مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ماں ہونا—‏ایک کٹھن دوڑ

ماں ہونا—‏ایک کٹھن دوڑ

ماں ہونا‏—‏ایک کٹھن دوڑ

ماں ہونا دراصل ایک پیچیدہ اور حیران‌کُن تجربہ ہے۔‏ مائیں ساری دُنیا کی دولت کے عوض اِن قیمتی لمحوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہیں گی۔‏ تاہم،‏ بعض مائیں کبھی‌کبھار بےحوصلہ ہو جاتی ہیں۔‏ ہیلن ایک ماں کے طور پر اپنی زندگی کو ایک کٹھن دوڑ کا نام دیتی ہے۔‏ علاوہ‌ازیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔‏

اپنے بچوں کی مناسب نگہداشت کے لئے مائیں اپنا فارغ وقت اور سماجی زندگی قربان کر دیتی ہیں۔‏ ”‏مَیں ہمیشہ دستیاب رہتی ہوں،‏“‏ پانچ بچوں کی ماں آستر کہتی ہے،‏ ”‏مَیں نے آرام‌دہ غسل کو جلدی سے جسم پر پانی ڈالنے اور محبت بھرے کھانے کو عجلت میں پکے کھانے پر قربان کر دیا ہے۔‏ مَیں نے نہ تو بہت زیادہ سفر کِیا ہے،‏ نہ ہی مختلف مقامات کی سیر کی ہے اور نہ ہی مختلف چیزیں دیکھنے کے قابل ہوئی ہوں۔‏ البتہ کپڑوں کی دھلائی اور استری ضرور وقت پر ہو جاتی ہے!‏“‏

یقیناً بیشتر مائیں اپنے بچوں کی پرورش کے دوران خوشی کے منفرد لمحات کا بھی ذکر کرتی ہیں۔‏ آستر بیان کرتی ہے:‏ ”‏اکثروبیشتر نظر آنے والی مسکراہٹیں،‏ پیاربھرے الفاظ کہ ’‏امی آپ کا شکریہ‘‏ اور پُرتپاک طریقے سے ماں سے لپٹ جانا آپکو اپنی تمام ذمہ‌داریاں پوری کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔‏“‏ *

ماں ملازمت شروع کر دیتی ہے

خاندانی ذمہ‌داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ خاندان کی مالی کفالت میں معاونت کے لئے ملازمت اختیار کرنا ایک ایسی رکاوٹ ہے جس نے ماں ہونے کو بہت کٹھن بنا دیا ہے۔‏ اِن ماؤں میں بیشتر خوشی سے نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ملازمت کرتی ہیں۔‏ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ گھر پر رہینگی تو اُنکے خاندان،‏ بالخصوص اُنکے بچوں کی بہت سی ضروریات پوری نہیں ہو سکیں گی۔‏ اگرچہ اُنہیں اُسی عہدے پر فائز آدمیوں کی نسبت کم تنخواہ ملتی ہے توبھی اُنکی معمولی تنخواہ بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔‏

مثال کے طور پر،‏ ساؤ پولو،‏ برازیل میں کارکنان کی کُل تعداد کا ۴۲ فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔‏ وہاں کے ایک اخبار نے سارا وقت بچوں کی نگہداشت کرنے والی ماؤں کو ”‏خطرے سے دوچار مخلوق“‏ قرار دیا۔‏ افریقہ کے دیہی علاقوں میں،‏ ایک ماں کو سر پر لکڑیاں اور پیٹھ پر بچہ باندھے دیکھنا عام بات ہے۔‏

متقاضی جائےملازمت

ملازمت ماؤں سے زیادہ دیر تک کام کرنے کا تقاضا کرتی ہے جس سے مشکلات میں اَور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔‏ نیز تقاضوں میں شاید کمی نہ آئے۔‏ جب یونان میں رہنے والی ماریہ کو ملازمت ملی تو اُسکے آجر نے اُسے ایک دستاویز پر دستخط کرنے کیلئے کہا جس میں اُس نے وعدہ کِیا کہ وہ تین سال تک حاملہ نہیں ہوگی۔‏ اگر وہ حاملہ ہو جاتی ہے تو اُسے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔‏ ماریہ نے دستاویز پر دستخط کر دئے۔‏ مگر تقریباً ڈیڑھ سال بعد وہ حاملہ ہو گئی۔‏ اُس کے آجر نے ماریہ کو وہ دستاویز دکھائی مگر ماریہ نے اپنی کمپنی کی پالیسی کے خلاف عدالت میں مقدمہ کر دیا اور اب فیصلے کی منتظر ہے۔‏

