مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مَیں اپنے نازائیدہ بچے سے محروم ہو گئی

مَیں اپنے نازائیدہ بچے سے محروم ہو گئی

مَیں اپنے نازائیدہ بچے سے محروم ہو گئی

سوموار،‏ اپریل ۱۰،‏ ۲۰۰۰ کے دن شدید گرمی کے باوجود مَیں گھر کے لئے کچھ سوداسلف خریدنے چلی گئی۔‏ میرے حمل کا چھٹا مہینہ شروع ہو چکا تھا اسلئے مَیں خود کو بہت توانا تو محسوس نہیں کر رہی تھی مگر گھر سے باہر نکل کر مَیں کچھ خوش ضرور تھی۔‏ جب مَیں ایک پرچون کی دکان پر قطار میں کھڑی تھی تو مجھے کچھ عجیب محسوس ہونے لگا۔‏

جب مَیں گھر آئی تو میرا خدشہ بالکل ٹھیک نکلا۔‏ میرا خون جاری تھا جو میرے پہلے دو حمل میں نہیں ہوا تھا اسلئے مَیں بہت گھبرا گئی!‏ مَیں نے اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کِیا مگر اُس نے مجھے انتظار کرنے اور اگلے دن آنے کیلئے کہا کیونکہ میری ملاقات کا وقت پہلے ہی سے طے تھا۔‏ اُس رات مَیں نے اور میرے شوہر نے اپنے دو بچوں کو سلانے کے بعد دُعا کی کہ یہوواہ ہمیں درکار طاقت عطا فرمائے۔‏ اُس کے بعد مَیں بھی سو گئی۔‏

لیکن رات دو بجے میں شدید درد کی وجہ سے جاگ اُٹھی۔‏ آہستہ‌آہستہ درد ختم ہو گئی لیکن جونہی مَیں دوبارہ سونے لگی تو پھر مجھے مسلسل درد ہونے لگی۔‏ خون بھی اَور زیادہ نکلنا شروع ہو گیا اور میرے پیٹ میں بل پڑنے لگے۔‏ مَیں سوچنے لگی کہ مَیں نے کونسا ایسا کام کِیا ہے جسکی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر مجھے کچھ یاد نہ آیا۔‏

صبح پانچ بجے کے قریب مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مجھے ہسپتال جانا چاہئے۔‏ جب مَیں اور میرا شوہر ہسپتال پہنچے تو ہمیں ایمرجنسی روم کے مہربان،‏ مددگار اور ہمدرد عملے کی مدد سے بڑا اطمینان حاصل ہوا۔‏ پھر دو گھنٹے بعد،‏ ڈاکٹر نے ہمیں بہت ہی بُری خبر سنائی کہ میرا بچہ ضائع ہو گیا ہے۔‏

ابتدائی علامات کی وجہ سے مَیں نے اس خبر کو برداشت کر لیا۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ میرے شوہر نے بھی تمام وقت میرے پاس رہ کر میری مدد کی۔‏ مگر اب ہمیں بچے کے بغیر گھر جانا تھا اس لئے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ہم اپنے دو بچوں،‏ چھ‌سالہ کیٹ‌لین اور چارسالہ ڈیوڈ کو کیا بتائینگے۔‏

ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں؟‏

بچوں کو سونے سے پہلے ہی پتا تھا کہ کوئی مسئلہ ضرور ہے مگر ہم اُنہیں یہ کیسے بتائیں گے کہ اُن کی آنے والی چھوٹی بہن یا بھائی کی وفات ہو گئی ہے؟‏ ہم نے اُنہیں سب کچھ صاف‌صاف بتانے کا فیصلہ کِیا۔‏ میری والدہ نے اُنہیں یہ بتانے سے ہماری مدد کی کہ بچہ ہمارے ساتھ گھر نہیں آئیگا۔‏ جب ہم گھر واپس آئے تو وہ دوڑ کر ہم سے بوس‌وکنار ہوئے۔‏ اُنکا پہلا سوال ہی یہ تھا،‏ ”‏کیا بچہ ٹھیک ہے؟‏“‏ مَیں تو جواب نہ دے سکی لیکن میرے شوہر نے ہم سب کو اپنے بازوؤں میں لیتے ہوئے کہا:‏ ”‏بچہ مر گیا ہے۔‏“‏ ہم سب ملکر بہت روئے جس سے ہمارا دل کچھ ہلکا ہو گیا۔‏

