جارجیا میں مذہبی اذیت کب تک جاری رہیگی؟
جارجیا میں مذہبی اذیت کب تک جاری رہیگی؟
قدرتی حسن سے مرصع جارجیا کا مُلک بحیرۂاسود کے معتدل ساحلوں سے لیکر برفانی کاکیشیا کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ گھنے جنگلات، تیزرفتار دریا اور دلکش وادیاں یورپ اور ایشیا کی سرحد تک پھیلے ہوئے اس پہاڑی خطے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔ جارجیا کا داراُلحکومت ٹبلیسی، ایک پُرشور شہر ہے جہاں جدید اور قدیم یادگار عمارتوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ لیکن جارجیا کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے لوگ ہیں جو اپنے مضبوط خاندانوں اور پُرتپاک مہماننوازی کی وجہ سے مشہور ہیں۔
پوری تاریخ میں جارجیا کے لوگ ظلموستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اس مُلک پر رومی، فارسی، بزنطینی، عربی، ترکی، منگولی، روسی اور دیگر لوگوں نے حملے کئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، ٹبلیسی کو ۲۹ مرتبہ تباہ کِیا جا چکا ہے! * اس کے باوجود، جارجیا کے لوگوں نے نہ صرف زندگی، آرٹ، موسیقی اور ناچرنگ سے اپنی دلچسپی بلکہ ایک صابر معاشرے کے طور پر اپنی ساکھ کو بھی برقرار رکھا ہے۔
تاہم، افسوس کی بات ہے کہ جارجیا کے لوگوں کی بابت اب یہ نہیں کہا جا سکتا۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران، جارجیا کے ایک چھوٹے گروہ نے اپنے سینکڑوں ساتھی انسانوں پر تشدد کرنے سے اپنے مُلک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ پُرتشدد حملہآور ہجوم نے نہ صرف معصوم مردوزن اور بچوں بلکہ عمررسیدہ اور معذور اشخاص کو بھی ماراپیٹا۔ حملہآوروں نے کیلوں والے ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے لوگوں کو زخمی کِیا، اُنکے چہرے زخمی کر دئے اور سر پھاڑ دئے۔ جارجیا کے بےضرر شہریوں کو کیوں اتنی بےدردی سے ماراپیٹا جا رہا ہے؟ اِسلئے کہ وہ یہوواہ کے گواہ ہیں—ایک مسیحی گروہ جو اِن حملہآوروں میں سے بیشتر کی پیدائش سے پہلے جارجیا میں موجود ہے۔
الزامتراشی سے حملوں تک
اگرچہ جارجیا میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے، توبھی یہوواہ کے گواہوں کا لٹریچر اکثر ضبط کر لیا جاتا ہے۔ اپریل ۱۹۹۹ میں، کسٹم حکام نے کہا کہ لٹریچر جارجیا کے آرتھوڈکس چرچ کے سربراہ کی اجازت سے ہی چھڑایا جا سکتا ہے۔ اگلے مہینے، آرتھوڈکس چرچ کا دوبارہ ذکر کِیا گیا اور اس مرتبہ یہ جارجیا کے اِسانی سامگوری ڈسٹرکٹ کورٹ میں تھا۔ وہاں پارلیمانی ڈپٹی اور سیاسی تحریک ”جارجیا آبو آل!“ کے لیڈر گورام شاراڈزی نے دو مقدمے دائر کر دئے جس میں یہوواہ کے گواہوں کے استعمال میں آنے والی قانونی چیزوں کو منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اُس نے گواہوں پر ملکدشمن اور خطرناک شہری ہونے کا الزام لگایا تھا۔ شاراڈزی کے دعویٰ کو کس کی حمایت حاصل تھی؟ دائر مقدمے کیساتھ کیتھولیکوس پیٹریآرک آف آل جارجیا کے سیکرٹری کا خط بھی تھا۔
مئی ۲۰، ۱۹۹۹ کے دن، جارجیا نے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ کیلئے ایک یورپی معاہدے کو تسلیم کر لیا اور یوں خود کو اس معاہدے کے تمام دفعہ کا پابند بنا لیا۔ اس کی دفعہ نمبر ۱۰ بیان کرتی ہے: ”سب کو آزادانہ اظہارِخیال کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں حدبندیوں سے قطعنظر اختیار والوں کی مداخلت کے بغیر رائے رکھنے نیز معلومات اور نظریات لینے دینے کی آزادی شامل ہے۔“ کیا اس حق نے گواہوں کے مخالفین کو مذہبی لٹریچر پر پابندی عائد کرنے سے باز رکھا؟ بالکل بھی نہیں!
