مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زلزلے کی تشریح

زلزلے کی تشریح

زلزلے کی تشریح

‏”‏ہم جامد زمین پر رہنے کے اسقدر عادی ہو چکے ہیں کہ جب یہ ذرا سی بھی لرزتی ہے تو ہم ڈر جاتے ہیں۔‏“‏—‏”‏دی وائلنٹ ارتھ۔‏“‏

‏”‏زلزلوں کا شمار نہایت زوردار اور تباہ‌کُن قدرتی قوتوں میں ہوتا ہے،‏“‏ دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے۔‏ یہ مبالغہ‌آرائی نہیں ہے کیونکہ شدید زلزلے سے خارج ہونے والی توانائی شاید پہلے ایٹم بم سے پیدا ہونے والی توانائی سے ۰۰۰،‏۱۰ گُنا زیادہ ہوتی ہے۔‏ درحقیقت خوف میں اضافہ کرنے والی بات یہ ہے کہ زلزلے کسی بھی ماحول،‏ موسم اور دن کے کسی بھی وقت میں آ سکتے ہیں۔‏ لہٰذا سائنسدان یہ اندازہ تو لگا سکتے ہیں کہ شدید زلزلے کہاں پر آئینگے مگر وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ کب آئیں گے۔‏

زلزلے زیرِزمین بڑی چٹانوں میں تبدیلی پیدا ہونے کی وجہ سے آتے ہیں۔‏ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔‏ اکثر،‏ زلزلے سے پیدا ہونے والی لہریں اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ اُنہیں سطح زمین پر محسوس کِیا جا سکے لیکن زلزلہ‌پیما کے ذریعے انکی کھوج لگا کر ریکارڈ کِیا جا سکتا ہے۔‏ * بعض‌اوقات،‏ چٹانوں میں شکست‌وریخت اور تبدیلی اتنی شدید ہوتی ہے کہ زمین زور سے ہلنے لگتی ہے۔‏

لیکن قشرارض کے مسلسل متحرک رہنے کی کیا وجہ ہے؟‏ نیشنل ارتھ‌کوئیک انفارمیشن سینٹر (‏این‌ای‌آئی‌سی)‏ بیان کرتا ہے،‏ ”‏اس کا جواب ہمیں زمین کی بالائی تہوں کی بناوٹ کے مطالعہ،‏ ایک ایسے نظریے سے ملتا ہے جس نے علم‌الارض میں آراء اور خیالات کو یکسر بدل دیا ہے۔‏ اب ہم جانتے ہیں کہ سات بڑی قشری پرتیں ہیں جنہیں مزید تین چھوٹی پرتوں میں تقسیم کِیا گیا ہے۔‏ یہ سب ایک دوسرے کی مناسبت سے ۱۰ تا ۱۳۰ ملی‌میٹر سالانہ کی شرح سے مسلسل حرکت کرتی رہتی ہیں۔‏“‏ اسی سینٹر کے مطابق،‏ بیشتر زلزلے اِن پرتوں کی حدود کو تشکیل دینے والے تنگ حصے تک ہی محدود رہتے ہیں۔‏ اسی مقام سے ۹۰ فیصد بڑےبڑے زلزلوں کے رونما ہونے کا امکان ہوتا ہے۔‏

وسعت اور شدت

زلزلے میں تیزی کا اندازہ اُس کی وسعت یا شدت سے لگایا جاتا ہے۔‏ چارلس رِکٹر نے ۱۹۳۰ کے دہے میں زلزلوں کی وسعت کی پیمائش کا ایک آلہ ایجاد کِیا۔‏ زلزلہ‌پیما کے مراکز میں اضافے کے ساتھ ساتھ رِکٹر کے نظریے پر مبنی نئے پیمانے بھی بننے لگے۔‏ مثال کے طور پر،‏ وسعت کے معیارِاثر کا پیمانہ زلزلے کے ماخذ سے خارج ہونے والی توانائی کی پیمائش کرتا ہے۔‏

