مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم اپنی خوراک کیساتھ کیا کر رہے ہیں؟‏

ہم اپنی خوراک کیساتھ کیا کر رہے ہیں؟‏

ہم اپنی خوراک کیساتھ کیا کر رہے ہیں؟‏

اپنی خوراک میں تبدیلیاں لانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔‏ درحقیقت صدیوں سے انسان بڑی مہارت سے اپنی خوراک میں تبدیلیاں کرتا رہا ہے۔‏ نسل‌افزائی کے محتاط طریقے فصلوں،‏ مویشیوں اور بھیڑوں میں بیشمار نئی اقسام پر منتج ہوئے ہیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ یو.‏ایس.‏ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے نمائندے نے کہا کہ ”‏حقیقت تو یہ ہے کہ آپ جو بھی خوراک خریدتے ہیں اُسے نسل‌افزائی کے ذریعے تبدیل کر دیا گیا ہے۔‏“‏

نسل‌افزائی ہی خوراک میں تبدیلی لانے کا واحد طریقہ نہیں ہے۔‏ خوراک کی صنعت نے اسکی تیاری اور بہتری کیلئے مختلف طریقۂ‌کار ترتیب دئے ہیں خواہ یہ ذائقہ یا رنگ کو بہتر بنانے یا اسے معیاری اور محفوظ بنانے کی بات ہے۔‏ لوگ ایسی خوراک استعمال کرنے کے عادی ہو گئے ہیں جسے کسی نہ کسی طرح سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔‏

لیکن آجکل ہماری خوراک کیساتھ جوکچھ کِیا جا رہا ہے،‏ صارفین کی بڑی تعداد اُس سے پریشان ہے۔‏ کیوں؟‏ بیشتر کا خیال ہے کہ جو جدید تکنیک آجکل استعمال کی جا رہی ہیں وہ ہماری خوراک کے محفوظ ہونے کو مشکوک بنا رہی ہیں۔‏ کیا یہ تشویش بجا ہے؟‏ آئیے تین تشویشناک حلقوں کا جائزہ لیں۔‏ *

ہارمونز اور اینٹی‌بائیوٹکس

سن ۱۹۵۰ سے لیکر،‏ بعض ممالک میں مرغیوں،‏ سؤروں اور مویشیوں کی خوراک میں اینٹی‌بائیوٹکس کی معمولی مقدار شامل کی جا رہی ہے۔‏ اسکا مقصد بیماری کے امکان کو کم کرنا ہے بالخصوص ایسی جگہوں پر جہاں جانوروں کو چھوٹی جگہوں میں ایک ساتھ رکھا جاتا ہے۔‏ بعض ممالک میں جانوروں کی نشوونما کو تیز کرنے کیلئے اُنکی خوراک میں ہارمونز بھی شامل کئے جاتے ہیں۔‏ ایک رائے کے مطابق،‏ ہارمونز اور اینٹی‌بائیوٹکس جانوروں کو بیماری سے محفوظ رکھنے اور زراعت میں اضافے کو منافع‌بخش بنانے کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں جس کی بدولت اشیا کی قیمت میں کمی سے صارفین بھی استفادہ کرتے ہیں۔‏

بظاہر تو یہ سب معقول نظر آتا ہے۔‏ مگر کیا اِن جانوروں کا گوشت صارفین کیلئے کسی طرح کے خطرے کا باعث تو نہیں ہے؟‏ یورپین کمیونیٹیز کی معاشی اور سماجی کمیٹی کی ایک رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کِیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ بیکٹیریا اینٹی‌بائیوٹکس سے بچ کر صارفین میں منتقل ہو جائے گا۔‏ رپورٹ نے یہ بھی بیان کِیا ہے کہ ”‏خوراک کے ذریعے سالمونیلا اور کیمپ‌یلوبیکٹر جیسا بیکٹیریا انسانوں میں سنگین بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔‏“‏ مزیدبرآں،‏ اُس صورت میں کیا ہے اگر خوراک میں بیکٹیریا کے علاوہ اینٹی‌بائیوٹکس کے باقیات بھی شامل ہیں؟‏ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اسکے نتیجے میں انسانوں میں بیماریوں کا باعث بننے والے جراثیم بتدریج اینٹی‌بائیوٹکس کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔‏

