پرلز کی بندرگاہ پر خزانے کی تلاش
پرلز کی بندرگاہ پر خزانے کی تلاش
آسٹریلیا سے جاگو! کا رائٹر
بروم آسٹریلیا کے شمالمغرب میں ایک قصبہ ہے جو ریت اور پانی سے گھرا ہوا ہے۔ جنوبمشرق میں، آسٹریلیا کے وسط کی طرف گریٹ سینڈی ڈیزرٹ پھیلا ہوا ہے۔ مغرب میں مڈغاسکر کے ساحلوں تک بحرِہند پھیلا ہوا ہے۔ برّاعظم کے اس شمالمغربی حصے میں اکثر گردابی طوفان اُٹھتے رہتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب بروم کے حاری پانیوں میں اتنی زیادہ صدفہگاہیں تھیں کہ بروم پرلز (موتیوں) کی بندرگاہ کے طور پر مشہور ہو گیا۔ قزاق، غلام اور موتیوں کے بیوپاری بروم کی رنگین تاریخ کا بڑا حصہ ہیں۔
ایک سمندری قزاق کی دریافت
اگرچہ ایک ڈچمین ڈرک ہارٹوگ نے دُنیا کے اس دُوراُفتادہ علاقے کو ۱۶۱۶ میں دریافت کر لیا تھا، تاہم آسٹریلیا کا مغربی ساحل ۱۶۸۸ تک نسبتاً غیرمعروف ہی رہا۔ اُس سال میں انگریز مصنف، آرٹسٹ اور سمندری قزاق ولیم ڈیمپیئر مسلح جہاز سگنیٹ پر سوار اچانک اس ساحل پر پہنچ گیا۔ گھر واپس پہنچ کر، ڈیمپیئر نے اپنے تجربات شائع کئے۔ اُسکی تحریروں اور تصویروں نے اُسکے ملک کے لوگوں کی اتنی زیادہ توجہ حاصل کی کہ برطانوی بحریہ نے اُسے ایک بحری جہاز دیتے ہوئے نیو ہالینڈ یعنی آسٹریلیا کے نامعلوم علاقوں کی دریافت کے سلسلے میں بحری سفر پر روانہ کر دیا۔
نیوی کے جہاز روبک پر ڈیمپیئر کے بحری سفر کو ناکام خیال کِیا گیا۔ کوئی نیا ملک دریافت نہ ہو سکا اور یہ سفر اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب جہاز ٹوٹپھوٹ کے بعد ڈوب گیا۔ ڈیمپیئر بچ گیا اور اپنے سفروں کے ریکارڈ میں اُس نے ایک صدفے کی دریافت کا ذکر کِیا۔
خون اور بٹنوں سے حاصلکردہ
ڈیمپیئر کی دریافت کی اہمیت کا اندازہ ہونے تک ۱۶۰ سال مزید گزر گئے۔ سن ۱۸۵۴ میں موتیوں کی تلاش اُس علاقے میں شروع کی گئی جسے ڈیمپیئر نے شارک بے کا نام دیا تھا مگر اس مہم میں محض جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ اسی دوران، نکول بے کے پانیوں میں ایک بڑا صدفہ پنکٹاڈا میکسیما دریافت ہوا۔ بڑی پلیٹ کے سائز کے اس صدفے نے دُنیا کا مادر صدفہ فراہم کِیا جسکی بٹن تیار کرنے کی صنعت میں بڑی مانگ تھی۔
سن ۱۸۹۰ کے دہے میں، تقریباً ۰۰۰،۴۰،۱ انگلش پاؤنڈ کی مالیت کے مادر صدفے ہر سال بروم کی صدفہگاہوں سے انگلینڈ بھیجے جا رہے تھے۔ اگرچہ اِن صدفوں میں سے بہت سے قیمتی موتی مل رہے تھے تو بھی یہ جواہر اضافی فائدہ سمجھے گئے۔ اصل دولت تو صدفے کی وجہ سے حاصل ہو رہی تھی جسے اسکے ابتدائی تاجروں نے جمع کر لیا تھا جو کہ اکثروبیشتر خون کے عوض حاصل کی جا رہی تھی۔
