مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

گریٹ آرٹیزین بےسن کیا ہے؟‏

گریٹ آرٹیزین بےسن کیا ہے؟‏

گریٹ آرٹیزین بےسن کیا ہے؟‏

آسٹریلیا سے جاگو!‏ کا رائٹر

مغربی سمت میں آسٹریلیا کے وسیع ساحلی کوہستانوں کے چھوٹے چھوٹے آخری قطعوں سے پرواز کرتے ہوئے نیچے ایک نہایت دلکش منظر رونما ہوتا ہے۔‏ اُوپر صاف‌وشفاف نیلا آسمان اُفق کو چُھوتا دکھائی دیتا ہے۔‏ دُور دُور تک پھیلی ہوئی زمین خالی اور ہموار نظر آتی ہے۔‏ ہری‌بھری فصلوں اور سنہری سبزہ‌زاروں سے آراستہ زمین بہت جلد لال مٹی اور بنجر علاقے میں بدل جاتی ہے جس پر جگہ جگہ بھورے رنگ کی گھاس اُگتی ہے۔‏

حیرانی کی بات ہے کہ بحیرۂ روم کے دو تہائی حصے جتنا پانی زلیصفن‌زمین محفوظ ہے۔‏ پانی کے اس بڑے ذخیرے کو گریٹ آرٹیزین بےسن کہتے ہیں۔‏

اس زلیصفن‌زمین سمندر کی موجودگی ملک کے ساحلی علاقے سے دُور خشک زمین پر آباد لوگوں کیلئے ذریعۂ‌معاش فراہم کرتا ہے۔‏ اس پوشیدہ خزانے کی اہمیت اور اسکے ذریعے کو سمجھنے کے لئے ہمارے لئے آسٹریلیا کی زمینی ساخت کو سمجھنا ضروری ہے۔‏

خشک سطح

آسٹریلیا کو موزوں طور پر دھوپ کا سنولایا ملک کہا جاتا ہے۔‏ یہ دُنیا کے پانچ بّراعظموں میں سب سے چھوٹا اور اس کا صحرا دُنیا کے بڑے صحراؤں میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔‏ یہاں دُنیا کا سب سے بڑا دریا،‏ دریائےڈارلنگ بھی ہے۔‏ اسکے باوجود آسٹریلیا کے دریاؤں میں پانی کم ہے۔‏ آسٹریلیا کے تمام دریاؤں اور ندیوں کے مشترکہ پانی کی نسبت،‏ ریاستہائےمتحدہ کے دریائےمس‌سیسی‌پی سے ہر سال سمندر میں بہنے والا پانی اس سے ۶۰ فیصد زیادہ ہے۔‏ اس ملک میں بارش کیوں نہیں ہوتی؟‏

اسکی وجہ گلوب پر اس بّراعظم کا مقام ہے—‏۳۰ ڈگری جنوب کے عرض بلد میں مقیم—‏جو زیادہ دباؤ رکھنے والے موسمی اثرات پیدا کرتا ہے۔‏ اس فضائی دباؤ کے باعث گرم ہوائیں ملک کے وسطی علاقے کی سمت میں مرکوز ہوتی ہیں۔‏ ایک وسیع علاقے سے گزرتے ہوئے ان ہواؤں کی راہ میں کوئی بھی اُونچے پہاڑ نہیں آتے جسکی وجہ سے انکی رطوبت ختم نہیں ہوتی۔‏ یہاں کے سب سے اُونچے پہاڑ برّاعظم کے مشرقی ساحل کا احاطہ کرتے ہیں۔‏ اُسکی بلندترین چوٹی صرف ۳۱۰،‏۷ فٹ اُونچی ہے جو دُنیا کے دوسرے پہاڑوں کی نسبت بہت چھوٹی ہے۔‏ مشرقی سمت میں بحرالکاہل سے اندرونِ‌ملک آنے والی مرطوب ہوائیں ان پہاڑوں سے ٹکرا کر ایک محدود ساحلی علاقے میں پانی کے اس قیمتی ذخیرے کو کھو دیتی ہیں۔‏ اُونچائی کی کمی،‏ اوسطاً بلند درجۂ‌حرارت اور پہاڑوں کے مقامات سب ملکر آسٹریلیا کو دُنیا کا سب سے خشک برّاعظم بنا دیتے ہیں—‏کم‌ازکم سطح‌زمین کے لحاظ سے تو یہ بات سچ ہے۔‏