ایسے گوشت کی بابت کیا ہے جس میں ہارمونز شامل کئے گئے ہیں؟‏ میونخ،‏ جرمنی کا ایک پروفیسر،‏ ڈاکٹر ہنرخ کارک تبصرہ کرتا ہے:‏ ”‏تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اجزا ہدایات کے مطابق شامل کئے جاتے ہیں تو ہارمون ملا گوشت صحت کیلئے نقصان‌دہ نہیں ہے۔‏“‏ تاہم،‏ اخبار ڈائی‌وچ بیان کرتا ہے کہ جہاں تک ہارمونز پر پلنے والے جانوروں کے گوشت کے بےضرر ہونے کا تعلق ہے،‏ ”‏گزشتہ ۱۵ برس سے،‏ ماہرین کسی ایک نظریے پر متفق ہونے سے قاصر ہیں۔‏“‏ علاوہ‌ازیں فرانس میں گوشت کے اندر ہارمونز کی موجودگی پر پُرزور احتجاج کِیا گیا ہے!‏ ’‏ہارمونز استعمال نہیں کئے جانے چاہئیں!‏‘‏ واضح طور پر،‏ ابھی تک کوئی متفقہ رائے قائم نہیں ہوئی ہے۔‏

اشعاع‌زدہ خوراک

سویڈن میں ۱۹۱۶ میں تجربات کے آغاز کیساتھ ہی کم ازکم ۳۹ ممالک نے آلو،‏ مکئی،‏ پھل اور گوشت کو قدرے کم درجے کی شعاع‌ریزی کے عمل سے گزارنے کی حمایت کی تھی۔‏ کیوں؟‏ ایک رائے کے مطابق شعاع‌ریزی بیشتر بیکٹیریا،‏ حشرات اور طفلی کیڑوں کو ختم کرکے صارفین کیلئے خوراک سے لگنے والی بیماریوں سے متاثر ہونے کے امکان کو کم کر دیتی ہے۔‏ یہ چیزوں کو زیادہ عرصہ تک قابلِ‌استعمال رکھنے میں بھی معاونت کرتی ہے۔‏

بِلاشُبہ،‏ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری خوراک کو معیاری طور پر صاف‌ستھرا اور تازہ ہونا چاہئے۔‏ لیکن کون باقاعدہ تازہ کھانا تیار کرتا ہے؟‏ ٹیسٹ میگزین کے مطابق،‏ متوسط طبقے کے لوگ ”‏ناشتے کیلئے دس منٹ اور دوپہر اور رات کے کھانے کیلئے پندرہ منٹ مختص کرتے ہیں۔‏“‏ لہٰذا اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ صارفین کی بڑی تعداد پہلے سے تیارشُدہ کھانا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔‏ مگر کیا اشعاع‌زدہ خوراک محفوظ ہے؟‏

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ۱۹۹۹ میں بین‌الاقوامی ماہرین کے ایک گروہ کی تیارکردہ رپورٹ شائع کی۔‏ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ”‏اشعاع‌زدہ خوراک نہ صرف کھانے کیلئے محفوظ بلکہ توانائی سے بھی بھرپور ہے۔‏“‏ اسکے حمایتی خوراک کی شعاع‌ریزی کا موازنہ طبّی پٹیوں کی جراثیم‌کشی کے ساتھ یا پھر ائیرپورٹ پر سامان کے الیکٹرانک سکینر سے گزارے جانے کیساتھ کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ نقاد اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ شعاع‌ریزی خوراک کی قدرتی افادیت کو کم کرکے اس میں ایسے خطرات پیدا کر سکتی ہے جو ابھی تک منظرِعام پر نہیں آئے۔‏

جینیائی ردوبدل والی خوراک

کچھ عرصہ سے ماہرِجینیات ایک نامیاتی جسم کے ڈی‌این‌اے سے جین لیکر اُسی انواع کے کسی دوسرے ڈی‌این‌اے میں منتقل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ تاہم،‏ آجکل ماہرِجینیات زیادہ کچھ انجام دینے کے قابل ہیں۔‏ مثال کے طور پر سڑابیری اور ٹماٹروں کے اندر ایک مچھلی کی جین سے ردوبدل کِیا گیا ہے اور اُنہیں کم درجۂ‌حرارت کیلئے کم حساس بنا دیا ہے۔‏

