مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سیڈ بینک—‏وقت کی دوڑ

سیڈ بینک—‏وقت کی دوڑ

سیڈ بینک‏—‏وقت کی دوڑ

برطانیہ سے جاگو!‏ کا رائٹر

ہماری زندگیوں کا انحصار بڑی حد تک پودوں پر ہے۔‏ ان سے ہم خوراک اور لباس حاصل کرتے ہیں۔‏ یہ ایندھن،‏ تعمیراتی سامان اور زندگی‌بخش ادویات فراہم کرتے ہیں۔‏ جانور،‏ پرندے اور حشرات بھی اِن پر انحصار کرتے ہیں۔‏ اس کے باوجود،‏ بعض ماہرین کے مطابق،‏ دُنیا کے ایک چوتھائی پودے آئندہ ۵۰ برس میں ناپید ہو جانے کے خطرے میں ہیں۔‏ موجودہ زمانے کے اِس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے اس ہزاری کا سیڈ بینک پروجیکٹ پیش‌پیش ہے۔‏

جنوبی انگلینڈ میں واقع ۱۲۰ ملین ڈالر کی مالیت کی ایک عمارت کو ”‏نوآز آرک فار پلانٹس“‏ اور ”‏این انشورنس پالیسی فار دی پلانٹ“‏ قرار دیا جا رہا ہے جو بڑی تعداد میں دُنیا کی شدید خطرے سے دوچار انواع کے بیجوں کی حفاظت کرے گی۔‏

سیڈ بینک کیا ہے؟‏

کیا آپ نے کبھی تحفظ کی غرض سے اپنی قیمتی چیزیں بینک میں رکھی ہیں تاکہ آپ اُنہیں ضرورت کے تحت دوبارہ حاصل کر سکیں؟‏ سیڈ بینک پودوں کے سلسلے میں یہی کام انجام دیتا ہے۔‏ یہ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کسی بھی پودے کے بیج کو محفوظ رکھنے کا آسان‌ترین طریقہ ہے۔‏ جب انہیں بینک میں جمع کروا دیا جاتا ہے تو پھر اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‏ بیشتر بیج تو زیادہ جگہ بھی نہیں لیتے۔‏ شیشے کی ایک چھوٹی بوتل میں لاکھوں میوہ‌دار بیج ڈالے جا سکتے ہیں!‏ ایک اچار کی بوتل میں بیشمار دیگر اقسام کے اتنے بیج ڈالے جا سکتے ہیں جتنے کہ شاید کسی شہر کے لوگ ہیں۔‏ خاص عمل سے گزرنے کے بعد،‏ اِن امکانی نئے پودوں کو کئی دہوں یا کئی صدیوں تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے جبکہ باہر جنگل میں شاید ایسا نہ کِیا جا سکے۔‏

سیڈ بینک کوئی نئی چیز نہیں ہیں اگرچہ ماضی میں انہیں بالخصوص تجارتی فصلوں کے لئے استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ سن ۱۹۷۴ میں،‏ لندن میں کیو کے مقام پر رائل بوٹینک گارڈنز کے سائنسدانوں نے سسکس کے نواحی علاقے میں ویک‌ہرسٹ پلاس میں اپنی شاخ میں اس مطالعے کا آغاز کِیا کہ کیسے نباتات کے بیجوں کو محفوظ کِیا جا سکتا ہے۔‏ دُنیابھر سے ۰۰۰،‏۴ مختلف انواع کے بیج جمع کرنے کے بعد اُنہیں اس بات کا احساس ہوا کہ عالمی پیمانے پر پودوں اور اُنکی نشوونما پانے کی جگہ کے ختم ہونے کو روکنے کیلئے اُنہیں بڑی جگہ درکار ہوگی۔‏ لہٰذا،‏ ۱۹۹۸ میں کیو نے ویک‌ہرسٹ پلاس کے مقام پر ایک بڑا سیڈ بینک تعمیر کرنا شروع کِیا۔‏

نصب‌اُلعین کا حصول

اِسکی تکمیل سے پہلے اولین مقصد سن ۲۰۰۰ تک کے برطانیہ کے تمام درختوں،‏ جھاڑیوں،‏ گھاس،‏ پست‌قد پودوں اور جنگلی پھولوں کے بیجوں کو جمع کرنا تھا۔‏ ۴۴۰،‏۱ مقامی اقسام میں سے ۳۱۷ ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔‏ کیو کے بینک میں پہلے ہی ۵۷۹ اقسام موجود تھیں اور ۲۵۰ پیشہ‌ور اور غیرپیشہ‌ور ماہرِنباتیات نے باقی کی تلاش میں زمین کو چھان مارا۔‏ شائقین گریزاں پودوں کی تلاش میں پہاڑوں اور گھاٹیوں اور برفانی پانیوں میں مارے مارے پھرے۔‏ چند کمیاب اقسام کے علاوہ باقی تمام مقررہ تاریخ پر مُتعیّن جگہ پر پہنچ گئے۔‏

