مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

غصے پر قابو پانا مشکل کیوں ہو رہا ہے؟‏

غصے پر قابو پانا مشکل کیوں ہو رہا ہے؟‏

غصے پر قابو پانا مشکل کیوں ہو رہا ہے؟‏

چیک ریپبلک میں پراگ کے ایک شراب‌خانہ میں بیٹھے ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔‏ کیوں؟‏ اسلئےکہ مسلح شخص مقتول کے ذاتی کیسٹ پلیئر پر بجنے والی تیز موسیقی سے عاجز تھا۔‏ جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن کے ایک چوراہے پر ایک موٹرسوار کو ہاکی سے مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔‏ حملہ‌آور شخص بظاہر اسلئے ناراض تھا کہ موٹرسوار نے اپنی گاڑی کی روشنی اُس پر چمکائی تھی۔‏ آسٹریلیا میں رہنے والی ایک برطانوی نرس کے گھر کے دروازے کو ٹھوکر مار کر کھولا جاتا ہے اور اُسکا قہرآلود سابقہ بوائےفرینڈ اُس پر پیٹرول چھڑکنے اور آگ لگانے کے بعد اُسے مرنے کیلئے چھوڑ جاتا ہے۔‏

کیا سڑک پر،‏ گھروں اور ہوائی جہازوں میں بےقابو غصے کے اظہارات کو بڑھاچڑھا کر پیش کِیا جاتا ہے؟‏ یا کیا یہ ایک عمارت کی دیواروں پر موجود دراڑوں کی طرح کسی سنجیدہ اور بنیادی مسئلے کی محض آگاہیاں ہوتی ہیں؟‏ حقائق دوسری بات کو سچ ثابت کرتے ہیں۔‏

امریکن آٹوموبائل ایسوسی‌ایشن (‏اےاےاے)‏ فاؤنڈیشن فار ٹریفک سیفٹی کی حالیہ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ سڑک پر ”‏۱۹۹۰ سے ٹریفک کے تباہ‌کُن حادثات میں کوئی ۷ فیصد اضافہ ہوا ہے۔‏“‏

گھروں پر بھی بےقابو غصے کے اظہارات میں اضافہ ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کی پولیس کے مطابق ۱۹۹۸ کے دوران خانگی جھگڑوں کی رپورٹوں میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوا تھا۔‏ اس ملک میں شادی‌شُدہ یا غیرقانونی طور پر ازدواجی زندگی بسر کرنے والی ہر چار میں سے ایک عورت اپنے ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔‏

ہوائی جہازوں میں پیش آنے والے واقعات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔‏ مسافروں کے غصے سے بھڑک اُٹھنے اور جہاز کے کارکنوں،‏ ساتھی مسافروں اور پائلٹوں پر حملہ کرنے کے واقعات کی وجہ سے دُنیا کی بعض مشہور ائیرلائنز متشدّد حملہ‌آوروں کو اپنی نشستوں سے باندھنے کیلئے اپنے کارکنوں کو خاص پیٹیاں فراہم کرتے ہیں۔‏

لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام کیوں رہتی ہے؟‏ اشتعال‌انگیز کاموں کی وجہ کیا ہے؟‏ کیا ایسے احساسات پر قابو پانا واقعی ممکن ہے؟‏

غصے میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟‏

اشتعال میں آنے کا مطلب شدید غصے میں آنا یا اس کا اظہار کرنا ہے۔‏ جب غصے کو اس حد تک بڑھنے دیا جاتا ہے کہ یہ جذبات کے شدید اظہار میں بدل جائے تو یہ اشتعال‌انگیز کام پر منتج ہوتا ہے۔‏ اےاےاے فاؤنڈیشن فار ٹریفک سیفٹی کے پریذیڈنٹ،‏ ڈیوڈ کے.‏ ولس کے مطابق،‏ ”‏سڑک پر پُرتشدد اختلافات صرف ایک حادثے کا نتیجہ نہیں ہوتے۔‏ اسکی بجائے ایسا لگتا ہے کہ یہ موٹرسوار کے ذاتی رُجحانات اور اُسکی زندگی میں دباؤ کے بڑھ جانے کے باعث رونما ہوتے ہیں۔‏“‏

