زیبرا—افریقہ کا جنگلی گھوڑا
زیبرا—افریقہ کا جنگلی گھوڑا
افریقہ سے جاگو! کا رائٹر
افریقی سبزہزاروں میں ہزاروں زیبرے آزاد گھومتے پھرتے ہیں۔ جب اُنکی ایالدار گردنیں اُنکی طاقتور چال کیساتھ جھومتی ہیں تو اُنکا دھاریدار گوشت زور زور سے حرکت کرتا ہے۔ خشک زمین پر پڑنے والے اُنکے کھروں کی آواز دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ اُنکے پیچھے اُڑنے والے گردوغبار کو میلوں تک دیکھا جا سکتا ہے۔ بغیر کسی رُکاوٹ یا پابندی کے وہ آزاد اور بےقابو اِدھراُدھر دوڑتے ہیں۔
وہ گویا کسی اندیکھے سگنل سے آہستہ ہوتے اور پھر رُک جاتے ہیں۔ اپنے مضبوط اور موٹے دانتوں سے وہ خشک گھاس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اُنکا غول بڑا چوکنا رہتا ہے اور کبھیکبھار سر اُوپر اُٹھا کر دیکھتا، غور سے سنتا اور سونگھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ہوا کی مدد سے دُور فاصلے پر چنگھاڑنے والے شیر کی آواز سنکر مضطرب نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ اس آواز کو بخوبی پہچانتے ہیں۔ کھڑے کانوں اور مُنہ سے لٹکتے ہوئے گھاس کیساتھ چنگھاڑ کی سمت میں دیکھتے ہیں۔ کسی فوری خطرے کو محسوس کئے بغیر وہ دوبارہ گردن نیچے کرکے گھاس چرنا شروع کر دیتے ہیں۔
جب سورج کی تپش شدت اختیار کرنے لگتی ہے تو وہ دوبارہ چل پڑتے ہیں۔ اس وقت پانی کی خوشبو اِن جنگلی گھوڑوں کو دریا کی جانب کھینچ رہی ہے۔ وہ دریا کے کنارے رُک کر آہستہ آہستہ بہتے ہوئے گدلے پانی کو دیکھنے کیساتھ ساتھ نتھنے پھلاتے اور خشک مٹی کو کریدتے ہیں۔ پانی کی سطح کے نیچے چھپے کسی امکانی خطرے کو بھانپتے ہوئے وہ پانی پینے سے ہچکچاتے ہیں۔ کیونکہ اُنہیں شدید پیاس لگی ہوئی ہے لہٰذا اُن میں سے بعض آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بِلاتاخیر وہ اپنی پوری طاقت کیساتھ دریا کے کنارے کی طرف بھاگتے ہیں۔ باری باری وہ سب اپنی پیاس بجھاتے اور پھر واپس کھلے میدانوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
شام تک غول بغیر کسی عجلت کے اُونچیاُونچی گھاس میں چلتاپھرتا رہتا ہے۔
غروبِآفتاب کی گہری سُرخی سے بےنیاز، وہ کھلے افریقی میدانوں میں بڑے خوبصورت لگتے ہیں۔دھاریدار اور ملنسار
زیبرا کا روزمرّہ کا معمول ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ خوراک اور پانی کیلئے اُنکی متواتر تلاش اُنہیں سفر جاری رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ کھلے میدانوں میں چرنے کی وجہ سے زیبرے صافستھرے اور موٹےتازے نظر آتے ہیں اور اُنکی دھاریدار کھال اُنکے ٹھوس بدنوں پر خوب تنی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ زیبرا کی دھاریاں بڑی منفرد ہوتی ہیں کیونکہ بعض کا کہنا ہے کہ کوئی دو دھاریاں بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اُنکی سفید اور سیاہ دھاریاں وادی کے دوسرے جانوروں کے درمیان بالکل فرق نظر آتی ہیں۔ تاہم، اُنکی شکلوشبہات نہ صرف دلکش بلکہ افریقہ کے جنگلوں کی زینت بھی ہے۔
