کیا مسیحیوں کو منادی کرنی چاہئے؟
بائبل کا نقطۂنظر
کیا مسیحیوں کو منادی کرنی چاہئے؟
شاید آپ نے ایک ایسی تہذیب میں تربیت پائی ہو جہاں آپکو یہ تعلیم دی گئی ہو کہ خاندان اور چرچ سے باہر مذہب پر گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔ نتیجتاً اگر کوئی غیرمتوقع طور پر آپکے گھر آ کر بائبل پر باتچیت کرنا چاہے تو آپ ناراض ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگ اسی طرح محسوس کرتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے دیکھا ہے کہ تاریخ میں لوگوں نے جان بچانے کے کاموں کے پسِپردہ دوسروں کا مذہب بدلنے کیلئے تشدد سے کام لیا ہے۔
بہت سی اقوام کی تاریخ ہمیں لوگوں کے مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں بتاتی ہے۔ اِسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ مسیح سے محبت رکھتے تھے بلکہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر اُنہوں نے اپنا مذہب تبدیل نہ کِیا تو اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا جائیگا۔ کئی لوگ مذہب بدلنے کی بجائے چھپ گئے، اپنا گھربار بلکہ مُلک بھی چھوڑ گئے اور بعض تو اپنی زندگیاں بھی کھو بیٹھے اور اُنہیں جلا دیا گیا تھا۔
بائبل زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی حمایت نہیں کرتی۔ پس کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ مذہب پر باتچیت نہیں کرنی چاہئے۔ بائبل خود اِس کا جواب دیتی ہے۔
اختیار کیساتھ تعلیم دینا
سب سے پہلے، یسوع کے نمونے پر غور کریں۔ اُس نے ایک ماہر اُستاد کے طور پر اپنے سامعین کی زندگیوں پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ (یوحنا ۱۳:۱۳، ۱۵) یسوع کے پہاڑی وعظ میں اُسکی تعلیم آسان مگر جاندار تھی۔ اِس کا اثر یہ تھا کہ اُس کے سامعین ’اُس کی تعلیم سے حیران تھے۔ کیونکہ وہ . . . صاحبِاختیار کی طرح اُنکو تعلیم دیتا تھا۔‘ (متی ۷:۲۸، ۲۹) کوئی ۰۰۰،۲ سال بعد بھی ہماری زندگیاں اُس کی تعلیم سے اثرپذیر ہیں۔ پروفیسر ہنس ڈیٹور بیٹز اِس نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ ”پہاڑی وعظ کے اثرات یہودیت اور مسیحیت کے علاوہ مغربی تہذیبوں پر بھی نظر آتے ہیں۔“
یسوع نے آسمان پر جانے سے تھوڑا پہلے اِس بات کی یقیندہانی کرنے کیلئے اپنے شاگردوں کو ایک حکم دیا تاکہ اُسکا شروعکردہ منادی کا کام اُسکی موت کے بعد بھی جاری رہے اور ترقی پائے۔ (یوحنا ۱۴:۱۲) اُس نے اپنے شاگردوں کو سب قوموں کے لوگوں کے پاس جانے کی ہدایت دی کہ ”اُنکو یہ تعلیم دو کہ وہ اُن سب باتوں پر عمل کریں“ جنکا اُس نے حکم دیا تھا۔ یسوع نے اِس بات سے اس کام کے بنیادی مقصد کو واضح کر دیا تھا: ”پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔“—متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ اعمال ۱:۸۔