عام حالات میں،‏ آجر ماؤں پر زچگی کے بعد جلدازجلد کام پر واپس آنے کیلئے بھی دباؤ ڈال سکتے ہیں۔‏ واپس آنے کے بعد عموماً اُن سے کام کے اوقات کے سلسلے میں کوئی رعایت نہیں برتی جاتی۔‏ لہٰذا اس حقیقت کی کوئی اہمیت نہیں کہ اب اُس پر بہت چھوٹے بچے کی اضافی ذمہ‌داری ہے۔‏ اُنہیں تنخواہ کاٹے بغیر کسی قسم کی چھٹی لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔‏ ماؤں کو بچوں کی صحت کی دیکھ‌بھال کیلئے مناسب سہولیات اور حکومتی مراعات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔‏

اسکے برعکس،‏ بعض مائیں مالی ضروریات کیلئے نہیں بلکہ ذاتی تسکین کیلئے کام کرتی ہیں۔‏ سینڈرا نے اپنے دونوں بچوں کی پیدایش کے بعد واپس کام پر جانے کا فیصلہ کِیا۔‏ وہ یاد کرتی ہے کہ خود کو اچانک گھر پر بچے کیساتھ اکیلے پا کر وہ ”‏بعض‌اوقات کھڑکی سے باہر جھانکتی اور یہ سوچتی رہتی تھی کہ باقی کی دُنیا اس وقت کیا کر رہی ہوگی۔‏“‏ نیز بعض مائیں خاندانی زندگی کے دباؤ سے بچنے کیلئے ملازمت شروع کر دیتی ہیں۔‏ برطانیہ کے ڈیلی ٹیلیگراف نے بیان کِیا:‏ ”‏بعض والدین نسبتاً پُرسکون ماحول میں زیادہ دیر کام کرنا پسند کرتے ہیں۔‏ اس سے ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جہاں ایک مسئلے کو حل کرتے کرتے نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اور لاپروا،‏ جارحیت‌پسند اور کجرو بچوں کیساتھ گزرنے والا وقت خودبخود کم ہو جاتا ہے۔‏“‏

انتہائی پریشان‌کُن مسئلہ

ملازمت اور گھر کے کام میں توازن رکھنا آسان نہیں ہے۔‏ بہتیروں کے احساسات کی نمائندگی کرتے ہوئے،‏ نیدرلینڈز سے ایک ماں کہتی ہے:‏ ”‏مَیں تو ہر وقت تھکی رہتی ہوں حتیٰ‌کہ سو کر اُٹھنے کے بعد بھی تھکاوٹ محسوس کرتی ہوں۔‏ جب مَیں کام سے گھر واپس آتی ہوں تو مَیں تھکن سے چور ہوتی ہوں۔‏ بچے بھی یہی کہتے ہیں،‏ ’‏ماں تو ہر وقت تھکی رہتی ہے،‏‘‏ اور اس سے مجھے بہت ندامت ہوتی ہے۔‏ مَیں ملازمت سے بھی چھٹی نہیں کرنا چاہتی لیکن مَیں ایسی خوش‌اخلاق ماں بھی بننا چاہتی ہوں جو ہر کام کر سکتی ہے۔‏ مگر اس کے باوجود مَیں ایک مثالی ماں نہیں ہوں۔‏“‏

وہ اُن لاکھوں ملازمت پیشہ ماؤں میں سے ہے جو یہ سمجھتی ہیں کہ اگر بچوں کو ’‏بہترین وقت‘‏ دیا جاتا ہے تو پھر اکثروبیشتر غیرحاضری ممکن ہے لیکن بیشتر نے اسے اطمینان‌بخش نہیں پایا ہے۔‏ بہتیری ماؤں کا کہنا ہے کہ گھر اور ملازمت کی ذمہ‌داریوں کے دباؤ کا مقابلہ کرنا اُن کیلئے زیادہ کام،‏ زیادہ دباؤ اور کم تنخواہ کا باعث بنتا ہے۔‏

