مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایک ایسی دُنیا جو سب کیلئے ہوگی

ایک ایسی دُنیا جو سب کیلئے ہوگی

ایک ایسی دُنیا جو سب کیلئے ہوگی

‏”‏پناہ‌گزینوں کے عالمی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اِسکا حل بھی عالمی ہونا چاہئے۔‏“‏—‏گل لاشر،‏ پروفیسر برائے بین‌الاقوامی تعلقات۔‏

نوجوان جوڑا رات کی تاریکی میں چل پڑا۔‏ اپنی حفاظت کے پیشِ‌نظر شوہر ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا حالانکہ اُنکا بچہ بہت چھوٹا تھا۔‏ اُسے خبر ملی تھی کہ مُلک کا ظالم حکمران شہر پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔‏ سو میل کے دُشوار سفر کے بعد خاندان نے سرحد پار کر لی اور وہ محفوظ ہو گئے۔‏

بعدازاں یہ ادنیٰ خاندان ساری دُنیا میں مشہور ہو گیا۔‏ اُن کے بچے کا نام یسوع تھا اور اُسکے والدین یوسف اور مریم تھے۔‏ ان پناہ‌گزینوں نے مادی دولت کی جستجو میں اپنا گھربار نہیں چھوڑا تھا۔‏ بلکہ اُنکی زندگیوں کو خطرہ لاحق تھا۔‏ اُنکا بچہ حملے کی زد میں تھا!‏

بہتیرے دیگر پناہ‌گزینوں کی طرح،‏ یوسف اور اُسکا خاندان بھی انجام‌کار سیاسی صورتحال بہتر ہو جانے کے بعد اپنے آبائی وطن واپس آ گیا۔‏ مگر اُن کے بروقت فرار نے بِلاشُبہ اُن کے چھوٹے بچے کی زندگی بچا لی۔‏ (‏متی ۲:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ مصر کا مُلک جہاں اُنہوں نے پناہ لی تھی سیاسی اور معاشی دونوں طرح کے پناہ‌گزینوں کو تحفظ دینے کے لئے مشہور تھا۔‏ کئی صدیاں پہلے جب ملکِ‌کنعان میں کال پڑا تو یسوع کے آباؤاجداد نے بھی مصر میں پناہ حاصل کی تھی۔‏—‏پیدایش ۴۵:‏۹-‏۱۱‏۔‏

محفوظ مگر غیرمطمئن

صحیفائی اور زمانۂ‌جدید کی مثالیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ دوسرے مُلک بھاگ جانا موت اور زندگی کا معاملہ ہو سکتا ہے۔‏ اسکے باوجود،‏ اپنے آبائی وطن کو چھوڑنا کسی بھی خاندان کیلئے ایک تکلیف‌دہ تجربہ ہے۔‏ گھر خواہ معمولی حیثیت کا ہی کیوں نہ ہو،‏ یہ وقت اور پیسے کے اعتبار سے سالوں کی سرمایہ‌کاری کا نتیجہ ہوتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں یہ خاندانی میراث بھی ہو سکتی ہے جو اُنہیں اُنکی ثقافت اور وطن سے وابستہ رکھتی ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ پناہ‌گزین محض چند چیزیں ہی اپنے ساتھ لیجا سکتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ اپنے سابقہ حالات سے قطع‌نظر،‏ پناہ‌گزین غربت کا شکار رہتے ہیں۔‏

محفوظ جگہ پر پہنچنے کا ابتدائی احساسِ‌تسکین اُسی وقت ہرن ہو جاتا ہے اگر آپکو پتا چلتا ہے کہ آپکی باقی‌ماندہ زندگی اسی پناہ‌گزین کیمپ میں گزریگی۔‏ بالخصوص اگر مقامی لوگوں سے کوئی رابطہ نہ ہو تو پناہ‌گزینی کی حالتیں جتنی طویل ہوتی جاتی ہیں اُتنی ہی استبدادی بھی ہوتی جاتی ہیں۔‏ دوسرے لوگوں کی طرح پناہ‌گزین بھی کسی نہ کسی جگہ مستقل قیام کے خواہاں ہوتے ہیں۔‏ پناہ‌گزین کیمپ خاندان بڑھانے کے لئے مناسب جگہ نہیں ہے۔‏ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب ہر ایک کے پاس ایسی جگہ ہوگی جسے وہ اپنا گھر کہہ سکے گا؟‏