جینیاتی ردوبدل والی خوارک کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔‏ * اسکے حامیوں کا کہنا ہے کہ پودوں میں نسل‌افزائی کے روایتی طریقوں کی نسبت اس قسم کی بائیوٹیکنالوجی زیادہ مثبت اور قابلِ‌ضبط ہے اور یہ فصلوں میں اضافے اور انسانی بھوک میں کمی کا باعث بنے گی۔‏ لیکن کیا جینیاتی طور پر ردوبدل والی خوراک کھانا خطرے سے خالی ہے؟‏

انگلینڈ اور ریاستہائےمتحدہ نیز برازیل،‏ چین،‏ انڈیا،‏ میکسیکو اور دیگر ترقی‌پذیر ممالک کی اکیڈمیز کی نمائندگی کرنے والی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اس موضوع پر رپورٹ تیار کی تھی۔‏ جولائی ۲۰۰۰ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ نے بیان کِیا:‏ ”‏آج تک ۱۰ ملین ایکٹر اراضی پر ٹرانس‌جینک فصلیں اُگائی گئی ہیں اور ان فصلوں یا اِن سے تیار ہونے والی مصنوعات نے انسانی صحت کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچایا ہے۔‏“‏ بعض خطوں میں تو جینیاتی خوراک کو عام خوراک کی طرح ہی محفوظ خیال کِیا جاتا ہے۔‏

تاہم،‏ دیگر مقامات پر بہت زیادہ غیریقینی پائی جاتی ہے۔‏ آسٹریا،‏ برطانیہ اور فرانس میں بعض لوگ جینیاتی طور پر ردوبدل والی خوراک مشکوک خیال کرتے ہیں۔‏ ہالینڈ کے ایک سیاستدان نے جینیاتی طور پر ردوبدل والی خوراک کی بابت کہا:‏ ”‏خوراک کی چند ایسی اقسام ہیں جو ہمیں بالکل پسند نہیں ہیں۔‏“‏ ایسی خوراک پر تنقید کرنے والے بعض لوگ اخلاقیاتی ضابطوں اور اس سے درپیش ممکنہ ماحولیاتی خطرات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔‏

بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جینیاتی طور پر ردوبدل والی خوارک کو شروع کرنے سے پہلے صارفین کو درپیش ممکنہ خطرات سے متعلق مزید تجربے کرنا ضروری ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ برٹش میڈیکل ایسوسی‌ایشن کا خیال ہے کہ جنیٹک انجینیئرنگ لوگوں کیلئے بہت زیادہ مفید ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔‏ تاہم،‏ یہ بیان کرتی ہے کہ بعض حلقے تشویش کا باعث ہیں جیسےکہ جینیاتی طور پر ردوبدل والی خوارک سے الرجی ہو جاتی ہے،‏ اسکا مطلب یہ ہے کہ ”‏مزید تحقیق کی جائے۔‏“‏

اپنے لئے متوازن انتخاب کرنا

بعض ممالک میں استعمال ہونے والی خوراک کا ۸۰ فیصد تیاری کے مخصوص عمل سے گزارا گیا ہے۔‏ اکثر ذائقے اور رنگ کو بہتر بنانے اور خوراک کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے کیلئے اضافی چیزیں شامل کی جاتی ہیں۔‏ درحقیقت،‏ ایک حوالہ‌جاتی کتاب بیان کرتی ہے،‏ ”‏بہت سی جدید مصنوعات جیسےکہ کم حراروں والی غذا،‏ سنیک اور فوری طور پر تیار کھانے،‏ اضافی چیزیں شامل کئے بغیر تیار کرنا مشکل ہے۔‏“‏ ایسی غذاؤں میں عموماً جینیاتی ردوبدل والے اجزا شامل ہوتے ہیں۔‏

کئی سالوں سے عالمی پیمانے پر زراعت ایسے عوامل کی مرہونِ‌منت رہی ہے جنہیں بیشتر لوگ نقصان‌دہ خیال کرتے ہیں۔‏ اسکی ایک مثال زہریلی کیڑےمار ادویات ہیں۔‏ اسکے علاوہ،‏ خوراک کی صنعت کچھ عرصے سے ایسے اضافی اجزا استعمال کر رہی ہے جو شاید صارفین میں الرجی کا باعث بنے ہیں۔‏ کیا خوراک سے متعلق نئی ٹیکنالوجی واقعی اِن سے زیادہ خطرناک ہے؟‏ ماہرین بھی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔‏ درحقیقت،‏ دونوں طرفین کو ٹھوس سائنسی رپورٹس کی حمایت حاصل ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ رائے کی تقطیب میں معاون رہیگا۔‏

