دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
آلودہ نوٹ
”کاغذی نوٹ بیکٹیریا سے اَٹے ہوئے ہیں،“ کینیڈا کا دی گلوب اینڈ میل بیان کرتا ہے۔ ریاستہائےمتحدہ میں حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ بازار میں چلنے والے تقریباً سارے نوٹ سٹرپٹوکوکس، اینٹروبیکٹر، سوڈومونس اور دیگر جراثیموں سے آلودہ ہیں۔ دی گلوب کے مطابق یہ جراثیم، ”قوتِمدافعت کے مسائل سے دوچار عمررسیدہ یا ایچآئیوی-ایڈز میں مبتلا مریضوں کے لئے بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔“ بعض نوٹوں میں تو اس سے بھی زیادہ خطرناک بیکٹیریا ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اب واقعی ”پیسے کو دھونے“ کی ضرورت ہے۔ جاپان میں صارفین ”صاف اےٹیایمز“ سے کیش حاصل کرتے ہیں جن سے ”۲۰۰ سینٹیگریڈ (۳۹۲ فارنہائیٹ) پر گرم کئے ہوئے ین نکلتے ہیں جس سے بہتیرے بیکٹیریا تو مر جاتے ہیں لیکن پیسے کو نقصان نہیں پہنچتا۔“ دی گلوب کا مشورہ ہے کہ پیسے کو چھونے کے بعد ”ہاتھ ضرور دھوئیں!“
سڑکوں پر پھینکے جانے والے نمک میں کمی
تخلیق پر مضامین شائع کرنے والے رسالے ٹر سواژ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال موسمِسرما کے دوران ۰۰۰،۰۰،۴ سے ۴.۱ ملین ٹن کے درمیان نمک فرانس کی سڑکوں پر برف ہٹانے کیلئے پھینکا جاتا ہے۔ ”اس نمک کا ماحول پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے جو رفتہرفتہ سامنے آ رہا ہے۔“ سڑکوں پر گرایا جانے والا نمک مٹی میں شامل ہو جاتا ہے جس سے کنوئیں، زیرِزمین پانی، جھیلیں اور تالاب آلودہ ہو رہے ہیں۔ جن سڑکوں پر نمک گرایا جاتا ہے اُن کے اردگرد ۵۰ میٹر کے فاصلے میں نازک پودے تباہ ہو جاتے اور درختوں کی جڑیں جل جاتی ہیں۔ جڑوں میں جذب ہو جانے کی وجہ سے یہ ضیائیتالیف کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اس کے مسلسل اثر سے درخت کمزور ہوکر گِر جاتے ہیں۔ نمک کو چاٹنے کے لئے آنے والے جانور اکثر گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں یا جلدیجلدی بہت زیادہ نمک کھانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ بعض حالتوں میں یہ نمک نہایت خطرناک ”کالی“ برف (شفاف برف کی تہہ جو نظر نہیں آتی) کی تشکیل کا باعث بھی بنتا ہے۔ برف سے ڈھکی سڑک پر ڈرائیور بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں لیکن جس سڑک پر برف نہ ہو وہاں کوئی احتیاط نہیں کرتے اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ شاید یہاں ایسی کالی برف جمی ہو۔ حکام نے مشورہ دیا ہے کہ ”سڑکوں پر نمک کو کم اور دانشمندی سے استعمال کِیا جائے۔“
اُلو کی چیخ اُس کی صحت کی علامت
دی اکنامسٹ کہتا ہے کہ اُلوؤں کی چیخ سے اُن کی صحت کا پتہ چلتا ہے۔ ”برطانیہ کے اکالوجی اینڈ ہائیڈرولوجی سینٹر کے سٹیفن ریڈپاتھ اور اُس کے ساتھیوں نے شمالی برطانیہ کے کلیدر فارسٹ میں ۲۲ اُلوؤں پر تحقیق کی۔ اِن محققین نے کسی نامعلوم نر اُلو کی چیخ کی ریکارڈشُدہ آواز بجائی اور یہ نوٹ کِیا کہ وہ جن اُلوؤں پر تحقیق کر رہے ہیں وہ کتنے عرصے کے بعد جواب دیتے ہیں۔“ جن اُلوؤں کے خون میں طفیلی کیڑے زیادہ تھے اُنہوں نے جواب دینے میں کم طفیلی کیڑوں والے اُلوؤں کی نسبت دُگنا وقت لیا۔ علاوہازیں، زیادہ طفیلی کیڑوں والے اُلوؤں کی چیخ کی آواز صحتمند اُلوؤں کی چیخ کے مقابلے میں کم تھی۔ دی اکنامسٹ بیان کرتا ہے کہ ”اُلوؤں کیلئے بھی بِلاشُبہ یہ بہت بڑا انکشاف تھا۔“
