مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نطقِ‌حیوانی—‏جانوروں میں رابطے کے راز

نطقِ‌حیوانی—‏جانوروں میں رابطے کے راز

نطقِ‌حیوانی‏—‏جانوروں میں رابطے کے راز

کینیا سے جاگو!‏ کا رائٹر

بِلاشُبہ انسان کو عطا کی جانے والی بیش‌قیمت نعمتوں میں سے ایک قوتِ‌رابطہ ہے۔‏ اس کی مدد سے ہم زبانی یا اشاروں کے ذریعے ایک دوسرے تک اہم معلومات پہنچاتے ہیں۔‏ درحقیقت،‏ آزادیِ‌گفتار پوری دُنیا میں ایک مباحثہ طلب مسئلہ ہے۔‏ اس لئے بعض لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ رابطہ رکھنے کی صلاحیت صرف انسانوں تک ہی محدود ہے۔‏

تاہم،‏ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ جانور ایسے پیچیدہ طریقے سے ایک دوسرے کو معلومات پہنچاتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ وہ لفظوں میں تو ”‏ہمکلام“‏ نہیں ہوتے مگر دُم ہلانے،‏ کان کھڑے کرنے یا پَر پھڑپھڑانے کے ذریعے نظری رابطہ رکھتے ہیں۔‏ رابطے کے دیگر طریقوں میں آواز کا استعمال جیسے کہ بھونکنا،‏ دھاڑنا،‏ غرانا یا پرندوں کا چہچہانا شامل ہے۔‏ بعض ”‏زبانیں“‏ انسانوں کو جلد سمجھ آ جاتی ہیں جبکہ دیگر بہت زیادہ سائنسی مطالعے کا تقاضا کرتی ہیں۔‏

شکاری!‏

جولائی کا وسط ہے۔‏ تنزانیہ کے وسیع‌وعریض سرن‌جیتی نیشنل پارک میں ہزارہا چکارے سبزازاروں کی تلاش میں شمال کی سمت میں کینیا کے ماسائی مارا گیم ریزرو کا رُخ کئے ہوئے ہیں۔‏ اس سالانہ نقل‌مکانی کے دوران وادیاں کھروں کی آواز سے گونج رہی ہوتی ہیں۔‏ تاہم،‏ راہ میں خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ یہ راستہ شیر،‏ چیتے،‏ چرخ اور تیندوے جیسے شکاری جانوروں سے بھرا پڑا ہے۔‏ چکارے مگرمچھوں سے بھرے ہوئے مارا دریا کو عبور کرنے کا خطرہ بھی مول لیتے ہیں۔‏ چکارے کیسے شکاریوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں؟‏

دُشمن کی توجہ ہٹانے کیلئے،‏ چکارے یا بڑے ہرن کچھ دُور تک تیزی سے بھاگتے ہیں اور پھر دُشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے واپس مڑ کر اپنے سر کو ادھراُدھر ہلاتے ہیں۔‏ مضحکہ‌خیز منظر پیش کرتے ہوئے یہ غیرمعمولی طور پر کودنا شروع کر دیتے ہیں۔‏ بڑے سے بڑا شکاری بھی اس غیرمعمولی رقص کو دیکھنے کیلئے رُک جاتا ہے۔‏ جوں جوں شکاری اُنکی طرف قدم بڑھاتا ہے،‏ چکارے اپنے مظاہرے میں شدت لے آتے ہیں۔‏ اس منظر سے حملہ‌آور اسقدر انتشارِخیال کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ حملہ کرنا ہی بھول جاتا ہے۔‏ اس بےڈھنگے ڈانس نے اتنی مقبولیت حاصل کر لی ہے کہ چکاروں کو وادیوں کا مسخرہ کہا جاتا ہے۔‏