جون ۲۱، ۱۹۹۹ کو، آل جارجیا کے سربراہ کے دفتر نے کسٹم انسپیکشن کے انچارج کے نام خط میں تاکید کی کہ ”غیرملکی مذہبی لٹریچر کی تقسیم پر پابندی لگائی جانی چاہئے۔“ علاوہازیں، جارجیا کے چرچ کے سرکاری نمائندے، جیورجی اینڈریایڈزی نے اعلان کِیا کہ یہوواہ کے گواہ خطرناک لوگ ہیں لہٰذا اُن پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ اِس الزامتراشی کو نظرانداز نہیں کِیا گیا تھا۔ مذہبی انتہاپسندوں نے ماضی کی طرح یہوواہ کے گواہوں کا لٹریچر جلا دیا اور اب اُنہیں یقین ہو گیا تھا کہ وہ گواہوں پر حملہ کرکے اُنہیں نیستونابود کر سکتے ہیں۔ اتوار، اکتوبر ۱۷، ۱۹۹۹ کو اُنہوں نے دوبارہ حملہ کر دیا۔
لاقانونیت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی
اُس اتوار ٹبلیسی میں—آدمیوں، عورتوں اور بچوں سمیت کوئی—۱۲۰ گواہ ایک مذہبی اجتماع کے لئے جمع تھے۔ اچانک سے، اپنے عہدے سے برخاست آرتھوڈکس پادری واسیلی مکالاوشویلی اور اُس کے ۲۰۰ حامی اجلاس کی جگہ میں گھس آئے۔ * اُنہوں نے گواہوں کو گھیرے میں لیکر بار بار اُنہیں لکڑی کے ڈنڈوں اور لوہے کی صلیبوں سے مارا۔ چار حملہآوروں نے ایک گواہ کو گردن اور بازوؤں سے کھینچا۔ اُنہوں نے اُسے گنجا کر دیا جبکہ ہجوم اُس کی تذلیل کا تمسخر اُڑاتا رہا۔ جب جنونی ہجوم وہاں سے چلا گیا تو ۱۶ گواہوں کو علاج کے لئے ہسپتال لیجانا پڑا۔ ایک شخص کی تین پسلیاں ٹوٹ گئی۔ ایک ۴۰ سالہ عورت پہاٹی نے بعد میں بتایا: ”وہ مجھ پر چلّانے لگے اور اُن میں سے ایک نے اپنی پوری قوت سے مجھے مارا۔ اُس نے میرے چہرے اور آنکھوں پر مارا۔ مَیں نے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپانے کی کافی کوشش کی۔ میری انگلیوں سے خون بہنے لگا۔“ جب اُنہوں نے پہاٹی کو مارنا بند کِیا تو اُس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔ اُس حملے کی وجہ سے آج تک پہاٹی کی آنکھ خراب ہے۔
اس انتہائی شرمناک حملے کو ٹیوی پر دکھائے جانے کی وجہ سے صدر ایڈورڈ شیوارڈناڈز کو بولنے کی تحریک ملی۔ اگلے ہی دن اُس نے بیان کِیا: ”مَیں
اس واقعہ کی مذمت کرتا ہوں اور مجھے اُمید ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ایک مجرمانہ مقدمہ تشکیل دینگی۔“ ویڈیو کے ایک منظر میں ہجوم کے لیڈر اور دیگر حملہآوروں کی شناخت ہو جانے کی وجہ سے اُن کا جرم ثابت کرنا مشکل نہیں تھا۔ تاہم، دو سال گزر جانے کے بعد بھی کسی حملہآور کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔سزا نہ دیکر حوصلہ بڑھانا
اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ کشوری اور مذہبی حکام نے کوئی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے یہ پیغام دیا کہ تشدد کی برداشت کی جائے گی۔ کسی قسم کی سزا نہ ملنے کی وجہ سے اُنہوں نے حوصلہ پا کر نجی گھروں، سڑکوں اور عبادتگاہوں پر یہوواہ کے گواہوں کو لوٹنا، مارپیٹ کرنا اور زبردستی نکالنا شروع کر دیا۔ اکتوبر ۱۹۹۹ اور اگست ۲۰۰۱ کے درمیان، یہوواہ کے گواہوں پر ۸۰ سے زائد حملوں کا ریکارڈ موجود ہے جس سے ۰۰۰،۱ سے زائد گواہ متاثر ہوئے۔ اس کے باوجود، فروری ۹، ۲۰۰۱ کو ٹبلیسی کے ایک وکیل نے رپورٹروں کو بتایا کہ واسیلی مکالاویشویلی کے خلاف تفتیش کا معاملہ ”ابھی زیرِغور ہے۔“ افسوس کی بات ہے کہ اِس مضمون کے تحریر کئے جانے تک جارجیا کے حکمران مخالفین کو یہوواہ کے گواہوں کے خلاف نفرتانگیز جرائم جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔—بکس لاقانونیت جاری ہے“ کو پڑھیں۔