کیا وطن واپسی اسکا حل ہے؟‏

سن ۱۹۹۰ کے عشرے میں،‏ وطن سے دُور تقریباً نو ملین لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔‏ اِن میں سے بعض کیلئے،‏ یہ ایک خوشی کا موقع تھا اور اُنہوں نے بڑے اشتیاق کیساتھ اپنی زندگیوں کو ازسرِنو ترتیب دینا شروع کِیا۔‏ مگر دیگر کیلئے یہ ایک جبری عمل تھا۔‏ وہ محض اسلئے واپس آئے تھے کہ جس مُلک میں اُنہوں نے پناہ لی تھی وہاں رہنا اُن کیلئے انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔‏ جِلاوطنی کے دوران اُنہوں نے جن مسائل کا سامنا کِیا وہ اسقدر سنگین ہو گئے تھے کہ اُنہوں نے اُس عدمِ‌تحفظ کے باوجود جسکا اُنہیں اپنے وطن میں سامنا کرنا پڑیگا واپسی کا فیصلہ کر لیا۔‏

بہترین حالتوں کے باوجود بھی وطن واپس لوٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کا مطلب دوسری مرتبہ نئے سرے سے زبردستی گھر بسانے کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔‏ ”‏نقل‌مکانی کرنے میں ہمیشہ زمین،‏ ملازمت،‏ گھر اور مال‌مویشیوں کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے،‏“‏ دی سٹیٹ آف ورلڈ رفیوجیز ۱۹۹۷-‏۱۹۹۸ بیان کرتی ہے۔‏ ”‏ہر بار تبدیلی ایک کٹھن بحالی کے عمل کی نشاندہی کرتی ہے۔‏“‏ وسطی افریقہ میں وطن واپس لوٹنے والے پناہ‌گزینوں کے ایک سروے نے بیان کِیا کہ ”‏جن پناہ‌گزینوں کو جِلاوطنی میں مدد ملی تھی اُن کے لئے واپسی،‏ جِلاوطنی سے زیادہ مشکل ہو سکتی ہے۔‏“‏

تاہم،‏ اُن لاکھوں پناہ‌گزینوں کی حالت زیادہ کربناک ہے جنہیں اُن کی مرضی کے خلاف گھر واپس لوٹنے پر مجبور کِیا جاتا ہے۔‏ کونسی حالتیں اُن کی منتظر ہیں؟‏ اقوامِ‌متحدہ کی ایک رپورٹ نے بیان کِیا،‏ ”‏واپس آنے والوں کو شاید ایسی حالت میں رہنا پڑے جہاں شاید ہی کوئی قانون ہے،‏ جہاں لوٹ‌مار اور پُرتشدد جرم عام ہے،‏ جہاں فوجی خدمت سے سبکدوش سپاہی شہری آبادی کو نشانہ بناتے ہیں اور جہاں بیشتر لوگ سادہ ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔‏“‏ بدیہی طور پر،‏ ایسا معاندانہ ماحول استحصال کا شکار لوگوں کو بنیادی تحفظ بھی فراہم نہیں کرتا۔‏

ایک ایسی دُنیا تشکیل دینا جہاں ہر شخص محفوظ ہوگا

اگر اسکی تہہ میں چھپے اسباب کا سدِباب نہیں کِیا جاتا تو جبری واپسی کبھی بھی پناہ‌گزینوں کے مسائل کو حل نہیں کر سکے گی۔‏ اقوامِ‌متحدہ کے سابقہ ہائی کمشنر برائے پناہ‌گزین،‏ کی مسز سڈاکو اوگاٹا نے ۱۹۹۹ میں بیان کِیا:‏ ”‏اس دہے کے واقعات اور بِلاشُبہ گزشتہ سال کے واقعات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ تحفظ پر بات کئے بغیر پناہ‌گزینوں کے مسائل کو زیرِبحث نہیں لایا جا سکتا۔‏“‏

لہٰذا دُنیابھر میں سنگین قسم کا عدمِ‌تحفظ لاکھوں لوگوں کو پریشان کئے ہوئے ہے۔‏ اقوامِ‌متحدہ کا سیکرٹری جنرل،‏ کوفی عنان بیان کرتا ہے:‏ ”‏دُنیا کے بعض خطوں میں،‏ داخلی اور خارجی فرقہ‌وارانہ جھگڑوں کے نتیجے میں کئی مُلک تباہ ہو گئے ہیں کیونکہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔‏ دوسری جگہوں پر عوامی مفادات کیلئے کام کرنے سے انکار کرنے والی حکومتوں کی وجہ سے جو اپنے مخالفین کو اذیت اور اقلیتی گروہوں کے معصوم اراکین کو سزا دیتی ہیں انسانی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔‏“‏

جنگیں،‏ اذیت اور نسلیاتی تشدد—‏جنہیں کوفی عنان نے عدمِ‌تحفظ کے بنیادی اسباب قرار دیا—‏اکثر اِنکی اصل وجہ نفرت،‏ تعصّب اور ناانصافی ہوتی ہے۔‏ اِن بُرائیوں کو آسانی سے ختم نہیں کِیا جا سکتا۔‏ پس کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ پناہ‌گزینوں کا مسئلہ دن‌بدن سنگین صورتحال اختیار کرتا جائیگا؟‏