چکاروں کے چھوٹے بھائی‌بند،‏ امپالا بڑی بڑی چھلانگیں مارنے کیلئے مشہور ہیں۔‏ بیشتر کیلئے یہ اُونچی چھلانگیں رفتار اور خوبصورتی کی غماز ہیں۔‏ تاہم،‏ کٹھن وقت میں،‏ یہ چکارے اپنی اِن اُونچی چھلانگوں کی وجہ سے شکاریوں کیلئے انہیں ٹانگوں سے پکڑنا مشکل بنا دیتے ہیں۔‏ حملہ‌آور کو یہ ۳۰ فٹ اُونچی چھلانگیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ ”‏اگر ہمت ہے تو میرا مقابلہ کرنے کی کوشش کرو۔‏“‏ کچھ ہی شکاری محض امپالا کو پکڑنے کیلئے ایسا کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں!‏

کھانے کا وقت

جنگل میں شکار کرنے کیلئے بعض شکاری جانوروں کو اپنی مہارتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ چھوٹے بچوں کو اُس وقت بڑے دھیان سے دیکھنا پڑتا ہے جب اُنکے والدین اُنہیں شکار کرنے کی مہارتوں کی بابت سکھاتے ہیں۔‏ افریقی جانوروں کے ایک باڑے میں،‏ سبا نامی چیتے کو اپنے بچوں کو اہم اسباق سکھاتے دیکھا گیا۔‏ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک دبے پاؤں ہرن کا پیچھا کرنے کے بعد چیتے نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور ہرن کو زندہ قابو کر لیا۔‏ چند لمحوں بعد،‏ سبا نے حواس‌باختہ جانور کو اپنے بچوں کے سامنے لا پھینکا جو کہ اپنے شکار پر جھپٹنے میں ہچکچا رہے تھے۔‏ یہ چھوٹے چیتے سمجھ گئے تھے کہ اُنکی ماں کیوں زندہ جانور لائی ہے۔‏ وہ اُنہیں سکھانا چاہتی تھی کہ ہرن کو کیسے مارنا چاہئے۔‏ جب بھی اُنکے شکار نے اُٹھنے اور بھاگنے کی کوشش کی،‏ جوشیلے چیتے بچے اُسے زمین پر دے مارتے۔‏ تھک‌ہار کر،‏ ہرن نے بچنے کی کوشش کرنا ترک کر دی۔‏ دُور سے دیکھتے ہوئے،‏ سبا اُنکی کارکردگی کو سراہتی رہی۔‏

بعض جانور خوراک کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ آوازیں نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔‏ چرخوں کا ریوڑ شکار کے پیچھے بھاگتے ہوئے غراتا،‏ زورزور سے سانس لیتا اور ہنستا ہے۔‏ ایک بار جب شکار مار لیا جاتا ہے تو چرخوں کی غیرمعروف ”‏ہنسی“‏ کے ذریعے دوسرے چرخوں کو بھی مدعو کِیا جاتا ہے۔‏ تاہم،‏ چرخ ہمیشہ خوراک کیلئے شکار نہیں کرتے ہیں۔‏ جنگل میں وہ سب سے بڑے لٹیرے ہیں کیونکہ وہ دوسرے جانوروں سے اُنکا شکار چھیننے کے تمام طریقے جانتے ہیں۔‏ اسی لئے تو اُنکی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ شیر سے اُسکا شکار چھیننے سے بھی نہیں ڈرتے!‏ وہ یہ کیسے کرتے ہیں؟‏ شکار کھاتے ہوئے شیر کو پریشان کرنے کیلئے یہ وحشی جانور خود شدید غصے میں پاگل ہو جاتے ہیں۔‏ اگر شیر اُنکی آواز کو نظرانداز کرتے ہیں تو وہ اور زیادہ جنونی ہونے لگتے ہیں۔‏ شیر اس شور سے تنگ آ کر اکثر شکار کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔‏

