مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خوراک کو محفوظ بنانا

خوراک کو محفوظ بنانا

خوراک کو محفوظ بنانا

کیا کھانا ایک خطرناک عمل ہے؟‏ بعض اعدادوشمار سے آپ یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔‏ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (‏ڈبلیوایچ‌او)‏ کے مطابق ڈبلیوایچ‌او یورپین ریجن میں تقریباً ۱۳۰ ملین لوگ ہر سال غذا سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں۔‏ صرف برطانیہ ہی میں ۱۹۹۸ میں زہرخورانی کے ۰۰۰،‏۱۰۰ سے زیادہ مریض بتائے گئے جن میں سے ۲۰۰ کی موت واقع ہو گئی۔‏ ایک اندازے کے مطابق ریاستہائےمتحدہ میں،‏ ہر سال تقریباً ۷۶ ملین بیماریاں خوراک کی وجہ سے لگتی ہیں اور اِن مریضوں میں سے ۰۰۰،‏۲۵،‏۳ کو ہسپتال داخل کِیا جاتا ہے اور ۰۰۰،‏۵ مر جاتے ہیں۔‏

عالمی پیمانے پر محتاط تخمینے لگانا قدرے مشکل ہے۔‏ تاہم،‏ ڈبلیوایچ‌او نے بتایا ہے کہ ۱۹۹۸ میں تقریباً ۲.‏۲ ملین لوگ اسہالی بیماریوں کی وجہ سے مر گئے اور اِن میں سے ۸.‏۱ ملین بچے تھے۔‏ رپورٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اِن مریضوں کی بڑی تعداد آلودہ خوراک اور پانی سے متاثر ہوئی تھی۔‏“‏

یہ اعدادوشمار بہت زیادہ حواس‌باختہ کرنے والے ہو سکتے ہیں۔‏ لیکن کیا اِن اعدادوشمار سے آپکو اپنی خوراک کی بابت پریشان ہونا چاہئے؟‏ ضروری نہیں۔‏ ایک اَور مثال پر غور کریں۔‏ آسٹریلیا میں ہر سال خوراک سے لگنے والی بیماریوں سے تقریباً ۲.‏۴ ملین یا ہر روز تقریباً ۵۰۰،‏۱۱ لوگ متاثر ہوتے ہیں!‏ شاید یہ بہت زیادہ دکھائی دے۔‏ لیکن اسے ایک مختلف زاویے سے دیکھیں۔‏ آسٹریلیا کے باشندے ہر سال تقریباً ۲۰ بلین کھانے کھاتے ہیں اور اِن میں سے ایک فیصد کا پانچواں حصہ بیماری کا باعث بنتا ہے۔‏ باالفاظِ‌دیگر،‏ ہر کھانے سے پیدا ہونے والا خطرہ واقعی نہ ہونے کے برابر ہے۔‏

بہرصورت،‏ خطرہ اپنی جگہ قائم ہے اور سنجیدہ معاملہ بھی ہے۔‏ خوراک میں کیا چیز بیماری کا باعث بنتی ہے اور اس خطرے کو کم کرنے کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏

خوراک سے لگنے والی بیماریوں کے اسباب

جرنل ایمرجنگ انفیکشی‌ئس ڈیزیز بیان کرتا ہے کہ ۲۰۰ سے زیادہ بیماریاں خوراک کے ذریعے منتقل کی جا سکتی ہیں۔‏ لیکن اِن تمام بیماریوں کا سبب بننے والے جراثیم کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔‏ انٹرنیشنل فوڈ انفارمیشن سروس کیلئے افسر برائے خوراک سے متعلق معلومات،‏ ڈاکٹر لین سواڈلنگ کے مطابق،‏ خوراک سے لگنے والی بیماریوں کے ۹۰ فیصد مریضوں میں یہ بیماری ”‏غالباً دو درجن سے بھی کم“‏ نامیاتی اجسام کے ذریعے پھیلتی ہیں۔‏ بیماری کا باعث بننے والے مختلف وائرس،‏ بیکٹیریا،‏ کیڑے،‏ ٹاکسن اور دیگر چیزیں خوراک میں کیسے داخل ہو جاتی ہیں؟‏

ڈاکٹر سواڈلنگ خوراک کے آلودہ ہونے کے پانچ بنیادی طریقے بیان کرتا ہے:‏ ”‏آلودہ کچی اشیائےخوردنی استعمال کرنا؛‏ بیمار اشخاص کے پکائے ہوئے کھانے کھانا؛‏ کھانا تیار کرنے اور کھانے سے کئی گھنٹے پہلے اُسے نامناسب طور پر رکھ چھوڑنا؛‏ کھانا تیار کرتے وقت اُس کا آلودہ ہو جانا:‏ کھانے کو اچھی طرح پکانے یا گرم کرنے میں ناکامی۔‏“‏ یہ فہرست شاید مضحکہ‌خیز دکھائی دے مگر اس میں کسی حد تک بہتری پنہاں ہے۔‏ خوراک سے لگنے والی بیشتر بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔‏ اپنے کھانے کو محفوظ بنانے کیلئے آپ کیا کر سکتے ہیں اس سلسلے میں صفحہ ۸ اور ۹ کے بکس کے مواد کا مطالعہ کریں۔‏