پولیس کا کیا کردار ہے؟ اخباری رپورٹس اور ویڈیو کے مناظر آشکارا کرتے ہیں کہ پولیس نہ صرف یہوواہ کے گواہوں پر حملوں کی اجازت دیتی ہے بلکہ خود بھی اُن میں حصہ لیتی ہے! مثال کے طور پر، ستمبر ۸، ۲۰۰۰ کو، زوگدیدی کے شہر میں، لاٹھی چارج کرنے والے پولیس افسروں کے ایک گروہ نے ۷۰۰ یہوواہ کے گواہوں کے پُرامن کنونشن پر دھاوا بول دیا۔ چشمدید گواہوں کے مطابق، نقابپوش پولیس افسران نے ۵۰ سے زائد گواہوں کی مارپیٹ کرنے سے ”تباہی مچا دی۔“
جب بچوں کے سروں کے اُوپر سے گولے پھینکے جا رہے تھے تو اُنکے چہروں پر نظر آنے والے خوف کو یاد کرتے ہوئے کنونشن کی جگہ کا مالک کہتا ہے، ”یہ دل کو ہلا دینے والا منظر تھا۔“ پولیس نے اُس جگہ کو آگ لگا دی۔ تاہم، آج تک اُنہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے (بکس ”پولیس کی شمولیت“ کو پڑھیں۔) کیونکہ مئی ۷، ۲۰۰۱ کو اذیت کے خلاف اقوامِمتحدہ کی کمیٹی نے بالکل واضح طور پر ”اذیت اور ظلم کے دیگر واقعات، غیرانسانی سلوک یا ذلتآمیز برتاؤ یا جارجیا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دی جانے والی سزا؛ اور اذیت کے بیشمار واقعات میں فوری، غیرجانبدارانہ اور مکمل تفتیش میں مسلسل ناکامی“ کی بابت اپنی فکرمندی کا اظہار کِیا۔“ * بِلاشُبہ، پولیس کے پاس یہوواہ کے گواہوں کی طرف سے دائر کی جانے والی ۴۰۰ شکایات میں سے ایک بھی جانےپہچانے مجرموں کو سزا دینے کا باعث نہیں بنی! لہٰذا پارلیمنٹ کی طرف سے منتخبکردہ جارجیا کا وکیلاستغاثہ یا محتسب تبصرہ کرتا ہے: ”انسانی حقوق کی خلافورزی وہی لوگ کر رہے ہیں جنکی ملازمتیں اُن سے ان حقوق کے تحفظ کا تقاضا کرتی ہیں۔ اُن کے نزدیک، انسانی حقوق کی اہمیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔“
سپریم کورٹ کے فیصلے ابتری پیدا کرتے ہیں
یوں کہہ لیں کہ ہجوم اور پولیس کے غیرقانونی حملے کافی نہیں تھے کہ جارجیا کے سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک ایسا حکم جاری کِیا جس نے یہوواہ کے گواہوں کے حقوق کی بابت ابتری پیدا کر دی ہے۔
آئیے اسکا پسمنظر جاننے کی کوشش کریں۔ سیاستدان گورام شاراڈزی نے یہوواہ کے گواہوں کی قانونی حیثیت کو منسوخ کرنے کیلئے مقدمہ دائر کر دیا۔ فروری ۲۹، ۲۰۰۰ کو اُسکا مقدمہ خارج کر دیا گیا۔ تاہم شاراڈزی اپیل دائر کرکے مقدمہ جیت گیا۔ اس کے بدلے میں، یہوواہ کے گواہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ فروری ۲۲، ۲۰۰۱ کو سپریم کورٹ نے بالخصوص قانونی اصطلاحات کی بنیاد پر گواہوں کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے اصرار کِیا کہ آئین بیان کرتا ہے کہ ایک ایسے قانون کے مطابق جو ابھی تک موجود نہیں مگر وہ مذہبی تنظیموں کی رجسٹریشن کی تفصیل پیش کرتا ہے، مذاہب کو دستوری قوانین کے تحت رجسٹر ہونا چاہئے۔ آخر میں کورٹ نے یہ بیان کِیا کہ اس قانون کی عدم موجودگی کے باعث یہوواہ کے گواہ کسی بھی صورت میں رجسٹر نہیں ہو سکتے۔ جبکہ مذہبی کارگزاریوں کی حمایت کرنے والی تقریباً ۱۵ دیگر تنظیمیں جارجیا میں قانونی طور پر رجسٹر ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے، جارجیا کے جسٹس منسٹر، میکہیل ساکاشویلی نے ٹیلیویژن پر ایک انٹرویو میں کہا: ”قانونی نقطۂنظر سے تو یہ فیصلہ غیرمعقول ہے۔ میرے خیال میں یہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں کوئی کارنامہ نہیں ہے۔