زیبرے عادتاً بڑے ملنسار ہوتے ہیں۔ جانوروں میں بھی پُرانی دوستیاں ہوتی ہیں۔ اگرچہ ایک بڑا گروہ کئی ہزار جانوروں پر مشتمل ہو سکتا ہے، توبھی یہ چھوٹے خاندانوں میں منقسم ہوتا ہے جو کہ ایک جوان گھوڑے اور اُسکی بالغ ماداؤں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ چھوٹا سا خاندان اپنے افراد کی درجہبندی کے ذریعے اُسے دوسروں سے الگ رکھتا ہے۔ طاقتور مادہ خاندان کے سفر کرنے کی سمت کا تعیّن کرتی ہے۔ دوسری مادہ زیبرا کیساتھ ملکر وہ سب کی پیشوائی کرتی ہے اور اُنکے بچے اپنے درجے کے مطابق قطاردرقطار چلتے ہیں۔ اگرچہ، زیبرا ہی اسکا انچارج ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اُسکا خاندان اپنا راستہ بدل لے تو وہ پیشوائی کرنے والی مادہ کے پاس جا کر اُسے نئی سمت کے بارے میں اشارے سے سمجھاتا ہے۔
زیبرے آرائشوزیبائش کے بڑے شوقین ہوتے ہیں اور اُنہیں ایک دوسرے کے کوکھ، کندھوں اور کمر پر کترتے اور رگڑتے دیکھنا بڑی عام بات ہے۔ ایک دوسرے کی آرائشوزیبائش جانوروں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرتی ہے اور یہ اُس وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب بچے کچھ ہی دنوں کے ہوتے ہیں۔ اگر خاندان کا کوئی دوسرا فرد دستیاب نہیں ہوتا تو خارش کے طالب زیبرے مٹی میں لوٹپوٹ ہونے یا پھر درخت یا ٹیلے یا دیگر کسی ساکن چیز کیساتھ اپنے جسم کو رگڑتے ہیں۔
بقا کیلئے جدوجہد
زیبرا کی زندگی خطروں سے معمور ہوتی ہے۔ شیرببر، جنگلی کتے، لگڑبھگا، چیتے اور مگرمچھ سب کے سب ۵۵۰ پاؤنڈ کے زیبرے کو معمولی شکار خیال کرتے ہیں۔ ایک زیبرا ۳۵ میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے لیکن کبھیکبھار دھوکا دینے والے اور خفیہ منصوبہسازی کا استعمال کرنے والے شکاری اسے بےخبری میں پکڑ لیتے ہیں۔ شیرببر جھاڑیوں میں چھپ کر، مگرمچھ گدلے پانیوں کے نیچے اور چیتے رات کی تاریکی میں چھپ کر انکا شکار کرتے ہیں۔
زیبرا کا دفاع غول کی ہوشیاری اور مجموعی کارکردگی پر منحصر ہوتا ہے۔ اگرچہ بیشتر رات کو سوتے ہیں جبکہ کچھ ہمیشہ جاگتے، آواز کو سنتے اور چوکس رہتے ہیں۔ اگر زیبرا
کسی شکاری کو قریب آتے دیکھ لیتا ہے تو وہ ایسی آواز نکالتا ہے جس سے سارا غول ہوشیار ہو جاتا ہے۔ اکثر جب غول کا ایک فرد بیمار یا بوڑھا ہو جاتا ہے اور غول کیساتھ ساتھ نہیں چل سکتا تو دوسرے زیبرے جانبوجھ کر آہستہ چلنے لگتے ہیں یا پھر کھڑے ہو کر اُس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب تک وہ غول کیساتھ دوبارہ مل نہیں جاتا۔ جب خطرہ لاحق ہوتا ہے تو نر زیبرا بڑی دلیری کیساتھ شکاری اور مادہ زیبروں کے بیچ کھڑا ہو کر دُشمن کو کاٹنے اور مارنے لگتا ہے تاکہ غول کو فرار ہونے کا موقع مل جائے۔