بِلاشُبہ،‏ یہ پیمانے ہمیشہ زلزلے سے ہونے والے نقصان کی وسعت کو واضح نہیں کرتے۔‏ جون ۱۹۹۴ میں،‏ شمالی بولیویا میں آنے والے زلزلے پر غور کیجئے جسکی شدت ۲.‏۸ تھی مگر اس سے صرف پانچ لوگ ہلاک ہوئے۔‏ لیکن ۱۹۷۶ میں ٹنگ‌شیان،‏ چین میں آنے والے زلزلے کی وسعت اس سے ۰.‏۸ درجہ کم تھی مگر اس نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی!‏

زلزلے کی وسعت کے برعکس،‏ اس کی شدت سے لوگوں،‏ عمارتوں اور ماحول پر اس کے اثرات کا پتہ چلتا ہے۔‏ اس سے انسانوں پر زلزلے کے اثرات کی زیادہ واضح پیمائش کی جا سکتی ہے۔‏ زیرِزمین برپا ہونے والی لہریں بذاتِ‌خود لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔‏ بجلی کی تاروں یا گیس کے پائپ پھٹنے،‏ دیواروں اور دیگر چیزوں کے گِرنے سے زیادہ جانی‌ومالی نقصان ہوتا ہے۔‏

زلزلہ‌پیمائی کے ماہرین کا ایک مقصد زلزلہ آنے سے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔‏ ایک ڈیجیٹل پروگرام ایجاد کِیا گیا ہے جسے ایڈوانسڈ سیسمک ریسرچ اینڈ مونیٹرنگ سسٹم کہا جاتا ہے۔‏ ایک سی‌این‌این رپورٹ کے مطابق،‏ اس سسٹم سے حاصل ہونے والی فوری معلومات اور تیزترین،‏ زیادہ طاقتور سوفٹ‌ویئر پروگرام کی مدد سے حکام ”‏زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی فوراً نشاندہی کرنے کے قابل ہونگے۔‏“‏ اس سے اربابِ‌اختیار کی ایسے علاقوں کو فوری امداد فراہم کرنے میں بھی مدد ہوگی۔‏

صاف ظاہر ہے کہ زلزلے کیلئے تیار رہنا جانی‌ومالی نقصان کم کرنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‏ تاہم زلزلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔‏ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کی اسکے مابعدی اثرات سے نپٹنے کیلئے کیسے مدد کی گئی ہے؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 زلزلہ‌پیما ایک ایسا آلہ ہے جو زلزلے کے دوران زمینی حرکت کی پیمائش کرکے اسے ریکارڈ کرتا ہے۔‏ سب سے پہلا آلہ ۱۸۹۰ میں ایجاد ہوا تھا۔‏ آجکل،‏ دُنیابھر میں مختلف مقامات پر ۰۰۰،‏۴ سے زائد زلزلہ‌پیما مرکز کام کر رہے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر چارٹ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

زلزلوں کی تعداد؟‏

تصریحی وسعت سالانہ اوسط

تباہ‌کُن ۸ اور اس سے زیادہ ۱

بڑا ۹.‏۷-‏۷ ۱۸

زوردار ۹۔‏۶-‏۶ ۱۲۰

درمیانے ۹۔‏۵-‏۵ ۸۰۰

ہلکے ۹۔‏۴-‏۴ ۲۰۰،‏۶ *‏

معمولی ۹۔‏۳-‏۳ ۰۰۰،‏۴۹ *‏

بہت ہی معمولی ۰.‏۳ سے کم وسعت ۲-‏۳:‏

تقریباً ۰۰۰،‏۱ روزانہ

وسعت ۱-‏۲:‏

تقریباً ۰۰۰،‏۸ روزانہ

‏* تخمیناً۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Source: National Earthquake Information Center By permission of

USGS/National Earthquake Information Center, USA

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر کا حوالہ]‏

Seismogram on pages 4 and 5: Figure courtesy of the Berkeley

Seismological Laboratory