شروع میں موتیوں کے تاجروں نے مقامی قدیم باشندوں یعنی ابرجنیوں کو موتی تلاش کرنے والے غوطہخوروں کے طور پر استعمال کِیا جنہوں نے اس کام میں فوراً مہارت حاصل کر لی۔ مگر موتیوں کیلئے غوطہخوری ایک خطرناک کام ہے اور کئی ایک غوطہخور ڈوب کر یا شارک مچھلیوں کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ بیشتر غوطہخور اپنے آجروں کی طرف سے مشقتطلب کام کے سلسلے میں عائدکردہ نامعقول پابندیوں کے نتیجے میں بھی مارے گئے۔ ابرجنی کارندوں کی مدد کیلئے ملائشیا اور جاوا سے بھی غوطہخور منگوائے گئے۔ جب سطحی صدفہگاہیں خالی ہو گئیں تو حال ہی میں ایجادکردہ غوطہخور ہلمٹ کے ذریعے گہرے پانیوں میں اسکی تلاش شروع ہو گئی۔
”سدوم اور عمورہ“ کا سا حال
بروم کے بحری بیڑے میں ۴۰۰ سے زائد ہتھیاربند ہو گئے۔ ایشیائی، یورپی اور ابرجنی دستورات نے ایک منفرد اور غیرقانونی معاشرتی گروہ کو تشکیل دے دیا۔ موتیوں کے ایک تراشندہ نے اُس وقت کی صورتحال کو کیا خوب بیان کِیا: ”بروم ایک متموّل، خطاکار اور روادار علاقہ تھا جہاں مذہبی رہنماؤں کی طرف سے سدوم اور عمورہ کے نام مستقبل میں الہٰی سزا کی بابت آگاہیوں کی بجائے، معاشرتی ترقی کیلئے موزوں خیال کئے جاتے تھے۔“
تاہم، پہلی عالمی جنگ چھڑ جانے سے، مادر صدفوں کی عالمی تجارت تباہ ہو گئی اور اچانک ہی بروم کا دیوالیہ ہو گیا۔ اس صنعت کو دونوں عالمی جنگوں کے درمیان تھوڑا سا سر اُٹھانے کا موقع ملا مگر دوسری عالمی جنگ کے بعد بروم کو ایک اَور دھچکا لگا۔ پلاسٹک ایجاد ہو گیا اور پلاسٹک کے بٹنوں نے بہت جلد مادر صدفوں کی مانگ کو کم کر دیا۔
قیمتی ’سمندری ہیروں‘ کی صنعت
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ایک آسٹریلوی وفد نے آگو جاپان میں پرل کلچر فارمز کا دورہ کِیا۔ وہاں کوکیچی مکیموٹو نے صدفوں میں مصنوعی سنگریزے داخل کرنے سے موتیوں کی نمونہسازی کے فن کو جلا بخشی۔ کتاب پورٹ آف پرلز بیان کرتی ہے کہ مکیموٹو نے آسٹریلیا کے باشندوں کو بتایا کہ ”وہ اپنے گرم پانیوں میں بڑے آسٹریلوی صدفوں میں ان سے اچھے موتی تیار کر سکتے ہیں۔“ اُس کی مشورت پر عمل کِیا گیا اور ۱۹۷۰ کے دہے میں آسٹریلوی صدفہگاہیں دُنیا کے چند بڑے بڑے اور انتہائی قیمتی موتی تیار کر رہی تھیں۔
دُنیا کے بیشتر حصوں میں تیار کئے جانے والے موتیوں کا سائز اگرچہ قطر میں ۱۱ ملیمیٹر ہوتا ہے تاہم، ساؤتھ سی پرلز کا سائز ۱۸ ملیمیٹر ہو سکتا ہے۔ اِن بڑے موتیوں کی محض ایک لڑی کی قیمت ۰۰۰،۰۰،۵ ڈالر ہو سکتی ہے۔ بِلاشُبہ اسی لئے اِن کروی موتیوں کو سمندری ہیرے کہا جاتا ہے!
[صفحہ ۱۴ پر تصویریں]
ولیم ڈیمپیئر
بروم کے شمالی ساحل پر موتیوں کی تلاش کرنے والا غوطہخور
صدفے سے موتی نکالنے والا ماہر
موتی جمع کرنے والی ایک ابتدائی کشتی جسے اچھی حالت میں لایا گیا ہے
موتی مختلف رنگوں میں دستیاب ہیں (تصویر بڑی کی گئی ہے)
[تصویروں کے حوالہجات]
William Dampier: By permission of the National Library of
- Australia - Rex Nan Kivell Collection, NK550; diver: © C. Bryce
Lochman Transparencies; necklace and expert: Courtesy Department
of Fisheries WA, J. Lochman; ship: Courtesy Department of
Fisheries WA, C. Young; pearls close-up: Courtesy Department of
Fisheries WA, R. Rose