ایسے خاندانی اتحاد کی ایک غیرمعمولی مثال افریقہ کے اندر سرینجنٹی کے میدانوں میں رونما ہونے والے ایک واقعہ سے ملتی ہے جسے حیوانات اور نباتات کے مطالعہ کرنے والے ہیوکو وین لاوک نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ کیسے جنگلی کتوں کا ایک گروہ زیبرا کے غول کے پیچھے پڑ گیا، وہ کہتا ہے کہ کتے ایک مادہ زیبرا، اُسکے ایک نوعمر اور ایک یکسالہ بچے کو الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ زیبرا کا باقی غول اگرچہ بھاگ گیا لیکن ماں اور یکسالہ بچہ بڑی دلیری کیساتھ کتوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ جلد ہی کتے بہت خونخوار ہو گئے اور مادہ زیبرا اور اُسکا بچہ نڈھال ہونے لگے۔ اُنکی موت یقینی نظر آ رہی تھی۔ وین لاوک بےبسی کے اُس منظر کو یاد کرتا ہے: ”اچانک مجھے زمین لزرتی ہوئی محسوس ہوئی اور جب مَیں نے اِدھراُدھر نظر دوڑائی تو مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دس زیبرے دوڑے چلے آ رہے تھے۔ ایک لمحے بعد اس غول نے ماں زیبرا اور اُسکے دو بچوں کے گرد گھیرا ڈال لیا اور پھر واپس مڑتے ہوئے پورے کا پورا گروہ جدھر سے آیا تھا اُدھر کو واپس بھاگ گیا۔ تقریباً ۵۰ گز تک کتوں نے اُنکا پیچھا کِیا مگر غول میں داخل نہ ہو پانے کے باعث واپس لوٹ آئے۔“
خاندان کی دیکھبھال کرنا
مادہ زیبرا اپنے نومولود بچے کو بہت محفوظ رکھتی ہے اور شروع شروع میں تو اُسے غول کے دیگر افراد سے بھی دُور رکھتی ہے۔ اس دوران بچہ اپنی ماں کے بہت قریب آ جاتا ہے۔ چھوٹا بچہ اپنی ماں کی منفرد سیاہ اور
سفید دھاریاں پہچاننے لگتا ہے۔ بعدازاں وہ اپنی ماں کی آواز، خوشبو اور دھاریاں بھی پہچاننے لگتا ہے اور کسی دوسری مادہ زیبرا کو ماں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔نومولود زیبرے اپنے والدین جیسی مخصوص سفید اور سیاہ دھاریوں کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ اُنکی دھاریاں سُرخی مائل بھوری ہوتی ہیں اور عمر کیساتھ ساتھ ہی سیاہ ہوتی ہیں۔ بڑے غول میں، دیگر خاندانوں کے بچے سب ملکر کھیلتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے دوڑیں لگاتے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں اور بعضاوقات تو چند بالغ بھی اُن کیساتھ کھیل میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اپنی دُبلیپتلی ٹانگوں پر دوڑتے ہوئے زیبرا کے بچے پرندوں اور چھوٹے جانوروں کا بھی پیچھا کرتے ہیں۔ زیبرا کے بچے اپنی لمبی نازک ٹانگوں، سیاہ آنکھوں، مضبوط اور ملائم جِلد کیساتھ خوبصورت چھوٹے جانور ہیں جنہیں دیکھنا خوشی بخشتا ہے۔
بےقابو اور حیرتانگیز
زیبروں کے بڑے غول آج بھی افریقہ کے وسیع سنہرے سبزہزاروں میں آزادی اور تیزرفتاری سے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ واقعی قابلِدید نظارہ ہوتا ہے۔
کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ اپنی منفرد سیاہ اور سفید دھاریوں، بدرجہاُتم خاندانی وفاداری، بےقابو اور آزاد طبیعت والا زیبرا ایک جاذبِتوجہ اور حیرتانگیز مخلوق نہیں؟ ایسے جانور کی بابت علم ایک ایسے سوال کا جواب فراہم کرتا ہے جو ہزاروں سال پہلے پوچھا گیا تھا: ”گورخر [زیبرے] کو کس نے آزاد کِیا؟“ (ایوب ۳۹:۵) جواب بالکل واضح ہے۔ یہ تمام مخلوقات کا نمونہساز یہوواہ خدا ہی ہے۔
