مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کائنات اور زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟‏

کائنات اور زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟‏

کائنات اور زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟‏

‏”‏سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔‏“‏ ‏—‏البرٹ آئن‌سٹائن۔‏

ماضی کی نسبت ہمارا زمانہ نہایت حیران‌کُن ہے۔‏ نئی خلائی دریافتیں ماہرینِ‌فلکیات کو کائنات کی ابتدا کی بابت اپنے نظریات پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔‏ بہتیرے لوگ نظامِ‌کائنات سے حیران ہیں اور ہماری موجودگی کی بابت وہی قدیم سوالات دہرا رہے ہیں:‏ کائنات اور زندگی کا آغاز کیسے اور کیوں ہوا؟‏

اگر ہم اس سے ہٹ کر اپنی بابت ہی غور کریں تو انسانی جنیٹک کوڈ کی تازہ‌ترین معلومات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے:‏ زندگی کی متعدد اقسام کی تخلیق کیسے ہوئی تھی؟‏ نیز کس نے اُنہیں خلق کِیا؟‏ ہمارے جنیٹک بلیوپرنٹ کی پیچیدگی نے ایک یو.‏ایس.‏ صدر کو یہ کہنے کی تحریک دی کہ ”‏ہم وہ جنیٹک کوڈ سیکھ رہے ہیں جس کیساتھ خدا نے زندگی کی تخلیق کی تھی۔‏“‏ انسانی جینیات کے ایک بڑے سائنسدان نے انکساری کیساتھ بیان کِیا:‏ ”‏ہم نے اپنی جنین کی بابت معلومات حاصل کرنا شروع کر دی ہیں جو پہلے صرف خدا ہی کو معلوم تھیں۔‏“‏ مگر سوال ابھی تک وہی ہے—‏کیسے اور کیوں؟‏

‏”‏دو دریچے“‏

بعض سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ کائنات کی تمام کارکردگی کو الہٰی حکمت کے بغیر استدلالی تجزیے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔‏ مگر بہتیرے لوگوں سمیت سائنسدان بھی اس نظریے سے مطمئن نہیں ہیں۔‏ وہ سائنس اور مذہب دونوں کے ذریعے حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ سمجھتے ہیں کہ سائنس ہمارے وجود اور ہمارے اردگرد نظامِ‌کائنات کی بابت ’‏کیسے‘‏ کا جواب دیتی ہے جبکہ مذہب بنیادی طور پر ’‏کیوں‘‏ کا جواب دیتا ہے۔‏

اس دوہری رسائی کی وضاحت کرتے ہوئے،‏ ماہرِطبیعات فری‌مین ڈئےسن کہتا ہے:‏ ”‏سائنس اور مذہب دو ایسے دریچے ہیں جن کے ذریعے لوگ اس وسیع‌وعریض کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏“‏

مصنف ولیم ریس‌موگ کے مطابق،‏ ”‏سائنس کا تعلق محدود چیزوں سے ہے جبکہ مذہب کا تعلق لامحدود چیزوں سے ہے۔‏“‏ وہ مزید کہتا ہے:‏ ”‏جس طرح سائنس کسی جمالیاتی نظریے کو نہ تو ثابت کر سکتی ہے اور نہ ہی اسکی نفی کر سکتی ہے بالکل اُسی طرح یہ نہ تو خدا کی موجودگی کو ثابت کر سکتی ہے اور نہ ہی اسکی نفی کر سکتی ہے۔‏ اپنے پڑوسی کو پیار کرنے یا انسانی زندگی کا احترام کرنے کی کوئی سائنسی وجہ نہیں ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ سب سے بڑی غلطی یہ دلیل دینا ہوگی کہ جس چیز کی موجودگی کو سائنسی اعتبار سے ثابت نہیں کِیا جا سکتا اُسکا کوئی وجود ہی نہیں ہے،‏ کیونکہ اس سے نہ صرف خدا یا انسانی وجود بلکہ محبت،‏ شاعری اور موسیقی جیسی زندگی کی تمام چیزیں بھی بےمعنی ہو جائینگی۔‏“‏

