دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
نوزائیدہ زندگیاں بچانا
ہر سال، چار ملین بچے اپنی پیدائش کے بعد ایک مہینے کے اندر اندر وفات پا جاتے ہیں۔ یہ نومولودی اموات ”پانچ سال سے کم عمر بچوں کے ۴۰ فیصد کو تشکیل دیتی ہے،“ جرمن رسالہ بلڈ ڈر وسشنشافٹ رپورٹ پیش کرتا ہے۔ نوزائیدہ زندگیاں بچانے کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟ ”دُنیا کے نوزائیدگان کی حالت“ پر مشتمل تحقیق میں بچوں کو گرم رکھنے اور پیدائش کے فوراً بعد بیماری کے خلاف قوتِمدافعت فراہم کرنے والے ماں کے دودھ جیسے سادہ اور کمقیمت طریقے تجویز کئے گئے ہیں۔ حاملہ خواتین کی صحت کو بہتر بنانے سے بھی نوزائیدگان کی اموات کو روکا جا سکتا ہے کیونکہ ایسی خواتین اکثر کام کی زیادتی اور مناسب خوراک کی کمی کا شکار ہونے کے علاوہ شاید پہلی زچگی کے اثرات سے ہی پوری طرح نکل نہیں پاتیں۔ ”ترقی پذیر ممالک میں، جہاں ۹۸ نومولود وفات پا جاتے ہیں،“ وہاں مقامی خواتین کو دائینرس کی بنیادی مہارتیں سکھائی جا سکتی ہیں۔ ”اُنکا بنیادی کام حاملہ ماؤں کو تربیت دینا، مناسب حفظانِصحت کا خیال رکھنا اور حفاظتی ٹیکے لگانا ہوگا،“ مطالعہ بیان کرتا ہے۔
ٹمٹماتے روشنی کے مینار
”جیسے مومبتی کی جگہ بلب نے لے لی تھی بالکل اُسی طرح تیز روشنی کے میناروں کے پہریداروں کی جگہ خودکار روشنی کے میناروں نے لے لی ہے،“ فنانشل پوسٹ نیوزپیپر بیان کرتا ہے۔ ”اب ایسا لگتا ہے کہ گویا روشنی کے اِن خودکار میناروں کے دن بھی گنے جا چکے ہیں۔“ اگرچہ جدید روشنی کے مینار ایسی تیز روشنیاں پھینکتے ہیں جنہیں سمندر کے اندر ۲۰ میل کے فاصلے سے دیکھا جا سکتا ہے اور اس میں ایک خودکار بگل بھی لگا ہوتا ہے جو جہازرانوں کو آگاہ کرتا ہے کہ کنارہ بہت قریب ہے تاہم سیٹلائٹ ٹیکنالوجی ملاحوں کو درست مقام کی نشاندہی کرنے قابل بناتی ہے۔ جہاز گلوبل پوزیشننگ سسٹمز سے لیس ہوتے ہیں جو کہ جہاز کیلئے آنکھ کا کام دیتے ہیں جب عملہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ آگے کیا ہے۔ کینیڈین کوسٹ گارڈ نیوفونڈلینڈ کا پروگرام مینیجر مائک کلیمنٹس بیان کرتا ہے کہ گلوبل پوزیشننگ سسٹم نے ”سینٹ جانز کے شہر میں روشنی کے میناروں کی تعداد میں بڑا اضافہ کر دیا ہے۔ کوئی چیز [اِن نظاموں] کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اب آپ راستہ تلاش کرنے کے لئے اِن میناروں کا سہارا نہیں لے سکتے۔“
بچوں کا رابطہ رکھنے کا طریقہ
لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے، ”جیسے قوتِسماعت رکھنے والے والدین کے بچے تقریباً سات ماہ کی عمر میں غوںغاں کرنے لگتے ہیں اُسی طرح قوتِسماعت سے محروم گھرانے میں پرورش پانے والے بچے بھی اپنے والدین کی نقل میں رابطے کے بنیادی ذریعے یعنی خاموشی سے اشاروں میں باتیں کرنے لگتے ہیں،“ خواہ یہ بچے سنتے بھی ہوں۔ میکگل یونیورسٹی، مونٹریل کینیڈا کی پروفیسر لورا پٹیٹو کے زیرِقیادت ریسرچ تجویز کرتی ہے کہ بچے اشاروں کی زبان سمیت تمام زبانوں کی آوازوں کے مخصوص توازن اور نمونے کیلئے حساسیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اُسکے مطابق جو بچے سُن سکتے ہیں وہ ”قوتِسماعت سے محروم، اشاروں کی زبان استعمال کرنے والے والدین کیلئے اپنے ہاتھوں سے خاص قسم کے مخصوص انداز میں اشارے کرتے ہیں جو ہاتھ کی دیگر حرکات سے مختلف ہوتے ہیں۔ . . . وہ اپنے ہاتھوں کی مخصوص حرکات کے ساتھ غوںغاں کرتے ہیں۔“ جن بچوں کے سامنے اشاروں کی زبان کا استعمال کِیا گیا وہ اپنے ہاتھوں کو دو طرح سے حرکت دے رہے تھے جبکہ جنکے والدین بول سکتے تھے وہ صرف ایک طرح کی حرکت دے رہے تھے۔ ریسرچ ٹیم نے ۶، ۱۰ اور ۱۲ مہینوں کے بچوں کے ہاتھوں کی حرکات کو ریکارڈ کرنے کیلئے پوزیشن-ٹریکنگ سسٹم استعمال کِیا۔
بحرِمُردار کے طوماروں کی اشاعت
یو.ایس.نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”جیوڈیئن ڈیزرٹ کی غاروں میں بحرِمُردار کے طومار ملنے کے تقریباً نصف صدی بعد، سکالر ۰۰۰،۲ سال پُرانے شائع ہونے والے آخری مذہبی مسودوں کا جشن منا رہے ہیں۔“ اِن طوماروں کا تجزیہ کرنے والی سکالرز کی ٹیم کی قیادت کرنے والے پروفیسر عمانوایل ٹوو نے اس اشاعت کو ۳۷ جِلدوں پر مشتمل قرار دیا۔ اس کام کی تکمیل کا اعزاز جدید ٹیکنالوجی کو دیا گیا جس میں ڈیجیٹل فوٹوگرافی اور ملٹیسپکٹرل ایمجنگ شامل ہے جس نے سکالرز کو معدوم ہونے والی اس تحریر کو پڑھنے کے قابل بنایا تھا۔ عبرانی، ارامی، یونانی اور لاطینی سے ترجمہشُدہ یہ تحریریں ۲۵۰ ق.س.ع. سے ۷۰ س.ع. تک کی ہیں۔
غیریقینی حالتوں کا مقابلہ کرنا
کینیڈا کا گلوب اینڈ میل نیوزپیپر بیان کرتا ہے کہ ریاستہائےمتحدہ میں دہشتگردوں کے حملوں کے بعد سے کرسچین بُکسیلرز ایسوسیایشن آف کینیڈا کے اراکین کی طرف سے بائبل کی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔ ”لوگ جوابات کی تلاش میں سرگرداں ہیں،“ ایسوسیایشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر میرلن لوگہیلن بیان کرتی ہے۔ ”اس میں خوف کا عنصر شامل ہے۔ لوگوں کے دلودماغ میں کئی سوال ہیں جنکا کوئی جواب نہیں ہے۔“ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے کہ کتابوں کی چھوٹی دُکانوں پر بھی ”مذہبی نوعیت کی ہر قسم کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے جو لوگوں کو ان المناک واقعات کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔“ ٹرانٹو کی ایک یونیورسٹی کی تھیالوجی کی ایک پروفیسر کے مطابق یہ ایک عام ردِعمل ہے۔ وہ کہتی ہے، ”شدید غیریقینی کے اوقات میں، لوگ بنیادی مذہبی سوالات پوچھنا شروع کر دیتے ہیں“ اور ”بائبل سے جواب تلاش کرنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔“
ایڈز—جنوبی افریقہ میں موت کی بنیادی وجہ
جنوبی افریقہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل کی بابت تبصرہ کرتے ہوئے، دی نیو یارک ٹائمز نے بیان کِیا، ”جنوبی افریقہ میں ایڈز موت کی بنیادی وجہ بن گئی ہے۔ محققین کا اندازہ ہے کہ اگلے عشرے میں، پانچ سے سات ملین لوگ ایڈز کی وجہ سے موت کا شکار ہو جائینگے۔ وہ خواتین جو ۶۰ کے دہے میں ہیں اُنکی نسبت ۲۰ کے دہے کی جوان خواتین کی شرحِاموات زیادہ ہے۔ دی نیو یارک ٹائمز کے مضمون کے مطابق، جنوبی افریقہ میں ”کسی دوسرے ملک کی نسبت زیادہ لوگ ایڈز کا باعث بننے والے ایچ. آئی. وی. وائرس سے متاثر ہیں۔“ سرکاری حکام کے مطابق، ”جنوبی افریقہ کے لوگوں میں نو میں سے ایک اور [۳۰-۳۴ سال] کے بالغوں میں چار میں سے ایک اس وقت ایچ. آئی. وی. میں مبتلا ہے۔“