اعلیٰ ٹیکنالوجی سے تیارکردہ غذاؤں کو ناگزیر خیال کرنے یا دیگر تفکرات کو زیادہ اہم خیال کرنے کی وجہ سے بہتیرے لوگوں نے آجکل اس معاملے پر زیادہ دھیان نہ دینے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ جبکہ دیگر اسکی بابت بہت زیادہ پریشان ہیں۔‏ لیکن اگر آپکا خاندان اور آپ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جو نہایت پیچیدہ دکھائی دیتی ہے مختلف عمل سے گزرنے والی خوراک کھانے کی بابت غیریقینی کا شکار ہیں تو کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏ ایسے عملی اقدام ہیں جنکا انتخاب آپ کر سکتے ہیں اور اِن میں سے چند اگلے مضمون میں زیرِبحث آئینگے۔‏ تاہم،‏ سب سے پہلے اس بات کا یقین کر لینا بہتر ہوگا کہ ہم اس مسئلے پر متوازن نقطۂ‌نظر رکھتے ہیں۔‏

خوراک کا محفوظ ہونا صحت کی ضمانت ہے۔‏ فی‌الحال کاملیت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔‏ جرمن میگزین نیچر اینڈ کاسموس کے مطابق،‏ جو لوگ خوراک کے انتخاب اور تیاری میں بہت زیادہ محتاط ہونے کیلئے مشہور ہیں اُنہیں بھی غذائیت کے حوالے سے ہمیشہ مصالحت کرنی پڑتی ہے۔‏ جو چیز ایک شخص کیلئے مفید ہے وہ دوسرے کیلئے نقصان‌دہ ثابت ہو سکتی ہے۔‏ لہٰذا کیا یہ دانشمندی کی بات نہ ہوگی کہ متوازن میلان پیدا کریں اور انتہاپسندی سے گریز کریں؟‏

سچ ہے کہ بائبل ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ آجکل کے اعلیٰ ٹیکنالوجی سے تیارکردہ کھانوں کی بابت کیا فیصلہ کریں۔‏ لیکن یہ ہمیں ایک ایسی صفت پیدا کرنے کی بابت سکھاتی ہے جو اس سلسلے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔‏ فلپیوں ۴:‏۵ بیان کرتی ہے:‏ ”‏تمہاری نرم‌مزاجی سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔‏“‏ نرم‌مزاجی ہمیں متوازن فیصلے کرنے اور انتہاپسندی سے گریز کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ یہ ہمیں دوسروں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے سے بھی روکتی ہے کہ اُنہیں اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔‏ علاوہ‌ازیں یہ ہمیں ایسے لوگوں سے بےمقصد،‏ منقسم کرنے والی بحث سے بھی بچاتی ہے جنکی سوچ اس موضوع پر ہماری سوچ سے مختلف ہے۔‏

تاہم،‏ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ خوراک سے متعلق بیشمار خطرات اسقدر اختلافی نہیں ہیں۔‏ اِن میں سے چند ایک کیا ہیں اور آپ کونسی احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 جوکچھ ہم کھاتے ہیں وہ ذاتی ترجیحات کا معاملہ ہے۔‏ جاگو!‏ زیرِبحث مختلف خوراک اور اس کی تیاری میں استعمال ہونے والی تکنیکوں سے قطع‌نظر کسی بھی خوراک کی سفارش یا ممانعت نہیں کرتا۔‏ اِن مضامین کا مقصد قارئین کو تازہ‌ترین حقائق سے مطلع کرنا ہے۔‏

^ پیراگراف 15 براہِ‌مہربانی اپریل ۲۲،‏ ۲۰۰۰ کے اویک!‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

کیا صارفین مویشیوں کو دی جانے والی اینٹی‌بائیوٹیکس اور ہارمونز سے متاثر ہو رہے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

خوراک پر لگے لیبل کو دھیان سے پڑھنا دانشمندی ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

باقاعدہ تازہ خوراک خریدنے کے اپنے فوائد ہیں