شہد کی مکھیوں میں خوراک کی تلاش کا عمل بڑا ہی اُلجھا ہوا ہے۔‏ پیچیدہ سائنسی مطالعوں نے آشکارا کِیا ہے کہ شہد کی مکھی ناچ کر چھتے میں موجود دوسری مکھیوں کو خوراک کی جگہ،‏ کوالٹی اور مقام سے آگاہ کرتی ہے۔‏ چھتے میں موجود مکھیوں کیلئے وہ اپنے جسم پر خوراک کا نمونہ لے کر جاتی ہے جیسے کہ پھولوں کا رس یا زرگل وغیرہ۔‏ انگریزی آٹھ کے عدد کی صورت میں ناچ کرنے سے وہ نہ صرف دوسری مکھیوں کو خوراک کی جگہ کی جانب متوجہ کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ کتنی دُور جانا ہے۔‏ خبردار رہیں!‏ کہیں آپکے اردگرد گھومنے والی مکھی واپس اپنے ساتھ لیجانے کیلئے کچھ خاص معلومات جمع نہ کر رہی ہو۔‏ آپ نے جو خوشبو لگائی ہوئی ہے وہ اُس سے غلط‌فہمی کا شکار ہو سکتی اور آپکو اپنی خوراک خیال کر سکتی ہے!‏

رابطہ قائم رکھنا

چند آوازیں انتہائی خوبصورت لگتی ہیں جیسے کہ خاموش رات میں شیر کا دھاڑنا۔‏ اس رابطے کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔‏ ایک نر کی زوردار دھاڑ دراصل ایک آگاہی ہوتی ہے کہ وہ علاقے میں موجود ہے،‏ ذرا سنبھل کر آگے بڑھیں۔‏ شیر چونکہ گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں لہٰذا شیر اپنے گروہ کے دیگر اراکین سے رابطہ رکھنے کیلئے بھی دھاڑتا ہے۔‏ مگر یہ دھاڑ قدرے دھیمی ہوتی ہے۔‏ ایک رات ایک شیر تقریباً ہر ۱۵ منٹ کے بعد دھاڑنے لگا اور وہ اُس وقت تک ایسا کرتا رہا جب تک دُور سے کسی دوسرے شیر نے اُسے جواب نہ دیا۔‏ اسکے بعد بھی وہ مزید ۱۵ منٹ تک ”‏دھاڑتے رہے“‏ تاوقتیکہ اُنکی ملاقات نہ ہو گئی۔‏ اسکے بعد دھاڑوں کی آواز آنا بند ہو گئی۔‏

ایسے رابطے نہ صرف اچھے تعلقات پر منتج ہوتے ہیں بلکہ خراب موسم جیسے عناصر سے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔‏ ایک مرغی کئی آوازیں نکالتی ہے جو اُسکے چوزوں کو مختلف پیغامات دیتی ہیں۔‏ تاہم،‏ شام کو سنائی دینے والی سب سے مختلف اور طویل آواز ظاہر کرتی ہے کہ وہ دڑبے میں واپس آ گئی ہے۔‏ ماں کی آواز سنکر،‏ ادھر اُدھر بکھرے ہوئے چوزے اُسکے پَروں تلے جمع ہو کر سو جاتے ہیں۔‏—‏متی ۲۳:‏۳۷‏۔‏

ساتھی کی تلاش

کیا آپ کبھی پرندوں کا گیت سنکر اپنا کام کرتےکرتے رُکے ہیں؟‏ کیا آپ سُر سے گانے کی اُنکی صلاحیت سے حیران نہیں ہوتے؟‏ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ آپکو خوش کرنے کیلئے نہیں گاتے؟‏ اُنکے گیت دراصل اہم پیغامات منتقل کرنے کے طریقے ہیں۔‏ اگرچہ بعض‌اوقات گانے کا مطلب علاقے کا تعیّن کرنا ہوتا ہے تاہم بڑی حد تک اسکا مقصد امکانی ساتھی کی توجہ حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔‏ دی نیو بُک آف نالج کے مطابق،‏ جب نر اور مادہ ایک دوسرے کو تلاش کر لیتے ہیں تو ”‏گانے میں ۹۰ فیصد کمی آ جاتی ہے۔‏“‏

