دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
پینگوئنز کیلئے سوئیٹرز
دُنیابھر کے رضاکاروں کے بنائے ہوئے ۰۰۰،۱ سے زائد سوئیٹرز تسمانیہ، آسٹریلیا بھیجے گئے ہیں۔ انہیں کون پہنے گا؟ فیری پینگوئنز—چھوٹے پرندے جنکا وزن تقریباً ایک کلوگرام ہوتا ہے اور جو بکھرے ہوئے تیل سے متاثرہ علاقے میں رہتے ہیں۔ کینیڈا کا نیشنل پوسٹ بیان کرتا ہے، ”جب وہ اپنے پروں کو صاف کرتے ہیں تو ان پر لگا ہوا زہریلا تیل انکے مُنہ میں چلا جاتا ہے۔ رضاکار ان تیل میں بھیگے ہوئے پرندوں کو سوئیٹر پہنا رہے ہیں تاکہ انہیں صاف کرنے سے [قبل] انکے پروں پر لگا ہوا تیل انکے جسم میں داخل نہ ہو سکے۔“ اسکے علاوہ، پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، سوئیٹرز ان پینگوئنز کو گرم رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تسمانیہ کے حفاظتی ٹرسٹ کی نمائندہ خاتون جو کیسل بیان کرتی ہیں کہ سوئیٹرز نصفکرۂ شمالی کے سمندری پرندوں کیلئے بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن انکا نمونہ ”جنوبی نصفکرۂ کے چھوٹے پینگوئنز کیلئے دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے۔“
چپڑچپڑ کر کھانے پر اختلافِرائے
موضوعِبحث یہ ہے کہ چپڑچپڑ کر کھانا چاہئے یا نہیں—کمازکم جاپان کے مشہور نوڈل سوپ ریسٹورانٹ میں کھانے والوں کی بابت یہ بات سچ ہے۔ جاپان کے کئی ادھیڑ عمر اور عمررسیدہ لوگوں کے خیال میں گرماگرم شوربے کیساتھ لمبے نوڈلز کو چپڑچپڑ کر کھانا درحقیقت زیادہ مزیدار ہوتا ہے۔ وہ زور سے چپڑچپڑ کر کھانے کو یہ ظاہر کرنے کا عام طریقہ خیال کرتے ہیں کہ وہ کھانے سے واقعی لطفاندوز ہو رہے ہیں۔ لیکن جاپانیوں کی نئی نسل نوڈلز کھانے کے آدابواطوار کی بابت ایک مختلف نقطۂنظر رکھتی ہے۔ دی جاپان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق: ”جاپانی نوجوان اس بات کی زیادہ فکر کرتے ہیں کہ کہیں سوپ اُن کی قیمتی ٹائی اور کپڑوں پر نہ گِر جائے۔ مغربی آدابواطوار کے مطابق پرورش پانے اور مغربی کھانوں کو پسند کرنے والے یہ نوجوان ممکنہ طور پر اپنے اردگرد کے لوگوں کے چپڑچپڑ کر کھانے کو غیرمہذب خیال کرتے ہیں۔“ یہ مسئلہ جاپان کے نسلی خلا کا حصہ بن گیا ہے جسکی وجہ سے بعض عمررسیدہ لوگ دوسروں کے سامنے نوڈلز چپڑچپڑ کر کھانے سے شرماتے ہیں۔ جاپان کے ایک اخبار نے عمررسیدہ لوگوں کی حمایت کرتے ہوئے افسوس ظاہر کِیا: ”جب کوئی بھی چپڑچپڑ کر نہیں کھاتا تو واقعی تنہائی سی محسوس ہوتی ہے۔“
الکحل کے خطرات
برطانیہ کے میڈیکل جرنل دی لانسٹ کی رپورٹ کے مطابق، ”حالیہ برسوں میں، یورپ کی نوجوان نسل میں الکحل سے منسلک گھاؤ، معذوری اور اموات میں حیرانکُن حد تک اضافہ ہوا ہے۔“ یورپ میں الکحل کا استعمال دُنیا میں سب سے زیادہ ہے جسکی وجہ سے یہاں ہر سال ۰۰۰،۵۵ نوجوان ہلاک ہوتے ہیں۔ جب برطانیہ، ڈنمارک، فنلینڈ، گرینلینڈ اور آئرلینڈ کے طالبعلموں سے اُنکے پینے کی عادت پر رائے لی گئی تو ان میں سے ایک تہائی نے تسلیم کِیا کہ اُنہوں نے گزشتہ مہینے کے دوران کمازکم تین بار شراب پی تھی۔ تیس یورپی ممالک میں ۱۵ سے ۱۶ سال کے ۰۰۰،۰۰،۱ طالبعلموں پر کئے جانے والے ایک مطالعے نے ظاہر کِیا کہ لیتھوینیا، پولینڈ، سلوونیا اور سلاف ریپبلک کے نوجوان سب سے زیادہ الکحل کا استعمال کرتے ہیں۔ لندن کے اخبار، انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کے رائل کالج آف فیزیشنز نے آگاہی دی کہ ”جگر کا کینسر جو عموماً زیادہ شراب پینے والے ۴۰ سے ۵۰ سال کی عمر کے مردوں میں عام ہوتا تھا اب ۲۰ سال کی خواتین میں بھی پایا جاتا ہے۔ کالج نے ”دریافت کِیا کہ برطانیہ میں لوگوں کی صحت کے مسائل کے سلسلے میں الکحل کے مسئلے پر سب سے زیادہ پیسہ خرچ ہوتا ہے۔“
