خطِتاریخ پار کرنا
خطِتاریخ پار کرنا
انسان ہمیشہ ماضی میں لوٹ جانے یا مستقبل کا جائزہ لینے کیلئے وقت میں آگے نکل جانے کا متمنی رہا ہے۔ لہٰذا کیا آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک لحاظ سے لوگ ہر روز وقت میں آگے یا پیچھے کی جانب سفر کرتے ہیں؟ ٹوکیو کے ایک تاجر کی بابت سوچیں جو ایک اجلاس میں شرکت کیلئے ہوائی سفر کرتا ہے۔ اگر اُسکا جہاز سہپہر کو روانہ ہوتا ہے تو کسی جگہ رُکے بغیر وہ تقریباً نصف دُنیا کا سفر طے کرکے اُسی صبح بظاہر اپنی روانگی کے وقت سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
کیا ایک طویل سفر کے بعد بھی اپنی روانگی کے وقت سے پہلے منزل پر پہنچنا ممکن ہے؟ جینہیں۔ تاہم دُور افتادہ شہر مختلف منطقۂمیقات میں واقع ہیں۔ درحقیقت گلوب پر بنے ایک نظری خط، بینالاقوامی خطِتاریخ کو پار کرنا کیلنڈر کے دنوں کو تقسیم کرنے والی ایک مقررہ حد کو پار کرنے کے برابر ہے۔ کسقدر پریشانکُن تجربہ! آپکے سفر کا رخ ایک پل میں ایک دن کھونے یا پانے کا سبب بن سکتا ہے۔
فرض کریں کہ ٹوکیو کا متذکرہ تاجر واپس لوٹتے وقت منگل کی شام کو نیو یارک سے اپنا ہوائی سفر شروع کرتا ہے۔ تقریباً ۱۴ گھنٹے بعد وہ جاپان میں جمعرات کے دن جہاز سے اُترتا ہے۔ ایک پورا دن کھو دینے کا احساس کتنا حیرانکُن ہے! ایک تجربہکار مسافر بینالاقوامی خطِتاریخ کو پار کرنے کے پہلے تجربے کو یاد کرتے ہوئے تسلیم کرتی ہے: ”مَیں سمجھ نہیں پائی کہ ایک دن کیسے چھوٹ گیا۔ یہ بڑی عجیب بات تھی۔“
بعض لوگ محسوس کر سکتے ہیں کہ ایسے خطِتاریخ کی ضرورت کیوں پڑی جو مسافروں کی پریشانی کا سبب بنتا ہے۔
ملاح انکشاف کرتے ہیں
سن ۱۵۲۲ کے واقعات کا جائزہ خطِتاریخ کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے جب فرڈینانند ماگالین کے عملے نے زمین کے گرد پہلا بحری سفر مکمل کِیا۔ تین سال کے بحری سفر کے بعد وہ ستمبر ۷، اتوار کے روز سپین پہنچے۔ تاہم اُنکے بحری سفر کی تفصیلات بیان کرنے والی کتاب اُس دن کی تاریخ ستمبر ۶ ظاہر کرتی تھی۔ اس تناقض کی کیا وجہ تھی؟ وہ مغرب کی سمت میں دُنیا کے چوگرد سفر کرتے ہوئے سپین کے لوگوں کی نسبت ایک طلوعِآفتاب نہیں دیکھ پائے تھے۔
مصنف ژیو ورن نے اپنے ناول اراؤنڈ دی ورلڈ اِن ایٹی ڈیز میں کہانی کا رخ موڑنے کیلئے اس مظہر کے متقابل پہلو کو استعمال کِیا ہے۔ اس کتاب کے مرکزی کردار کو ایک بڑی رقم جیتنے کیلئے ۸۰ دنوں میں پوری زمین کے گرد سفر کرنا پڑتا ہے۔ اپنی مہم کے اختتام پر وہ انعام کی معقول رقم حاصل کرنے کی مخصوص تاریخ کے ایک دن بعد مایوس ہوکر گھر لوٹتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دیر ہو چکی ہے۔ لیکن اُسے یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ درحقیقت وہ مقررہ وقت پر پہنچا ہے۔ کتاب کی وضاحت کے مطابق، ”فلئیس فوگ اس بات سے بےخبر تھا کہ باقاعدگی سے مشرقی سمت میں سفر کرنے کے باعث اُسے ایک دن اَور مل گیا تھا۔“
بدیہی طور پر بینالاقوامی خطِتاریخ نے مسٹر ورن کی کہانی کو ایک پُرمسرت اختتام بخشا لیکن ۱۸۷۳ میں جب یہ مشہور ناول شائع ہوا تو اُس وقت یہ خط اپنی جدید شکل میں موجود نہیں تھا۔ اُس زمانہ کے بحری کپتان بحرِالکاہل پار کرتے وقت معمول کے مطابق کیلنڈر پر ایک دن کا ردوبدل کر لیا کرتے تھے، حالانکہ موجودہ خطِتاریخ اُنکے نقشوں پر موجود نہیں تھا۔ اس طریقے پر منطقۂمیقات کے بینالاقوامی نظام کی شروعات سے پہلے عمل کِیا جاتا تھا۔ لہٰذا جب الاسکا روس کے زیرِاختیار تھا تو ماسکو کے شہریوں کی طرح وہاں کے لوگوں کے کیلنڈر کے دن بھی ایک جیسے تھے۔ لیکن ۱۹۶۷ میں، جب ریاستہائےمتحدہ نے الاسکا کے علاقے کو خرید لیا تو اُس نے ریاستہائےمتحدہ کے کیلنڈر کی تاریخ کو اپنایا۔
