افریقہ میں ایڈز کا پھیلاؤ
افریقہ میں ایڈز کا پھیلاؤ
”ہمیں ایک بہت بڑی تباہی کا سامنا ہے۔“
افریقہ میں ایچآئیوی/ایڈز کے خصوصی سفارتی نمائندے کے یہ الفاظ صحرائےاعظم کے جنوبی افریقہ کے علاقے میں ایڈز کی صورتحال کی بابت بیشتر لوگوں کی تشویش کو ظاہر کرتے ہیں۔
ایچآئیوی کے پھیلنے میں مختلف عناصر شامل ہیں۔ ایڈز نے دیگر مسائل کھڑے کر دئے ہیں۔ بعض افریقی ممالک کے علاوہ دُنیا کے جن خطوں میں ایڈز پھیل رہی ہے وہاں درپیش صورتحال کو اکثر مندرجہذیل عناصر سے وابستہ کِیا جاتا ہے۔
دی سٹار میں، فرانکوئس ڈیوفور لکھتا ہے، ”نوجوانوں کو محض جنسی تعلق سے گریز کرنے کی بابت آگاہ کرنا کافی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اُنکی نظروں سے ہر روز بیشمار جنسی مناظر گزرتے ہیں۔“
اخلاقیت۔ جنسی تعلق کے ایچآئیوی انفیکشن پھیلنے کا بنیادی ذریعہ ہونے کی وجہ سے صاف ظاہر ہے کہ اس بیماری کا اصل سبب اخلاقی معیاروں کا فقدان ہے۔ تاہم، بیشتر کے خیال میں غیرشادیشُدہ اشخاص پر جنس کے سلسلے میں پابندی لگانے کا پرچار کرنا غیرموزوں ہے۔ جوہانزبرگ جنوبی افریقہ کے اخباراس تجزیے کی تصدیق نوجوانوں کے چالچلن سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مُلک میں سروے نے ظاہر کِیا کہ ۱۲ سے ۱۷ سال کی عمر کے تقریباً ایک تہائی نوجوان جنسی تعلقات قائم کر چکے تھے۔
زنابالجبر کو جنوبی افریقہ میں ایک قومی بحران خیال کِیا جاتا ہے۔ جوہانزبرگ کے اخبار سٹیزن کی ایک رپورٹ نے بیان کِیا کہ یہ ”اسقدر عام ہے کہ اسے اس مُلک کی خواتین اور زیادہتر بچوں کو درپیش صحت کے مسائل پر سبقت حاصل ہے۔“ اسی مضمون میں یہ بھی لکھا ہے: ”حالیہ برسوں میں بچوں کیساتھ زنابالجبر کے واقعات میں دو گُنا اضافہ ہوا ہے . . . بظاہر اس اضافے کی ایک وجہ یہ مفروضہ ہے کہ ایچآئیوی سے متاثرہ شخص اگر کسی کنواری سے زنابالجبر کرتا ہے تو اُسے اپنی اس بیماری سے شفا مِل جائیگی۔“
جنسی طور پر لگنے والی بیماری۔ اس خطے میں جنسی طور پر بیماری کی منتقلی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ساؤتھ افریقن میڈیکل جرنل نے بیان کِیا: ”جنسی طور پر لگنے والی بیماری کی وجہ سے ایچآئیوی-1 کے انفیکشن کی شرح میں ۲ تا ۵ گُنا اضافے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔“
غربت۔ بیشتر افریقی ممالک کو غربت کا سامنا ہے اور یہ چیز ایڈز کے پھیلاؤ کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ ترقییافتہ ممالک میں بنیادی ضروریات خیال کی جانے والی چیزیں بیشتر ترقیپذیر ممالک میں دستیاب نہیں ہیں۔ زیادہتر علاقے بجلی سے محروم ہوتے ہیں اور اُنہیں پینے کیلئے صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ دیہی علاقوں میں سڑکیں یا تو خراب ہوتی ہیں یا پھر ہوتی ہی نہیں۔ بیشتر لوگ ناقص غذا سے متاثر ہوتے ہیں اور طبّی سہولیات بھی برائےنام ہوتی ہیں۔
ایڈز کاروبار اور صنعت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کارکُن ایڈز سے متاثر ہو رہے ہیں اور کمپنیاں کانکنی کی پیداوار میں کمی کے اثرات کو محسوس کر رہی ہیں۔ بعض کمپنیاں اس کمی کو پورا کرنے کیلئے بعض خودکار اور میکانکی طریقے استعمال کرنے کی بابت غور کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، سن ۲۰۰۰ میں، پلاٹینم کی ایک کان میں ایڈز کے متاثرین کی تعداد دُگنی ہو گئی تھی اور تقریباً ۲۶ فیصد کارکُن اس بیماری سے متاثر تھے۔
ایڈز کا سب سے افسوسناک نتیجہ یہ ہے کہ جب والدین اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو بچوں کی بڑی تعداد یتیم ہو جاتی ہے۔ والدین اور مالی تحفظ سے محروم ہونے کے علاوہ، ان بچوں کو ایڈز سے وابستہ رسوائی کی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ خاندان کے دیگر افراد یا تو بہت غریب ہوتے ہیں یا پھر وہ مدد کیلئے آمادہ نہیں ہوتے۔ بہت سے یتیم بچے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض بچیاں عصمتفروشی میں پڑ جاتی ہیں اور یوں اس بیماری کو مزید پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔ کئی ممالک نے ان یتیم بچوں کی مدد کیلئے حکومتی یا نجی پروگرام ترتیب دئے ہیں۔