اس دباؤ میں اضافے کی ایک وجہ ہم پر روزانہ لاد دئے جانے والے معلومات کے انبار ہیں۔‏ ڈیوڈ لوئز کی کتاب انفارمیشن اوورلوڈ کے آخری صفحہ پر بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏آجکل بہتیرے کارکُن معلومات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ معلومات سے مغلوب ہوکر .‏ .‏ .‏ وہ بیحد پریشان اور بےپروا ہو گئے ہیں اور اسے سمجھنے یا اس میں انتخاب کرنے میں ناکام رہنے سے اُن کی کارکردگی پر گہرا اثر پڑا ہے۔‏“‏ مثال کے طور پر معلومات کی اس بھرمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اخبار نے بیان کِیا:‏ ”‏اخبار کے ایک ہفتہ‌وار شمارے میں موجود مواد ۱۷ ویں صدی میں رہنے والے اوسطاً ایک شخص کی عمربھر کی معلومات کے برابر ہے۔‏“‏

ہماری خوراک بھی ہمارے غصے میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔‏ بڑے پیمانے پر کئے جانے والے دو مطالعوں نے ظاہر کِیا ہے کہ تمباکونوشی،‏ الکحل کے استعمال اور غیرصحتمندانہ خوراک سے عداوت بڑھ جاتی ہے۔‏ ہر طرف پھیلی ہوئی یہ عادات پریشانی اور مایوسی کو بڑھاتی ہیں—‏مایوسی جو بدکلامی،‏ بےصبری اور تُندمزاجی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔‏

بُرے آداب اور فلمیں

غیرمہذب رویے اور جرم کے درمیان تعلق پر تبصرہ کرتے ہوئے آسٹریلین انسٹیٹیوٹ آف کرمنولوجی (‏اےآئی‌سی)‏ کے منظم ڈاکٹر ایڈم گریکار بیان کرتا ہے:‏ ”‏چھوٹےموٹے جرائم کو کم کرنے کی جانب سب سے اہم قدم پاس‌ولحاظ اور شائستگی پر دوبارہ متوجہ ہونا ہے۔‏“‏ انسٹیٹیوٹ صبر سے کام لینے،‏ رواداری ظاہر کرنے اور بدکلامی سے گریز کرنے کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایسا کرنے میں ناکامی بےقاعدہ چال‌چلن کو مجرمانہ چال‌چلن بنا دیتی ہے۔‏ عجیب بات ہے کہ بہتیرے پریشانی اور دباؤ کو کم کرنے کے لئے تفریح کا جو طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ درحقیقت تُندمزاجی اور اشتعال کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏ وہ کیسے؟‏

‏”‏بچے اور بالغ موت اور تباہی کے مناظر دیکھنے کیلئے سینما ہال جاتے ہیں۔‏ پُرتشدد ویڈیوز کا کاروبار وسیع اور نفع‌بخش ہے۔‏ بعض والدین کی ناپسندیدگی کے باوجود بیشتر بچے ’‏جنگی کھلونوں‘‏ کو پسند کرتے ہیں۔‏ اےآئی‌سی کی رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏بالغوں اور بچوں سمیت بہتیرے لوگ ٹیلیویژن پر دکھائے جانے والے تشدد سے بہت محظوظ ہوتے ہیں اور ٹیلیویژن ہی ثقافتی اقدار کی منتقلی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔‏“‏ اسکا سڑک پر اور گھروں میں بےقابو غصے کے اظہارات سے کیا تعلق ہے؟‏ رپورٹ اسکی وجہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏معاشرہ جس حد تک تشدد کو نظرانداز کرتا ہے،‏ اس میں رہنے والے لوگوں کی اقدار اسی کی مطابقت میں فروغ پاتی ہیں۔‏“‏

آجکل بہتیرے لوگ استدلال کر سکتے ہیں کہ غصے کا اظہار دباؤ،‏ بلند فشارِخون کے ناگزیر نتائج اور جارحانہ معاشرے کے لئے ایک فطری جوابی‌عمل ہے۔‏ پس،‏ مقبول نظریہ ”‏غصے کا اظہار کریں،‏“‏ کیا واقعی مفید مشورہ ہے؟‏

کیا غصے پر قابو رکھنا چاہئے؟‏

جس طرح ایک پھٹنے والا آتش‌فشاں اپنے اِردگرد کے باشندوں کو تباہ‌وبرباد کر دیتا ہے،‏ اُسی طرح،‏ شدید غصے کا اظہار کرنے والا ایک شخص اپنے اردگرد کے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔‏ وہ خود کو بھی شدید تکلیف پہنچاتا ہے۔‏ کس طرح؟‏ دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی‌ایشن (‏جےاےایم‌اے)‏ بیان کرتا ہے،‏ ”‏غصے کا اظہار اَور بھی جارحیت کا سبب بنتا ہے۔‏“‏ تحقیق کے مطابق،‏ غصے کا اظہار کرنے والے مردوں میں ”‏بیملک‌نفس کا مظاہرہ کرنے والے لوگوں کی نسبت ۵۰ سال کی عمر میں موت واقع ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‏“‏

