مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

تباہ‌کُن حملہ‌آور

انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹرائبیون بیان کرتا ہے کہ ”‏بدیسی حملہ‌آور ہر سال عالمی معیشت کو اندازاً سینکڑوں بلین ڈالرز کا نقصان پہنچانے کے علاوہ بیماریوں کے پھیلنے اور وسیع ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔‏“‏ بیشمار نباتات اور حیوانات جو اپنے رہنے کی جگہوں پر بےضرر ہیں اُنہیں عمداً یا سہواً نئے علاقوں میں منتقل کِیا جا رہا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں پائے جانے والے ٹری سنیک نے گوائم کے مقامی جنگلی پرندوں کا صفایا کر دیا ہے اور اب بعض‌اوقات ہوائی جہازوں کے پہیوں کیساتھ واقع خالی جگہوں میں چھپ کر بحرالکاہل کے پار جانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔‏ دوسرے ایکوسسٹم میں کالوپرا الجی اور جنوبی امریکہ کی آبی سنبل وسیع علاقے میں موجود مقامی سمندری اور آبی حیات کو تباہ کر رہی ہے۔‏ گالف کے میدان کیلئے ریاستہائےمتحدہ سے چین برآمد کی جانے والی گھاس اب بہت زیادہ بڑھ رہی ہے جبکہ لکڑی کی اُٹھاون کے ذریعے منتقل ہونے والے چین کے لانگ‌ہارن بھونرے شمالی امریکہ کے جنگلات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‏ نقصان‌دہ ثابت ہونے والی دیگر انواع میں انڈین نیولے،‏ زیبرا سمندری صدفیہ،‏ مائی‌کونیا ٹری،‏ نیل بانس،‏ شمالی امریکہ کی سیاہ گلہری،‏ چلتی‌پھرتی گربہ‌ماہی،‏ روزی ولف گھونگے اور کمزور چیونٹیاں۔‏

بچوں کیلئے کاسمیٹکس

دی جاپان ٹائمز بیان کرتا ہے کہ جاپان میں کاسمیٹکس تیار کرنے والے بچوں کیلئے ایک خاص قسم کے میک‌اپ کی پیشکش کر رہے ہیں۔‏ ملک میں کاسمیٹکس کے بڑھتے ہوئے جنون کی بدولت،‏ نوعمر لڑکیاں،‏ جن میں ۱۳ برس سے کم عمر کی لڑکیاں بھی شامل ہیں،‏ اپنی پسندیدہ گلوکاروں کی نقل میں بڑی بڑی دُکانوں پر چمکدار لپ‌سٹک اور شفاف مسکارا خریدنے کے لئے جاتی ہیں۔‏ ماضی میں بچیاں کھیل‌کھیل میں لپ‌سٹک لگاتی تھیں۔‏ اب بچیوں کی بڑی تعداد میک‌اپ کرنے کے لئے تیار ہے اور یہ جاننا چاہتی ہیں کہ اسے چہرے کے مختلف خدوخال کو نمایاں یا کم کرنے کے لئے کیسے استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ بچوں کے رسالے کے ایک ایڈیٹر نے بیان کِیا:‏ ”‏احساسِ‌کمتری کا شکار ہونے والوں کی عمر کم ہو گئی ہے۔‏ آجکل کے بچے اپنے بڑوں کی نسبت چھوٹی عمر ہی میں اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔‏“‏ تاہم،‏ ایک فرم اس سے متفق نہیں جو کہتی ہے کہ ”‏جاپانی ثقافت پرائمری سکول اور جونیئر ہائی سکول کے طالبعلموں کیلئے درکار کاسمیٹکس سے واقف نہیں۔‏ ہم معاشرتی اخلاقیت کے ہجدنظر اُن کے لئے کاسمیٹکس تیار نہیں کرینگے۔‏“‏

‏”‏شیرخواروں کو جھلانے سے بیماری“‏

میکسیکو شہر کا اخبار ال یونیورسل بیان کرتا ہے کہ بچے کو بازو،‏ ٹانگوں یا کندھوں سے پکڑ کر جھولے دینے سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‏ ”‏بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سیکھنے میں ناکامی کے بیشتر مریض اسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔‏“‏ بچوں کے اسپیشلسٹ کون ہوسا راموز سوارز کے مطابق،‏ ”‏اگرچہ اس مرض کی کوئی ظاہری علامات نہیں ہوتیں توبھی یہ دماغ کی شریانوں کے پھٹ جانے اور دماغی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔‏“‏ وہ مزید بیان کرتا ہے کہ یہ قوتِ‌سماعت سے محرومی،‏ بینائی کے چلے جانے،‏ ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچنے،‏ فالج،‏ تشنج حتیٰ‌کہ موت کا باعث بن سکتی ہے۔‏ اسکا سبب یہ ہے کہ بچے کا سر نسبتاً بھاری ہوتا ہے جبکہ گردن کے پٹھے زیادہ مضبوط نہیں ہوتے اور یوں جھولے دئے جانے کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتے۔‏ سچ ہے کہ ایک بچے کا رونا مشتعل کر سکتا ہے۔‏ لیکن دیکھ‌بھال کرنے والوں کی معاونت کیلئے اخبار ”‏تین سہل اقدام اُٹھانے کی“‏ حوصلہ‌افزائی کرتا ہے ”‏جو شاید ایک منٹ سے بھی کم وقت لینگے:‏ (‏۱)‏ رُک جائیں،‏ (‏۲)‏ بیٹھ جائیں،‏ اَور (‏۳)‏ حوصلہ رکھیں۔‏ بچوں پر برسنے کی بجائے اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔‏“‏ اس کے بعد بچے کو دودھ پلانے یا اُسکا ڈائی‌پر تبدیل کرنے یا اُسے ہنسانے کی کوشش کرنے یا گلے سے لگا کر تھپتھپانے سے بچے کے رونے کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔‏

گنڈولے کا ناپید ہونا

لندن کا اخبار دی اِنڈیپینڈنٹ بیان کرتا ہے ”‏وینس میں گنڈولے بنانے کا قدیم فن بتدریج ختم ہو رہا ہے۔‏ مستقبل کے گنڈولے شاید پیشہ‌ورانہ مہارت سے عاری لوگوں کے ہاتھوں دُنیا کے نہایت دلکش شہروں میں سے ایک کی تاریخ کو منعکس کرنے والی روایت،‏ سازوسامان اور کاریگری کے بالکل برعکس تیار کئے جائیں۔‏“‏ اِن مشہور کشتیوں کو تیار کرنے کا فن ۱۱ ویں صدی سے چلا آ رہا ہے،‏ ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے کیونکہ ”‏نسل‌درنسل اور اُستادی اور شاگردی کے ذریعے فن منتقل کرنے کا نظام درہم‌برہم ہو گیا ہے۔‏“‏ اسکا ذمہ‌دار بہت زیادہ مزدوری اور وینس کے نوجوانوں کے اس فن کو سیکھنے میں ۲۰ سال صرف کرنے کیلئے تیار نہ ہونے کو ٹھہرایا جاتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ ایسا لگتا ہے کہ جب گنڈولے تیار کرنے والے موجودہ چند ماہر اُستاد ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائینگے تو اُنکی جگہ کام کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔‏ ایک گنڈولا تیار کرنے میں ۵۰۰ گھنٹے لگتے ہیں جو کہ دوسری کشتیوں سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ اسکی بائیں طرف دائیں سے دو فٹ چوڑی ہوتی ہے جسے گنڈولا ران اور اُسکے پتوار سے متوازن کِیا جاتا ہے۔‏ بناوٹ میں تناسب کی یہ کمی اسے وینس کی تنگ نہروں میں سے گزرنے کے قابل بناتی ہے۔‏

سمندری قزاقی میں اضافہ

فرانسیسی اخبار ولیرس اکٹوئیل بیان کرتا ہے کہ ”‏سمندری قزاقی میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔‏“‏ گزشتہ دو سالوں کے دوران قزاقوں کے حملوں میں دُگنا اضافہ ہو گیا ہے۔‏ بالخصوص جنوب‌مشرقی ایشیا میں تو حالت بہت ہی خراب ہے کیونکہ مالی بحران غریبوں کے جرم کی طرف راغب ہونے کا باعث بنا ہے۔‏ لیکن سمندری قزاقی افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ساحلی علاقوں میں بھی بڑھ رہی ہے۔‏ فرانس میں بحری جہازوں کے مالکان کی سینٹرل کمیٹی کا نمائندہ ایڈور برلی کے مطابق،‏ ”‏سن ۱۹۹۸ تک نقصانات کی شرح کوئی ۱۶ بلین امریکی ڈالر تھی۔‏ بعض جہاز تو سامان سمیت بالکل غائب ہو جاتے ہیں۔‏ اُنہیں راستے میں ہی لوٹ کر یکسر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اسکے بعد وہ قزاقوں کی بندرگاہوں پر کسی دوسرے ملک کا جھنڈا لگائے لنگرانداز نظر آتے ہیں۔‏“‏ تیزرفتار اور جدیدترین مواصلاتی نظام سے لیس کشتیاں استعمال کرنے والے قزاقوں کے پاس اسلحہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ انتہائی متشدّد بھی ہوتے ہیں۔‏