متوازن انتخاب کرنا

خوراک سے متعلق مختلف خطرات اور تفکرات کے پیشِ‌نظر،‏ بعض لوگ تازہ اشیائےخوردنی خریدنے،‏ تیار کرنے اور کھانے کیلئے وقت نکالنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏ اگر آپ کو یہ بات پسند آتی ہے تو اپنے علاقے میں ایسے سٹور یا مارکیٹ تلاش کریں جو تازہ اور ملاوٹ سے پاک اشیائےخوردنی فروخت کرتے ہیں۔‏ صارفین کی ایک گائیڈ بیان کرتی ہے:‏ ”‏بہت سے صارفین اشیائےخوردنی تیار کرنے والے لوگوں سے رابطہ کر لیتے ہیں اور پھر ہفتہ‌وار بنیادوں پر خوراک تیار کرنے یا بیچنے والی جگہوں سے سامان خریدتے ہیں جب یہ بالکل تازہ اور اپنی اصلی حالت میں ہوتا ہے۔‏“‏ یہ اُصول بالخصوص گوشت کی خریداری میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔‏

اسی طرح،‏ مقامی اشیائےخوردونوش کو ان کے موسم کے حساب سے خریدا جا سکتا ہے چونکہ یہ صحت‌بخش ثابت ہو سکتی ہیں۔‏ تاہم،‏ یاد رکھیں کہ اگر آپ اسطرح کے معیار کی پابندی کرتے ہیں تو آپکے پاس سال‌بھر کاشت کی جانے والی سبزیوں اور پھلوں کے سلسلے میں زیادہ انتخاب کی گنجائش نہیں ہوگی۔‏

کیا آپ کو نامیاتی غذا استعمال کرنی شروع کر دینی چاہئے؟‏ یہ ایک ذاتی فیصلہ ہے۔‏ بہتیرے لوگ نامیاتی غذا پسند کرتے ہیں اور اِن میں سے بیشتر نے خوراک کی صنعت میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کو ناقابلِ‌بھروسا خیال کرتے ہوئے ایسا کرنے کی تحریک پائی ہے۔‏ لیکن ہر شخص اس بات سے متفق نہیں کہ نامیاتی کاشت محفوظ خوراک کی ضامن ہے۔‏

خوراک کے سلسلے میں آپکی ترجیحات خواہ کچھ بھی ہیں،‏ خریداری دھیان سے کریں۔‏ ”‏جہاں تک غذا کا تعلق ہے،‏“‏ ہفتہ‌وار اخبار ڈی ٹزٹ میں متذکرہ ایک ماہر کہتا ہے،‏ ”‏صارف صرف قیمت کو دیکھتا ہے۔‏“‏ قیمت پر دھیان دینا قابلِ‌تعریف بات ہے مگر اجزائےترکیبی کا بھی جائزہ لیں۔‏ ایک اندازے کے مطابق،‏ مغربی ممالک میں خوراک خریدنے والے لوگوں کی نصف تعداد لیبل پر لکھی غذائیت سے متعلق معلومات پڑھنے کیلئے وقت نہیں نکالتی۔‏ یہ سچ ہے کہ بعض ممالک میں تمام لکھی ہوئی باتیں سچ نہیں ہوتیں۔‏ لیکن اگر آپ محفوظ خوراک چاہتے ہیں تو پھر اس میں موجود اجزا کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔‏

آپکو اپنے ملکی حقائق کے مطابق خود کو ڈھالتے ہوئے اپنی خوراک کے سلسلے میں وقتاًفوقتاً ردوبدل کرنے کی ضرورت پڑیگی۔‏ آجکل اس جدید دَور میں بیشتر لوگوں کیلئے اپنی خوراک کے محفوظ ہونے کا یقین کرنا ناممکن،‏ بہت مہنگا،‏ وقت‌طلب اور انتہائی مشکل کام ہے۔‏

کیا یہ آپ کیلئے موجودہ دُنیا کا مثبت جائزہ ہے؟‏ یہ حقیقت‌پسندانہ ہے۔‏ تاہم،‏ خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت جلد حالتیں بہتر ہو جائینگی۔‏

