جنگلی حیات کی کڑی نگرانی کرنا
جنگلی حیات کی کڑی نگرانی کرنا
ذرا تصور کریں کہ آپ کی پُشت پر ایک چھوٹا ریڈیو ٹرانسمیٹر لگا ہوا ہے تاکہ آپ کی ہر حرکت پر نگاہ رکھتے ہوئے اس کا تجزیہ کیا جا سکے۔ مسز گبسن نامی آزاد پرندے قادوس کیساتھ یہی ہوا ہے۔ اُس پر لگا ہوا چھوٹا سا ٹرانسمیٹر ماہرین کو ایسے سیٹلائٹس کے ذریعے جو اُن کی ہر حرکت پر نیز ایسے ہی آلات والے دیگر پرندوں پر نگاہ رکھتے اور ان معلومات کو زمین پر منتقل کرتے ہیں۔ اس طرح اکٹھی کی جانے والی معلومات سے ان حیرتانگیز پرندوں کی بابت بہتیرے حیرانکُن انکشافات ہوئے ہیں اور اُمید ہے کہ یہ اُنکے تحفظ میں نہایت مفید ثابت ہونگے۔
وکٹوریا، آسٹریلیا کی لا ٹروب یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق، محققین نے دریافت کِیا ہے کہ آزاد قادوس ایک دن میں اوسطاً ۳۰۰ کلومیٹر بلکہ کبھیکبھار ایک دن میں ۰۰۰،۱ کلومیٹر پرواز کرتے ہیں۔ انکے پروں کا پھیلاؤ ۱۱ فٹ یعنی دیگر پرندوں سے زیادہ ہے اور یہ سبکرفتار پرندے سمندر کے اُوپر محرابی شکل میں کئی مہینوں کے اندر ۰۰۰،۳۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ ریاستہائےمتحدہ میں بھی ایسی ہی تحقیقات نے ظاہر کِیا ہے کہ لاسن قادوس نے اپنے صرف ایک بچے کے لئے خوراک حاصل کرنے کی خاطر ٹرن جزیرے، شمالمغربی ہونولولو سے جزائر الیوشن تک ۰۰۰،۶ کلومیٹر کا دوطرفہ سفر کِیا تھا۔
ان جدید تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نر قادوس کی نسبت مادہ قادوس کی تعداد میں تیزی سے کمی کیوں واقع ہوئی ہے۔ پرواز کے راستوں نے ظاہر کِیا ہے کہ نر انٹارکٹیکا کے قریب ہی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں جبکہ مادہ اکثر لانگلائن فشنگ والی کشتیوں کے علاقے میں جاکر شکار کرتی ہیں۔ ان کشتیوں کے پیچھے لگا ہوا چارہ کھانے والے پرندے پھنس کر ڈوب جاتے ہیں۔ ان پرندوں کی بعض آبادیوں میں تعداد کے حوالے سے نر زیادہ ہیں اس لئے ہر مادہ کے حصے میں دو نر آتے ہیں۔ قادوس کی دیگر انواع بھی متاثر ہوئی ہیں۔ دراصل، ایک مرتبہ آسٹریلیا اور نیوزیلینڈ کے سمندر میں لانگلائن کشتیوں کی وجہ سے سال میں ۰۰۰،۵۰ پرندے ڈوب گئے جس سے مختلف انواع کی ناپیدگی کا خطرہ لاحق ہے۔ آسٹریلیا میں قادوس کو خطرے سے دوچار انواع قرار دے دیا گیا ہے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں ماہیگیری کے طریقوں میں تبدیلی کر دی گئی ہے جس سے قادوس کی شرحِاموات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم، انکی بڑی آبادیوں میں تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔
پرندوں کو بینڈ باندھنا
اگرچہ چھوٹے الیکڑونک آلات بعض انواع کے پرندوں پر نگاہ رکھنے میں محققین کی مدد کر رہے ہیں لیکن کئی سالوں سے سستے اور سادہ طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ ایک طریقہ پرندوں کو بینڈ باندھنا ہے جس میں دھات اور پلاسٹک کا بینڈ بڑی احتیاط سے پرندے کی ٹانگ پر باندھ دیا جاتا ہے۔