سائنس کا ”‏مذہب“‏

سائنسدانوں کے نظریات اکثر ایسی چیزوں پر مبنی ہوتے ہیں جو خاص قسم کے تیقّن کا تقاضا کرتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب زندگی کی ابتدا کی بات آتی ہے تو بیشتر اِرتقاپسند ایسے نظریات کی حمایت کرتے ہیں جو مخصوص ”‏عقائد“‏ پر ایمان کا تقاضا کرتے ہیں۔‏ حقائق اور نظریات کو خلط‌ملط کر دیا جاتا ہے۔‏ نیز جب سائنسدان اِرتقا پر اندھے ایمان کی قوت کو استعمال کرتے ہیں تو وہ دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں:‏ ’‏آپ اپنی اخلاقیت کے ذمہ‌دار نہیں کیونکہ آپ تو محض حیاتیات،‏ کیمیا اور طبیعات کی پیداوار ہیں۔‏‘‏ ماہرِحیاتیات رچرڈ ڈوکنز کہتا ہے کہ کائنات میں ’‏نہ تو کوئی ترتیب،‏ نہ مقصد،‏ نہ اچھائی نہ بُرائی ہے،‏ محض تعدیل پائی جاتی ہے۔‏‘‏

ایسے اعتقادات کی پُشت‌پناہی کیلئے،‏ بعض سائنسدان اُن سائنسدانوں کی وسیع تحقیق کو مسترد کرنے کا انتخاب کرتے ہیں جنکے نظریات زندگی کی ابتدا کی بابت اُنکے نظریات کے برعکس ہوتے ہیں۔‏ اگر ہم کروڑوں سال کا عرصہ بھی مان لیں توبھی ایک فعال حیاتیاتی خلیے کو تشکیل دینے کیلئے مالیکیولز کی پیچیدہ اور اچانک موجودگی ریاضی کے اعتبار سے ناممکن ثابت کی گئی ہے۔‏ * لہٰذا،‏ زندگی کی ابتدا کی بابت راسخ نظریات جو بیشتر نصابی کتابوں میں نظر آتے ہیں غیرمستند خیال کئے جانے چاہئیں۔‏

زندگی کی ابتدا محض اتفاق تھی،‏ اِس اعتقاد کیلئے تخلیق پر اعتقاد سے زیادہ ایمان کی ضرورت ہے۔‏ ماہرِفلکیات ڈیوڈ بلاک کہتا ہے:‏ ”‏جو شخص خالق پر ایمان نہیں رکھتا اُسے اُس شخص کی نسبت زیادہ ایمان کی ضرورت ہے جو ایسا کرتا ہے۔‏ یہ کہنے سے کہ کوئی خدا نہیں،‏ ایک شخص غیرمصدقہ نظریات پر مبنی عمومی دعویٰ کرتا ہے۔‏“‏

سائنسی دریافتیں بعض سائنسدانوں کے اندر مؤدبانہ میلان پیدا کر سکتی ہیں۔‏ البرٹ آئن‌سٹائن نے تسلیم کِیا:‏ ”‏آپ کو ٹھوس سائنسی دماغوں میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے جو اپنے اندر کسی نہ کسی قسم کے مذہبی احساسات نہ رکھتا ہو۔‏ .‏ .‏ .‏ قانونِ‌فطرت کی ہم‌آہنگی دیکھ کر مذہبی احساس ایک ناقابلِ‌بیان حیرانی کی شکل اختیار کر لیتا ہے کیونکہ اس سے ایسی اعلیٰ درجے کی ذہانت ظاہر ہوتی ہے جس کے سامنے انسانوں کی ترتیب‌یافتہ سوچ اور کارگزاری بالکل غیراہم بن جاتی ہے۔‏“‏ تاہم،‏ ضروری نہیں کہ اس سے سائنسدان خالق،‏ ایک شخصی خدا پر ایمان ظاہر کرنے لگیں۔‏

سائنس کی حدبندیاں

سائنسی علوم اور کامرانیوں کیلئے مناسب احترام ظاہر کرنا موزوں ہے۔‏ تاہم،‏ بیشتر اس بات سے اتفاق کرینگے کہ سائنس چیزوں کو جاننے کا ایک ذریعہ ہے مگر یہ علم کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔‏ سائنس کا مقصد فطری عالم کے کسی مظہر کو بیان کرنا اور یہ سمجھنے میں مدد دینا ہے کہ یہ کیسے وقوع‌پذیر ہوا۔‏

سائنس ہمیں طبیعی کائنات کی بابت بصیرت فراہم کرتی ہے یعنی ہر اُس چیز کی بابت جسے ہم دیکھ سکتے ہیں۔‏ مگر سائنسی تحقیق‌وتفتیش خواہ کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو یہ کبھی بھی اس چیز کے مقصد سے متعلق اس سوال کا واضح جواب نہیں دے سکتی کہ یہ کائنات کیوں وجود میں آئی تھی۔‏