چپو کشتی میں بحرالکاہل پار کرنا
ایک شخص نے کسی بادبان یا انجن کے بغیر، چپو سے چلائی جانے والی ایک چھوٹی سی کشتی میں تنہا بحرالکاہل کو پار کِیا ہے۔ لیما کا اخبار ایل کومرشیو کی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کا جم شکڈار جون ۲۰۰۰ میں پیرو کے ساحل سے روانہ ہوا۔ یہ بہادر جہازراں اپنے ہمراہ ایک پانی سے نمک کم کرنے والی چھوٹی مشین، ریڈیو، چار سیٹلائٹ کے مواصلاتی نظام اور ان سب کو توانائی فراہم کرنے کیلئے ایک شمسی پینل لے گیا تھا۔ مارچ ۲۰۰۱ میں، نو ماہ اور ۰۰۰،۱۵ کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد اس شخص نے جسے بعض لوگوں نے ”دیوانہ ملاح“ کا نام بھی دیا آسٹریلیا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ وہ اپنے سفر کے دوران دس بار شارک کے حملوں اور ایک تیلبردار جہاز سے ٹکرانے سے بچا تھا۔ تاہم اُسے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا سفر کے آخری دن پر ہوا جب لہروں نے اُسکی کشتی کو اُلٹ دیا اور وہ آخری ۱۰۰ میٹر پانی میں تیر کر اپنے خاندان تک پہنچا جو بڑی بےچینی سے اُسکا انتظار کر رہے تھے۔
مشفقانہ برتاؤ صحتیابی کے امکان بڑھاتا ہے
لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے، ”واقعی، ایک بامروت اور تسلی دینے والے ڈاکٹر کا مشفقانہ برتاؤ بہتر نتائج پر منتج ہوتا ہے۔“ انگلینڈ کی یارک، ایکزیٹر اور لیڈز یونیورسٹی کے محققین نے اس سلسلے میں کئے جانے والے ۲۵ مطالعوں کا جائزہ لینے سے یہ نتیجہ اخذ کِیا: ”اپنے مریضوں کیساتھ ایک پُرتپاک اور دوستانہ رشتہ قائم کرنے والے معالج جو انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ بہت جلد صحتیاب ہو جائینگے ایسے معالجوں سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے تھے جنکا طریقۂعلاج رسمی، غیرواضح اور احساساتوجذبات سے عاری تھا۔“ سویڈن میں ایک مطالعہ نے ظاہر کِیا کہ مریض ”ایسے ڈاکٹر سے مطمئن اور جلد صحتیاب ہوتے ہیں جو انہیں یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ بہتر ہو جائینگے، سوال پوچھنے کیلئے انکی حوصلہافزا کرتا ہے اور ان کیساتھ کچھ وقت گزارتا ہے۔“
باقاعدہ ورزش کی اہمیت
بہتیرے لوگ آفس میں زیادہ وقت بیٹھ کر کام کرتے ہیں، لہٰذا وہ موٹاپے، قلبی مرض اور صحت کے دیگر مسائل سے بچنے کیلئے کبھیکبھار سخت ورزش کر لیتے ہیں۔ تاہم جرمنی کے اخبار، سیوٹڈویخ ٹسیٹن کی رپورٹ کے مطابق، ایک حالیہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ کبھیکبھار کی جانے والی سخت ورزش کی بجائے اکثر کی جانے والی متوازن ورزش جسم کے استحالہ کیلئے بہتر ثابت ہوتی ہے۔ ڈچ محقق ڈاکٹر کلاوس وسٹرٹرپ نے ۳۰ رضاکاروں کے جسم سے ہر لمحے خارج ہونے والی توانائی کا مطالعہ کِیا۔ نتائج نے ظاہر کِیا کہ بجائے اس کے کہ ایک شخص ”اپنے انفعالی اوقات میں توازن قائم کرنے کے لئے تھکا دینے والی سرگرمیوں میں حصہ لے“ روزمرّہ زندگی میں زیادہ سے زیادہ جسمانی کارگزاری شامل کرنا بہتر ہے۔ رپورٹ تجویز پیش کرتی ہے: ”وقتاًفوقتاً اُٹھنےبیٹھنے کے ساتھ ساتھ جہاں تک ممکن ہو پیدل چلنے اور سائیکل چلانے جیسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا جانا چاہئے۔“
