تحفظ کیلئے سرگرداں لوگ
تحفظ کیلئے سرگرداں لوگ
”بیسویں صدی کے اختتام سے اُس خونخرابے اور اذیت کا خاتمہ نہیں ہوا جو لوگوں کو اپنی زندگیاں بچانے کیلئے فرار ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ کروڑہا لوگوں نے اس خوف کیساتھ پناہگزین کیمپوں اور عارضی پناہگاہوں میں نئی ہزاری کو خوشآمدید کہا ہے کہ اگر وہ اپنے گھر واپس جائینگے تو کوئی اُنہیں قتل نہ کر دے۔“—بِل فرلک، یو۔ایس۔ کمیٹی برائے پناہگزین۔
جیکب نے ایک خواب دیکھا۔ اُس نے خواب میں ایک ایسی جگہ دیکھی جہاں لوگ امنوسلامتی سے رہتے ہیں، جہاں بم اُسکی بکریوں کو ہلاک نہیں کرتے اور جہاں وہ سکول جا سکتا ہے۔
اُس کے قصبے کے لوگوں نے اُسے بتایا کہ ایسی جگہ تو موجود ہے مگر وہ بہت دُور واقع ہے۔ اُسکے باپ نے کہا کہ وہاں کا سفر بہت خطرناک ہے بعض تو بھوکوپیاس کی وجہ سے راستے ہی میں دم توڑ جاتے ہیں۔ مگر جب اسکی ایک پڑوسن جسکے شوہر کو قتل کر دیا گیا تھا اپنے دو بچوں کیساتھ وہاں جانے کیلئے تیار ہوگئی تو جیکب نے بھی تنہا وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا۔
جیکب نے خوراک اور لباس جیسی چیزیں اپنے ساتھ لئے بغیر سفر شروع کر دیا اور پہلے دن تو وہ صرف بھاگتا ہی رہا۔ پناہگاہ کی جانب جانے والے راستے پر ہر طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں۔ اگلے دن اُسے اپنے ہی قصبے کی ایک عورت ملی جس نے اُس سے کہا کہ وہ اُسکے اور اُسکے ساتھیوں کیساتھ سفر کر سکتا ہے۔ وہ کئی دنوں تک ویران دیہاتوں کے قریب سے گزرتے رہے۔ ایک موقع پر وہ ایسے علاقے سے گزرے جہاں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں اور وہاں اُنکے قافلے کا ایک شخص بھی ہلاک ہو گیا۔ اُنہیں اپنی بھوک مٹانے کیلئے پتے کھانے پڑے۔
دس دن کے بعد، لوگ بھوک اور تھکاوٹ کے باعث مرنے لگے۔ اِس کے کچھ ہی عرصہ بعد، اُن پر ہوائی جہازوں نے حملہ کر دیا۔ بالآخر، جیکب سرحد پار کرکے ایک پناہگزین کیمپ میں پہنچ گیا۔ اب وہ سکول جاتا ہے اور ہوائی جہاز کی آواز اُسے خوفزدہ نہیں کرتی۔ اب وہ جتنے بھی جہاز دیکھتا ہے وہ بموں کی بجائے خوراک سے بھرے ہوتے ہیں۔ مگر اب اُسے اپنے خاندان کی کمی محسوس ہوتی ہے اور وہ واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
دُنیا میں لاکھوں ”جیکب“ ہیں۔ اُن میں سے بیشتر جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں اور بعض بھوک اور پیاس کی وجہ سے پریشانحال ہیں۔ بہت کم ایسے ہیں جو نارمل خاندانی زندگی سے واقف ہیں اور بیشتر ایسے ہیں جو شاید کبھی بھی واپس اپنے گھر نہیں لوٹیں گے۔ یہ دُنیا کے غریبترین لوگ ہیں۔
اقوامِمتحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہگزین نے اِن مفلس خانہبدوشوں کو دو گروہوں میں تقسیم کِیا ہے۔ اذیت یا تشدد کے یقینی خوف کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونے والے شخص کو رفیوجی یا پناہگزین کہتے ہیں۔ اسی طرح اندرونِملک بےگھر شخص وہ ہے جسے جنگ یا شدید خطرات کے پیشِنظر اپنا گھربار چھوڑنا پڑتا ہے مگر وہ اپنے ہی ملک میں رہتا ہے۔ *
کوئی نہیں جانتا کہ کتنے پناہگزین اور بےگھر لوگ کیمپوں میں کیسی زندگی بسر کر رہے ہیں یا کتنے تحفظ کی تلاش میں دربدر بےیارومددگار بھٹک رہے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق، عالمی پیمانے پر اِن کی تعداد تقریباً ۴۰ ملین ہے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ یہ سب کہاں سے آتے ہیں؟