‏”‏چند ایسے سوال بھی ہیں جن کا سائنسدان کبھی جواب نہیں دے سکے،‏“‏ مصنف ٹام یوٹلی کہتا ہے۔‏ ”‏ممکن ہے کہ ۱۲ بلین سال قبل مادے کا ایک بہت بڑا دھماکا ہوا تھا۔‏ مگر یہ کیوں ہوا؟‏ .‏ .‏ .‏ سب سے پہلے تو مادے کے یہ ذرّات کہاں سے آئے تھے؟‏ اس سے پہلے وہاں کیا تھا؟‏“‏ یوٹلی اس نتیجے پر پہنچا:‏ ”‏یہ بالکل صاف نظر آ رہا ہے کہ سائنس کبھی بھی انسانوں کے اِن سوالات کے جواب نہیں دے سکے گی۔‏“‏

خدا کی ضرورت کو غلط ثابت کئے بغیر اسقدر تجسّس سے حاصل ہونے والے سائنسی علم نے صرف حیران‌کُن اور پیچیدہ اور عجیب‌وغریب دُنیا کی تصدیق کی ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔‏ بیشتر صاحبِ‌فہم یہ جان کر خوش ہوتے ہیں کہ طبیعی قوانین اور کیمیائی عوامل نیز ڈی‌این‌اے اور حیران‌کُن حیاتی‌انواع خالق کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔‏ کوئی ایسا ثبوت نہیں جو اس حقیقت کی نفی کرتا ہو۔‏

‏’‏ایمان حقیقی ہے‘‏

اگر کائنات کا کوئی خالق ہے تو ہم اُسے اور اُسکے مقاصد کو خوردبینوں،‏ دُوربینوں یا دیگر سائنسی آلات کے ذریعے جاننے کی توقع نہیں کر سکتے ہیں۔‏ ذرا ایک کمہار اور اُس کے بنائے ہوئے گلدان کی بابت سوچیں۔‏ آپ اس گلدان کا جتنا بھی جائزہ لیں،‏ یہ آپکو نہیں بتا سکتا کہ اسے کیوں بنایا گیا تھا۔‏ اس کیلئے ہمیں خود کمہار سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔‏

سالماتی ماہرِحیاتیات فرانسس کولنز بیان کرتا ہے کہ کیسے ایمان اور روحانیت اُس خلا کو پُر کر سکتے ہیں جو سائنس نے چھوڑا ہے:‏ ”‏مَیں مذہب سے یہ توقع نہیں کرونگا کہ انسانی حیاتیات کے سلسلے کو سمجھنے کیلئے درست آلۂ‌کار ثابت ہو اور اسی طرح سائنس کو مافوق‌اُلفطرت قوتوں کی بابت جاننے کا موزوں ذریعہ نہیں سمجھوں گا۔‏ مگر ’‏ہم کیوں یہاں ہیں؟‏‘‏ یا ’‏انسان کیوں روحانیت کے مشتاق ہیں؟‏‘‏ جیسے دلچسپ اور بڑے سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے مَیں نے سائنس کو واقعی غیرتسلی‌بخش پایا ہے۔‏ کئی مرتبہ توہم‌پرستی نے سر اُٹھایا مگر پھر ختم ہو گئی۔‏ مگر ایمان جوں کا تُوں ہے جسکا مطلب ہے کہ یہ حقیقی ہے۔‏“‏

کیوں کا جواب دینا

سچا مذہب کیوں کا جواب دینے اور زندگی کے مقصد کی بابت بیان کرنے کیساتھ ساتھ اقدار،‏ اخلاقیات اور ضابطۂ‌اخلاق نیز زندگی میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔‏ سائنسدان ایلن سینڈایج اسے یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں یہ جاننے کیلئے کہ زندگی کیسے بسر کرنی چاہئے حیاتیات کی کسی کتاب کی طرف رُجوع نہیں کرتا۔‏“‏

لاکھوں لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں یہ پتا چل گیا ہے کہ زندگی بسر کرنے کا طریقہ جاننے کیلئے اُنہیں کہاں جانا چاہئے۔‏ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے ایسے سوالات کے حقیقی اور اطمینان‌بخش جواب حاصل کر لئے ہیں:‏ ہم یہاں کیوں ہیں؟‏ نیز ہم کس طرف جا رہے ہیں؟‏ اِن سولات کے جواب تو موجود ہیں مگر کہاں؟‏ سب سے قدیم اور سب سے زیادہ تقسیم ہونے والی مُقدس کتاب،‏ بائبل میں اِن سوالوں کے جواب موجود ہیں۔‏