رسالہ سمتھسنین بیان کرتا ہے کہ تحقیق کے عام طریقے کے طور پر پرندوں کو بینڈ باندھنے کا آغاز ۱۸۹۹ میں ہوا جب ڈنمارک کے سکول ٹیچر ہینز کرسچین مارٹنسن نے ”اپنے لئے دھاتی بینڈ بنائے اور اُن پر اپنا نام اور پتا لکھ کر اُنہیں جنگلی میناؤں کے ۱۶۵ بچوں کے پیروں میں باندھ دیا۔“ آجکل عالمی پیمانے پر پرندوں کو بینڈ باندھنا جسے یورپ میں کڑے پہنانا کہا جاتا ہے بہت عام ہے اور اس سے پرندوں کی پراگندگی اور نقلمکانی کی عاداتواطوار، رہنسہن، آبادی، بقا اور شرحِافزائش کی بابت اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ جن ممالک میں شکار کرنے کی اجازت ہے وہاں پرندوں کو بینڈ باندھنا اُنکے شکار کرنے کے سلسلے میں ٹھوس اقدام وضع کرنے میں حکومت کی مدد کرتا ہے۔ بینڈ باندھنے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پرندے بیماری اور زہریلے کیمیائی مادوں سے کیسے متاثر ہوتے ہیں۔ دراصل، بعض پرندے انسفالائٹس اور لائم جیسی انسانی بیماریوں سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں، لہٰذا طیوری حیات اور عادات کی بابت معلومات ہماری صحت کے تحفظ کے سلسلے میں بھی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
کیا بینڈ باندھنا ظلم ہے؟
پرندوں کے پیروں پر اُنہی ممالک میں بینڈ باندھے جاتے ہیں جہاں اس کا رواج ہے اور اس کے لئے لگانے والوں کو عموماً لائسنس جاری کئے جاتے ہیں۔ آسٹریلین نیچر کنزرویشن ایجنسی کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں ”بینڈ لگانے والوں کو پرندے پکڑنے اور اُنہیں زخمی کئے بغیر بینڈ لگانے کی خاص تربیت دی جاتی ہے۔ اس تربیت کے لئے عموماً دو سال کا عرصہ نیز کافی زیادہ پریکٹس درکار ہوتی ہے۔“ اس طرح کے قوانین یورپ، کینیڈا، ریاستہائےمتحدہ اور دیگر ممالک میں نافذ ہیں۔
پرندوں کے اِن بینڈز کی اشکال، سائز، رنگ اور دھات مختلف ہوتا ہے۔ زیادہتر بینڈ عموماً ایلومینیم یا پلاسٹک جیسے ہلکےپھلکے مسالے سے بنے ہوتے ہیں لیکن زیادہ عمر پانے والے پرندوں یا نمکین پانی میں رہنے والے پرندوں کے بینڈز کیلئے سٹینلس سٹیل یا دیگر زنگ سے محفوظ دھات استعمال کئے جاتے ہیں۔ رنگین بینڈ پرندوں کو دُور ہی سے شناخت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگرچہ اسکا مطلب کئی بینڈ لگانا ہوتا ہے مگر اسکی وجہ سے پرندوں کو شناخت کیلئے بار بار نہیں پکڑنا پڑتا۔