فرانس کی تیزرفتار ریلگاڑیاں
سن ۱۸۶۷ میں، پیرس کے جنوب سے مارسیل تک کے ریل کے سفر کو ۱۶ گھنٹے لگتے تھے۔ سن ۱۹۶۰ کے دوران اسے ساڑھے سات گھنٹے لگتے تھے۔ لیکن جون ۲۰۰۱ میں فرانس کے نیشنل ریلویز نے ان دو شہروں کو ملانے والی ایک نئی تیز رفتار ریل متعارف کرائی۔ اب مسافر ۳۰۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر سفر کر سکتے ہیں اور ۷۴۰ کلومیٹر کا فاصلہ صرف تین گھنٹوں میں طے ہو سکتا ہے۔ یہ ریلگاڑیاں لائنز کے جنوب میں ۲۵۰ کلومیٹر کی ایک پٹڑی پر سے ۵۰۰ پل اور ۱۷ کلومیٹر پر محیط خوبصورت محرابوں کو پار کرتی اور تقریباً ۸ کلومیٹر لمبے زمیندوز راستے سے گزرتی ہیں۔ فرانس کا روزنامہ اخبار لی مونڈ بیان کرتا ہے، اگر ضرورت پڑے تو ”بہترین حفاظتی نظام کے تحت فی گھنٹہ ۲۰ ریل گاڑیاں دونوں سمتوں میں چل سکتی ہیں۔“ باالفاظِدیگر ہر تین منٹ کے بعد ایک ٹرین چلتی ہے۔
دباؤ کا شکار بچے
میکسیکو شہر کا اخبار ایل یونیورسل بیان کرتا ہے کہ ”اب بچپن پہلے کی طرح تمام فکروں سے آزاد، کھیلکود کا روایتی دَور نہیں رہا۔“ محققین نے یہ نتیجہ اخذ کِیا ہے کہ آج کا ایک ۱۰ سالہ بچہ ۱۹۵۰ کے ایک ۲۵ سالہ نوجوان کے برابر دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔ اس دباؤ کی بنیادی وجہ تعلیمی اور دیگر ایسی کارگزاریاں ہیں جنکے ذریعے والدین اپنے بچے کیلئے ایک بہتر مستقبل کی اُمید کرتے ہیں۔ تاہم اخبار بیان کرتا ہے کہ یہ اضافی بوجھ ”بچے کی صحت، آرام اور نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔“ رپورٹ والدین کو اپنے بچوں کی کارگزاریوں کا دوبارہ جائزہ لینے کا مشورہ دیتی ہے تاکہ وہ گھر پر زیادہ وقت صرف کر سکیں۔ تاہم سکول سے آنے کے بعد ٹیلیویژن یا کمپیوٹر پر وقت صرف کرنے کی بجائے ”اسکا مقصد باہر جا کر دوسرے بچوں کیساتھ کھیلنا، اپنی سائیلکیں چلانا، معمے حل کرنا یا تصاویر بنانا ہونا چاہئے۔“
گرم سمندر حیوانی زندگی کو متاثر کرتا ہے
سائنسدانوں نے آسٹریلیا کے جنوبمغرب میں ۶۰۰،۴ کلومیٹر دُور واقع علاقہ ہیرڈ آئیلینڈ کے ایک حالیہ دورے پر علاقائی نباتاتوحیوانات میں حیرانکُن تبدیلیوں کا انکشاف کِیا۔ اخبار ویسٹ آسٹریلین کی رپورٹ کے مطابق، ”کنگ پینگوئن، بحری شیر اور قوق کی تعداد دُگنی ہوگئی ہے اور جن علاقوں میں کسی وقت گلیشیر ہوا کرتے تھے اب وہاں گھنے پیڑ پودے نظر آتے ہیں۔“ ماہرِحیاتیات ایرک وہلر کے مطابق، ۱۹۵۷ میں اس جزیرے پر نسلکُشی کرنے والے کنگ پینگوئنز کے صرف تین جوڑے ہوا کرتے تھے۔ ”اب“ وہ بیان کرتا ہے، ”اُن کی تعداد ۰۰۰،۲۵ سے زائد ہو گئی ہے۔“ وہلر کے مطابق گزشتہ ۵۰ سالوں میں سمندر کا سطحی درجۂحرارت تقریباً ۳.۱ ڈگری سے بڑھ گیا ہے۔ وہ مزید بیان کرتا ہے: ”جبکہ یہ اضافہ کچھ خاص نہیں لگتا تاہم اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اس بات کو غلط ثابت کرتی ہیں۔“ وہلر کے اندازے کے مطابق، اس جزیرے کا موسم آخرکار اسقدر گرم ہو سکتا ہے کہ یہ بعض نباتاتوحیوانات کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