تاہم،‏ بعض‌اوقات،‏ ایک ساتھی پانے کیلئے محض اچھے گانے سے زیادہ کچھ درکار ہوتا ہے۔‏ بعض مادہ پرندے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُنہیں پانے سے پہلے نر کی طرف سے کچھ ادا کِیا جائے۔‏ پس ایک نر بیا کو مادہ کی طرف بڑھنے سے پہلے گھونسلے بنانے کی مہارتوں کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔‏ دیگر نر خاندان کیلئے خوراک فراہم کرنے کی اپنی صلاحیت کو ثابت کرنے کیلئے سچ مچ مادہ کیلئے کھانا لاتے ہیں۔‏

جن پیچیدہ طریقوں سے جانور آپس میں رابطہ رکھتے ہیں اُس سے نہ صرف اُنکی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ جنگل میں لڑائی‌جھگڑے میں کمی ہوتی ہے اور اَمن کو فروغ ملتا ہے۔‏ جانوروں میں رابطے پر مزید تحقیق کے ذریعے ہمیں اس ”‏نطقِ‌حیوانی“‏ کی بابت اَور بہت کچھ سیکھنا ہے۔‏ اگرچہ ہم اسے پوری طرح نہیں سمجھ سکے تو بھی یہ انکے خالق یہوواہ خدا کیلئے جلال کا باعث ضرور ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸،‏ ۱۹ پر بکس/‏تصویریں]‏

ہاتھی ”‏خامشی میں شور“‏

کینیا میں وسیع‌وعریض ایم‌بوسلی نیشنل پارک میں ایک کڑی دوپہر کے وقت،‏ ہاتھیوں کا ایک بڑا غول کسی بھی مداخلت سے لاپرواہ نظر آتا ہے۔‏ تاہم،‏ فضا ”‏ہاتھیوں کی گفتگو“‏ سے گونج رہی ہے جس میں دھیمی آواز کیساتھ ساتھ،‏ اُونچی آوازیں،‏ دھاڑیں،‏ تیز آوازیں اور غراہٹیں شامل ہیں۔‏ بعض آوازیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسانی کانوں سے نہیں سنی جا سکتی اور پھر بھی اتنی تیز ہوتی ہیں کہ میلوں دُور ہاتھی بھی اسے سُن سکتا ہے۔‏

جانوروں کے رہن‌سہن کے ماہرین اُن پیچیدہ طریقوں کی بابت پریشان ہیں جن سے ہاتھی سنجیدہ نوعیت کے پیغامات منتقل کرتے ہیں۔‏ جوئس پولی نے افریقی ہاتھیوں میں رابطے کے ایسے نظریات کا مطالعہ کرنے میں ۲۰ برس سے زیادہ عرصہ صرف کِیا ہے۔‏ وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اپنے خوبصورت نوکیلے دانتوں کیلئے مشہور یہ مہیب مخلوق ایسے جذبات کا اظہار کرتی ہے جو بہت کم جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔‏ پولی کے مطابق ”‏ہاتھیوں کو اپنے خاندانی دائرے کے اندر یا گروہ کے درمیان ایک دوسرے سے ملتے یا کسی بچے کی پیدائش پر دیکھنا واقعی ایک حیران‌کُن ہے .‏ .‏ .‏ کوئی بھی شخص باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ وہ بڑے گہرے جذبات ہوتے ہیں جن میں خوشی،‏ محبت،‏ دوستی،‏ جوش،‏ لطف‌اندوز ہونا،‏ ترس کھانا،‏ تسکین حاصل کرنا اور احترام ظاہر کرنا شامل ہے۔‏

کافی عرصہ دُور رہنے کے بعد جب یہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اُنکی ملاقات افراتفری میں بدل جاتی ہے کیونکہ سب سر اُوپر کو کئے اور کانوں کو موڑے ہوئے اور زورزور سے ہلاہلا کر ایک دوسرے کی طرف لپکتے ہیں۔‏ بعض‌اوقات تو ایک ہاتھی اپنی سونڈ دوسرے کے مُنہ میں ڈال دیتا ہے۔‏ یہ میل‌جول اُنہیں بےانتہا خوشی بخشتا ہے،‏ گویا وہ کہہ رہے ہوں،‏ ”‏واہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی!‏“‏ ایسی قربت وہ نظام فراہم کرتی ہے جو اُنکی بقا کیلئے ضروری ہے۔‏