‏[‏صفحہ ۸،‏ ۹ پر بکس/‏تصویر]‏

آپ جو کچھ کر سکتے ہیں

دھوئیں۔‏ کھانا تیار کرنے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے دھوئیں۔‏ بیت‌اُلخلا استعمال کرنے،‏ بچے کو صاف کرنے (‏ڈائپر بدلنے یا ناک صاف کرنے)‏ کے بعد،‏ یا کسی جانور بشمول پالتو جانوروں کو چھونے کے بعد ہمیشہ ہاتھ دھوئیں۔‏ کھانا تیار کرنے کے بعد،‏ برتنوں،‏ بالخصوص کچا گوشت،‏ مرغی یا مچھلی کاٹنے کے بعد کاٹنے کے آلات اور کاونٹر کو اچھی طرح سے دھوئیں۔‏ ٹیسٹ میگزین مشورہ دیتا ہے کہ کیڑےمکوڑوں اور جراثیم سے بچنے کے لئے ”‏پھل اور سبزیوں کو نیم گرم پانی میں دھوئیں۔‏“‏ بیشتر صورتوں میں کھانے کی چیزوں کو صاف کرنے کا بہترین طریقہ اُنہیں چھیل لینا اور اُبال لینا ہی ہے۔‏ سلاد پتا یا بندگوبھی کے سلسلے میں باہر والے پتوں کو اُتار کر پھینک دینا بہتر ہے۔‏

اچھی طرح پکائیں۔‏ اگر کھانا پکاتے وقت درجۂ‌حرارت ۱۶۰ ڈگری فارن‌ہیٹ سے تجاوز کر جاتا ہے خواہ تھوڑی دیر کے لئے ہی تو تقریباً تمام بیکٹیریا،‏ وائرس اور کیڑےمکوڑے مر جائیں گے۔‏ مرغی کو ۱۸۰ ڈگری فارن‌ہیٹ سے بھی زیادہ درجۂ‌حرارت پر پکانا چاہئے۔‏ جب کھانا دوبارہ گرم کِیا جاتا ہے تو اسے ۱۶۵ ڈگری فارن‌ہیٹ پر گرم کرنا چاہئے۔‏ جو مرغی اندر سے گلابی ہے،‏ جس انڈے کی زردی یا سفیدی کچی‌پکی ہے یا جس مچھلی کو آپ کانٹے سے باآسانی توڑ نہیں سکتے اُسے کھانے سے گریز کریں۔‏

کھانوں کو الگ‌الگ رکھیں۔‏ خریدتے،‏ رکھتے یا تیار کرتے وقت کچے گوشت،‏ مرغی یا مچھلی کو ہمیشہ الگ‌الگ رکھیں۔‏ اِن میں سے نکلنے والے پانی کو ایک دوسرے پر یا دیگر کھانوں پر نہ گرنے دیں۔‏ نیز پکے ہوئے کھانے کو ایسے برتن میں نہ نکالیں جس میں پہلے کچا گوشت،‏ مچھلی یا مرغی تھی تاوقتیکہ اس برتن کو اچھی طرح صابن سے دھو نہیں لیا جاتا۔‏

کھانے کو مناسب طریقے سے سٹور یا سرد کریں۔‏ ریفریجریٹر خطرناک بیکٹیریا کی افزائش کا سبب بن سکتا ہے مگر اس کا درجۂ‌حرارت ۴۰ ڈگری فارن‌ہیٹ ہونا چاہئے۔‏ فریزر کو صفر ڈگری فارن‌ہیٹ ہونا چاہئے۔‏ خراب ہونے والی چیزوں کو دو گھنٹے کے اندر اندر فریج میں رکھ دیں۔‏ کھانا لگاتے وقت تمام برتنوں کو ڈھانپ کر رکھیں تاکہ اُن پر مکھیاں نہ بیٹھیں۔‏

باہر کھانا کھاتے وقت محتاط رہیں۔‏ ایک اندازہ ہے کہ بعض ترقی‌یافتہ ممالک میں کھانے سے لگنے والی بیماریوں میں ۶۰ سے ۸۰ فیصد کا تعلق اُن کھانوں سے ہے جو باہر سے لا کر کھائے جاتے ہیں۔‏ اس بات کا یقین کر لیں کہ جس بھی ریسٹورانٹ میں آپ جاتے ہیں وہاں حفظانِ‌صحت کے اُصولوں پر عمل کِیا جاتا ہے۔‏ ایسے گوشت کا آڈر دیں جو اچھی طرح سے پکا ہوا ہے۔‏ جہاں تک باہر سے کھانا لا کر کھانے کا تعلق ہے تو یقین کر لیں کہ آپ اسے خریدنے کے بعد دو گھنٹے کے اندر اندر کھا لیں۔‏ اگر زیادہ وقت گزر جاتا ہے تو کھانے کو ۱۶۵ ڈگری فارن‌ہیٹ پر دوبارہ گرم کر لیں۔‏

مشکوک کھانا پھینک دیں۔‏ اگر آپ کو شک ہے کہ یہ کھانا ٹھیک ہے یا خراب ہو گیا ہے تو اپنے تحفظ کی خاطر اُسے پھینک دیں۔‏ یہ سچ ہے کہ کھانا ضائع کرنا دانشمندی نہیں،‏ تاہم خراب کھانا کھا کر بیمار ہو جانا زیادہ مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏—یہ باتیں بنیادی طور پر ریاستہائےمتحدہ کی فوڈ سیفٹی ٹیکنالوجی کونسل کی فراہم‌کردہ فوڈ سیفٹی ٹپس پر مبنی ہیں۔‏