زلزلے کے مابعدی اثرات سے نپٹنا
زلزلے کے مابعدی اثرات سے نپٹنا
”ہم صبح سے مارےمارے پھر رہے ہیں۔ ہم اپنی جانیں بچانے کیلئے بھاگ رہے ہیں۔ کھانےپینے کو کچھ نہیں۔ تمام گھر تباہ ہو چکے ہیں۔“ —انڈیا میں ۹.۷ کی شدت سے آنے والے زلزلے سے بچنے والا ہرجیون۔
زلزلے کی شدت کا تجربہ کرنا نہایت خوفناک ہے۔ سن ۱۹۹۹ میں، تائیوان میں آنے والے زلزلے سے بچنے والی ایک خاتون بیان کرتی ہے، ”میرے بستر کے پاس رکھی ہوئی آٹھ فٹ اُونچی لکڑی کی الماری سے کتابیں نکل نکل کر میری چاروں طرف بکھر رہی تھیں۔ مَیں نے موٹرسائیکل پر سفر کے دوران تحفظ کیلئے جو ہیلمٹ خریدا تھا وہ بھی اس الماری کے اُوپر سے میرے بستر پر بالکل سر کے پاس آکر گِرا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مَیں اس سے مر بھی سکتی تھی۔“
زلزلے سے بچنے کے بعد
زلزلے کے دوران تو بس خوفوہراس طاری ہوتا ہے مگر اصل مشکلات تو اس سے بچنے کے بعد شروع ہوتی ہیں۔ زلزلے کے چند ہی گھنٹوں بعد امدادی ٹیمیں بڑی دلیری کیساتھ زخمیوں کو تلاش کرنے اور اُنکا علاج کرنے میں لگ جاتی ہیں۔ اس دوران وہ اکثر زلزلے کے بعد لگنے والے جھٹکوں کی لپیٹ میں آنے کے خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ السلواڈور میں ایک حالیہ زلزلے کے بعد مٹی کے ڈھیر میں دب جانے والے پڑوسیوں کو تلاش کرنے والے ایک شخص نے بیان کِیا کہ ”ہمیں بڑی احتیاط برتنی پڑتی ہے کیونکہ اگر اچانک زمین دوبارہ ہلنے لگے تو یہ باقی کا ڈھیر ہمارے اُوپر گِر سکتا ہے۔“
بعضاوقات لوگ متاثرین کی مدد کو پہنچنے کے لئے غیرمعمولی خودایثاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ۲۰۰۱ کے اوائل میں، انڈیا میں بڑا زلزلہ آیا تو منو نامی ایک عمررسیدہ شخص جو اب امریکہ میں رہتا ہے اُس دوران اپنے آبائی وطن واپس چلا گیا۔ اُس نے کہا ”مجھے نہ صرف اپنے خاندان کی مدد کے لئے بلکہ تمام متاثرین کی مدد کے لئے جانا چاہئے۔“ منو جن علاقوں میں گیا وہاں کی صورتحال نہایت افسوسناک تھی۔ تاہم، اُس نے دیکھا کہ ”لوگ حیرانکُن حد تک ہمت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔“ ایک صحافی نے لکھا: ”میرا خیال ہے کہ میرے آسپاس رہنے والے تمام لوگوں نے کچھ نہ کچھ دیا تھا—کسی نے اپنی ایک دن کی تنخواہ، کسی نے ہفتےبھر کی تو کسی نے مہینے کی پوری تنخواہ، کچھ نے اپنی جمعپونجی، غرض جوکچھ بھی اُنکے پاس تھا وہ سب دوسروں کی مدد کیلئے دے ڈالا۔“
بِلاشُبہ، ملبہ اُٹھانا اور زخمیوں کا علاج کرنا تو نسبتاً آسان ہوتا ہے مگر خوف کے چند لمحات سے درہمبرہم ہو جانے والی زندگیوں کو دوبارہ معمول پر لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ السلواڈور کے زلزلے میں اپنے گھر سے محروم ہو جانے والی ایک خاتون، ڈیلورس کی بابت سوچیں۔ وہ کہتی ہے، ”یہ تو جنگ سے بھی بدتر ہے۔ جنگ کے دوران ہمارے سر پر کمازکم چھت تو قائم رہتی ہے۔“