[صفحہ ۱۴ پر بکس]
زیبرا دھاریدار کیوں ہوتا ہے؟
ارتقا پر یقین رکھنے والے زیبرا کی دھاریوں کی وضاحت کرنا مشکل پاتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ انتباہی بناوٹ کا کام دے سکتی ہے۔ تاہم، یہ بالکل واضح ہے کہ شیرببر اور دیگر بڑے شکاری زیبرا کی دھاریوں سے قطعاً نہیں گھبراتے ہیں۔
دیگر کا خیال ہے کہ دھاریاں جنسی کشش کا ذریعہ ہیں۔ تاہم، چونکہ تمام زیبرا کی ایک جیسی دھاریاں ہوتی ہیں اور کسی ایک جنس کی مخصوص نہیں ہوتی لہٰذا یہ منطق بھی درست نہیں۔
ایک اَور نظریے کے مطابق، سفید اور سیاہ دھاریاں افریقہ کی شدید گرمی کو منتشر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن دوسرے جانوروں پر دھاریاں کیوں نہیں ہوتیں؟
ایک نظریہ جو ابھی تک قائم ہے وہ یہ ہے کہ زیبرا کی دھاریاں ایک طرح سے کیموفلاژ کا کام دیتی ہیں۔ سائنسدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ افریقہ کے میدانوں سے اُٹھنے والی گرمی زیبرا کو غیرواضح بناتی ہے جس وجہ سے اُنہیں ذرا فاصلے سے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، طویل فاصلے سے ایسے کیموفلاژ کی افادیت بہت کم ہوگی کیونکہ زیبرا کا سب سے بڑا دُشمن، شیرببر بہت قریب سے حملہ کرتا ہے۔
یہ بھی دعویٰ کِیا گیا ہے کہ خوفوہراس میں بھاگتے ہوئے دھاریدار زیبرا کے غول شکاری شیرببروں کو پریشان کر دیتے ہیں کیونکہ دھاریوں کی وجہ سے وہ کسی ایک جانور پر توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے۔ تاہم، حقیقت میں، حیوانات کے مطالعوں نے ظاہر کِیا ہے کہ شیرببر زیبرا کا شکار کرنے میں بھی اُتنے ہی ماہر اور کامیاب ہیں جتنے کہ وہ دوسرے جانوروں کے شکار میں ہیں۔
رات کے وقت، چاند کی روشنی میں چمکتے ہوئے میدانوں میں، زیبرا کی سیاہ اور سفید دھاریاں اُنہیں ایک رنگ والے دوسرے جانوروں کی نسبت زیادہ واضح بناتی ہیں۔ چونکہ شیر عموماً رات کو شکار کرتے ہیں لہٰذا رنگ کی وجہ سے زیبرا کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔
پس زیبرا کی دھاریاں کہاں سے آئیں۔ اسے سمجھنے کا راز اس سادہ سے بیان کو سمجھنے میں ہے: ”[یہوواہ] ہی کا ہاتھ ہے جس نے یہ سب بنایا۔“ (ایوب ۱۲:۹) جیہاں، خالق نے زمین کی مخلوقات کو منفرد خصوصیات اور خوبیوں کیساتھ بنایا ہے جو کہ اُنہیں حیرتانگیز طور پر زندہ رکھتی ہیں اور جنہیں پوری طرح سے سمجھنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ جانداروں کا حیرتانگیز نمونہ ایک دوسرا مقصد بھی انجام دیتا ہے۔ یہ انسان کے دل کو خوشی، اطمینان اور راحت بخشتا ہے۔ بِلاشُبہ، تخلیق کی خوبصورتی نے بہتیروں کو آجکل قدیم زمانہ کے داؤد کی طرح محسوس کرنے کی تحریک دی ہے: ”اَے [یہوواہ]! تیری صنعتیں کیسی بےشمار ہیں! تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہے۔“—زبور ۱۰۴:۲۴۔