سن ۲۰۰۰ سے لیکر،‏ اہم مقصد ۲۰۱۰ تک دُنیا کے بالخصوص خشک یا گرم علاقوں کے بیج‌دار پھولوں میں سے ۱۰ میں سے ۱ یا ۰۰۰،‏۲۴ سے زیادہ اقسام کو جمع کرکے بینک میں ڈالنا ہے۔‏ دُنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ اِن گرم اور خشک خطوں میں آباد ہے اور بچاؤ کیلئے پودوں پر انحصار کرتے ہیں جبکہ بڑے علاقے ہر سال ریگستانوں میں بدل رہے ہیں۔‏ سن ۱۹۹۷ کے شروع میں،‏ بعض ممالک میں بیج جمع کرنے کی مہم کا آغاز ہو گیا اور فروری ۲۰۰۱ تک کیو میں بیج تلاش کرنے والوں نے ۱۲۲ ممالک سے ۳۰۰ ملین بیج اکٹھے کر لئے تھے جبکہ تقریباً ۰۰۰،‏۱۹ اقسام ابھی جمع کرنا باقی تھیں۔‏

بیج ذخیرہ کرنا

عرصۂ‌دراز سے باغبان اور کسان بیج جمع کرکے ذخیرہ کرتے آئے ہیں۔‏ تاہم،‏ ملینیئم سیڈ بینک میں محفوظ‌کردہ بیج اپنی طبیعی عمر سے کہیں زیادہ عرصہ تک رہ سکیں گے۔‏ اسکا راز دراصل وہ طریقہ ہے جس سے اُنہیں سکھایا اور فریز کِیا جاتا ہے۔‏

جب کافی مقدار میں بیج جمع کرکے دیگر اشیا سے علیٰحدہ کر لئے جاتے ہیں تو اُنہیں برطانیہ بھیجنے سے پہلے کاغذ یا کپڑے کے تھیلوں یا سافٹ ڈرنک کی بوتلوں میں خشک کر لیا جاتا ہے۔‏ اس کیساتھ ساتھ بیج جمع کرنے والے اصل پودے کو بھی سکھا کر ساتھ رکھ لیتے ہیں تاکہ کیو کے مقام پر اُنکی شناخت ہو سکے نیز جہاز کی راہنمائی کرنے والے سیٹلائٹس کے ذریعے اُس علاقے کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جہاں یہ پائے جاتے ہیں۔‏

ویک‌ہرسٹ پلاس پہنچنے کے بعد،‏ بیج صفائی کے عمل کے ذریعے،‏ خشک کرنے کے دو اہم مراحل سے گزرتے ہیں۔‏ ریگستان سے بھی زیادہ خشک دو کمروں میں رکھے جانے کے بعد جہاں نمی نسبتاً بہت ہی کم ہوتی ہے اُن میں موجود رطوبت ۵۰ فیصد سے کم ہو کر تقریباً ۵ فیصد رہ جاتی ہے۔‏ یہ عمل اس بات کو یقینی بنا دیتا ہے کہ وہ فریز کئے جانے کے دوران نہیں ٹوٹیں گے نیز اُنکا حیاتیاتی عمل سرِدست بےاثروعمل حالت کو پہنچ جاتا ہے جس میں وہ طویل عرصے تک رہ سکتے ہیں۔‏ بیجوں کو ذخیرہ کرنے سے پہلے،‏ یہ معلوم کرنے کیلئے بعض کا ایکسرے لیا جاتا ہے کہ آیا وہ صحتمند ہیں یا حشرات نے اُنہیں نقصان تو نہیں پہنچایا ہے۔‏ ایک دوسرے نمونے کو یہ دیکھنے کیلئے ٹیسٹ کِیا جاتا ہے کہ آیا وہ اُگ سکے گا یا نہیں۔‏ درحقیقت،‏ ہر دس سال بعد یہ دیکھنے کیلئے کہ آیا یہ نشوونما پانے کے قابل ہیں اِن نمونوں کو واپس اصلی حالت میں لایا جائیگا۔‏ اگر اِن میں سے ۷۵ فیصد نشوونما پانے کے قابل ہونگے تو پھر نئے بیج جمع کئے جائینگے۔‏