بچوں کے سامنے پڑھائی کے فوائد
پولینڈ کے ہفتروزہ چیچوکا کے مطابق ”جب [بچے] اپنے ماںباپ کو خوشی سے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اُنکی نقل کرتے ہیں۔“ مضمون بیان کرتا ہے کہ آج کے دَور میں جب بچے بہت زیادہ ٹیوی دیکھتے ہیں، بچوں کو دو سال کی عمر سے ہی پڑھ کر سنانا اور تصویروں پر توجہ دلاتے ہوئے وضاحت کرنا بہت مفید ثابت ہوگا۔ والدین بچے سے اُس مواد کی بابت کچھ پوچھ سکتے ہیں جو اُنہوں نے ابھی پڑھا ہے تاکہ دیکھ سکیں کہ آیا وہ تمام معلومات کو سمجھتا ہے۔ ”اگر بچہ جلدی اُکتا جائے توپھر بڑےبڑے اشاروں اور آواز میں تبدیلی کے ساتھ پڑھیں۔“ والدین کو بچوں کی پسند کا علم ہونا چاہئے تاکہ وہ اُسی کے مطابق بات کر سکیں۔ چیچوکا بیان کرتا ہے، ”اپنے بچپن کی بعض پسندیدہ کتابوں کا ذکر کریں اور کچھ دلچسپ عنوانات بتائیں۔ . . . بچوں کے خود سے پڑھنے کے لائق ہو جانے پر بھی اُن کے سامنے پڑھنا بند نہ کریں۔ بعضاوقات حوصلہافزائی کی خاطر پہلے چند صفحات پڑھنا ہی کافی ہوتا ہے اور پھر بچہ آگے خود ہی خوشی سے پڑھتا رہتا ہے۔“
ذائقے کی حس کا خاتمہ
کان، ناک اور گلے کے ماہر ہیروشی تومتا کے اندازے کے مطابق ہر سال جاپان میں نوعمروں سمیت ۰۰۰،۴۰،۱ سے زیادہ لوگ ذائقے کی حس کھو بیٹھتے دی ڈیلی یومیوری کی رپورٹ کے مطابق تومتا بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ ۳۰ فیصد معاملات میں نہایت ضروری معدن زنک کی کمی سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ مضمون بیان کرتا ہے کہ ”زنک مہرۂذائقہ میں نئے خلیے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ اس کی کمی سے یہ بتدریج بیحس ہو جاتا ہے۔“ ناقص غذا، کیمیائی عوامل والی غذا اور خوراک میں تنوع کی کمی سے بھی یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ مضمون واضح کرتا ہے کہ ”بہتیرے ریڈیمیڈ کھانوں میں شامل فاسفیٹ جیسے جمعی اجزا جسم سے زنک کو ختم کرنے کے علاوہ اس کے جذب ہونے کے عمل کو بھی روکتے ہیں۔“ جن لوگوں کو کھانا بےذائقہ معلوم ہوتا ہے اُنہیں تومتا کے مشورے کے مطابق زیادہ زنک والی خوراک کھانی چاہئے۔ اس میں اوسٹرز، سمال فش اور لیور شامل ہے۔ غذائیتبخش مختلف قسم کے کھانے ذائقے کی حس کو بحال کر سکتے ہیں لیکن تومتا کا کہنا ہے اگر سنگین صورتحال کا چھ ماہ کے اندر سدِباب نہ کِیا جائے توپھر بحالی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
ہیں۔ اگرچہ بیماری اور ادویات سے متعلق مسائل سے ایسی حالت پیدا ہو سکتی ہے توبھیریاستہائےمتحدہ کی مساجد میں اضافہ
دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے کہ ”ریاستہائےمتحدہ میں مساجد کی تعداد میں ۲۵ فیصد اضافے کے ساتھ ان کی تعداد ۲۰۰،۱ سے زیادہ ہو گئی ہے“ جو مسلمان آبادی میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔ جارجٹاؤن یونیورسٹی میں سینٹر فار مسلم کرسچین انڈرسٹینڈنگ کے ڈائریکٹر جان اسپوزیٹو کے اندازے میں موجودہ مسلمان آبادی کی تعداد ”تقریباً چار سے چھ ملین“ ہوگی۔ چار امریکی اسلامی تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسپوزیٹو نے کہا کہ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو ”مسلسل نقلمکانی اور عموماً مسلمان خاندانوں کے بڑے ہونے کی وجہ سے“ اضافہ ہوتا ہی رہیگا۔ ”چند دہوں میں اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب ہوگا۔“ ٹائمز کے مطابق مساجد میں ”مرد بہت آتے“ ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ ”عبادت کے لئے آنے والوں کا تعلق مختلف پسمنظر سے تھا: ایک تہائی جنوبی ایشیائی، ۳۰ فیصد افریقن امریکی، ۲۵ فیصد عرب۔“
