دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
وائرس کو غیرفعال بنانے والی چائے
رائٹرز ہیلتھ انفارمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ابتدائی لیبارٹری تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ”کئی قسم کی بکنے والی چائے وائرس کو غیرفعال بنانے یا اسے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔“ سبز اور کالی چائے کی مختلف اقسام کے گرم اور ٹھنڈے مشروب کو ہرپیز سمپلکس ۱ اور ۲ نیز T1 (بیکٹیریائی) وائرس سے متاثرہ جانوروں کے بافتوں پر ٹیسٹ کِیا گیا ہے۔ نیو یارک کی پیس یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر ملٹن شفنبر کے مطابق، ”ٹھنڈی یا گرم چائے واقعی چند منٹوں میں [ہرپیز] وائرس کو ختم کرتی یا غیرفعال بنا دیتی ہے۔“ T1 وائرس کے سلسلے میں بھی ایسے ہی نتائج حاصل ہوئے۔ اگرچہ ابھی تک یہ بات پوری طرح تو واضح نہیں کہ چائے اِن وائرس کی بقا میں کیسے مخل ہوتی ہے توبھی محققین نے دریافت کِیا ہے کہ چائے رقیق بنا دئے جانے کے باوجود بھی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ کالی چائے وائرس کا سدِباب کرنے کے سلسلے میں سبز چائے سے زیادہ کارگر ثابت ہوئی تھی۔
ٹیلیفون اور قرضہ
اخبار دی سنڈے ٹیلیگراف کے مطابق، آسٹریلیا کے نوجوان ”۱۸ سال کی عمر میں ہی موبائل فون کے بِل کی وجہ سے دیوالیہ ہو گئے ہیں۔“ تشہیری بھرمار اور قرضے کی آسان دستیابی کی وجہ سے بعض نوجوانوں پر ہزاروں ڈالر کا موبائل فون بِل واجبالادا ہے۔ نوجوانوں میں اِس بڑھتے ہوئے رُجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے، آسٹریلین فیر ٹریڈنگ منسٹر جان واٹکنز نے کہا: ”بعض نوجوان سکول سے فارغ ہوتے وقت بُری طرح قرضے کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ یہ اُن کے لئے زندگی کا المناک آغاز ثابت ہوتا ہے۔“ یہ اخبار قرضے کے پھندے سے بچنے کے لئے نوجوانوں کے لئے مندرجہذیل تجاویز پیش کرتا ہے: اپنی کال کی لاگت کا حساب لگائیں۔ ایسا موبائل فون استعمال کریں جسکا بِل پہلے ہی ادا کر دیا گیا ہو تاکہ آپ کو زیادہ بِل ادا نہ کرنا پڑے۔ ایسے وقت پر فون کریں جب ریٹ کم ہو جاتا ہے۔
فرانس میں پوشیدہ خطرات
لی فیگارو کی رپورٹ کے مطابق، فرانس میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے وقت سے اندازاً ۳.۱ ملین ٹن مُہلک آلات دبے ہوئے ہیں۔ پُرانا سرحدی علاقہ پُرانے بموں اور کیمیائی شیلوں سے بھرا ہوا ہے جوکہ لوگوں اور ماحول کیلئے خطرے کا باعث ہے۔ بہتیرے خالی علاقوں کے اب رہائشی یا صنعتی علاقے بن جانے سے ہر سال بم ناکارہ کرنے والے سکواڈ کو ہزاروں ٹیلیفون آتے ہیں۔ ابھی تک سینکڑوں حادثے رونما ہو چکے ہیں اور ۱۹۴۵ اور ۱۹۸۵ کے دوران اپنی ڈیوٹی پر موجود ۶۰۰ سے زائد ماہرین جانبحق ہو چکے ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق، موجودہ شرح کے حساب سے اِس سارے اسلحے کو ختم کرنے میں ۷۰۰ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے!