“ جارجیا کی پارلیمانی لیگل کمیٹی کے قائممقام چیئرمین زوراب ایڈیشویلی نے کیسٹن نیوز سروس کو بتایا کہ وہ اس فرمان کی بابت ”سخت پریشان ہے کیونکہ یہ [جارجیا کے آرتھوڈکس] چرچ کے انتہاپسند عناصر کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ وہ اقلیتی مذہبی گروہوں کو دبائیں۔“ افسوس کہ ایڈیشویلی کی تشویش سچ ثابت ہوئی۔ اس فرمان کے چند دن بعد، یہوواہ کے گواہوں کے خلاف ایک بار پھر تشدد نے زور پکڑ لیا۔ سن ۲۰۰۱ میں لوگوں، پولیس اور آرتھوڈکس پادریوں نے فروری ۲۷، مارچ ۵، مارچ ۶، مارچ ۲۷، اپریل ۱، اپریل ۷، اپریل ۲۹، اپریل ۳۰، مئی ۷، مئی ۲۰، جون ۸، جون ۱۷، جولائی ۱۱، اگست ۱۲، ستمبر ۲۸، اور ستمبر ۳۰ کو گواہوں پر حملے کئے۔ اس طرح یہ فہرست بڑی طویل ہو سکتی ہے۔
اذیت کی اس نئی لہر کے دوران، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی علانیہ وضاحت کرنے کا غیرمعمولی قدم اُٹھایا اور بیان کِیا: ”افسوس کہ عوام نے یہوواہ کے گواہوں کی تنظیم کی رجسٹریشن سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کو غلط سمجھا ہے۔ . . . جب مدعاعلیہ کو رجسٹریشن کی قانونی اجازت نہ دی گئی تو اُن کی سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی پر بلاواسطہ اور بالواسطہ کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ انفرادی یا اجتماعی طور پر علانیہ یا ذاتی طور پر اپنے اعتقاد کو تبدیل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ . . . کورٹ کے فیصلے نے مدعاعلیہ کے نظریات اور معلومات حاصل کرنے اور تقسیم کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس نے پُرامن اجتماعات منعقد کرنے کے اُن کے حق پر بھی کسی طرح کی پابندی عائد نہیں کی۔“
جارجیا کے ہزاروں لوگوں نے اس اذیت کے خلاف آواز اُٹھائی
جبکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس بیان نے اجتماعی تشدد کرنے والوں پر کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ڈالا، تاہم یہ جاننا ہمتافزا ہے کہ جارجیا کے ہزاروں شہریوں نے اس اذیت کی مذمت کی ہے۔ جنوری ۸، ۲۰۰۱
سے شروع کر کے یہوواہ کے گواہوں نے ایک درخواست تقسیم کی ہے جس میں اجتماعی حملے سے تحفظ فراہم کرنے اور جارجیا کے شہریوں کے خلاف پُرتشدد حملوں میں شریک لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کا تقاضا کِیا گیا ہے۔ دو ہفتوں کے اندراندر، جارجیا کے تمام حلقوں میں ۳۷۵، ۳۳،۱ بالغ شہریوں نے اس درخواست پر دستخط کر دئے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ جارجیا میں صرف ۰۰۰،۱۵ یہوواہ کے گواہ ہیں، دستخط کرنے والوں کی اکثریت جارجیا کے آرتھوڈکس چرچ کے اراکین ہی کی تھی۔ تاہم، جنوری ۲۲، ۲۰۰۱ کو یہ درخواست غائب ہو گئی۔ کیا واقع ہوا؟اُس روز، جارجیا کی وکیلاستغاثہ نینا دیودرآنی کے دفتر میں، اس درخواست کو ریلیز کرنے کے لئے ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اچانک ہی، کانفرنس کے دوران، واسیلی مکالاویشویلی اور دس دوسرے لوگ دفتر میں گھس آئے اور اس درخواست کو ترتیب دینے والی ۱۴ جِلدوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ کاکیشیا کے امن اور جمہوریت کے ادارے کے ایک نمائندے نے اس درخواست کو بچانے کی کوشش کی تو حملہآوروں نے اُسے بھی نقصان پہنچایا۔ جب مکالاویشویلی بدزبانی کر رہا تھا تو اُس کے حمایتیوں نے منتظمین سے ۱۴ میں سے ۱۲ جِلدیں چھین لیں۔ اس واقعہ کے چشمدید گواہ ایک غیرملکی سفیر نے کہا: ”یہ تو بالکل ناقابلِیقین بات ہے!“ خوشقسمتی سے، فروری ۶، کو یہ درخواست گواہوں کے قبضے میں آ گئی اور فروری ۱۳، ۲۰۰۱ کو اسے جارجیا کے صدر کے سامنے پیش کِیا گیا۔