ہمارے تمہیدی مضمون کے مطابق، بعضاوقات مادی امداد کی بجائے جذباتی مدد کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، جب ۱۹۹۹ کے اوائل میں، زلزلے سے مغربی کولمبیا میں آرمینیا کے ایک شہر کی تباہی سے ایک ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تو اس سے کہیں زیادہ گہرے صدمے اور مایوسی کا شکار ہو گئے۔ ماہرِنفسیات رابرٹو استفان جسکی اپارٹمنٹ بلڈنگ بھی اس آفت کے دوران تباہ ہو گئی تھی بیان کرتا ہے: ”ہر طرف لوگ مدد کیلئے پکار رہے تھے۔ جب بھی میں ہیمبرگر کھانے کیلئے ہوٹل میں جاتا تو راستے میں سلامدُعا کرنے کیلئے رُکنے والے لوگ مجھے اپنی بےخوابی اور افسردگی کی بابت بتانے لگتے۔“
ڈاکٹر استفان اچھی طرح جانتا ہے کہ زلزلے کے بعد ذہنیوجذباتی صدمہ بہت تباہکُن ہو سکتا ہے۔ ریلیف کیمپ لگوانے میں رضاکارانہ خدمات پیش کرنے والی ایک خاتون نے بیان کِیا کہ جن لوگوں کے پاس ملازمتیں ہیں اُن میں سے بعض اب اپنے کام پر نہیں جانا چاہتے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ وہ جلد ہی مر جائینگے۔
مایوسی میں اُمید بخشنا
ایسے بحران کے وقت میں، یہوواہ کے گواہ متاثرین کی نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی اور
جذباتی طور پر بھی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، متذکرہ کولمبیا میں زلزلے کے فوراً بعد، یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس نے وہاں مقامی ہنگامی کمیٹی تشکیل دی۔ ملک کے تمام حصوں سے ہزاروں گواہ رضاکاروں نے خوراک اور مالی عطیات دئے۔ جلد ہی متاثرہ علاقے میں تقریباً ۷۰ ٹن خوراک بھیج دی گئی۔روحانی مدد کی اکثر زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کولمبیا میں زلزلے کے بعد، ایک دن صبحسویرے یہوواہ کی ایک گواہ نے آرمینیا کے تباہشُدہ شہر کی ایک گلی میں ایک نہایت مایوس اور پریشانحال عورت کو دیکھا۔ وہ اُس عورت کے پاس گئی اور اُسے ایک اشتہار بعنوان مُتوَفّی عزیزوں کیلئے کیا اُمید ہے؟ * پیش کِیا۔
وہ عورت اشتہار کو اپنے ساتھ گھر لے گئی اور اُس کا بغور مطالعہ کِیا۔ اگلی مرتبہ جب ایک یہوواہ کی گواہ اُس کے گھر آئی تو اُس نے فوراً اُسے اپنی کہانی سنائی۔ وہ دراصل اس شہر میں کئی گھروں کی مالک تھی جن سے اُسے کافی آمدنی ہو رہی تھی مگر اب وہ اس زلزلے سے تباہ ہو چکے تھے۔ لہٰذا اب وہ مفلسی کا شکار تھی۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ زلزلے کے دوران وہ گھر بھی تباہ ہو گیا جس میں وہ اپنے ۲۵ سالہ بیٹے کے ساتھ رہتی تھی اور اُس کا بیٹا بھی ہلاک ہو گیا۔ اُس عورت نے اپنے دروازے پر آنے والی گواہ کو بتایا کہ پہلے وہ مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی مگر اب وہ بہت سے سوالوں کا جواب چاہتی ہے۔ اشتہار نے اُسے حقیقی اُمید عطا کی۔ جلد ہی گھریلو بائبل مطالعہ شروع ہو گیا۔
یہوواہ کے گواہ پُراُمید ہیں کہ بہت جلد ایک ایسا وقت آئیگا جب انسانوں کو زلزلوں سمیت کسی بھی طرح کی قدرتی آفات کا خوف نہیں ہوگا۔ اگلا مضمون اسکی وجوہات پر روشنی ڈالیگا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 12 یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ۔
[صفحہ ۶ پر بکس]
تیار رہیں!