زیرِزمین پانی

آسٹریلیا کی خشک زمینی پرت کے نیچے پانی کے ۱۹ بڑے ذخائر ہیں۔‏ ان میں سے سب سے بڑا ذخیرہ گریٹ آرٹیزین بےسن برّاعظم کے پانچویں حصے کے برابر علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔‏ اس ذخیرے کا عرض شمال میں کیپ یارک کے سرے سے جنوبی آسٹریلیا میں لیک ایئر تک ۰۰۰،‏۶۶۰ مربع میل تک پھیلا ہوا ہے۔‏ اس میں ۰۸۸،‏۲ مکعب میل پانی ہے جو شمالی امریکہ میں می‌شی‌گن اور ہرون کی جھیلوں کو زلیصفن‌آب کر سکتا ہے۔‏

تاہم شمالی امریکہ کی بڑی جھیلوں کے برعکس،‏ گریٹ آرٹیزین بےسن کے پانی تک رسائی آسان نہیں ہے۔‏ بارش کا پانی مٹی میں جذب ہو کر ریت کے پتھروں میں سرایت کرتا ہوا اس ذخیرے میں جمع ہوتا ہے۔‏ اس طرح تقریباً ۸۰ ملین گیلن پانی روزانہ اس ذخیرے میں بہتا ہے۔‏ یہ سارا پانی کہاں جاتا ہے؟‏

ایک بڑے اسفنج کو بھگونا

گریٹ آرٹیزین بےسن ایک اسفنج کی طرح ہے،‏ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ بہت بڑا ہے۔‏ مزاحم‌آب چٹانوں کے درمیان واقع یہ ریت کی اسفنج‌نما تہیں ۳۰۰ فٹ سے لیکر تقریباً دو میل چوڑی ہیں۔‏ جنوب کی طرف جھکی ان مڑی ہوئی چٹانوں کے مشرقی کنارے گریٹ دیوائڈنگ رینج سے ملتے ہیں۔‏ ان کناروں میں سرایت کرنے والا بارش کا پانی سالانہ ۱۶ فٹ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔‏

اگر پہاڑوں کی سطح پر مزاحم‌آب چٹانوں سے گزرنے اور ریت کی چٹانوں تک پہنچنے والا ایک کنواں کھودا جائے تو ہخیرثقل کے ذریعے یہ پانی سطح پر آ جاتا ہے۔‏ پانی کے دباؤ کی وجہ سے،‏ اُوپر آ جانے کی بدولت اسے آرٹیزی کنواں کہتے ہیں،‏ یہ اصطلاح فرانس کے سابقہ صوبے آٹوئز سے مشتق ہے جہاں اس قسم کا پہلا کنواں کھودا گیا تھا۔‏ جب آسٹریلیا کے اِس زمینی ذخیرے کو دریافت کِیا گیا تو پانی کے اس قدیم ذخیرے میں لاکھوں کنوئیں کھودے گئے۔‏

ذخیرے سے پانی نکالنا

سن ۱۸۰۰ کے آخر میں کوئنزلینڈ اور نیو ساؤتھ ویلز کے نوآبادکاروں نے یہاں واقع کُھلے میدانوں سے استفادہ کرنے کے لئے اس ذخیرے میں سے پانی نکالنا شروع کِیا جو ان کی نظر میں لامحدود تھا۔‏ سن ۱۹۱۵ تک تقریباً ۵۰۰،‏۱ کنوئیں کھودے گئے اور گریٹ آرٹیزین بےسن سے روزانہ ۵۳۰ ملین گیلن پانی (‏۰۰۰،‏۱ اولمپک سائز کے سوئی‌منگ پولز)‏ نکالا گیا۔‏ نتیجتاً یہ ذخیرہ جس تیزی سے خالی ہوا اتنی تیزی سے بھرا نہیں اور یوں بہت سے کنوؤں کا پانی ختم ہو گیا ہے۔‏

اُن ۷۰۰،‏۴ آرٹیزی کنوؤں میں سے آجکل صرف ۰۰۰،‏۳ قدرتی طور پر بہتے ہیں۔‏ اس بڑے اسفنج میں سے پانی نکالنے کیلئے مزید ۰۰۰،‏۲۰ کوئیں کھودے گئے ہیں جن سے پانی سطح‌زمین پر لانے کیلئے پون چکی کے پمپ استعمال کئے جاتے ہیں جو آپ کو ہوائی جہاز سے نیچے کرۂارض پر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔‏ متعلقہ حکومتیں اس ذخیرے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ اس وقت سطح‌زمین پر آنے والا ۹۵ فیصد آرٹیزی پانی بخارات کی صورت میں ضائع ہو رہا ہے۔‏