”ہر طرح کے حملوں . . . کے خلاف قانونی کارروائی کی جائیگی“
پوری دُنیا اور جارجیا میں یہوواہ کے گواہ اس درخواست کے سلسلے میں صدر کی کارروائی کے منتظر ہیں۔ ہرچند کہ ماضی میں صدر نے بارہا یہوواہ کے گواہوں کی اذیت کی شدید مذمت کی ہے۔ مثال کے طور پر، اکتوبر ۱۸، ۱۹۹۹ کو صدر نے یہوواہ کے گواہوں پر ہونے والے حملوں کو ”ناقابلِبرداشت منظم حملے“ قرار دیا۔ اکتوبر ۲۰، ۲۰۰۰ کو صدر شاراڈزی نے یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کے ایک رُکن کو لکھا: ”ہم تشدد کو ختم کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کریں گے۔“ اُس نے مزید کہا: ”مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جارجیا کی حکومت سختی سے انسانی حقوق اور ضمیر کی آزادی کا تحفظ کرے گی۔“ اس کے بعد دوبارہ نومبر ۲، ۲۰۰۰ کو یورپ میں تنظیم برائے تحفظ اور تعاون کے نام ایک خط میں، صدر شاراڈزی نے بیان کِیا: ”یہ مسئلہ [جارجیا میں اقلیتی مذاہب کی حیثیت کا مسئلہ] ہمارے لوگوں اور حکومت کے لئے گہری فکرمندی اور تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔“ اُس نے کمیشن کو یقین دلایا: ہر طرح کے ”جسمانی تشدد اور حملوں کے تمام واقعات کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور اس کے مُرتکب لوگ قانون کے مجرم ہوں گے۔“
یورپ اور دُنیا کے دیگر حصوں میں متفکر مشاہدین یہ اُمید رکھتے ہیں کہ صدر شاراڈزی کے پُراعتماد الفاظ بہت جلد سچ ثابت ہوں گے۔ تاہم اسی اثنا میں، پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ جارجیا کی حکومت کے تحت اپنے ساتھی ایمانداروں کے لئے دُعاگو ہیں جبکہ جارجیا کے جواںہمت گواہ شدید مخالفت کے باوجود یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔—زبور ۱۰۹:۳، ۴؛ امثال ۱۵:۲۹۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 جارجیا پر مزید معلومات کے لئے جنوری ۲۲، ۱۹۹۸ کے اویک! کے مضمون ”جارجیا—این اینشنٹ ہیریٹج پریزروڈ کو پڑھیں۔
^ پیراگراف 10 واسیلی مکالاویشویلی کو ۱۹۹۰ کے دہے کے وسط میں ورلڈ کونسل آف چرچز (ڈبلیوسیسی) کے رُوبرو جیاوسی کی ممبرشپ پر سخت تنقید کے بعد اُسے جارجیا کے آرتھوڈکس چرچ (جیاوسی) سے خارج کر دیا گیا تھا۔ (اُس وقت سے جیاوسی ڈبلیوسیسی میں اپنی رُکنیت سے محروم ہے۔) اسی اثنا میں، مکالاویشویلی نے میٹروپولیٹن سائپرئین کے تحت گریک اولڈ کیلنڈرسٹ میں شامل ہو گیا۔
^ پیراگراف 15 جارجیا اُن ۱۲۳ ممالک میں سے ایک ہے جو اذیت اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا ذلتآمیز برتاؤ یا سزا دینے کے خلاف اقوامِمتحدہ کے کنونشن کا حصہ ہیں۔ اسطرح جارجیا نے خود کو ”بیحد اذیت“ والا ملک بنا لیا ہے۔
[صفحہ ۲۴ پر عبارت]
”ڈرانے دھمکانے اور جسمانی تشدد کے تمام واقعات کے خلاف کارروائی کی جائیگی اور مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دی جائیگی۔“–جارجیا کے صدر، ایڈورڈ شیوارڈناڈز، نومبر ۲، ۲۰۰۰
[صفحہ ۲۴ پر عبارت]