ہمارے زمانے کا ایک مسئلہ
پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر پناہگزینوں کے مسئلے نے ایک نئی صورت اختیار کر لی تھی۔ اُس جنگ کے نتیجے میں حکومتیں ختم ہو گئی تھیں اور نسلیاتی اقلیتیں اذیت کا نشانہ بنی تھیں۔ نتیجتاً، لاکھوں یورپی باشندوں نے دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کی تھی۔ دوسری عالمی جنگ نے جو پہلی سے بھی زیادہ تباہکُن تھی لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ سن ۱۹۴۵ سے زیادہتر جنگیں مقامی نوعیت کی ہوتی ہیں مگر وہ شہری آبادی کیلئے اُتنی ہی زیادہ نقصاندہ ہیں جتنی کہ مسلح جھڑپیں۔
”اگرچہ جنگ کی بدولت ہمیشہ پناہگزین پیدا ہوئے ہیں تاہم، صرف بیسویں صدی میں بینالاقوامی جھگڑوں نے وہاں کی پوری آبادی کو متاثر کِیا ہے،“ گل لاشر ۱۹۹۳ کی اپنی کتاب بیّونڈ چیرٹی—انٹرنیشنل کوآپریشن اینڈ دی گلوبل رفیوجی کرائسس میں وضاحت کرتا ہے۔ ”جنگ میں لڑنے اور نہ لڑنے والوں کے مابین فرق ختم ہو جانے کی وجہ سے پناہگزینوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جو بِلاامتیاز تشدد سے پہنچنے والے نقصان سے بچنے کیلئے بھاگ نکلے تھے۔“
مزیدبرآں، آجکل کی بیشتر جھڑپیں خانہجنگی ہے جو نہ صرف فوج میں بھرتی ہونے والے مردوں کے لئے بلکہ خواتین اور بچوں کے لئے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سخت نسلیاتی اور مذہبی اختلافات سے بھڑکنے والی بعض لڑائیاں کبھی ختم نہیں ہونگی۔ ایک افریقی ملک میں، جہاں ”حالیہ خانہجنگی“ پہلے ہی تقریباً ۱۸ سال سے جاری ہے، اپنے ہی ملک کے اندر چار ملین لوگ بےگھر ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں بیرونِملک چلے گئے ہیں۔
جنگ سے پریشانحال شہریوں کے پاس اپنے گھروں سے فرار ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ کتاب دی سٹیٹ آف دی ورلڈ رفیوجیز ۱۹۹۷-۱۹۹۸ بیان کرتی ہے کہ ”پناہگزین اپنی مرضی یا ذاتی سہولت کی خاطر ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں نہیں جاتے بلکہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔“ تاہم، آجکل دوسرے ملک میں داخل ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔
سن ۱۹۹۰ کے دہے کے دوران، عالمی پیمانے پر پناہگزینوں کی کُل تعداد تقریباً ۱۷ ملین سے کم ہو کر ۱۴ ملین ہو گئی تھی۔ تاہم، یہ ظاہری ترقی محض فریب ہے۔ ایک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اُسی دہے کے دوران، اپنے ہی ملک
میں بےگھر ہونے والوں کی تعداد ۲۵ سے ۳۰ ملین کو پہنچ گئی تھی۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟مختلف وجوہات کی بِنا پر سرکاری پناہگزین کے طور پر اجازت حاصل کرنا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔ پڑوسی ممالک شاید پناہگزینوں کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں یا تو اس لئے کہ وہ بڑھتی ہوئی تعداد سے گھبراتے ہیں یا پھر اس لئے کہ وہ پناہگزینوں کی تعداد میں اضافے سے پیدا ہونے والے معاشی اور سیاسی عدمِاستحکام کی بابت فکرمند ہیں۔ تاہم، بعضاوقات، خوفزدہ شہریوں کے پاس سرحد تک پہنچنے کے لئے درکار توانائی، خوراک یا پیسہ بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اُن کے پاس اپنے ہی ملک میں کسی محفوظ مقام تک نقلمکانی کرنے کا انتخاب ہوتا ہے۔