جب عورتیں زیادہ وقت اپنے بچوں سے دُور رہتی ہیں تو بچوں کو ماں کی طرف سے وہ وقت اور توجہ نہیں ملتی جس کی اُنہیں اشد ضرورت ہے۔‏ برازیل سے ایک بچوں کی ماہرِنفسیات فرنانڈا اے.‏ لیما کہتی ہے کہ ماں سے بہتر کوئی اَور شخص ماں کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔‏ ”‏بچے کی زندگی کے پہلے دو سال انتہائی نازک ہوتے ہیں،‏“‏ وہ کہتی ہے۔‏ ”‏بچے کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ ماں کیوں موجود نہیں ہے۔‏“‏ ماں کا نعم‌اُلبدل بچے کیلئے ماں کی کمی کو وقتی طور پر پورا کر سکتا ہے مگر اُس کی جگہ نہیں لے سکتا۔‏ ”‏بچہ محسوس کرتا ہے کہ اُسے ماں کی شفقت حاصل نہیں ہو رہی،‏“‏ لیما کہتی ہے۔‏

ایک چھوٹی بیٹی کی ماں اور کل وقتی ملازمت کرنے والی کیتھی کا کہنا ہے:‏ ’‏مجھے اتنی ندامت ہوتی تھی کہ گویا مَیں اُسے نرسری میں پھینک آئی ہوں۔‏ یہ جان کر بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ آپ اپنے بچے کو بڑھتے اور نشوونما پاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اور یہ سوچ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ وہ آپکی بجائے نرسری سے زیادہ پیار کرتی ہے۔‏‘‏ میکسیکو میں ایک ائیرلائن میں کام کرنے والی خاتون نے تسلیم کِیا:‏ ”‏کچھ عرصہ بعد آپکا بچہ آپکو پہچانتا بھی نہیں،‏ وہ آپکی عزت نہیں کرتا محض اسلئے کہ آپ اُسکی پرورش نہیں کر رہے۔‏ وہ جانتے ہیں کہ آپ اُنکی والدہ ہیں لیکن اچانک وہ اُس عورت کیساتھ رہنا پسند کرتے ہیں جو اُنکی دیکھ‌بھال پر مامور ہے۔‏“‏

اسکے برعکس،‏ سارا وقت بچوں کی نگہداشت کرنے والی مائیں کہتی ہیں کہ وہ پیسے کے عوض کام لینے والے معاشرے کی طرف سے ذلت اور رُسوائی برداشت کرتی ہیں۔‏ بعض معاشروں میں محض خاتونِ‌خانہ ہونے کو اب عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لہٰذا اضافی پیسے کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود خواتین کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرنے کے دباؤ کا شکار ہیں۔‏

جدوجہد کیلئے تنہا

ماں ہونے کی مشکلات میں اضافے کا باعث بننے والی ایک حقیقت یہ ہے:‏ پورا دن کام کرنے کے بعد تھک کر جب ایک ماں گھر واپس آتی ہے تو وہ آرام کی بجائے معمول کے مطابق گھر کا کام کرنا جاری رکھتی ہے۔‏ مائیں خواہ وہ دُنیاوی ملازمت کرتی ہیں یا نہیں،‏ گھر اور بچوں کی نگہداشت کی ذمہ‌داری بنیادی طور پر اُنکی ہی ہوتی ہے۔‏

ماؤں کی بڑی تعداد زیادہ دیر تک کام کرتی ہے اِسکے باوجود باپ ہمیشہ اُنکا ساتھ نہیں دیتے۔‏ لندن کے دی سنڈے ٹائمز نے لکھا:‏ ”‏ایک نئی تحقیق کے مطابق جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ مرد اپنے بچوں کیساتھ ۱۵ منٹ سے بھی کم وقت گزارتے ہیں،‏ برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں باپ غیرحاضر ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ بیشتر مرد اپنے خاندانوں کیساتھ وقت صرف کرنے سے خوش نہیں ہوتے۔‏ .‏ .‏ .‏ اسکے مقابلہ میں،‏ ایک کام کرنے والی برطانوی ماں اپنے بچوں کیساتھ ۹۰ منٹ صرف کرتی ہے۔‏“‏

