ہمارے قارئین کی رائے
ہمارے قارئین کی رائے
بڑےبوڑھے مَیں نے ابھیابھی مضمون ”نوجوان لوگ پوچھتے ہیں . . . مَیں اپنے بڑےبوڑھوں کی قربت کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟“ (جون ۸، ۲۰۰۱) پڑھا ہے۔ میرے والدین نے ہمیشہ اپنے نانا نانی کیساتھ رشتہ اُستوار کرنے کیلئے میری حوصلہافزائی کی ہے لیکن میرے والدین اور نانا نانی کے درمیان اختلافات کی وجہ سے مَیں نے ہمیشہ یہ محسوس کِیا ہے کہ مجھے ان کیساتھ رابطہ نہیں رکھنا چاہئے۔ اس مضمون نے میری یہ سمجھنے میں مدد کی کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ مَیں ان کیساتھ رشتہ قائم کروں۔ لہٰذا کسی کی طرفداری کرنے کی بجائے مَیں یہوواہ کا ساتھ دینے کا انتخاب کرتی ہوں۔
سی. ایل. ایم.، ریاستہائےمتحدہ
بڑےبوڑھوں کی بابت کیا ہی شاندار مضامین! مَیں بہت خوش ہوئی کہ آپ نے خطوکتابت کا ذکر کِیا ہے۔ ہم میں سے بعض ’نوجوان اشخاص‘—میری عمر ۳۶ سال ہے—ہر خط اور کارڈ کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ بل اور غیرضروری اشتہارات کے علاوہ بھی کچھ ملنا واقعی ایک انمول تحفہ ہے!
ایم. کیو.، ریاستہائےمتحدہ
مَیں جون ۸، ۲۰۰۱ کے جاگو! اور اپریل ۲۲، ۲۰۰۱ کے اویک! میں بڑےبوڑھوں پر شائع ہونے والے مضامین کیلئے آپکا ممنون ہوں۔ اگرچہ میری دادی مجھ سے بہت دُور رہتی ہے توبھی مَیں اُن کیساتھ ایک پُرتپاک رشتہ رکھتا ہوں۔ یہ رشتہ ویسا ہی ہے جیسےکہ آپ کے مضامین میں بیان کِیا گیا ہے۔ وہ یہوواہ کی ایک گواہ ہے اور مَیں نے زیادہتر روحانی تعلیم اُسی سے حاصل کی ہے۔ بعضاوقات ہم دونوں ملکر مسیحی اجلاسوں کی تیاری کرتے ہیں۔ انہیں خوشی سے یہوواہ کی خدمت کرتا دیکھکر یہوواہ کیلئے میری محبت بڑھ جاتی ہے۔ یہ مضامین اس خاص رشتے کو برقرار رکھنے میں میری مدد کرتے ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!
جی. ایم.، یوگوسلاویہ
میرا ایک سوال ہے۔ میرے دادا بہت بیمار ہے اور میری دادی کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں۔ جب مَیں ان کیساتھ سیروتفریح نہیں کر سکتی تو مَیں انکی قربت کیسے حاصل کر سکتی ہوں؟
ٹی. او.، ریاستہائےمتحدہ
”جاگو!“ کا جواب: اگر آپ کے دادا دادی قریب رہتے ہیں تو آپ ان سے ملنے جا سکتی ہے یا وقتاًفوقتاً فون پر ان کیساتھ باتچیت کر سکتی ہے۔ انکے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ ان کیلئے چھوٹےموٹے کام بھی کر سکتی ہے۔ جیساکہ مضمون نے واضح کِیا، خطوکتابت اپنے دادا دادی کے قریب جانے کا ایک اَور طریقہ ہے۔ بہرکیف، آپ کے دادا دادی رابطہ رکھنے کی آپکی کسی بھی کوشش کو یقیناً سراہیں گے۔
ٹیلیفون ایک بڑے تعلیمی ادارے میں طبیعات کے شعبے میں کام کرنے والے کی حیثیت سے مَیں آپکے مضمون ”ٹیلیفون کیسے کام کرتے ہیں؟“ کی بڑی قدر کرتا ہوں۔ (جون ۸، ۲۰۰۱) اُمید ہے کہ اسکی واضح تحریر ان لوگوں کو تحریک دیگی جو یہ خیال کرتے ہیں کہ طبیعات کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔
ایس۔ ٹی۔، برطانیہ
مضمون ”ٹیلیفون کیسے کام کرتے ہیں؟“ کیلئے آپکا بہت شکریہ۔ مَیں اکثر اس سوال کی بابت سوچتی تھی۔ مَیں ہائی سکول کی ایک طالبہ ہوں اور جاگو! بڑے شوق سے پڑھتی ہوں۔ یہ بروقت اشاعت سکول کے کام میں بڑی مددگار ثابت ہوئی ہے۔ آپکی محنت کیلئے آپکا شکریہ!
ایچ. ڈبلیو.، ریاستہائےمتحدہ
ٹیلیگراف کیبل سب سے پہلے ۱۸۶۶ میں اٹلانٹک میں نہیں بچھایا گیا تھا۔ پہلا کیبل ۱۸۵۸ میں آئرلینڈ اور نیوفاؤنڈلینڈ کے درمیان بچھایا گیا تھا۔ یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہا تھا اسلئے لوگ اسے بھول گئے ہیں۔
ایل. ڈی.، برطانیہ
”جاگو!“ کا جواب: ہمارے مضمون نے محض یہ بیان کِیا تھا کہ ”ایک ’ٹیلیگراف‘ کیبل ۱۸۶۶ میں اٹلانٹک میں بچھایا گیا تھا جس نے آئرلینڈ اور نیوفاؤنڈلینڈ کو ملایا تھا۔“ پہلا کیبل، جیساکہ آپ نے بیان کِیا ہے، ۱۸۵۸ ہی میں بچھایا گیا تھا۔ تاہم کچھ ہفتوں کے بعد کام نہ کرنے کی وجہ سے اسے استعمال کرنا چھوڑ دیا گیا تھا۔