سیاحوں کیلئے پانی؟
لندن کا دی گارڈین رپورٹ دیتا ہے کہ ”سیروتفریح کے لئے مشہور دُنیا کے بیشتر ممالک سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی سومنگ پول اور گالف کورسز کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اُن کے آبی ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔“ ٹوریزم کنسرن کی ٹریسیا برنٹ بیان کرتی ہے کہ ”یہ ایک گمبھیر اور عالمگیر مسئلہ ہے۔ بعضاوقات آپ کو [افریقہ] کے کسی کسی گاؤں میں تو صرف ایک نلکا دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ ہر ہوٹل کے تمام کمروں میں نل اور شاور لگے ہوتے ہیں۔“ عالمگیر قدرتی وسائل کے تحفظ کی تنظیم کے تخمینے کے مطابق سپین میں ایک سیاح ہر روز ۲۳۰ گیلن پانی استعمال کرتا ہے جبکہ مقامی باشندہ صرف ۷۰ گیلن پانی استعمال کرتا ہے۔ کسی خشک ملک میں ۱۸ سوراخوں والے گالف کے میدان میں اُتنا ہی پانی استعمال ہوتا ہے جتنا کہ ۰۰۰،۱۰ لوگوں پر مشتمل ایک قصبہ استعمال کر سکتا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ ۵۵ دنوں میں ۱۰۰ سیاح جتنا پانی استعمال کرتے ہیں اُس سے ۱۰۰ دیہاتیوں کے لئے ۱۵ سال تک کیلئے چاول اُگائے جا سکتے ہیں۔
تمباکونوشی کے خطرات
نیشنل کینسر سینٹر ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف جاپان کے ناؤہیٹو یاماگوچی کا دعویٰ ہے کہ ”تمباکونوشی نہ کرنے والے لوگوں میں پھیپھڑوں کے کینسر سے ہونے والی ہر آٹھ اموات میں سے ایک کا سبب دوسروں کی تمباکونوشی سے اُٹھنے والے دھوئیں میں سانس لینا ہے۔“ سائنسدانوں کی یہ دریافتیں پھیپھڑوں کے کینسر سے مرنے والے ۰۰۰،۵۲ لوگوں کی تحقیق پر مبنی ہیں۔ علاوہازیں، آساہی شمبُن اخبار کے مطابق ”طویل عرصہ کی تحقیق نے واضح کر دیا ہے کہ تمباکونوشوں کی نسبت تمباکونوشی سے اُٹھنے والے دھوئیں میں سانس لینے والوں میں زہریلی کاربن مونوآکسائیڈ اور کارسینوجنز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔“ سن ۱۹۹۹ میں، ۰۰۰،۱۴ لوگوں پر مشتمل حکومتی تحقیق نے ظاہر کِیا کہ سکول اور کام پر جانے والوں کا ۳۵ فیصد اور گھر میں رہنے والے لوگوں کا ۲۸ فیصد دوسروں کی تمباکونوشی سے اُٹھنے والے دھوئیں میں سانس لینے کی وجہ سے بیماری کا شکار تھے۔ یاماگوچی بیان کرتا ہے کہ ”تمباکونوشوں کو اس بات سے باخبر ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کو کتنا زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں اس لئے ان دونوں گروہوں کو علیٰحدہ کرنے کی سخت کوشش کی جانی چاہئے۔“
غلاموں کی جدید تجارت
لندن کے دی انڈیپینڈنٹ کے مطابق، ”ایک برطانوی اکیڈمی کے رُکن کا کہنا ہے کہ انسانی تاریخ کے کسی بھی دَور کی نسبت آجکل غلامی زیادہ عام ہے۔“ اِس اخبار نے بتایا کہ روہیمپٹن میں سُرے یونیورسٹی کے سوشیالوجی کے پروفیسر کیون بالز کے ”تخمینے کے مطابق ۲۷ ملین لوگ اب غلاموں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ تعداد رومی سلطنت کے غلاموں یا بحرِاوقیانوس کے پار غلاموں کی تجارت میں بکنے والے غلاموں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔“ آجکل غلامی کے طریقے ۱۵۰ سال پہلے کے طریقوں سے یقیناً فرق تو ہیں، پھربھی بالز کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگ ”دوسروں کے تشدد یا تشدد کی دھمکی کا نشانہ بنتے ہیں اور اُنہیں اپنی محنت کا کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔“ آجکل غلامی کی سب سے عام قسم معاہداتی غلامی ہے، جسکے ذریعے بعض تنظیمیں پیسے لے کر لوگوں کو اعلیٰ ملازمتوں کے وعدوںپر بیرونِملک بھیجتی ہیں۔ تاہم، جب یہ لوگ دوسرے ملک پہنچ جاتے ہیں تو اُنہیں اپنا قرضہ اُتارنے کیلئے ادنیٰ کام کرنے پر مجبور کِیا جاتا ہے۔