تحقیق کے دو اہم حلقے یہ ہیں:‏ یہ جاننا کہ اِن بیجوں کو طویل عرصے تک کیسے ذخیرہ کِیا جا سکتا ہے اور یہ سمجھنا کہ اُنہیں بعدازاں کیسے نشوونما دی جا سکتی ہے۔‏ انجام‌کار،‏ بیجوں کو ہوا روک شیشے کی بوتلوں میں پیک کرکے زمین‌دوز دو کمرے کے سائز کے فریزروں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔‏ یہاں منفی ۴ ڈگری فارن‌ہائیٹ کے درجۂ‌حرارت پر یہ شلفوں پر اپنی طویل نیند کا آغاز کرتے ہیں۔‏

کیا یہ عمل کارگر ثابت ہوا ہے۔‏ بیشک ہوا ہے۔‏ چند سال پہلے،‏ جب مختلف پودوں کے ۰۰۰،‏۳ بیجوں کو ایک دہے تک ذخیرہ کرنے کے بعد ٹیسٹ کِیا گیا تو اُن میں سے ۹۴ فیصد اُگنے کے قابل تھے۔‏

بعض اقسام مسئلہ پیدا کرتی ہیں۔‏ یہ بیج نمی کم ہونے کی صورت میں مر جاتے ہیں۔‏ اس کی مثال شاہ بلوط (‏کورکس‏)‏‏،‏ کوکو (‏جنس تھیوبروما کوکو‏)‏‏،‏ اور ربر کے پودے (‏ہیویا براسیلینسس‏)‏ کے بیج ہیں۔‏ مگر اُنہیں فریز کرنے سے نمی اُنہیں مار دیتی ہے کیونکہ جب یہ جم جاتے ہیں تو پانی پھیل کر بیج کی دیواروں کو چیر دیتا ہے۔‏ سائنسدان اس مشکل پر قابو پانے کیلئے نئی تکنیکیں دریافت کر رہے ہیں۔‏ ایک حل تو بیج کی ہیولی نمو کو نکال کر تیزی سے خشک کرنے اور مائع نائٹروجن میں الٹرالو درجۂ‌حرارت میں محفوظ کرنا ہے۔‏

کون اس سے مستفید ہونگے؟‏

مالیاتی بینک کی طرح،‏ ملینیئم سیڈ بینک بھی ادائیگی کرتا ہے۔‏ بیجوں کے نمونوں کو تحقیق کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ تقریباً ایک چوتھائی ادویات پودوں سے حاصل کی جاتی ہیں مگر دُنیابھر کے پھولوں کے ۵‏/‏۴ پر ابھی تک تحقیق نہیں ہوئی۔‏ کونسی نئی ادویات ابھی دریافت ہونے والی ہیں؟‏ بحرِقلزم کے خطے میں پائے جانے والے باقلے ‏(‏ویچ)‏ کی اقسام سے خون کو جمانے والی پروٹین حاصل ہوتی ہے جو خون کے انتہائی پیچیدہ امراض دریافت کرنے میں مدد دیتی ہے۔‏ اُمید ہے کہ نئی غذا،‏ ایندھن یا ریشے (‏فائبرز)‏ بھی جلد دریافت کر لئے جائینگے۔‏

سمندرپار سے آنے والے سائنسدان بیج کو سٹور کرنے اور نشوونما کی تکنیکیں سیکھنے کے سلسلے میں بینک ہی میں قیام کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے مُلک واپس جا کر سیڈ بینک کا آغاز کر سکیں۔‏ بیج فراہم کرنے والا ہر مُلک کچھ بیج اپنے پاس رکھ لیتا ہے لہٰذا وہ بھی تحقیق کے فوائد اور منافع سے برابر مستفید ہوتا ہے۔‏

ناقص زمین کو آباد کرنے اور خطرے سے دوچار اقسام کے سٹاک میں اضافہ کرنے کیلئے استعمال ہونے والے بیجوں کی بابت توقع کی جا رہی ہے کہ محفوظ رکھنے کی یہ حکمتِ‌عملی دُنیا کے تیزی سے ناپید ہوتے ہوئے پھولوں اور اس پر انحصار کرنے والی حیاتیات کے عمل کو ازسرِنو ترتیب دینے میں معاون ثابت ہوگی۔‏