تاہم،‏ ہم اپنے بچوں کے مابعدی ردِعمل کے لئے بالکل تیار نہیں تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ میرے اسقاط کے دو ہفتے بعد،‏ یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا میں یہ اعلان ہوا کہ ایک عمررسیدہ گواہ اور ہمارے خاندان کے قریبی دوست کی وفات ہو گئی ہے۔‏ چارسالہ ڈیوڈ سسکیاں بھرنے لگا جس کی وجہ سے میرا شوہر اُسے اُٹھا کر باہر لے گیا۔‏ اُسے چپ کرانے کے بعد ڈیوڈ نے پوچھا کہ اُس کا دوست کیوں مر گیا ہے۔‏ پھر اُس نے پوچھا کہ بچہ کیوں مر گیا تھا۔‏ اس کے بعد اُس نے اپنے باپ سے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ بھی مر جائینگے؟‏“‏ وہ یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ یہوواہ خدا نے ابھی تک شیطان کو ختم کیوں نہیں کِیا اور ”‏تمام حالات درست“‏ کیوں نہیں کئے۔‏ واقعی،‏ اُس کا ذہن بہت سی باتیں سوچ رہا تھا۔‏

کیٹ‌لین نے بھی بہت سے سوال پوچھے۔‏ اپنی گڑیوں کیساتھ کھیلتےکھیلتے وہ اکثر یہ ظاہر کرتی کہ ایک گڑیا بیمار ہے جبکہ دیگر گڑیوں کو وہ نرسیں یا خاندان کے ارکان بناتی تھی۔‏ اُس نے گتے کے ڈبے سے گڑیوں کا ہسپتال بنایا اور اکثر یہ بھی ظاہر کرتی کہ اُسکی ایک گڑیا مر گئی ہے۔‏ ہمارے بچوں کے سوالات اور کھیلوں نے ہمیں ایسے بہتیرے مواقع دئے جن سے ہم اُنہیں زندگی کی بابت اسباق اور آزمائشوں سے نپٹنے میں بائبل کی مدد سے متعلق بہت کچھ سکھا سکتے تھے۔‏ ہم اُنہیں زمین کو ایسے خوبصورت فردوس میں بدل جانے کے خدائی مقصد کی بابت بھی بتاتے تھے جو دُکھ‌درد سے بالکل آزاد ہو گی۔‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

مَیں نے صدمے کا مقابلہ کیسے کِیا

جب مَیں ہسپتال سے واپس آئی تو مَیں بالکل بےحس اور حواس‌باختہ محسوس کر رہی تھی۔‏ میرے آس‌پاس بہت سی چیزیں بکھریں پڑی تھیں اور مجھے خاصا کام کرنا تھا مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں سے شروع کروں۔‏ مَیں نے اپنی کچھ سہیلیوں کو بلایا جن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اُنہوں نے مجھے بڑی تسلی دی۔‏ میری ایک پیاری سہیلی نے ہمیں پھول بھیجے اور بچوں کو شام کے وقت سیر پر لیجانے کی پیشکش بھی کی۔‏ مَیں اُس کی پُرتپاک فکرمندی اور عملی مدد کے لئے بہت شکرگزار تھی!‏

مَیں نے البم میں خاندان کی تصاویر کو ترتیب سے لگایا۔‏ مَیں اپنے نازائیدہ بچے کے کپڑوں کو سینے سے لگا کر رکھتی تھی کیونکہ یہی تو میرے ضائع ہونے والے بچے کی آخری نشانی تھے۔‏ کئی ہفتوں تک مجھ میں بڑی جذباتی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں۔‏ اپنے خاندان اور دوستوں کی تمام‌تر مدد کے باوجود،‏ مَیں بعض‌اوقات اپنے آنسو روک نہیں پاتی تھی۔‏ کبھی‌کبھار تو مَیں اپنا ذہنی توازن بھی کھو بیٹھتی تھی۔‏ حاملہ سہیلیوں کی رفاقت تو میرے لئے بہت مشکل تھی۔‏ پہلے مَیں یہ سوچتی تھی کہ اسقاط محض کسی عورت کی زندگی میں ”‏آنی‌جانی“‏ چیز ہوتی ہے جس پر کسی مشکل کے بغیر قابو پایا جا سکتا ہے۔‏ لیکن مَیں غلطی پر تھی!‏ *