بیمار گھر
دی نیو سائنٹسٹ بیان کرتا ہے، ”ملبورن [آسٹریلیا] میں ایک سال سے بھی کم پُرانے گھروں میں بخارات بن کر ہوا میں شامل ہو جانے والے کیمیائی مرکبات نیشنل ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ کونسل کی مقررہ حفاظتی حد سے بھی ۲۰ گُنا زیادہ تھے۔“ ۔ ان میں سے ایک کیمیکل فارملڈہائیڈ ہے ”جو جِلد کی جلن یا کینسر کا باعث بنتا ہے۔“ فرشی تختوں اور فرنیچر جیسے تعمیراتی سامان سے فارملڈہائیڈ ہوا میں شامل ہوتا ہے۔ نئے قالینوں سے ایک اَور سرطانی مادہ سٹائرین خارج ہوتا ہے اور رپورٹ کے مطابق ”دیگر رنگ اور محلول بھی زہریلے مرکبات خارج کرتے ہیں۔ یہ کیمیکل لوگوں کی صحت کیلئے زیادہ سنگین خطرہ تو نہیں مگر یہ سر درد کا باعث بننے کے علاوہ نہایت حساس لوگوں کو بُری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔“
دودھ کی صنعت کا عالمی لیڈر
دی ہندوستان ٹائمز کے مطابق، اس وقت سب سے زیادہ دودھ انڈیا میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”[واشنگٹن ڈی.سی. میں] ماحولیاتی تحفظ کا خیال رکھنے والے ورلڈواچ انسٹیٹیوٹ نے دودھ کی صنعت میں انقلاب لانے کیلئے انڈیا کی کوشش کو سراہا ہے۔ سن ۱۹۹۴ سے دودھ کی صنعت انڈیا میں پیش پیش رہی ہے اور ۱۹۹۷ میں یہ امریکہ پر سبقت لیتے ہوئے دُنیا کی سب سے بڑی صنعت بن گئی ہے۔“ ورلڈواچ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین، لیسٹر براؤن نے کہا: ”حیرانی کی بات ہے کہ اس نے مویشیوں کو اناج کھلانے کی بجائے ضمنی پیداوار اور فصلی باقیات سے ایسا کِیا ہے۔ انڈیا انسانوں کی خوراک مویشیوں کو کھلائے بغیر پروٹین کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے قابل ہوا ہے۔“
خرچ کی سہولت
اخبار کیلگری ہیرلڈ کی رپورٹ کے مطابق، جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہتیرے کینیڈینز کیلئے شاپنگ ہفتے کے سات دنوں میں ۲۴ گھنٹے کا معمول بن گئی ہے۔ ”صارفین کریڈٹ کارڈز کیساتھ میل آرڈر کے ذریعے انٹرنیٹ پر شاپنگ چینل سے ہر وقت خریداری کر سکتے ہیں۔“ زیادہ رقم کے کریڈٹ کارڈز لوگوں کو زیادہ پیسہ خرچ کرنے پر اُکساتے ہیں۔ بعض کریڈٹ کارڈز اضافی ترغیبات بھی دیتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلگری کے فائنانس کے پروفیسر لیری وُڈڈ نے کہا: ”لوگوں کے پاس اگر خریداری کیلئے نقد رقم ہو بھی تو وہ مختلف انعام حاصل کرنے کی غرض سے کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں اور نقد رقم کو مہینے کے آخر پر قرض کی ادائیگی کیلئے رکھ لیتے ہیں۔ اِسکے بعد وہ رقم خرچ کر لیتے ہیں اور یوں قرضے میں پھنس جاتے ہیں۔“ تاہم، وُڈڈ کے خیال میں مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ معیارِزندگی برقرار رکھنے کیلئے صارفین اخراجات کم کرنے کی بجائے قرضہ اُٹھاتے رہتے ہیں۔ کینیڈا کے ۱۹۹۹ کے شماریاتی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کینیڈا میں کریڈٹ کارڈ کا قرضہ ۱۴ بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