اس دوڑ میں کامیابی کیسے ممکن ہے؟‏

کوئی بھی شخص اُس صورتحال سے انکار نہیں کر سکتا جسکا آج نسلِ‌انسانی کو سامنا ہے۔‏ کیو کے سیڈ کنزرویشن ڈیپارٹمنٹ کا منتظم،‏ راجر سمتھ اس پروجیکٹ کیلئے تین جواز پیش کرتا ہے:‏ ”‏پہلا،‏ براہِ‌راست استعمال ہے۔‏ کیا ہم اتنا جانتے ہیں کہ جب کوئی پودا ختم ہو جاتا ہے تو اس سے حاصل ہونے والی کونسی غذا یا دوا کا خاتمہ ہو جاتا ہے؟‏ دوسرا زندگی کا پیچیدہ چکر ہے۔‏ تصور کریں کہ دُنیا کی تمام انواع ایک جال کو تشکیل دیتی ہیں جس میں ہر قسم کی ایک گرہ لگی ہوئی ہے۔‏ اس سے پہلے کہ سارا جال ٹوٹ جائے آپ کتنی گرہ کاٹ سکتے ہیں؟‏ سب سے اہم بات اس جال کو قائم رکھنے کی ذمہ‌داری ہے۔‏ موجودہ نسل کے پاس مستقبل کی نسلوں کو ایسی اقسام فراہم نہ کرنے کا کیا جواز ہے جو اُنکا ورثہ ہے؟‏“‏

مستقبل کے چیلنج ناگزیر ہیں۔‏ پروجیکٹ کوآرڈی‌نیٹر سٹیو آلٹن کہتا ہے:‏ ”‏آپ دُنیا کے سارے بیج بھی جمع کر لیں لیکن اگر اِن پودوں کو اُگانے کیلئے مناسب زمین ہی نہیں تو پھر اُنہیں سٹور کرنے کا کیا فائدہ ہے۔‏“‏ کیا اِن ناپید ہوتی ہوئی انواع کو بچانا نیز ہمارے سیارے کی مناسب دیکھ‌بھال کی ذمہ‌داری اُٹھانا ممکن ہے؟‏

پُراُمید جواب ہے،‏ جی‌ہاں۔‏ خالق وعدہ کرتا ہے:‏ ”‏زراعت سلامتی سے ہوگی۔‏ تاک اپنا پھل دیگی اور زمین اپنا حاصل اور آسمان سے اوس پڑیگی اور مَیں ان لوگوں کے بقیہ کو ان سب برکتوں کا وارث بناؤنگا۔‏“‏—‏زکریاہ ۸:‏۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس/‏تصویریں]‏

بہتوں میں سے ایک

کیو گارڈنز اُن ۳۰۰،‏۱ سیڈ بینکوں میں سے ایک ہے جو دُنیابھر میں بیجوں کو ڈیپ‌فریزرز میں محفوظ کرنے میں مصروف ہیں۔‏ کلوریڈا میں،‏ نیشنل سیڈ سٹوریج لیبارٹری کا منتظم سٹیو اے.‏ ایبرہارٹ اس سہولت کو ”‏پودوں کے فورٹ ناکس“‏ کے طور پر بیان کرتا ہے۔‏

‏[‏تصویریں]‏

ملینیئم سیڈ بینک پروجیکٹ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر بکس]‏

تمام انواع کی جینز کا مجموعہ

سیڈ بینکوں کا ایک اہم مقصد مختلف اقسام کی فصلوں اور اس سے تعلق رکھنے والی انواع کو جمع کرنا ہے۔‏ اس ذخیرے سے جنیٹک پول تیار کِیا جاتا ہے جس سے کسی فصل کو لگنے والی بیماری یا کیڑوں کی صورت میں نیا سٹاک حاصل کِیا جا سکتا ہے۔‏ احتیاط کیساتھ پودوں کی افزائش کے ذریعے سائنسدان پیداوار،‏ غذائی قدروقیمت اور فصلوں میں بیماری اور کیڑےمکوڑوں کے خلاف مدافعت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔‏ یہ جنیٹک پول روزافزوں اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔‏

عالمی پیمانے پر،‏ انسانوں کے اندر ۹۰ فیصد حراروں کی مانگ کو پودوں کی صرف ۱۰۳ اقسام سے پورا کِیا جا رہا ہے اور انسانوں کو درکار تمام توانائی کا نصف صرف تین اہم فصلوں یعنی چاول،‏ گندم اور مکئی سے حاصل ہوتا ہے۔‏ اس مسئلے کی کیا وجہ ہے؟‏

جب کوئی بڑی فصل خلقی طور پر یکساں ہوتی ہے تو یہ متواتر کسی عام وبا یا کیڑوں کے حملے کی زد میں رہتی ہے۔‏ جنیٹک یکسانیت کے خطرے کی ایک مشہور مثال ۱۸۴۰ کے دہے میں آئرلینڈ کی ہے۔‏ اُس وقت آلو کی فصل پت‌روگ (‏فائٹوفتھروا انفس‌ٹانز‏)‏ سے بالکل تباہ ہو گئی تھی۔‏ یہ پھپھوندی بہت بڑے قحط کا باعث بنتے ہوئے ۰۰۰،‏۵۰،‏۷ لوگوں کی موت پر منتج ہوئی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر بکس]‏