محبت—‏بہترین علاج

وقت کے مرہم کے علاوہ،‏ میرے شوہر اور ساتھی مسیحیوں کی طرف سے دکھائی جانے والی محبت نہایت مؤثر علاج ثابت ہوئی۔‏ ایک گواہ بہن شام کا کھانا تیار کرکے لائی۔‏ کلیسیا کا ایک بزرگ اور اُس کی بیوی پھول اور کارڈ لے کر آئے اور شام تک ہمارے ساتھ رہے۔‏ ہم جانتے تھے کہ وہ بہت مصروف ہیں اس لئے اُن کی فکرمندی نے ہمیں بہت متاثر کِیا۔‏ دیگر کئی دوستوں نے بھی پھول اور کارڈ بھیجے۔‏ یہ سادہ سے الفاظ کہ ”‏ہم آپ کو یاد کر رہے ہیں“‏ نہایت پُرمعنی تھے!‏ کلیسیا کی ایک بہن نے لکھا:‏ ”‏ہم یہوواہ کی طرح زندگی کو نہایت بیش‌قیمت خیال کرتے ہیں۔‏ اگر وہ زمین پر گرنے والی چڑیا سے واقف ہے تو وہ نازائیدہ بچے کی موت سے بھی ضرور واقف ہوتا ہے۔‏“‏ میری ایک کزن نے لکھا:‏ ”‏ہم زندگی اور پیدائش کے معجزے سے بہت حیران ہوتے ہیں لیکن جب نازائیدہ بچہ ضائع ہو جاتا ہے توبھی ہمیں حیرانی ہوتی ہے۔‏“‏

چند ہفتے بعد کنگڈم ہال میں،‏ میرے آنسو نکلنے لگے اور مَیں اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی چلی آئی۔‏ مجھے روتے ہوئے نکلتے دیکھ کر دو عزیز ساتھی کار میں میرا ہاتھ تھام کر بیٹھے اور مجھے ہنسانے کی کوشش کرنے لگے۔‏ جلد ہی ہم تینوں واپس اندر چلے گئے۔‏ ”‏بھائی سے زیادہ محبت“‏ رکھنے والے دوستوں کی موجودگی کتنی خوشی کی بات ہے۔‏!‏—‏امثال ۱۸:‏۲۴‏۔‏

جب خبر پھیلی تو مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ بہتیرے ساتھی گواہ بھی اس تجربے سے گزرے تھے۔‏ وہ لوگ بھی جن سے پہلے میری زیادہ واقفیت نہیں تھی خاص تسلی اور حوصلہ‌افزائی کا باعث بنے۔‏ ضرورت کے وقت اُن کی پُرمحبت مدد نے مجھے بائبل کے اس بیان کی یاد دلائی:‏ ”‏دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کے لئے پیدا ہوا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۷:‏۱۷‏۔‏

خدا کے کلام سے تسلی

میرے اسقاط کے ایک ہفتہ بعد مسیح کی موت کی یادگار منائی گئی۔‏ ایک شام جب ہم یسوع کے آخری دنوں کی بابت بائبل کی سرگزشتیں پڑھ رہے تھے تو مجھے اچانک یہ خیال آیا:‏ ’‏یہوواہ کسی کو کھونے کے دُکھ سے واقف ہے۔‏ اُس نے اپنا بیٹا کھویا تھا!‏‘‏ کیونکہ یہوواہ ہمارا آسمانی باپ ہے اسلئے بعض‌اوقات مَیں بھول جاتی ہوں کہ وہ کتنا ہمدرد ہے اور اپنے تمام—‏مردوزن—‏خادموں کیلئے کسقدر دردمندی رکھتا ہے۔‏ اُس وقت مجھے بڑے اطمینان کا احساس ہوا۔‏ مَیں نے پہلے سے زیادہ یہوواہ کی قربت محسوس کی۔‏

مَیں نے بائبل مطبوعات،‏ بالخصوص مُتوَفّی عزیزوں کی بابت بات‌چیت کرنے والے مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالوں کے گزشتہ شماروں سے بھی تسلی حاصل کی۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگست ۸،‏ ۱۹۸۷ کے اویک!‏ کے شمارے میں ”‏بچے کی موت کا غم برداشت کرنا“‏ کے تحت مضامین اور بروشر وین سم‌وَن یو لَو ڈائیز بہت مددگار ثابت ہوئے۔‏ *

افسوس کا خاتمہ

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جب مَیں احساسِ‌خطا کے بغیر خوشی سے ہنسنے اور کھوئے ہوئے بچے کا ذکر کئے بغیر بات‌چیت کرنے کے قابل ہوئی تو مَیں سمجھ گئی کہ میری طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔‏ اسکے باوجود،‏ میرے اسقاط کی بابت ناواقف لوگوں سے ملتے یا ہمارے کنگڈم ہال میں نوزائیدہ بچے کو لیکر آنے والے نئے خاندان کو دیکھ کر مَیں جذباتی تکلیف کا سامنا کرتی تھی۔‏