بعض شوہر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُنکی بیویوں کو شوہروں سے کام کروانا ہی نہیں آتا کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ سب کام بالکل ویسے ہی ہو جیسے وہ خود کرتی ہیں۔‏ ”‏ورنہ وہ کہتی ہیں کہ آپ غلط کرتے ہیں،‏“‏ شوہر کہتے ہیں۔‏ بدیہی طور پر،‏ اپنے شوہر کا تعاون حاصل کرنے کیلئے تھکن سے چُور ایک خاتونِ‌خانہ کو شاید بعض کاموں کے طریقۂ‌کار کے سلسلے میں کچھ گنجائش ضرور پیدا کرنی ہوگی۔‏ اسکے برعکس،‏ شوہر کو اس بحث کو ایک عذر نہیں بنانا چاہئے تاکہ اُسے کچھ کرنا نہ پڑے۔‏

مشکلات میں اضافہ کرنا

پُرانی روایات بھی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہیں۔‏ جاپان میں ماؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بچوں کی پرورش اُنکے ہم‌عمر بچوں کے گروپ میں کریں۔‏ اگر دوسرے بچے پیانو بجانا یا پینٹنگ کرنا سیکھ رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اُسکے بچے بھی ایسا ہی کریں۔‏ سکول والدین پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اُن غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے دیں جن میں دوسرے بچے حصہ لے رہے ہیں۔‏ دوسروں سے مختلف ہونا بچوں،‏ اساتذہ،‏ دیگر والدین اور رشتہ‌داروں کی طرف سے دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔‏ دیگر ممالک کے سلسلے میں بھی یہ سچ ہے۔‏

اشتہاربازی اور تحریکِ‌صارفین بھی بچوں کو متقاضی بنا سکتی ہے۔‏ ترقی‌یافتہ ممالک میں مائیں یہ محسوس کر سکتی ہیں کہ اُنہیں دوسری ماؤں کی طرح اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرنی چاہئے۔‏ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتیں تو وہ اسے اپنی ناکامی خیال کرتی ہیں۔‏

آج کی ماں کی بابت اس بحث کا مقصد اُن لاکھوں محنتی،‏ خودایثارانہ جذبہ رکھنے والی ماؤں کو نیچا دکھانا نہیں جو اپنی ذمہ‌داریوں کو یعنی آئندہ انسانی نسلوں کو احسن طریقے سے پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔‏ یہ ایک شرف ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اولاد خداوند کی طرف سے ایک برکت اور نعمت ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۳‏،‏ کنٹمپوریری انگلش ورشن‏)‏ دو بچوں کی ماں مریم ایسی ماؤں کی خوب عکاسی کرتی ہے جب وہ کہتی ہے:‏ ”‏تمام چیلنجوں کے باوجود ماں کا کردار بیمثال خوشیوں کا خزانہ ہے۔‏ جب ہم اپنے بچوں کو تربیت اور تنبیہ کے مطابق چلتے اور معاشرے کے ذمہ‌دار افراد بنتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ ماؤں کو احساسِ‌تسکین بخشتا ہے۔‏“‏

کیا چیز ماؤں کو اپنی اس نعمت سے خوشی حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟‏ اگلا مضمون چند عملی مشورے پیش کریگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 یہ مضامین شادی‌شُدہ ماؤں پر توجہ مرکوز کراتے ہیں۔‏ مستقبل میں جاگو!‏ تنہا اور غیرشادی‌شُدہ ماؤں کے چیلنجوں پر بھی بات کریگا۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

‏”‏یومِ‌مادر“‏

جنوبی افریقہ میں رہنے والی مائیں شدید غربت،‏ تعلیم کی کمی،‏ غیرذمہ‌دار ساتھی مردوں،‏ نازیبا سلوک اور ایڈز کی وبا کا شکار ہیں۔‏ حال ہی میں،‏ یومِ‌مادر کے موقع پر جنوبی افریقہ کے اخبار دی سٹیزن نے بیان کِیا:‏ ”‏یومِ‌مادر پر ہزاروں عورتیں اپنے ساتھیوں کے تشدد کا نشانہ بنیں گی اور بعض کو تو جان سے مار ڈالا جائیگا۔‏“‏ ایسے مسائل جنوبی افریقہ میں رہنے والی ہزاروں ماؤں کیلئے اپنے بچوں کو چھوڑنے کا باعث بنتے ہیں۔‏ حالیہ دو برسوں کے اندر،‏ لاوارث بچوں میں ۲۵ فیصد اضافہ ہوا ہے۔‏ سب سے زیادہ پریشان‌کُن بات خودکشی کرنے والی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔‏ حال ہی میں،‏ غربت کا شکار علاقے کی ایک عورت اپنے تین بچوں کو چھاتی سے لگا کر چلتی ہوئی ریل گاڑی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔‏ سب کے سب مارے گئے۔‏ بعض مائیں گزربسر کے لئے عصمت‌فروشی اور غیرقانونی منشیات فروخت کرتی ہیں یا پھر اپنی بیٹیوں کی ایسا کرنے کے لئے حوصلہ‌افزائی کرتی ہیں۔‏