خطرے سے دوچار تنوع

ڈاکٹر پیٹر ایچ.‏ روین نے ریاستہائےمتحدہ میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل بوٹینک اجلاس میں مندوبین کو آگاہ کِیا:‏ ”‏اغلب ہے کہ اکیسویں صدی کے وسط تک کُل ۰۰۰،‏۰۰،‏۳ انواع میں سے تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۱ اقسام شاید ختم ہو جائیں یا پھر ناپید ہونے والی ہوں۔‏“‏ اقوامِ‌متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (‏ایف‌اےاو)‏ کی ایک رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ہماری خوراک فراہم کرنے والی فصلوں میں پہلے ہی ”‏کافی زیادہ“‏ تنوع کی کمی ہے۔‏ پودوں میں تنوع کو درپیش خطرہ ایک غیریقینی ماخذ سے ہے۔‏

ایف‌اےاو کی رپورٹ نے بیان کِیا:‏ ”‏جنیٹک تنوع کی سب سے اہم وجہ جدید،‏ تجارتی ایگریکلچر میں اضافہ ہے۔‏ فصلوں کی نئی اقسام کے تعارف سے گریز کئے جانے کے باوجودکسانوں کی روایتی مختلف اقسام کے ناپید ہو جانے پر منتج ہوا ہے۔‏“‏

چین میں سن ۱۹۴۹ میں،‏ گندم کی تقریباً ۰۰۰،‏۱۰ اقسام استعمال میں تھیں۔‏ آجکل ۰۰۰،‏۱ سے بھی کم استعمال میں ہیں۔‏ ریاستہائےمتحدہ میں،‏ گزشتہ دس سال کے اندر،‏ سیب کے درختوں کی تقریباً ۰۰۰،‏۶ اور بندگوبھی کی ۹۵ فیصد نیز ٹماٹروں کی ۸۱ فیصد اقسام بظاہر ناپید ہو چکی ہیں۔‏

جنگیں بھی فصلوں کی ناپیدگی کا باعث بنتی ہیں جب کسان کئی سال تک زمینوں سے بھاگ جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو مقامی انواع ختم ہو جاتی ہیں۔‏ یونیسکو کوریئر بیان کرتا ہے:‏ ”‏جنگوں نے مغربی افریقہ کے ہر ساحلی مُلک کو متاثر کِیا ہے جو کہ چاول کی کاشت کے لئے مشہور تھے۔‏ یہ علاقہ افریقی چاول کی مختلف اقسام میں جنیٹک تنوع کا اہم مرکز ہے جسے اب ایشیائی چاول،‏ دُنیا کی ایک اہم فصل کیساتھ پیوند کِیا جا سکتا ہے۔‏ اگر یہ افریقی فصل علاقائی جنگ کی نظر ہو جاتی ہے تو یہ عالمی پیمانے پر باعثِ‌تشویش ہوگا۔‏“‏

سیڈ بینک سے بھی زیادہ محفوظ

ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ کے ایک محقق،‏ جان ٹک‌سل نے آگاہ کِیا:‏ ”‏ہم جینز کو ادھراُدھر کرنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں مگر صرف قدرت ہی اُنہیں خلق کر سکتی ہے۔‏ اگر ایک منفرد جنیٹک خصوصیت کا حامل پودا ناپید ہو جاتا ہے تو اسے واپس لانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‏“‏ اسلئے بیجوں کو سیڈ بینک میں رکھنے کیلئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔‏

تاہم سب سے محفوظ‌ترین وعدہ اُس خالق کا ہے جو معجزانہ طور پر اِن بیجوں کو محفوظ رکھتا ہے اور جس نے کافی عرصہ پہلے یہ یقین‌دہانی کرائی کی تھی:‏ ’‏جب تک زمین قائم ہے بیج بونا اور فصل کاٹنا .‏ .‏ .‏ موقوف نہ ہوگا۔‏‘‏—‏پیدایش ۸:‏۲۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

برکینا فاسو میں بیج جمع کرنا

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

نیم‌صفر درجۂ‌حرارت پر محفوظ کرنا

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

کینیا کا ایک ماہرِنباتیات بیجوں میں نمی کی مقدار دریافت کرنا سیکھ رہا ہے

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر کا حوالہ]‏

All pictures on pages 24-7: The Royal Botanic Gardens, Kew