اگر معاملات کو انسانوں کے ہاتھوں میں چھوڑا دیا جائے تو یقیناً نتیجہ یہی ہوگا۔‏ لیکن بائبل میں خدا وعدہ فرماتا ہے کہ ”‏وہ زمین کی انتہا تک جنگ موقوف کراتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۴۶:‏۹‏)‏ اپنے نبی یسعیاہ کی معرفت وہ ایک ایسے وقت کا ذکر کرتا ہے جب لوگ ”‏گھر بنائینگے اور اُن میں بسینگے۔‏ وہ تاکستان لگائینگے اور اُن کے میوے کھائینگے۔‏ .‏ .‏ .‏ اُن کی محنت بےسود نہ ہوگی اور اُن کی اولاد ناگہاں ہلاک نہ ہوگی کیونکہ وہ اپنی اولاد سمیت [‏یہوواہ]‏ کے مبارک لوگوں کی نسل ہیں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ ایسی حالتیں واقعی پناہ‌گزینوں کے مسائل کو ختم کر دینگی۔‏ کیا ایسی حالتیں ممکن ہیں؟‏

اقوامِ‌متحدہ کی تعلیمی،‏ سائنسی اور ثقافتی تنظیم کا پیش‌لفظ بیان کرتا ہے کہ ”‏چونکہ لڑائیاں انسانی ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں لہٰذا امن کے دفاع کو بھی انسانی ذہنوں ہی میں جنم لینا چاہئے۔‏“‏ ہمارا خالق اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‏ یسعیاہ کی وہی پیشینگوئی بیان کرتی ہے کہ کیوں زمین کا ہر بشر ایک دن سلامتی سے رہے گا:‏ ”‏وہ میرے تمام کوہِ‌مقدس پر نہ ضرر پہنچائینگے نہ ہلاک کریں گے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین [‏یہوواہ]‏ کے عرفان سے معمور ہوگی۔‏“‏—‏یسعیاہ ۱۱:‏۹‏۔‏

یہوواہ کے گواہوں نے پہلے ہی یہ جان لیا ہے کہ یہوواہ کا علم تعصّب اور نفرت پر غالب آ سکتا ہے۔‏ منادی کے اپنے بین‌الاقوامی کام میں وہ مسیحی اقدار کا پرچار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جنگ سے متاثرہ ممالک میں بھی نفرت کی بجائے محبت پیدا کرتی ہیں۔‏ وہ پناہ‌گزینوں کیلئے بھی ہر ممکن مدد فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں۔‏

اس کے برعکس،‏ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پناہ‌گزینوں کے مسائل کا مکمل حل خدا کے مقررکردہ بادشاہ یسوع مسیح کے پاس ہے۔‏ وہ یقیناً سمجھتا ہے کہ نفرت اور تشدد کتنی آسانی سے انسانی زندگیاں لے سکتا ہے۔‏ بائبل یقین‌دہانی کراتی ہے کہ وہ راستی سے مسکینوں کا انصاف کرے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۱۱:‏۱-‏۵‏)‏ اُس کی آسمانی حکومت کے تحت،‏ زمین پر خدا کی مرضی ویسے ہی پوری ہوگی جیسے آسمان پر ہوتی ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ جب وہ دن آتا ہے تو پھر کوئی بھی کبھی پناہ‌گزین نہیں ہوگا۔‏ لہٰذا ہر ایک کے پاس ایسی جگہ ہوگی جسے وہ اپنا گھر کہہ سکے گا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر بکس]‏

پناہ‌گزینوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کیا درکار ہے؟‏

”‏دُنیا کے بےگھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنا—‏جن میں پناہ‌گزین اور اندرونی طور پر بےگھر لوگ دونوں شامل ہیں—‏محض عارضی تحفظ اور امداد فراہم کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔‏ اس کا مطلب ایسی اذیت،‏ تشدد اور لڑائی‌جھگڑوں پر توجہ دینا ہے جو گھر سے بےگھر ہونے کا سبب بنتے ہیں۔‏ اس کا مطلب اپنے گھروں سے فرار ہوئے بغیر مردوزن اور بچوں کے سلامتی،‏ تحفظ اور وقار حاصل کرنے کے انسانی حقوق کو سمجھنا ہے۔‏“‏—‏دی سٹیٹ آف دی ورلڈز رفیوجیز ۲۰۰۰۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر بکس/‏تصویریں]‏

خدا کی بادشاہت کیا حل پیش کرتی ہے؟‏

”‏تب بیابان میں عدل بسے گا اور صداقت شاداب میدان میں رہا کریگی۔‏ اور صداقت کا انجام صلح ہوگا اور صداقت کا پھل ابدی آرام‌واطمینان ہوگا۔‏ [‏خدا کے]‏ لوگ سلامتی کے مکانوں میں اور بےخطر گھروں میں اور آسودگی اور آسایش کے کاشانوں میں رہینگے۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۲:‏۱۶-‏۱۸‏۔‏