”ہمیں اُمید ہے کہ [مذہبی اقلتیوں کے خلاف تشدد] کے اس مسئلے کو جلدازجلد حل کِیا جائیگا اور جارجیا کی تمام مذہبی جماعتوں کو اپنے اپنے مذہبی اعتقادات کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔“–ڈیوڈ سومباڈزی، واشنگٹن ڈی.سی.، یو.ایس.اےمیں جارجیا کے سفارتخانے کا سینیئر کونسلر، جولائی ۳، ۲۰۰۱
[صفحہ ۲۰ پر بکس/تصویر]
لاقانونیت جاری ہے
جارجیا کے حکمرانوں کا یہوواہ کے گواہوں پر حملہ کرنے والوں کو سزا دینے میں ناکام رہنا گواہوں کیلئے مزید اذیت کا باعث بنا ہے۔
مثال کے طور پر، جنوری ۲۲، ۲۰۰۱ کو ٹبلیسی کے علاقے سوانیٹس اوبانی میں، سابقہ آرتھوڈکس پادری واسیلی مکالاویشویلی اور اُس کے گروہ نے ۷۰ گواہوں کے ایک مذہبی اجتماع پر دھاوا بول دیا۔ حملہآوروں نے گواہوں کو مکوں، گھونسوں اور لکڑی اور لوہے کی صلیبوں سے مارا۔ ایک حملہآور نے ایک گواہ کے سر پر اتنے زور سے صلیب ماری کہ اُسکی بیم ہی ٹوٹ گئی۔ بعض گواہوں کو گھسیٹ کر ایک تاریک کمرے میں لے گئے جہاں مختلف حملہآوروں نے اُنہیں زدوکوب کِیا۔ عمررسیدہ گواہوں کیساتھ بہت بُرا برتاؤ کِیا گیا اور اُنہیں مکوں اور ڈنڈوں سے مارا گیا۔ دو آدمیوں نے ایک ۱۴ سالہ لڑکے کا تعاقب کِیا اور پھر اُس بےبس بچے کو مکوں اور گھونسوں سے مارا۔ ایک ۳۰ سالہ حملہآور ۱۲ سالہ لڑکے کے پیچھے پڑ گیا اور جارجیا زبان میں تحریر ایک بڑی سی بائبل اُسکے سر پر دے ماری۔ اسی دوران، ایک گواہ پولیس کو بلانے کیلئے بھاگا مگر پکڑا گیا۔ اُس گروہ نے اُسے اتنی بُری طرح پیٹا کہ اُسکے چہرے سے خون بہنے لگا اور اُسے اُلٹیاں بھی ہونے لگیں۔ آخرکار مشتعل ہجوم بکھر گیا مگر حملہآوروں کو کوئی سزا نہ ملی۔
اپریل ۳۰، ۲۰۰۱ کو، ایک بار پھر، مکالاویشویلی کے حامیوں نے یہوواہ کے گواہوں کی اُسی کلیسیا کے مذہبی اجتماع پر دھاوا بول دیا۔ حملہآور گواہوں کو گھسیٹگھسیٹ کر باہر لے گئے اور اُنہیں کیلوں والے ڈنڈوں سے مارا۔ کیلوں نے ٹماز نامی ایک گواہ کے دائیں بازو، بائیں ہاتھ، بائیں پاؤں اور بائیں گال کو چیر دیا۔ اس کے علاوہ، ٹماز کو اپنے سر کے گہرے اور بڑے زخم کے لئے پانچ ٹانکے لگوانے پڑے۔ گروہ نے فرنیچر، بجلی کے آلات اور تمام کھڑکیوں کی توڑپھوڑ کرنے سے اُس گھر کا بھی ستیاناس کر دیا جہاں اجلاس ہو رہا تھا۔ اس کے بعد اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ لٹریچر کھلے میدان میں لگی آگ میں جلا دیا۔ جون ۷، ۲۰۰۱ کو، ہیومن رائٹس واچ نے باضابطہ طور پر جارجیا کے داخلی امور کے منسٹر کاکہا ٹارگاماڈز اور جارجیا کے وکیل جیا میپارشویلی سے معلومات طلب کیں کہ اُنہوں نے حملہ کرنے والوں کے اس اور حالیہ واقعات کی بابت کونسے اقدام اُٹھائے ہیں۔ ابھی تک، کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ملی۔
[صفحہ ۲۱ پر بکس]
پولیس کی شمولیت
ستمبر ۱۶، ۲۰۰۰ کو مارنیولی کے شہر کی پولیس نے گواہوں کو کنونشن پر لیجانے والی ۱۹ بسوں کو روکنے کے لئے سڑکوں پر رُکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ ایک جگہ تو روڈبلاک کرنے والوں نے گواہوں کی بسوں پر پتھراؤ بھی کِیا جس سے ایک مسافر کے سر میں چوٹ لگ گئی۔ کئی گواہوں کو بسوں سے اُتار کر ماراپیٹا گیا جبکہ دیگر مسافروں کو لوٹ لیا گیا۔ اسی دوران، پولیس نے مکالاویشویلی کے حامیوں کی بسوں کو جانے دیا جو کہ کنونشن کے مقام کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ گروہ نے ڈیڑھ ٹن مذہبی لٹریچر جلا دیا۔ وہاں موجود پولیس نے گواہوں کی مارپیٹ میں حصہ لیا۔