▪ واٹر ہیٹرز کو اچھی طرح بند کرکے رکھیں اور بھاری اشیا کو فرش یا نچلی شلفوں پر رکھیں۔
▪ خاندان کے افراد کو بجلی، گیس اور پانی بند کرنا سکھائیں۔
▪ اپنے گھر میں آگ بجھانے کا آلہ اور فوری طبّی امداد کی اشیا رکھیں۔
▪ نئے سیلز کیساتھ ایک ریڈیو ہمیشہ اپنے قریب رکھیں۔
▪ اپنے خاندان کو ناگہانی صورتحال سے نپٹنے کی مشق کرائیں اور (۱) پُرسکون رہنے، (۲) چولہے اور ہیٹر کو بند کرنے، (۳) دہلیز پر کھڑے رہنے یا پھر میز یا ڈیسک کے نیچے بیٹھ جانے اور (۴) کھڑکیوں، شیشوں اور چمنیوں سے دُور رہنے کی ضرورت پر زور دیں۔
[صفحہ ۷ پر بکس/تصویر]
اسرائیل میں زلزلے
پروفیسر عاموس نُور لکھتا ہے، ”زمین پر سب سے زیادہ اور مسلسل زلزلوں کے سلسلے میں اسرائیل کا تاریخی ریکارڈ پیشپیش ہے۔“ اسکی وجہ یہ ہے کہ بڑی وادیَشگاف یعنی بحیرۂروم اور عربی پرتوں کے درمیان واقع شگافی خط شمال سے لیکر جنوب تک اسرائیل کے بالکل بیچ سے گزرتا ہے۔
دلچسپی کی بات ہے کہ بعض اثریاتی ماہرین کی رائے میں قدیم انجینیئر زلزلے سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کیلئے کوئی خاص کاریگری استعمال کرتے تھے۔ یہ بات سلیمان کے تعمیراتی پروگرام کی بابت بائبل کے اس بیان کے عین مطابق ہے: ”بڑے صحن میں گرداگرد گھڑے ہوئے پتھروں کی تین قطاریں اور دیودار کے شہتیروں کی ایک قطار ویسی ہی تھی جیسی [یہوواہ] کے گھر کے اندرونی صحن اور اُس گھر کے برآمدہ میں تھی۔“ (۱-سلاطین ۶:۳۶؛ ۷:۱۲) بیشتر مقامات سے پتھروں کیساتھ لکڑی کے شہتیروں کے استعمال میں کاریگری کی شہادت ملی ہے جن میں مجدو کا پھاٹک بھی شامل ہے جسے سلیمان کے زمانے یا اس سے بھی پہلے کا سمجھا جاتا ہے۔ محقق ڈیوڈ ایم. رول یہ یقین رکھتا ہے کہ شاید یہ شہتیر ”عمارت کو زلزلے سے پہنچنے والے نقصان سے بچانے کیلئے لگائے گئے تھے۔“
[تصویر]
بیتشیان، اسرائیل میں زلزلے کے باعث کھنڈرات
[صفحہ ۸ پر بکس/تصویریں]
دہشت کے دو پل زلزلے سے بچنے والے ایک شخص کی سرگزشت
احمدآباد، انڈیا میں ہمارا خاندان میری کزن کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ جنوری ۲۶، ۲۰۰۱ کو مَیں کسی گھڑی کے آلارم سے نہیں بلکہ زبردست جھٹکے محسوس کرنے سے جاگ گیا۔ جب مجھے دھاتی الماریوں کے اِدھراُدھر ہلنے کی آواز سنائی دی تو مَیں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ میرے چچا زورزور سے پکار رہے تھے، ”گھر سے باہر نکل آؤ!“ جب ہم دروازے سے باہر نکلے تو ہم اپنے گھر کو لرزتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔ تاہم، یہ جھٹکے صرف دو منٹ بعد بند ہو گئے۔
ذہنی دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ اس پر قابو پانا بہت مشکل تھا۔ سب سے پہلے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے خاندان کے تمام افراد صحیحسلامت ہیں۔ فون اور بجلی کے منقطع ہو جانے کے باعث ہم قریبی علاقوں میں رہنے والے اپنے عزیزواقارب کی فوراً خیروعافیت معلوم نہ کر سکے۔ ایک گھنٹے کی بےیقینی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ لیکن سب لوگوں کی بابت یہ سچ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، احمدآباد میں ایک سو سے زیادہ عمارتیں گِر گئیں اور ۵۰۰ سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
سب پر کئی ہفتوں تک اس کی دہشت چھائی رہی۔ پیشینگوئی کی گئی تھی کہ مزید جھٹکے آ سکتے ہیں لہٰذا لوگ ہر رات اسی خوف کیساتھ سوتے تھے۔ بحالی کا کام بہت آہستہ ہو رہا تھا اور بیشتر لوگ بےگھر ہو گئے تھے۔ اگرچہ یہ سب کچھ صرف دو پل کے زلزلے کا نتیجہ تھا مگر یہ ہمیں ہمیشہ یاد رہیگا۔—از سمیر سارائی۔
[صفحہ ۶، ۷ پر تصویر]
انڈیا میں جنوری ۲۰۰۱ کے زلزلے سے بچنے والا ایک شخص اپنی ماں کی تصویر اُٹھائے کھڑا ہے جسکے مرنے کے بعد اُس کی چِتا جلائی جا رہی ہے
[تصویر کا حوالہ]
(Randolph Langenbach/UNESCO )www.conservationtech.com