مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خوفناک مناظر اور اُمید کی کرنیں

خوفناک مناظر اور اُمید کی کرنیں

خوفناک مناظر اور اُمید کی کرنیں

‏”‏میرے اِردگِرد کی عمارتیں بڑے زور سے ہل رہی تھیں اور آگ کی لپیٹ میں تھیں۔‏ جب مَیں اپنی جان بچانے کیلئے دوڑ رہا تھا تو فضا لوگوں کی چیخ‌وپکار،‏ دُعاؤں اور مدد کیلئے فریاد کی آواز سے گونج رہی تھی۔‏ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے دُنیا کا خاتمہ آ پہنچا ہے۔‏“‏ —‏جی.‏ آر.‏،‏ زلزلے سے بچنے والا ایک شخص۔‏

ہر سال لاکھوں زلزلے ہمہ‌وقت متحرک ہمارے سیارے کے قشر کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ اِن میں سے بیشتر کو محسوس بھی نہیں کِیا جا سکتا۔‏ * لیکن اوسطاً،‏ ہر سال تقریباً ۱۴۰ زلزلے آتے ہیں جنہیں ”‏زوردار،‏“‏ ”‏بڑے،‏“‏ اور ”‏تباہ‌کُن“‏ کہا جا سکتا ہے۔‏ پوری انسانی تاریخ میں،‏ یہ لاکھوں اموات اور بڑے مالی نقصان کا باعث بنے ہیں۔‏

زلزلے بچنے والے لوگوں کو جذباتی طور پر بھی بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۲۰۰۱ کے اوائل میں السلواڈور میں آنے والے دو زلزلوں کے بعد،‏ وزارتِ‌صحت کی مینٹل ہیلتھ ایڈوائزری کمیٹی کے کوارڈی‌نیٹر نے بیان کِیا:‏ ”‏لوگ غم،‏ مایوسی اور غصے جیسے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔‏“‏ لہٰذا،‏ تعجب کی کوئی بات نہیں کہ السلواڈور میں طبّی عملے نے ڈپریشن اور ذہنی بےچینی کے مریضوں کی تعداد میں ۷۳ فیصد اضافے کی رپورٹ دی ہے۔‏ دراصل،‏ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ریلیف کیمپوں میں رہنے والوں کی ضروریات میں نفسیاتی نگہداشت پانی کے بعد دوسرے درجے پر ہے۔‏

لیکن زلزلوں کی کہانی صرف موت،‏ تباہی اور نااُمیدی پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔‏ بہتیرے معاملات میں،‏ ایسی آفات نے لوگوں کے اندر خیرخواہی اور خودایثاری کا عملی مظاہرہ کرنے کا غیرمعمولی احساس پیدا کر دیا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ بعض کو شکستہ عمارتوں اور خستہ‌حال زندگیوں کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے انتھک محنت کرنی پڑی ہے۔‏ جیساکہ ہم دیکھیں گے،‏ خوفناک مناظر کے دوران بھی اُمید کی ایسی کرنیں چمکی ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 اِن میں معمولی نوعیت کے زلزلے بھی شامل ہیں جو کہ ایک دن میں ہزاروں کے حساب سے آتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲،‏ ۳ پر تصویریں]‏

صفحہ ۲ اور ۳:‏ اتھینے،‏ یونان میں ایک لڑکی مسمار عمارت کے ملبے تلے دبی ہوئی اپنی ماں کی وجہ سے بہت پریشان ہے جبکہ ایک باپ اپنی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائے جانے پر بہت خوش ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

AP Photos/Dimitri

Messinis