ہانگ‌کانگ سے رپورٹ ملی ہے کہ ”‏بعض جوان مائیں زندگی کی پریشانیوں سے تنگ آ کر اپنے بچے کی پیدایش پر ہی یا تو اُسے جان سے مار دیتی ہیں یا پھر کوڑےکرکٹ کے ڈبے میں پھینک دیتی ہیں۔‏“‏ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بیان کِیا کہ ہانگ‌کانگ میں بعض جواں‌سال مائیں ”‏بہت زیادہ دباؤ کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہیں اور خودکُشی کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس]‏

مختلف ممالک میں مائیں

وقت کی کمی سے دوچار ہیں

ہانگ‌کانگ کے ایک سروے نے ظاہر کِیا کہ ۶۰ فیصد ملازمت پیشہ مائیں اپنے بچوں کو مناسب توجہ دینے سے قاصر ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں ہفتے کے دوران ملازمت پیشہ والدین کے تین سال تک کی عمر کے ۲۰ فیصد بچے اپنے گھروں سے دُور دادا دادی یا نانا نانی کیساتھ رہتے ہیں۔‏

میکسیکو میں عورتیں اپنی زندگی کے ۱۳ سال کم‌ازکم ایک پانچ سال سے کم عمر کے بچے کی نگہداشت میں صرف کرتی ہیں۔‏

مائیں اور کام

آئیرلینڈ میں ۶۰ فیصد خواتین بچوں کی دیکھ‌بھال کرنے کی وجہ سے گھروں میں ہی رہتی ہیں۔‏ یونان،‏ اٹلی اور سپین میں بھی تقریباً ۴۰ فیصد خواتین کی زندگی ایسی ہی ہے۔‏

امورِخانہ‌داری میں مدد کرنا

جاپان میں ۸۰ فیصد خواتین اس بات کی متمنی ہیں کہ کاش خاندان کا کوئی فرد گھر کے کام‌کاج میں اُنکی مدد کر سکے بالخصوص جب وہ بیمار ہیں۔‏

نیدرلینڈز میں آدمی تقریباً ہر روز اپنے بچوں کیساتھ ۲ گھنٹے اور گھر کے کام‌کاج میں ۷.‏۰ گھنٹے صرف کرتے ہیں۔‏ خواتین بچوں کیساتھ تقریباً ۳ گھنٹے اور گھر کے کام‌کاج میں ۷.‏۱ گھنٹے صرف کرتی ہیں۔‏

دباؤ کا شکار مائیں

جرمنی میں ۷۰ فیصد سے زیادہ مائیں دباؤ کا شکار ہیں۔‏ تقریباً ۵۱ فیصد ریڑھ کی ہڈی اور مہروں میں تکلیف کی شکایت کرتی ہیں۔‏ ایک تہائی سے زیادہ مستقل تھکن اور مایوسی کا شکار ہیں۔‏ تقریباً ۳۰ فیصد سردرد یا آدھے سر کے درد میں مبتلا ہیں۔‏

بدسلوکی کا شکار مائیں

ہانگ‌کانگ میں ایک سروے میں شامل ۴ فیصد خواتین نے کہا کہ اُنہیں دورانِ‌حمل مارپیٹ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‏

جرمنی میں فوکس میگزین کے ایک سروے نے ظاہر کِیا کہ تقریباً ۶ میں سے ۱ ماں نے اس بات کو تسلیم کِیا کہ وہ کم‌ازکم ایک بار اپنے بچے کی طرف سے مارپیٹ کا نشانہ بنی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

بہتیری عورتیں کام اور خاندانی زندگی میں توازن رکھنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے ماں ہونے کی ذمہ‌داری نبھانا انتہائی پریشان‌کُن ثابت ہو سکتا ہے