نوعمر شرابی

جرمن اخبار سیڈوشے زیتنگ بیان کرتا ہے،‏ ”‏یورپ میں نوجوان کی بڑی تعداد کم عمری میں ہی شراب‌نوشی کی لت میں پڑ رہی ہے۔‏“‏ حال ہی میں یورپی یونین کے ہیلتھ منسٹر کی توجہ اس چونکا دینے والے رُجحان پر دلائی گئی تھی۔‏ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے؟‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۹۹۸ کے ایک سروے نے آشکارا کِیا کہ بعض ممالک میں ۱۵ سالہ لڑکوں کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد باقاعدہ بیئر پیتا ہے جبکہ انگلینڈ،‏ سکاٹ‌لینڈ اور ویلز میں اس عمر کی لڑکیاں وائن اور سپرٹس پینے میں لڑکوں سے بھی آگے ہیں۔‏ ڈنمارک،‏ فن‌لینڈ اور برطانیہ میں،‏ ۱۵ سالہ لوگوں کا نصف ایک سے زیادہ مرتبہ مکمل طور پر نشے میں چُور پایا گیا ہے۔‏ ہر سال یورپی یونین کے تمام ممالک میں الکحل کو بھی ۱۵ سے ۲۹ سال کی عمر کے ہزارہا اشخاص کی موت کا ذمہ‌دار قرار دیا جاتا ہے۔‏ منسٹرز کی کونسل نے الکحل کی بابت تعلیم دینے کے پروگرام کی سفارش کی ہے تاکہ نوجوانوں کو شراب‌نوشی کے اثرات سے آگاہ کِیا جا سکے۔‏

سگریٹ‌نوشی سے ہونے والی اموات معیشت کیلئے معاون؟‏

‏”‏چیک ریپبلک میں فلپ مورس کمپنیوں کے اہلکار ایک معاشی تجزیہ تقسیم کر رہے ہیں جو یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ .‏ .‏ .‏ سگریٹ‌نوشی کرنے والوں کی جلد اموات طبّی اخراجات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے،‏“‏ دی وال سٹریٹ جرنل بیان کرتا ہے۔‏ ”‏سگریٹ تیار کرنے والوں کی خصوصی رپورٹ قومی اخراجات کے حوالے سے سگریٹ پر ٹیکس اور ڈیوٹی سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافے اور اوائلی اموات کی وجہ سے ہیلتھ کیئر سیونگز جیسے سگریٹ‌نوشی کے مثبت اثرات میں اضافہ کرتی ہے۔‏“‏ مضمون مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏قیمتوں اور فوائد کا جائزہ لینے کے بعد،‏ رپورٹ یہ نتیجہ پیش کرتی ہے کہ ۱۹۹۹ میں سگریٹ‌نوشی کی بدولت حکومت کو ۸۲.‏۵ بلین کورنا (‏۱.‏۱۴۷ ملین ڈالر)‏ کا منافع ہوا تھا۔‏“‏ رپورٹ کے خلاف بہت زیادہ واویلا کِیا گیا۔‏ ”‏تمباکو کی کمپنیاں اس بات سے انکار کرتی رہیں کہ سگرٹیں لوگوں کی جان لیتی ہیں۔‏ اب وہ اسکی بابت شیخی بھگارتی ہیں،‏“‏ ایک کالم‌نویس نے لکھا۔‏ مایفیع‌معاشیات کینتھ وارنر نے کہا:‏ ”‏کیا کوئی دوسری کمپنی اپنے صارفین کو جان سے مار کر عوامی خزانے میں پیسہ جمع کرنے کی بابت ڈینگیں ماریگی؟‏ میرے خیال میں شاید کوئی بھی نہیں۔‏“‏ اگلے ہی ہفتے فلپ مورس نے معذرت‌نامہ جاری کر دیا۔‏ ”‏ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نہ صرف ایک سنگین غلطی ہے بلکہ ایک غیراخلاقی بات تھی،‏“‏ نائب صدر سٹیون سی.‏ پیرش نے کہا۔‏ ”‏یہ کہنا کہ یہ بالکل نامناسب بات ہے دراصل کم‌بیانی سے کام لینے کے مترادف ہوگا۔‏“‏

بچوں کو کم مادہ‌پرست بننے میں مدد دینا

بچے ”‏کاروباری لوگوں کے خوابوں کی تعبیر“‏ ہیں حتیٰ‌کہ چھوٹے بچوں کو بھی ”‏صارفین خیال کِیا جانے لگا ہے،‏“‏ کینیڈا کا گلوبل اینڈ میل اخبار بیان کرتا ہے،‏ ”‏اور کوئی چیز بھی اس رُجحان کو روکنے کے قابل نہیں ہے۔‏“‏ تاہم،‏ سٹین‌فورڈ یونیورسٹی سکول آف میڈیسن محسوس کرتی ہے کہ اُنہوں نے اسکا حل دریافت کر لیا ہے:‏ چھ مہینے پر مبنی ایک نصاب بچوں کو کم ٹی‌وی دیکھنے اور اس کیساتھ ساتھ جوکچھ وہ دیکھ رہے ہیں اُس میں مزید انتخاب‌پسند بننے میں مدد دیگا۔‏ تدریسی سال کے آخر پر،‏ اس پروگرام میں حصہ لینے والے بچے اپنے والدین سے بہت کم نئے کھلونے مانگنے کی طرف مائل تھے۔‏ گلوب کے مطابق،‏ ”‏ایک مثالی بچہ سال میں ۰۰۰،‏۴۰ اشتہار دیکھتا ہے جبکہ ۱۹۷۰ کے دہے میں یہ عدد ۰۰۰،‏۲۰ سالانہ تھا۔‏“‏