پھر ایک صبح مَیں اس احساس کے ساتھ اُٹھی کہ آخرکار میری تکلیف ختم ہو چکی ہے۔‏ اپنی آنکھ کھولنے سے بھی پہلے مجھے شفا کا احساس ہوا—‏ایسا سکون اور اطمینان جو مَیں نے کئی مہینے محسوس نہیں کِیا تھا۔‏ اسکے باوجود،‏ ایک سال بعد جب مجھے پتا چلا کہ مَیں حاملہ ہوں تو ایک اَور اسقاط ہونے کے خیالات دوبارہ مجھے پریشان کرنے لگے۔‏ خوشی کی بات ہے کہ مَیں نے اکتوبر ۲۰۰۱ میں ایک صحتمند بیٹے کو جنم دیا۔‏

مَیں اب بھی اپنے کھوئے ہوئے بچے کیلئے افسوس کرتی ہوں۔‏ تاہم،‏ اس حادثے نے زندگی کے علاوہ میرے خاندان،‏ ساتھی مسیحیوں اور خدا کیلئے میری قدر بڑھا دی ہے جو ہمیں تسلی دیتے ہیں۔‏ اس تجربہ نے اس متاثرکُن سچائی کی اہمیت کو بھی اُجاگر کِیا ہے کہ خدا ہمارے بچے ہم سے نہیں چھینتا بلکہ ”‏سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔‏“‏—‏واعظ ۹:‏۱۱‏۔‏

مَیں اُس وقت کی منتظر ہوں جب خدا اسقاط کی جسمانی اور جذباتی تکلیف سمیت تمام غم،‏ آنسو اور دُکھ‌درد کو ختم کر دیگا!‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۷-‏۲۳‏)‏ پھر تمام فرمانبردار انسان یہ کہنے کے قابل ہونگے:‏ ”‏اَے موت تیری فتح کہاں رہی؟‏ اَے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۵؛‏ یسعیاہ ۲۵:‏۸‏۔‏—‏اشاعت کیلئے عنایت‌کردہ۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 13 تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اسقاط کے سلسلے میں ہر عورت کا ردِعمل مختلف ہوتا ہے۔‏ بعض پریشان،‏ بعض مایوس اور بعض غمگین ہو جاتی ہیں۔‏ محققین کا کہنا ہے کہ اسقاط جیسے سنگین نقصان کیلئے غمگین ہونا فطری امر اور صدمے پر غالب آنے کا حصہ ہے۔‏

^ پیراگراف 20 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر بکس]‏

اسقاط کی شرح اور وجوہات

”‏تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ۱۵ سے ۲۰ فیصد حمل گِر جاتے ہیں،‏“‏ ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے۔‏ ”‏تاہم استقرارِحمل (‏باروری)‏ کے بعد،‏ پہلے دو ہفتوں کے دوران اسقاط کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے جب بیشتر عورتوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ حاملہ ہیں۔‏“‏ ایک اَور کتاب بیان کرتی ہے کہ ”‏۸۰ فیصد اسقاط،‏ حمل کے پہلے ۱۲ ہفتوں کے دوران ہوتے ہیں“‏ اور جنین کے کروموسومز میں نقائص ان میں سے نصف تعداد کی وجہ بنتے ہیں۔‏ یہ نقائص ماں یا باپ کے کروموسومز کے نقائص کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتے۔‏

اسقاط کی دیگر وجوہات کا تعلق ماں کی صحت سے ہوتا ہے۔‏ طبّی ماہرین ماں کے رحم یا اس کے زیریں حصے میں ہارمونی یا مدافعتی نظام کی خرابی،‏ امراض اور نقائص کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر جیسی دائمی بیماریاں (‏اگر قابو میں نہ رکھی جائیں)‏ اسکا باعث بن سکتی ہیں۔‏

ماہرین کے مطابق،‏ ضروری نہیں کہ ورزش،‏ وزنی چیزیں اُٹھانا یا جنسی تعلقات اسقاط کا باعث بنیں۔‏ گِرنے،‏ ہلکی چوٹ لگنے یا اچانک ڈر جانے سے بھی اسقاط ہو جانے کا خطرہ نہیں ہوتا۔‏ ایک کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏جنین کو اُس وقت تک نقصان نہیں پہنچتا جب تک کہ چوٹ اتنی سنگین نہیں ہوتی کہ آپ کی اپنی زندگی خطرے میں ہو۔‏“‏ رحم کی ترتیب کسقدر شاندار طریقے سے ایک دانشمند اور شفیق خالق کے وجود کو ثابت کرتی ہے!‏—‏زبور ۱۳۹:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