تاریخی پسمنظر
وقت کا حساب رکھنے سے متعلق اس بدنظمی کے دوران ۱۸۸۴ میں ۲۵ ممالک کے نمائندے بینالاقوامی نصفالنہار اوّل کی کانفرنس کے لئے واشنگٹن ڈی. سی. میں اکٹھے ہوئے۔ اُنہوں نے ۲۴ منطقۂمیقات کے بینالاقوامی نظام اور نصفالنہار اوّل—گرینوچ انگلینڈ کے درمیان سے گزرنے والے خطِطولبلد کی بنیاد ڈالی۔ * یہ طولبلد گلوب پر شرقاً غرباً فاصلہ ناپنے کا ابتدائی مرکز بن گیا۔
گرینوچ سے زمین کے نصف حصہ—مشرق یا مغرب سے ۱۲ منطقۂمیقات—پر بینالاقوامی خطِتاریخ کا مقام بظاہر معقول تھا۔ اگرچہ ۱۸۸۴ کی کانفرنس نے باضابطہ طور پر اسے رائج نہیں کِیا تھا توبھی ۱۸۰ ڈگری نصفالنہار کو مناسب مقام قرار دیا گیا کیونکہ یہ اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ خطِتاریخ کسی برّاعظم کو پار نہیں کرے گا۔ کیا آپکو اندازہ ہے کہ اگر آپ کے ملک کے ایک حصے میں اتوار اور دوسرے میں سوموار کا دن ہوتا تو کسقدر پریشانی ہوتی؟
دُنیا کے نقشے یا گلوب کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ۱۸۰ ڈگری نصفالنہار ہوائی کے مغرب میں ہے۔ آپ اسے دیکھ کر فوراً سمجھ جائینگے کہ بینالاقوامی خطِتاریخ نصفالنہار کی طرح بالکل سیدھا نہیں کھینچا گیا۔ یہ پیچوخم والا خط زمین کو کاٹے بغیر بحرِالکاہل سے گزرتا ہے۔ خطِتاریخ کسی بینالاقوامی معاہدے کی بجائے اتفاقِرائے کی بِنا پر کھینچا گیا تھا لہٰذا کوئی بھی ملک اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق اسے بدل سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، کریباتی نے ۱۹۹۵ میں یہ فیصلہ کِیا کہ انکے ملک کے جزائر کو تقسیم کرنے والا بینالاقوامی خطِتاریخ اب اپنا رخ بدل کر انتہائے مشرق کے جزیرے کے گرد سے ہوکر گزریگا۔ لہٰذا آجکل کے جدید نقشوں میں کریباتی جزائز اس خط کے ایک طرف نظر آتے ہیں۔ اسطرح انکے تقویمی دن ایک جیسے ہوتے ہیں۔
یہ کس طرح کام کرتا ہے
خطِتاریخ کو پار کرتے وقت ایک دن کی کمی یا اضافے کی وضاحت کیلئے تصور کریں کہ آپ دُنیا کے گرد بحری سفر کر رہے ہیں۔ چنانچہ فرض کریں کہ آپ مشرق کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ آپ شاید اس حقیقت سے ناواقف ہوں کہ ہر منطقہوقت پار کرتے وقت آپ ایک گھنٹہ آگے چلے جاتے ہیں۔ آپ دُنیا کے گرد سفر مکمل کرنے پر ۲۴ منطقۂمیقات کو پار کر لیتے ہیں۔ اگر بینالاقوامی خطِتاریخ موجود نہ ہوتا تو آپ اپنی منزل پر مقامی وقت سے ایک دن پہلے پہنچتے۔ بینالاقوامی خطِتاریخ اس فرق کو دُور کرتا ہے۔ یہ بات ذرا پریشانکُن دکھائی دیتی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ پس حیرانی کی بات نہیں کہ ماگالین کے عملے اور افسانوی کردار فلئیس فوگ نے پوری دُنیا کا سفر مکمل کرنے کی غلط تاریخ بتائی!
اس خط کو پار کرنے والے لوگ اچانک ایک دن کی کمی یا اضافے سے پیدا ہونے والے غیرمعمولی احساس سے واقف ہیں۔ تاہم بینالاقوامی خطِتاریخ کی غیرموجودگی میں سفر اَور بھی زیادہ پریشانکُن ثابت ہوتا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 منطقۂمیقات اور طولبلد کے خطوط پر مزید معلومات کیلئے مارچ ۸، ۱۹۹۵ کے اویک! کے مضمون ”کارآمد فرضی خطوط“ کا مطالعہ کریں۔
[صفحہ ۱۳ پر ڈائیگرام/نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
مارچ | مارچ
۲ | ۱
[صفحہ ۱۴ پر تصویریں]
اُوپر: گرینوچ رائل آبزرویٹری
رائٹ: پتھروں سے بنا یہ خط نصفالنہار اوّل کی نشاندہی کرتا ہے