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ خدا نے زمین کو خاص طور پر انسانوں کے لئے تیار کِیا تھا۔‏ یسعیاہ ۴۵:‏۱۸ زمین کی بابت بیان کرتی ہے:‏ ”‏خدا .‏ .‏ .‏ نے اُسے عبث پیدا نہیں کیا بلکہ اُسکو آبادی کیلئے آراستہ کیا۔‏“‏ علاوہ‌ازیں اُس نے زمین پر نہ صرف لوگوں کے زندہ رہنے کیلئے بلکہ زندگی سے بھرپور لطف اُٹھانے کیلئے بھی ضروری چیزوں کا بندوبست کِیا۔‏

انسان کو زمین پر اختیار سونپا گیا کہ ”‏اُسکی باغبانی اور نگہبانی کرے۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۵‏)‏ بائبل یہ بھی بیان کرتی ہے کہ علم اور حکمت خدا کی طرف سے بخشش ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کیساتھ محبت اور انصاف سے پیش آنا ہے۔‏ (‏ایوب ۲۸:‏۲۰،‏ ۲۵،‏ ۲۷؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۲۰-‏۲۳‏)‏ پس انسان اپنے لئے خدائی مقصد کو سمجھنے اور تسلیم کرنے ہی سے زندگی کے مقصد اور اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔‏ *

ایک جدید مفکر سائنسی استدلال اور مذہبی عقیدے کے مابین واضح فرق کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟‏ کونسے رہبر اُصول ایک شخص کو ایسا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 11 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب اِز دیئر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟‏‏،‏ کے باب ۳ ”‏زندگی کی ابتدا کیسی ہوئی؟‏“‏ کا مطالعہ کریں۔‏

^ پیراگراف 26 تفصیلی معلومات کیلئے یہوواہ کے گواہوں کے شائع‌کردہ بروشر وَٹ اِز دی پرپز آف لائف؟‏ ہاؤ کین یو فائنڈ اِٹ؟‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس/‏تصویریں]‏

بعض سائنسدانوں کی رائے

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بیشتر سائنسدان روحانیت اور مذہب کے مسئلے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ نہ مذہبی ہوتے ہیں اور نہ ہی خود کو سائنس اور مذہب کے مابین تنازع میں اُلجھانا چاہتے ہیں۔‏ بعض سائنسدانوں کی بابت ایسا کہا جا سکتا ہے مگر سب کیلئے نہیں۔‏ غور کریں بعض سائنسدان کیا کہتے ہیں۔‏

‏”‏کائنات کی ابتدا تو ہوئی مگر سائنسدان اِسکی وجہ نہیں بتا سکتے۔‏ صرف خدا جانتا ہے۔‏“‏”‏مَیں بائبل کو سچی اور خدا کی طرف سے الہامی کتاب سمجھتا ہوں۔‏ زندگی کی اس پیچیدگی کے پیچھے یقیناً کوئی ذہین ہستی موجود ہے۔‏“‏—‏یو.‏ایس.‏ جیولاجیکل سروے میں پلینٹری جیولاجسٹ،‏ کین ٹانیکا۔‏

‏”‏مختلف اقسام کے علوم (‏سائنسی اور مذہبی)‏ کے مابین خلا قدرے مصنوعی ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ خالق اور مخلوق کی بابت علم میں گہرا تعلق ہے۔‏“‏—‏نیشنل آٹونومس یونیورسٹی آف میکسیکو میں ڈیپارٹمنٹ آف فزکس اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر اور محقق،‏ اینرک ہرنانڈز۔‏

‏”‏جوں جوں ہم [‏انسانی حیاتیات کی بابت]‏ معلومات حاصل کرتے ہیں،‏ یہ اس تمام مادے کی پیچیدگی اور باہمی انحصار کو آشکارا کرتی ہیں۔‏ یہ انجام‌کار ذہین خالق،‏ ایک ذی‌شعور ہستی کی طرف سے ابتدا کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔‏“‏—‏بائیوکیمسٹ،‏ ڈیون ٹی.‏ گِش.‏

‏”‏سائنس اور مذہب میں کسی قسم کی غیرہم‌آہنگی نہیں ہے۔‏ دونوں ایک ہی سچائی کی تلاش میں ہیں۔‏ سائنس ثابت کرتی ہے کہ خدا موجود ہے۔‏“‏—‏ڈی.‏ایچ.‏آر.‏ بارٹن،‏ پروفیسر آف کیمسٹری،‏ ٹیکساس۔‏

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

NASA/U.S. Geological Survey

Photo: www.comstock.com

‏(NASA and The Hubble Heritage Team )‎STScI/AURA‎

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویریں]‏

کیا سائنسی تحقیق اس بات کا جواب دیتی ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy Arecibo Observatory/David Parker/Science Photo Library

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر کا حوالہ]‏

Stars on pages 2, 3, 5, and top of page 7: National Optical

Astronomy Observatories