پولس رسول کے نمونے پر بھی غور کریں۔ مسیحی بننے کے بعد وہ دوسروں کو اپنے نئے ایمان کی بابت بتانے سے ہچکچاتا نہیں تھا۔ اعمال ۹:۱۷-۱۹، ۲۲) پولس اپنے دستور کے مطابق عبادتخانہ میں باتچیت کِیا کرتا تھا وہ ”کتابِمُقدس سے . . . معنی کھول کھول کر دلیلیں پیش کرتا تھا کہ مسیح کو دُکھ اُٹھانا اور مُردوں میں سے جی اُٹھنا ضرور تھا۔“ اُس نے ماہرانہ طریقے سے ”کتابِمُقدس سے اُنکے ساتھ بحث کی“ تاکہ وہ ’یہودیوں اور یونانیوں کو قائل کرے۔‘ ایک کتاب کے مطابق، یونانی لفظ ”قائل“ کرنے کا مطلب ”استدلال یا اخلاقی نظریات کے اثر سے ذہنی تبدیلی کو عمل میں لانا ہے۔“ پولس کے استدلال کرنے کے نتیجے میں ’بہت سے لوگوں کی سوچ تبدیل ہو گئی تھی۔‘—اعمال ۱۵:۳؛ ۱۷:۱-۴، ۱۷؛ ۱۸:۴؛ ۱۹:۲۶۔
(قائل کرنا یا مجبور کرنا
زمانۂجدید میں ”نواعتقادی“ کا مطلب مجبوراً مذہب تبدیل کرنا ہے۔ بائبل ایسے عمل کی حمایت نہیں کرتی بلکہ اِسکی بجائے یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہم آزاد مرضی کے ساتھ خلق کئے گئے ہیں اور اپنی زندگی میں اِس مرضی کا اطلاق کرنا ہمارا شرف اور ذمہداری ہے۔ اس میں یہ فیصلہ کرنا بھی شامل ہے کہ خدا کی پرستش کیسے کی جائے۔—استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰؛ یشوع ۲۴:۱۵۔
یسوع نے اپنے خداداد اختیار کا کبھی ناجائز استعمال نہیں کِیا تھا یا کسی کو اپنی بات ماننے کیلئے مجبور نہیں کِیا تھا۔ (یوحنا ۶:۶۶-۶۹) اُس نے اُن کو تحریک دینے کیلئے استدلال، تمثیلوں اور نظریاتی سوالات کا استعمال کِیا کیونکہ وہ اپنے سامعین کے دل تک پہنچنا چاہتا تھا۔ (متی ۱۳:۳۴؛ ۲۲:۴۱-۴۶؛ لوقا ۱۰:۳۶) یسوع نے اپنے شاگردوں کو بھی یہی تعلیم دی تھی۔—متی ۱۰:۱۴۔
یہ صاف ظاہر ہے کہ پولس نے یسوع کو اپنی منادی میں ایک نمونے کے طور پر استعمال کِیا۔ اُس نے اپنے سامعین کو قائل کرنے کیلئے صحائف سے استدلال کے دوران دوسروں کے احساسات اور نظریات کی قدر کی۔ (اعمال ۱۷:۲۲، ۲۳، ۳۲) وہ یہ بھی سمجھ گیا تھا کہ ہمیں خدا اور یسوع کیلئے محبت سے تحریک پانی چاہئے کہ اپنے خالق کی سرگرمی سے خدمت کریں۔ (یوحنا ۳:۱۶؛ ۲۱:۱۵-۱۷) لہٰذا یہ ہمارا ذاتی فیصلہ ہونا چاہئے۔
ذاتی فیصلہ
زندگی میں بڑے بڑے فیصلے کرتے وقت، جیسےکہ کونسا گھر خریدا جائے، کہاں کام کِیا جائے اور بچوں کی تربیت کیسے کی جائے، سمجھدار لوگ جلدبازی سے کام نہیں لیتے۔ وہ تحقیق کرتے ہیں، حاصلکردہ معلومات پر غوروخوض کرتے ہیں اور غالباً کسی سے مشورہ بھی لیتے ہیں۔ ان چیزوں پر غور کرنے کے بعد ہی وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ یہ ہے کہ ہم خدا کی پرستش کیسے کرینگے۔ اِس فیصلے کیلئے بہت زیادہ وقت اور کوشش درکار ہے۔ ہماری موجودہ زندگی کے علاوہ ہماری آئندہ ابدی زندگی پر اِسکا بہت زیادہ اثر پڑیگا۔ بیریہ میں پہلی صدی کے مسیحی بھی اِس بات کو صاف طور پر سمجھ گئے تھے۔ پولس رسول نے ذاتی طور پر اُنہیں خوشخبری سنائی تھی۔ پھر بھی وہ روزبروز کتابِمُقدس میں سے تحقیق کرتے تھے کہ آیا یہ باتیں اسی طرح ہیں۔ نتیجتاً، ”اُن میں سے بہتیرے ایمان لائے۔“—اعمال ۱۷:۱۱، ۱۲۔
آجکل یہوواہ کے گواہ بھی یسوع کے شروعکردہ تعلیم دینے اور شاگرد بنانے کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴) وہ دوسروں کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن جب دوسروں کو اپنے نظریات میں شریک کرنے کی بات آتی ہے تو وہ کتابِمُقدس سے دلائل پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ زندگیبخش کام ہے۔—یوحنا ۱۷:۳؛ ۱-تیمتھیس ۴:۱۶۔