خواہ کسی بھی قسم کے بینڈ یا نشان لگائے جائیں، ماہرین اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی بات نہ ہو جو پرندوں کی عاداتواطوار، عمر، رہنسہن، ماحول یا بقا کے امکانات کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، شوخ رنگوں والا بینڈ پرندوں کو شکاریوں کیلئے زیادہ نمایاں بنا سکتا ہے یا اُنکی کامیاب جفتی کو متاثر کر سکتا ہے۔ بعض پرندوں کا فضلہ اُنکی ٹانگوں پر لگ جاتا ہے لہٰذا اُنکی ٹانگوں پر بینڈ لگانے سے بیماری کا احتمال ہے۔ سرد علاقوں میں، بینڈ پر برف جم سکتی ہے جوکہ اِن پرندوں بالخصوص مرغابیوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ پرندوں پر نشان لگانے کے سلسلے میں یہ چند باتیں قابلِغور ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، یہ پرندوں کی حیات اور عادات کی بابت سائنسی علم کی وسعت کو آشکارا کرتا ہے جو اس پروگرام کے مؤثر ہونے کیساتھ ساتھ ہمدردی دکھانے کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
اگر آپ کو ایک بینڈ لگا جانور ملتا ہے؟
بعضاوقات بینڈ یا ٹیگ پر کوئی ٹیلیفون نمبر یا ایڈریس لکھا ہو سکتا ہے جس سے آپ متعلقہ اہلکار یا مالک سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ * اس کے بعد آپ مالک کو اس ٹیگ یا بینڈ کی بابت دیگر معلومات دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اس کی مدد سے ایک ماہرِ حیاتیات کسی مچھلی کے سلسلے میں یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس مچھلی نے بینڈ لگنے کے بعد کتنی رفتار سے اور کتنا فاصلہ طے کِیا ہے۔
دُنیابھر میں ماہرین اور اُن فرضشناس لوگوں کی بدولت جو ملنے والے بینڈ اور ٹیگ واپس کرتے ہیں جانوروں کی بابت حیرانکُن معلومات اکٹھی ہو رہی ہیں۔ ساحلوں پر بسیرا کرنے والے سینڈپائپر کے خاندان سے تعلق رکھنے والے چار سے سات اونس کے پرندے ریڈناٹ کو ہی لے لیں۔ سائنسدان اب یہ جانتے ہیں کہ ریڈناٹ ہر سال کینیڈا کے شمالی علاقے سے نقلمکانی کرکے جنوبی امریکہ جانے اور واپس آنے کیلئے تقریباً ۰۰۰،۳۰ کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں!
ایک صحتمند مگر سنرسیدہ ریڈناٹ کے بینڈ نے آشکارا کِیا کہ وہ شاید ۱۵ برس سے یہ کر رہا تھا۔ جیہاں، یہ چھوٹا پرندہ شاید ۰۰۰،۰۰،۴ کلومیٹر سفر کر چکا تھا جو کہ زمین سے چاند کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے! اس حیرتانگیز چھوٹے پرندے کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے نیچر رائٹر سکاٹ ویڈنسال کہتا ہے: ”مَیں بس یہی کر سکتا ہوں کہ اس وسیع دُنیا کو قریب لانے والے اِن مسافروں (پرندوں) کے لئے حیرت اور احترام کیساتھ سر جھکا دُوں۔“ بِلاشُبہ، ہم زمینی مخلوقات کی بابت جتنا زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اُتنا ہی ہم ’آسمان اور زمین اور جوکچھ اُن میں ہے‘ اُسکے خالق یہوواہ خدا کیلئے عزتواحترام سے معمور ہو جاتے ہیں۔—زبور ۱۴۶:۵، ۶۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 13 بینڈز یا ٹیگ اتنے خستہ ہو سکتے ہیں کہ اس پر درج تفصیلات مدھم پڑ سکتی ہیں۔ تاہم، کندہکاری کے ذریعے، اکثر اِن نظر نہ آنے والی تفصیلات کو پڑھا جا سکتا ہے۔ ریاستہائےمتحدہ میں، دی برڈ بینڈنگ لیبارٹری ہر سال سینکڑوں ایسے بینڈز کو پڑھتی ہے۔