کاکیشیا کی پریس نے رپورٹ پیش کی کہ ہماری منسٹری اس حملے کی تحقیق کرے گی اور ”مناسب اقدام“ اُٹھائے گی۔ تحقیق کرنے والوں کے پاس مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ جارجیا کے آئین کا آرٹیکل نمبر ۲۵، سب لوگوں کو عوامی اجتماع منعقد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسکے باوجود کسی بھی حملہآور کو سزا نہیں دی گئی۔ اس حملے کے پانچ مہینے بعد، کیسٹن نیوز سروس نے بیان کِیا کہ سیاسی تحریک ”جارجیا آبو آل“ کے لیڈر گورام شاراڈزی کے وکیل نے تسلیم کیا ہے کہ شاراڈزی نے مارنیولی اور زوگدیدی کے حکمرانوں پر یہوواہ کے گواہوں کی دو کنونشنیں منعقد کرنے سے روکنے کیلئے دباؤ ڈالا تھا۔
[صفحہ ۲۱ پر بکس]
جارجیا کا آئین تحفظ کی ضمانت دیتا ہے
جارجیا کا اگست ۲۴، ۱۹۹۵ کا آئین مذہبی آزادی اور سخت حملوں سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے جیسےکہ مندرجہذیل اقتباسات ظاہر کرتے ہیں:
آرٹیکل ۱۷—(۱) کسی شخص کی عزتووقار واجباُلاحترام ہیں۔ (۲) اذیت، غیرانسانی، استبدادی یا ذلتآمیز سلوک یا سزا کی اجازت نہیں ہے۔
آرٹیکل ۱۹—(۱) ہر شخص کو گفتگو، نظریے، ضمیر، مذہب اور اعتقاد کا حقِآزادی حاصل ہے۔ (۲) نظریات، اعتقادات یا مذہب کے سلسلے میں کسی شخص کو اذیت دینا ممنوع ہے۔
آرٹیکل ۲۴—(۱) ہر شخص کو معلومات حاصل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے، زبانی، تحریری یا کسی دوسرے طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حقِآزادی حاصل ہے۔
آرٹیکل ۲۵—(۱) مسلح افواج، پولیس اور سیکیورٹی سروسز کے اراکین کے علاوہ ہر شخص کو گھر کے اندر یا کھلے میدان میں بِلااجازت غیرمسلح عوامی اجتماع منعقد کرنے کا حق حاصل ہے۔
[صفحہ ۲۲ پر بکس]
دُنیا دیکھ رہی ہے
بینالاقوامی برادری یہوواہ کے گواہوں کی اذیت کو روکنے میں جارجیا کی ناکامی کو کیسا خیال کرتی ہے؟
ریاستہائےمتحدہ اور برطانیہ کلاں نے متفقہ طور پر کہا: ”یہوواہ کے گواہوں کے اجلاس میں خلل ڈالا گیا، لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ پُرتشدد بدسلوکی کی گئی اور دیگر کو اجلاس پر حاضر ہونے سے روکا گیا۔ ریاستہائےمتحدہ امریکہ اور برطانیہ کلاں جارجیا میں مذہبی آزادی کو عمل میں لانے والے لوگوں کے خلاف ایسی اور اسی طرح کی دیگر سنگین خلافورزیوں سے بہت پریشان ہیں . . . ہم جارجیا کی حکومت کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ اِن واقعات کی چھانبین کرے اور سب کے مذہبی حقوق کے احترام کی فوری یقیندہانی کرائے۔“
یورپین یونین جارجیا پارلیمانی کوآپریشن کمیٹی کے پاس جانے والی نمائندگان کی جماعت کے چیئرپرسن، اُرسولا شلیکر نے بیان کِیا: ”یورپین پارلیمنٹ کی نمائندگان کی جماعت کی طرف سے مَیں جرنلسٹ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور یہوواہ کے گواہوں پر پُرتشدد حملوں کے حالیہ واقعات کے لئے اپنی تشویش کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ . . . اس قسم کی کارگزاری کو مَیں بنیادی انسانی حقوق پر براہِراست حملہ خیال کرتا ہوں جس کے لئے جارجیا یورپین کنونشن فار پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس اینڈ فنڈامنٹل فریڈمز کے دستخطی کے طور پر پابند ہے۔“