اس ذرائع کو محفوظ رکھنے کی اہمیت واضح ہے کیونکہ زمینی پانی آسڑیلیا کی ۶۰ فیصد آبادی کا سب سے قالصفن‌بھروسا ذریعہ ہے۔‏ بہتیرے اندرونِ‌ملک علاقے اور صنعتیں مکمل طور پر اس ذریعے پر انحصار کرتے ہیں۔‏ پانی کا ذائقہ کیسا ہے؟‏ کوئنزلینڈ میں آرٹیزی پانی سے سیراب ایک فارم پر پرورش پانے والا جےسن بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ ذرا سا نمکین ہے اور اگر دستیاب ہو تو مَیں بارش کے پانی کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں لیکن مویشی اسے بیحد پسند کرتے ہیں۔‏“‏ یہ ذائقہ چٹانوں سے رسنے والے پانی میں جمع ہونے والی محلل معدنیات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔‏ حوض کی سطح پر پانی تقریباً باکل صاف ہوتا ہے لیکن درمیان میں یہ ناقالصفن‌برداشت طور پر نمکین ہے—‏صرف بھیڑ اور مویشی ہی اسے پی سکتے ہیں۔‏ جو پانی استعمال میں نہیں آتا اور بچ جاتا ہے وہ جنوبی سمت کی خشک اندرونی تہہ میں بہتا ہے۔‏

بہت بڑا مگر کم

غروبِ‌آفتاب کی سمت میں پرواز کرتے ہوئے،‏ ہمیں کوسوں دُور نیچے زمین پر پانی کے چمکتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گول رقبے نظر آتے ہیں جیسے صحرا میں بہت سارے بٹن پھیلے ہوں۔‏ زلیصفن‌زمین ہزاروں میل کا سفر کرنے کے بعد جسے لاکھوں سال لگ جاتے ہیں بارش کا پانی گریٹ آرٹیزین بےسن کے جنوب‌مغربی کنارے تک پہنچ کر سطح‌زمین سے بہنے لگتا ہے اور ہمیں اُوپر سے دکھائی دینے والے ان اُونچے قدرتی چشموں میں بدل جاتا ہے۔‏ چشموں کا پانی بخارات بنکر معدنیات کی ایک تہہ بنا لیتا ہے۔‏ یہ تہہ ہوا میں اُڑنے والی ریت کو جمع کرتی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ چشمے کو سطح‌زمین سے اُونچا کر دیتی ہے۔‏

نباتات اور پرندوں کو زندگی بخشنے والے یہ منتشر گہوارے بھی انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہو رہے ہیں۔‏ کتاب ڈسکوور آسٹریلیا بیان کرتی ہے:‏ ”‏مویشیوں،‏ خرگوشوں اور حالیہ سیاحوں نے ایسے کئی اُونچے نازک چشموں کو برباد کر دیا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ شاید سب سے زیادہ تباہ‌کُن بات یہ ہے کہ مویشیوں کے استعمال کیلئے کنوؤں سے نکالے جانے والے پانی کی مقدار نے کئی چشموں کے پانی کے بہاؤ کو اسقدر کم کر دیا ہے کہ بعض چشموں کا پانی اب محض قطروں کی شکل میں بہتا ہے۔‏“‏

پانی کا یہ قدیم ذخیرہ بہت بڑا مگر کم ہے—‏اس کا رقبے تو وسیع ہے لیکن انسانی اثر اسے کمزور بنا رہا ہے۔‏ دُنیا کے تمام ذخائر کی طرح اس وسیع زلیصفن‌زمین آبی نظام،‏ گریٹ آرٹیزین بےسن کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کی محتاط دیکھ‌بھال ضروری ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

گریٹ آرٹیزین بےسن

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

آسٹریلیا کے دُورافتادہ دیہی علاقے کی شناخت کرنے والا پون چکی کا پمپ صحرا کو سیراب کرتا ہے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اس دُورافتادہ فارم کے رہنے والوں کی طرح آسٹریلیا کی ۶۰ فیصد آبادی زمینی پانی پر انحصار کرتی ہے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

قدرتی طور پر بنے اُونچے چشموں سے ہزاروں سال پُرانا پانی بہتا ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy of National Parks and Wildlife South Australia

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

گریٹ آرٹیزین بےسن کے جنوب‌مغربی کنارے پر واقع ایک نمکین تالاب

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

چشموں کے گرد بتدریج جمع ہونے والی معدنیاتی تہہ نے انکی اُونچائی ۴۵ فٹ کر دی ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy of National Parks and Wildlife South Australia