[صفحہ ۱۵ پر بکس/تصویریں]
نشان اور سراغ لگانے کی اقسام
پرندوں کے علاوہ مختلف جانوروں پر بھی مطالعے کی غرض سے نشان لگائے جاتے ہیں۔ نشان لگانے کے اس عمل کا انحصار سائنسدانوں کے مقاصد نیز جانوروں کی طبیعی خصوصیات اور عادات پر ہوتا ہے۔ ٹانگوں پر بینڈ لگانے کے علاوہ، ماہرین نشانیہ، جھنڈی، کپڑے یا چمڑے کا ٹکڑا، پینٹ، جلد پر نقش بنانے، رنگسازی، جانوروں کو داغنے، گلے میں پٹے ڈالنے، وائرلس سے سراغ لگانے والے آلات، مائیکروکمپیوٹرز، سٹینلیسسٹیل کے تیروں (جن پر رمزبندی والے ٹکڑے لگے ہوتے ہیں) نیز پنجے، کان اور دُم پر تراشیدہ لگانے یا اسی طرح کی مختلف تکنیکیں استعمال کرتے ہیں۔ اِن میں بعض بڑی سستی ہیں۔ جبکہ دیگر زیادہ مہنگی ہوتی ہیں جیسےکہ ۰۰۰،۱۵ ڈالر کا کیمکارڈر سمیت تصویر کھینچنے کا برقی آلہ جسے سگماہی کے غوطہ لگانے کی عادات کا مطالعہ کرنے کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔
ایک الیکٹرونک آلہ جسے انٹیگریٹڈ ٹرانپوڈر کہتے ہیں اُسے بیہوش جانور کی کھال یا جسم کے اندر نصب کر دیا جاتا ہے اور پھر ایک خاص آلے کی مدد سے اسکا معائنہ کِیا جاتا ہے۔ نیلپر ٹوناماہی کا مطالعہ کرنے کیلئے، سائنسدان مچھلی کے اندر ایک چھوٹا کمپیوٹر جسے آرکآئول یا سمارٹ ٹیگ کہتے ہیں نصب کر دیتے ہیں۔ یہ مائکروچپس کوئی نو سال تک درجہحرارت، گہرائی، روشنی کی شدت اور وقت کی بابت معلومات جمع کرتا ہے۔ جب اس ٹیگ کو نکالا جاتا ہے تو یہ بہت زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے جس میں مچھلی کے سفر سے متعلق معلومات بھی ہوتی ہیں جوکہ روزانہ کی روشنی اور وقت کی معلومات کا موازنہ کرنے سے حاصل کی جاتی ہیں۔
سانپوں پر نشان لگانے کیلئے مختلف کھپروں پر تراشیدے لگا دئے جاتے ہیں؛ کچھوؤں کے خول پر داندانے بنا دئے جاتے ہیں؛ چھپکلیوں کے پنجوں پر نشان لگا دئے جاتے ہیں؛ گھڑیال اور مگرمچھ کے یا تو پنجوں پر نشان لگا دیا جاتا ہے یا پھر اُنکی دُم کی ہڈی (سینگنما) کو نکال دیا جاتا ہے۔ بعض جانوروں کی شکلوصورت کافی مختلف ہوتی ہے لہٰذا اُنہیں محض تصاویر سے ہی پہچان لیا جاتا ہے۔
[تصویریں]
کالے ریچھ کے کانوں پر ٹیگ لگانا؛ ڈیمسلفش پر لگا اسپیگٹی ٹیگ؛ گھڑیال کی دُم پر ٹیگ
سیٹلائٹ ٹرانسمیٹر کیساتھ ایک ہجرتی شاہین
دھنکرنگ ٹرآوٹ جس میں اندرونی دُورپیمائی آلہ نصب ہے
[تصویروں کے حوالہجات]
.Bear: © Glenn Oliver/Visuals Unlimited; damselfish: Dr. James P
McVey, NOAA Sea Grant Program; alligator: Copyright © 2001 by
Kent A. Vliet; falcon on pages 2 and 15: Photo by National Park
Service; men with fish: © Bill Banaszewski/Visuals Unlimited
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
ایک شکرے کی نوکیلی پنڈلی پر بینڈ لگانا
[تصویر کا حوالہ]
Jane McAlonan/Visuals Unlimited ©