ایسا لگتا ہے ہاتھیوں میں مزاح کی حس بھی موجود ہے۔‏ پولی بیان کرتی ہے کہ اُس نے ہاتھیوں کو ایسا مُنہ بناتے دیکھا ہے جو اُس کے خیال میں مسکرانے کی دلالت کرتا ہے اور اپنے سروں کو اسطرح سے ہلاتے دیکھا ہے جیسے خوشی کا اظہار کر رہے ہوں۔‏ ایک مرتبہ اُس نے ایک ایسے کھیل کا آغاز کِیا تھا جس میں جانور بھی شریک تھے اور ۱۵ منٹ تک اُنہوں نے بالکل مضحکہ‌خیز انداز اپنائے رکھا۔‏ دو سال بعد،‏ کھیل میں شریک کچھ ہاتھی اُسکی شمولیت کو یاد کرکے ”‏مسکراتے“‏ ہوئے دکھائی دئے۔‏ ہاتھی نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہیں بلکہ آوازیں بھی نکالتے ہیں۔‏ تحقیق کے دوران پولی نے ایک ایسی آواز سنی جو معمول کی آوازوں سے ذرا ہٹ کر تھی۔‏ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ دراصل ہاتھی قریب سے گزرنے والے ٹرک کی آواز کی نقل اُتار رہے تھے۔‏ نیز صاف ظاہر ہے کہ وہ محض مزاح کی خاطر ایسا کر رہے تھے!‏ یہ ایسے ہے گویا ہاتھی خوش ہونے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔‏

جب خاندان کے کسی فرد پر مشکل آتی ہے تو ہاتھیوں کے نوحہ‌کناں ہونے کی بابت بہت کچھ کہا جاتا ہے۔‏ ایک مرتبہ پولی نے دیکھا کہ ایک مادہ ہاتھی تین دن تک اپنے مُردہ بچے کے پاس کھڑی رہی اور وہ اسے یوں بیان کرتی ہے:‏ اُسکے ”‏چہرے کے تاثرات“‏ کسی غمزدہ،‏ مایوس شخص کی مانند تھے:‏ اُسکا سر اور کان جھکے ہوئے تھے اور اُسکا چہرا اُترا ہوا تھا۔‏“‏

جو لوگ ہاتھی دانت حاصل کرنے کیلئے ہاتھیوں کو مارتے ہیں وہ اُس ’‏نفسیاتی درد‘‏ سے واقف نہیں جو ماں کو مرتے دیکھ کر اُسکے یتیم بچوں کے چہروں سے عیاں ہوتا ہے۔‏ یہ بچے شروع کے چند دن یتیم جانوروں کیلئے بنائے گئے گھروں میں اپنے ”‏غم“‏ پر قابو پانے میں گزار دیتے ہیں۔‏ ایک رکھوالا بیان کرتا ہے کہ اُس نے صبح کے وقت بچوں کی ”‏چیخیں“‏ سنیں ہیں۔‏ موت کے کئی سال بعد بھی ایسا ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔‏ پولی کا خیال ہے کہ ہاتھی یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اُنکی تکالیف کا ذمہ‌دار انسان ہی ہے۔‏ ہم اُس وقت کے منتظر ہیں جب انسان اور جانور مل‌جل کر امن سے رہینگے۔‏—‏یسعیاہ ۱۱:‏۶-‏۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

کیپ گانٹ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

ایک چکارا دُشمن کو دھوکا دینے کیلئے بڑے جوش میں ناچ رہا ہے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

چرخ کی غیرمعروف ”‏ہنسی“‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Joe McDonald ©

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

شہد کی مکھی کا رقص