں اور جب بھی موقع ملے کلیسیا کیساتھ منادی کے کام میں حصہ لینے کی کوشش کرتی ہوں۔‏ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے مَیں کہہ سکتی ہوں کہ مجھے کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہوواہ نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‏ مَیں نے ہمیشہ یہ محسوس کِیا ہے کہ یہوواہ اور اُسکا پیارا بیٹا یسوع مشکل حالات میں بھی ہر وقت میرے ساتھ ہیں۔‏

جنگ کے دوران مَیں نے اپنے شوہر،‏ دو بچوں اور خاندان کے بیشتر افراد کو کھو دیا۔‏ تاہم مَیں اُنہیں بہت جلد خدا کی نئی دُنیا میں دوبارہ دیکھنے کی اُمید رکھتی ہوں۔‏ جب میں تنہائی میں اپنے ماضی کے تجربات پر غور کرتی ہوں تو زبور نویس کے ان الفاظ کو خوشی اور شکرگزاری کیساتھ یاد کرتی ہوں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ سے ڈرنے والوں کی چاروں طرف اُسکا فرشتہ خیمہ‌زن ہوتا ہے اور اُنکو بچاتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 25 اُس زمانہ میں جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں کا نام۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

میرے بچوں کیری اور سلوان کیساتھ جو ہالوکاسٹ میں ہلاک ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

یہودیوں کو ویسٹربورک کے کیمپ سے جرمنی لیجایا جا رہا ہے

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

میرے وطن لوٹنے کا عارضی شناختی کارڈ

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

سویڈن میں قرنطینہ کے دوران

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

آجکل اپنی بیٹی یوہانا کیساتھ