شہروں میں رہنا
لندن کا دی سنڈے ٹائمز بیان کرتا ہے، ”۱۹۹۰ میں لندن، نیو یارک، پیرس، برلن اور شکاگو کا شمار بڑے شہروں میں ہوتا تھا۔“ مگر مستقبل کی بابت حالیہ تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ ”۲۰۱۵ تک مغربی شہر پیچھے رہ جائیں گے۔ ٹوکیو، بمبئی، لاگوس، بنگلادیش میں ڈھاکہ اور برازیل میں ساؤپاؤلو بڑے شہر ہونگے۔“ اِن شہروں کے علاوہ دیگر ۲۵ شہروں کی آبادی ۲۰ ملین سے تجاوز کر جائے گی۔ تاہم، ”تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ ۲۰۱۵ تک لندن کا شمار ۳۰ گنجانآباد شہروں کی بجائے کم آبادی والے شہروں میں ہوگا،“ ٹائمز بیان کرتا ہے۔ آبادی میں دھماکہخیز اضافہ بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یو. ایس. اے. پینسلوانیا کی یونیورسٹی کے سوشیالوجی کے پروفیسر، ڈگلس میسی کے مطابق ”غریب طبقہ جرم کی شرح میں اضافے، تشدد اور معاشی ابتری کی وجہ سے اپنے ہی گردوپیش میں محصور ہو کر رہ جائے گا۔“ ٹوکیو جس کی آبادی ۲۶ ملین ہے، اِس کی بابت توقع کی جاتی ہے کہ جلد ہی ۳۰ ملین کو پہنچ جائے گی، وہ آبادی کی رفتار کے کم رہنے اور ضروری ڈھانچے اور سہولیات کی دستیابی کے باعث قابو پانے کے قابل رہا ہے۔ میسی کے مطابق، رومیوں کے زمانے سے وکٹورین دَور تک، دُنیا کی ۵ فیصد سے بھی زیادہ آبادی شہروں میں نہیں رہتی تھی، لیکن اُس کے اندازے کے مطابق ۲۰۱۵ تک دُنیا کی ۵۳ فیصد آبادی شہروں میں منتقل ہو جائے گی۔
ہمیشہ کیلئے تمباکونوشی ترک کر دیں!
”تمام تمباکونوشی کرنے والوں کو اِس عادت کو ترک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جانے کی صورت میں اِس بات کا یقین کر لیں کہ آپ دوبارہ شروع نہ کریں،“ سویڈن، سٹاکہوم میں نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ورکنگ لائف کا پروفیسر بو لنڈبیک انتباہ کرتا ہے۔ کیوں؟ اِس لئےکہ دوبارہ تمباکونوشی شروع کرنے والوں کی نسبت کبھی تمباکونوشی ترک نہ کرنے والوں کے پھیپھڑے زیادہ تیزی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک ۳۵ سے ۶۸ سال کی عمر کے ۱۱۶،۱ مردوں اور عورتوں کے دس سالہ مطالعے نے ظاہر کِیا کہ جن لوگوں نے مطالعے کے دوران تمباکونوشی جاری رکھی اُن میں سے ۳ فیصد کے پھیپھڑے زیادہ متاثر ہوئے، جبکہ جنہوں نے سال یا اِس سے زیادہ عرصہ سگریٹنوشی بند رکھنے کے بعد دوبارہ شروع کر دی اُن میں سے ۵ فیصد کے پھیپھڑوں کی کارکردگی بڑی تیزی سے متاثر ہوئی۔ ”دوبارہ تمباکونوشی شروع کرنے والوں میں پہلے ایک دو سالوں میں پھیپھڑوں کی کارکردگی زیادہ متاثر ہوتی ہے،“ لنڈبیک نے انتباہ کِیا۔ ”چنانچہ پھیپھڑوں کی کارکردگی کے حوالے سے تمباکونوشی ترک کرنے والے جو نقصان اُٹھاتے ہیں، وہ کبھی اُس کی تلافی نہیں کر سکتے۔“ لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے کہ جنہوں نے دس سالہ مطالعے کے دوران کامیابی کیساتھ تمباکونوشی ترک کردی اُن میں سے صرف ۱ فیصد کے پھیپھڑوں کی کارکردگی متاثر ہوئی۔