معاشی پناہگزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
لاکھوں حقیقی پناہگزینوں کیساتھ ساتھ ایسے لاکھوں مفلس لوگ بھی ہیں جو اپنی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے ایسے ملک میں نقلمکانی کرنا چاہتے ہیں جہاں حالتیں قدرے بہتر ہیں۔
فروری ۱۷، ۲۰۰۱ کو ایک زنگآلود پُرانا بحری جہاز فرانسیسی ساحل پر آ کر ٹھہرا۔ اس کے کارگو میں تقریباً ایک ہزار مرد، عورتیں اور بچے تھے جو سمندر میں اندازاً ایک ہفتے سے بھوکےپیاسے تھے۔ اُنہوں نے اس کٹھن سفر کیلئے ۰۰۰،۲ ڈالر فیکس ادا کئے تھے اور اُنہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ کس ملک جا رہے ہیں۔ جہاز کو ساحل پر لنگرانداز کرنے کے فوراً بعد کپتان اور جہاز کا عملہ وہاں سے غائب ہو گیا۔ مگر اُنکی خوشقسمتی سمجھیں کہ خوفزدہ مسافروں کو بچا لیا گیا اور فرانسیسی حکومت نے وعدہ کِیا کہ پناہ دینے کے سلسلے میں اُنکی درخواست پر غور کِیا جائیگا۔ اُنکی مانند لاکھوں لوگ ہر سال ایسے ہی سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معاشی حالات کی وجہ سے ہجرت کرنے والے اِن لوگوں میں سے بیشتر جانبوجھ کر سنگین مشکلات اور اتفاقی واقعات کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح اس سفر کیلئے پیسے کا بندوبست کر لیتے ہیں کیونکہ اُنکے اپنے ملک میں غربت، تشدد، تعصّب یا استبدادی حکومتیں اور کبھیکبھار یہ چاروں چیزیں ملکر زندگی کو انتہائی مایوس بنا دیتی ہیں۔
کئی لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ دہے کے دوران، تقریباً ۵۰۰،۳ مہاجرین افریقہ سے سپین میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے، جبلالطارق کی گزرگاہ پار کرتے ہوئے ڈوب گئے۔ سن ۲۰۰۰ میں، ایک ٹرک میں چھپے ہوئے اٹھاون چینی مہاجرین بیلجیئم سے انگلینڈ جاتے ہوئے دم گھٹنے سے مر گئے۔ بیشمار دیگر مہاجرین کھچاکھچ بھرے ہوئے خستہحال ٹرکوں کے صحرا کے بیچ میں ٹوٹ جانے سے صحرائے صحارا میں پیاس کے باعث مر جاتے ہیں۔
اِن تمام خطرات کے باوجود، دُنیا کے معاشی پناہگزینوں کی تعداد میں دنبدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال یورپ میں تقریباً پانچ لاکھ اور ریاستہائےمتحدہ میں ۰۰۰،۰۰،۳ لوگ اسمگل کئے جاتے ہیں۔ سن ۱۹۹۳ میں، یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ نے تخمینہ لگایا کہ عالمی پیمانے پر مہاجرین کی تعداد ۱۰۰ ملین ہے جس کا تیسرا حصہ یورپ اور ریاستہائےمتحدہ میں مقیم ہے۔ اُس وقت سے لیکر اس تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔
اِن مہاجرین میں سے بیشتر کو ایسا تحفظ حاصل نہیں ہو سکا جسکے وہ متلاشی ہیں۔ اسکے علاوہ بیشتر پناہگزین محفوظ اور مستقل پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایک مشکل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کئی دوسرے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگلا مضمون اِن مسائل اور اِن کے اصل اسباب میں سے چند ایک پر توجہ دلائیگا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 8 اِن مضامین میں جب ہم بےگھر لوگوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں وہ ۹۰ تا ۱۰۰ ملین لوگ شامل نہیں جنہیں ڈیم، کانکنی، جنگلات یا زرعی سکیموں جیسے ترقیاتی پروگراموں کے تحت مجبوراً اپنے گھروں سے دُور جانا پڑتا ہے۔