یورپ میں سیکیورٹی اور کوآپریشن کے کمیشن نے یہوواہ کے گواہوں پر ہونے والے حملوں کی بابت صدر شیوارڈناڈز کو لکھا: ”حالیہ واقعات واقعی تشویش کا باعث ہیں اور اس سے یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ جارجیا کی حالت بےقابو ہوتی جا رہی ہے۔ اگر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جاتا تو مذہبی اقلیتوں پر تشدد کرنے والوں کے اس قتلوغارت کو جاری رکھنے کے لئے مزید حوصلے بڑھیں گے۔ ہمیں اُمید ہے کہ آپ بطور سربراہِمملکت عوام اور جارجیا کے اہلکاروں کے لئے نمونہ قائم کرتے ہوئے، دو سخت اور واضح پیغامات بھیجیں گے: دوسرے مذاہب کے لئے ایک شخص کے نظریات خواہ کچھ بھی ہوں، اس کے حامیوں کے خلاف کسی قسم کا تشدد ممنوع ہے؛ نیز ایسے تشدد میں ملوث لوگ—بالخصوص پولیس اہلکار جو اِن ذلتآمیز کارروائیوں کو ممکن بناتے یا اِن میں شرکت کرتے ہیں—اُنہیں آئین کے مطابق پوری پوری سزا دی جائے گی۔“ اس خط پر یو.ایس. کانگریس کے سات ممبران کے دستخط تھے۔
یورپ میں آرگنائزیشن فار سیکیورٹی اینڈ کوآپریشن کے کوچیئرمین، یو.ایس. کانگریسمین کرسٹوفر ایچ سمتھ نے بیان کِیا: جارجیا اپنے وعدہ کے مطابق کیوں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کر رہا؟ . . . لٹریچر کا جلایا جانا ہلسنکی معاہدے کے بالکل خلاف ہے اور ہم میں سے کمیشن کے بعض لوگوں کو نازی حکومت کے دوران کتابوں کے جلائے جانے کی یاد دلاتا ہے۔“
موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائے یورپ اور وسطی ایشیا کی ڈویژن آف ہیومن رائٹس واچ نے لکھا: ”ہیومن رائٹس واچ جارجیا کی حکومت کے ماضی میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف پُرتشدد حملوں کے مجرموں کو سزا دینے میں ناکام رہنے کے پیشِنظر ہیومن رائٹس واچ مزید تشدد کے امکانات کی بابت انتہائی پریشان ہے۔ ہم آپ سے اِن حملوں کو فوری طور پر رکوانے اور اِنکے ذمہدار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔“
دُنیا دیکھ رہی ہے۔ کیا جارجیا اپنے بینالاقوامی معاہدوں پر قائم رہیگا؟ جارجیا کی شہرت خطرے کا شکار ہے۔
[صفحہ ۲۳ پر بکس]
یورپی کورٹ سے اپیل
جون ۲۹، ۲۰۰۱ کو یہوواہ کے گواہوں نے یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کے نام ایک درخواست لکھی جس میں جارجیا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بےعملی کے خلاف احتجاج کِیا گیا تھا۔ چند دن بعد، جولائی ۲، ۲۰۰۱ کو یورپی کورٹ نے اسکا جواب دیا۔ کورٹ کے رجسٹرار نے لکھا کہ عدالتی چیمبر کے صدر کی رائے میں یہ صورتحال ”فوری توجہ کی مستحق ہے۔“
[صفحہ ۱۸ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
روس
جارجیا
بحیرۂاسود
ترکی
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
مئی ۱۳، ۲۰۰۱ - شمویان خاندان کا گھر تباہ ہو گیا جب ایک مذہبی انتہاپسند نے اُنکے گھر کو آگ لگا دی
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
جون ۱۷، ۲۰۰۱ - جیارجیبگشول، جس پر یہوواہ کے گواہوں کے اجلاس کے دوران پُرتشدد حملہ کِیا گیا
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
جولائی ۱۱، ۲۰۰۱ - ڈیوڈ سلاریڈزی کو یہوواہ کے گواہوں کے اجلاس میں بیٹھے ہوئے سر، کمر اور پسلیوں پر ڈنڈے مارے گئے
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
جون ۲۸، ۲۰۰۰ - آتشزنوں نے ٹبلیسی میں یہوواہ کے گواہوں کے لٹریچر کے ڈپو کو آگ لگا دی
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
اگست ۱۶، ۲۰۰۰ -گڈانی ناڈزلاڈوی کورٹروم میں، باسلیوں کے ایک رہنما نے ایک کینیڈین گواہ وارن شیوفلٹ پر حملہ کر دیا
[صفحہ ۲۴ پر تصویر کا حوالہ]
AP Photo/Shakh Aivazov