اسی طرح دی امریکن ہارٹ ایسوسی‌ایشن بیان کرتی ہے:‏ ”‏غصے پر قابو رکھنے والے مردوں کی نسبت،‏ بےقابو غصے کا تجربہ کرنے والے مردوں میں فالج کے حملے کا شکار ہونے کے امکانات دو گنا زیادہ ہوتے ہیں۔‏“‏ یہ آگاہیاں مردوں اور عورتوں کیلئے یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔‏

کونسی مشورت مؤثر ثابت ہوتی ہے؟‏ انسانی تعلقات کو بخوبی جاننے والی مقبول‌ترین کتاب بائبل اور دُنیاوی ماہرین کی مشورت کے مابین مشابہت پر غور کریں۔‏

غصے پر قابو رکھیں—‏غصے کو بےقابو نہ ہونے دیں

جےاےایم‌اے میں ڈاکٹر ریڈفورڈ بی.‏ ولیمز بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ تنگ‌نظر مشورت کہ ’‏غصے کا اظہار کریں‘‏ زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتی۔‏ اسکی بجائے اپنے غصے کی وجہ جاننے کے بعد اس پر قابو پانا اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‏“‏ وہ خود سے استفسار کرنے کا مشورہ دیتا ہے:‏ ”‏(‏۱)‏ کیا یہ صورتحال میرے لئے اہم ہے؟‏ (‏۲)‏ کیا معروضی حقائق کے ہجدنظر میرے خیالات اور احساسات موزوں ہیں؟‏ (‏۳)‏ کیا اِس صورتحال میں بہتری پیدا کرنا ممکن ہے تاکہ غصے پر قابو پایا جا سکے؟‏“‏

امثال ۱۴:‏۲۹؛‏ ۲۹:‏۱۱ ”‏جو قہر کرنے میں دھیما ہے بڑا عقلمند ہے پر وہ جو جھکی ہے حماقت کو بڑھاتا ہے۔‏ احمق اپنا قہر اُگل دیتا ہے لیکن دانا اُسکو روکتا اور پی جاتا ہے۔‏“‏

افسیوں ۴:‏۲۶ ”‏غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔‏ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔‏“‏

فرینک ڈونوان اپنی کتاب ڈیلنگ وتھ اینگر—‏سیلف-‏ہیلپ سلوشنز فار مین میں سفارش کرتا ہے:‏ ”‏غصے—‏بالخصوص اس سے وابستہ صورتحال یا لوگوں—‏سے گریز کرنا اپنے غصے پر قابو پانے کے بہترین طریقوں میں خاص اہمیت اور قدروقیمت کا حامل ہے۔‏“‏

امثال ۱۷:‏۱۴ ”‏جھگڑے کا شروع پانی کے پھوٹ نکلنے کی مانند ہے اس لئے لڑائی سے پہلے جھگڑے کو چھوڑ دو۔‏“‏

برٹرم روتھس‌چائلڈ نے جرنل دی ہیومنسٹ میں تحریر کرتے ہوئے بیان کِیا:‏ ”‏غصہ .‏ .‏ .‏ درحقیقت ایک شخص کی ذاتی ذمہ‌داری ہے۔‏ ہمارے غصے میں آنے کی وجوہات ہمارے اپنے ذہنوں میں ہوتی ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ چند ایک مرتبہ غصے میں آنے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کے علاوہ غصے کے نتائج بیشتر مرتبہ منفی ثابت ہوتے ہیں۔‏ غصے کا اظہار کرنے کی بجائے اس پر قابو پانا قدرے بہتر ہے۔‏“‏

زبور ۳۷:‏۸ ”‏قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔‏ بیزار نہ ہو۔‏ اس سے بُرائی ہی نکلتی ہے۔‏“‏

امثال ۱۵:‏۱ ”‏نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضب‌انگیز ہیں۔‏“‏

امثال ۲۹:‏۲۲ ”‏قہرآلودہ آدمی فتنہ برپا کرتا ہے اور غضبناک گناہ میں زیادتی کرتا ہے۔‏“‏

دُنیابھر میں یہوواہ کے لاکھوں گواہ مذکورہ‌بالا مشورت پر دھیان دیتے ہیں۔‏ ہم آپ کو اپنے مقامی کنگڈم ہال میں اُنکے اجلاسوں پر حاضر ہونے اور اس بات کا ذاتی تجربہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ اس موجودہ دَور میں جب لوگ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھتے تو بائبل کی مشورت کا اطلاق کرنا واقعی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویریں]‏

پھٹنے والے آتش‌فشاں کی طرح بےقابو غصہ کرنے والا شخص نقصان پہنچاتا ہے

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بائبل کی مشورت واقعی مفید ہے