ورزش ڈپریشن کم کر سکتی ہے
ریاستہائےمتحدہ میں ڈیوک یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں کی جانے والی تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے، دی ہارورڈ مینٹل ہیلتھ لیٹر بیان کرتا ہے کہ ”ڈپریشن کے بعض مریضوں کیلئے جسمانی ورزش معیاری ادویات سے زیادہ مؤثر اور مفید ثابت ہو سکتی ہے۔“ ڈپریشن کے ۵۰ مریضوں پر مشتمل تین گروہوں کو ۴ ماہ کیلئے مختلف طرح کے معالجاتی طریقوں پر عمل کرنے کیلئے کہا گیا۔ ایک گروہ کو اینٹیڈیپریشن ادویات استعمال کرنے، دوسرے کو صرف ورزش کرنے اور تیسرے کو دونوں کا مشورہ دیا گیا۔ ہیلتھ لیٹر کے مطابق چار ماہ بعد، تینوں گروہوں میں سے ۶۰ تا ۷۰ فیصد مریض ”ڈپریشن سے آزاد ہو گئے تھے۔“ تاہم، اسکے بعد کے چھ ماہ کے دوران جسمانی ورزش کرنے والے مریض ”جذباتی اور جسمانی اعتبار سے بہتر حالت میں تھے اور اُن میں اِس بیماری کی علامات دوبارہ پیدا ہونے کی شرح صرف ۸ فیصد تھی۔“ یہ یقیناً ادویات استعمال کرنے والے ۳۸ فیصد اور ورزش اور ادویات دونوں استعمال کرنے والے ۳۱ فیصد مریضوں کی نسبت کہیں بہتر تھا۔
جمیکا کے ازسرِنو آباد ساحل؟
دی ڈیلاس مورننگ نیوز کا ایک مضمون بیان کرتا ہے کہ جمیکا کے شمالی ساحل سے بالکل ختم ہو جانے والے بحری خارپُشت اب دوبارہ نظر آنے لگے ہیں۔ مزیدبرآں، ”سائنسدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ بحری خارپُشت کے ساتھ ساتھ مرجان کی بھی افزائش ہو رہی ہے۔“ سن ۱۹۸۳ اور ۱۹۸۴ کے دوران بحری خارپُشت کی ڈیاڈیمن اینٹلارم نامی قسم کے ناپید ہونے سے لیکر مرجان اپنی بقا کیلئے کوشاں ہیں۔ بحری خارپُشت کی بعض اقسام بحری زہریلے پودوں کی افزائش کو روکتے ہیں جو بصورتِدیگر ساحلی مرجان کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اخبار بیان کرتا ہے کہ ”نئی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ڈیاڈیمن میں پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے جس کی بدولت مرجان بھی افزائش پا رہا ہے۔“ بحریحیات کی ماہر نینسی نولٹن کا کہنا ہے کہ ”کئی عشروں کے بعد کریبیئن ساحلوں سے کوئی ایسی خوشی کی خبر ملی ہے۔“
بحریحیات کو دی جانے والی پلاسٹک کی خطرناک گولیاں
نیو سائنٹسٹ رسالے کی رپورٹ کے مطابق، ”پوری دُنیا میں بحریحیات سمندر میں تیرنے والی پلاسٹک کی گولیوں کی وجہ سے زہرآلود ہو رہی ہے۔“ کیمیائی کمپنیاں چھوٹیچھوٹی گولیوں کی شکل میں دُنیابھر کے صنعتکاروں کو پالیمر (کثیر سالمی مرکب) بھیج رہی ہیں جو انہیں پگھلا کر پلاسٹک کی مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ تاہم، فیکٹری، شہری فضلے اور جہازوں کی غرقابی یا جہاز کو ہلکا کرنے کیلئے سامان کو سمندر میں پھینک دینے سے ہزاروں گولیاں سمندر کے پانی میں شامل ہو جاتی ہیں۔ جاپان میں ٹوکیو یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی کے محققین نے دریافت کِیا ہے کہ یہ گولیاں سمندری پانی سے زہریلے مادے جذب کر لیتی ہیں جو جانوروں کی قوتِمدافعت، نسلکشی اور ہارمونی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ پرندے، مچھلیاں اور کچھوئے ان گولیوں کو مچھلی کے انڈے یا کوئی اَور خوراک سمجھ کر کھا جاتے ہیں اسلئے اس توسیعی غذائی تسلسل کے پریشانکُن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