جہالت یا لاعلمی۔ بیشتر ایچآئیوی متاثرین اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔ بہتیرے اس بیماری سے وابستہ رسوائی کے پیشِنظر ٹیسٹ نہیں کروانا چاہتے۔ جوائنٹ یونائیٹڈ نیشنز پروگرام برائے ایچآئیوی/ایڈز (UNAIDS) کے ایک پریس ریلیز نے بیان کِیا، ”ایچآئیوی سے متاثرہ یا مشتبہ اشخاص کو شاید علاج سے محروم، رہائش اور ملازمت سے سبکدوش کر دیا ہو، دوستاحباب اور ساتھی کارکنوں نے اُس سے کنارہکشی اختیار کر لی ہو، انشورنش دینے یا کسی دوسرے مُلک میں داخلے سے انکار کر دیا ہو۔“ بعض ایچآئیوی سے متاثرہ اشخاص کو تو قتل کر دیا گیا تھا۔
ثقافت۔ کئی افریقی ثقافتوں میں، عورتیں اکثر اپنے بیاہتا ساتھیوں سے ازدواجی زندگی سے باہر جنسی تعلقات کی بابت پوچھنے، جنسی مباشرت سے انکار کرنے یا محفوظ جنسی تعلقات تجویز کرنے کی مجاز نہیں ہوتیں۔ ثقافتی اعتقادات اکثر جہالت اور ایڈز سے لاعلمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بیماری کا الزام بھوتپریت پر لگایا جا سکتا ہے اور اکثر مدد کیلئے عاملوں سے رابطہ کِیا جاتا ہے۔
ساؤتھ افریقن میڈیکل جرنل۔
طبّی سہولیات کا فقدان۔ پہلے ہی سے ایڈز کی وجہ سے طبّی سہولیات پر زیادہ ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ دو بڑے ہسپتالوں کا کہنا ہے کہ زیرِعلاج مریضوں میں آدھے سے زیادہ ایچآئیوی سے متاثر ہیں۔ کوازلو ناٹل میں ایک ہسپتال کے میڈیکل افسر نے بیان کِیا کہ اُسکے وارڈز میں تقریباً ۱۴۰ مریض رکھے جاتے ہیں۔ لیکن کبھیکبھار، ایک بستر پر دو مریض ہوتے ہیں اور تیسرا فرش پر ہوتا ہے!—افریقہ جیسی المناک صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ حالات اَور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ UNAIDS کے پیٹر پائٹ نے بیان کِیا، ”ابھی تو ہم اس وبا کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں۔“
صاف ظاہر ہے کہ بعض ممالک میں اس مرض سے نپٹنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ پہلی مرتبہ، جون ۲۰۰۱ میں، اقوامِمتحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایچآئیوی/ایڈز پر گفتگو کرنے کے لئے خاص کانفرنس منعقد کی تھی۔ کیا انسانی کاوشیں کامیاب ہوں گی؟ ایڈز کی مُہلک وبا کی پیشقدمی کب رُکے گی؟
[صفحہ ۵ پر بکس/تصویر]
ایڈز کی دوا نیورپین اور جنوبی افریقہ کا مسئلہ
نیورپین کیا ہے؟ جرنلسٹ نکول اِٹانو کے مطابق، ”یہ بیماری کی روکتھام کیلئے ایک ایسی دوا ہے جس نے آزمائے جانے کے بعد یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سے [ماں سے] بچے میں ایڈز کے منتقل ہونے کے امکانات نصف رہ جاتے ہیں۔“ ایک جرمن ڈرگ کمپنی نے آئندہ پانچ سال تک اسے بِلامعاوضہ جنوبی افریقہ کو سپلائی کرنے کی پیشکش کی تھی۔ تاہم، اگست ۲۰۰۱ تک حکومت نے اس پیشکش کو قبول نہیں کِیا تھا۔ مسئلہ کیا ہے؟
دُنیا کے کسی دوسرے مُلک کی نسبت جنوبی افریقہ میں ۷.۴ ملین ایچآئیوی سے متاثرہ لوگ رہتے ہیں۔ لندن کے دی اکانومسٹ نے فروری ۲۰۰۲ میں بیان کِیا کہ جنوبی افریقہ کا صدر ٹابو مبیکی ”اس عام نظریے سے اتفاق نہیں کرتا کہ ایچآئیوی ایڈز کا سبب بنتا ہے“ نیز وہ ”ایڈز کی روکتھام کیلئے استعمال کی جانے والی ادویات کی قیمت، تحفظ اور افادیت کی بابت شکوک کا شکار ہے۔ اُس نے اِن پر پابندی تو نہیں لگائی مگر اس کے استعمال کے سلسلے میں جنوبی افریقہ کے ڈاکٹروں کی حوصلہشکنی کی جاتی ہے۔“ یہ تشویشناک بات کیوں ہے؟ اس لئےکہ جنوبی افریقہ میں ہر سال ہزاروں بچے ایچآئیوی وائرس کیساتھ پیدا ہوتے ہیں اور ۲۵ فیصد حاملہ عورتوں میں یہ وائرس موجود ہوتا ہے۔
اِن متضاد نظریات کی وجہ سے، حکومت کو نیورپین تقسیم کرنے پر مجبور کرنے کیلئے عدالت میں مقدمہ دائر کِیا گیا تھا۔ اپریل ۲۰۰۲ میں، جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت نے اپنی رائے دے دی۔ دی واشنگٹن پوسٹ میں لکھتے ہوئے، روی نسمن نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کی رُو سے ”حکومت کو ضرورت کے مطابق صحت کے اداروں میں دوا دستیاب کرنی چاہئے۔“ اگرچہ جنوبی افریقہ کی حکومت پورے مُلک میں صرف ۱۸ مقامات پر اس دوا کو آزمائشی طور پر استعمال کر رہی ہے توبھی نیا فیصلہ ایچآئیوی سے متاثرہ مُلک کی تمام حاملہ خواتین کو اُمید فراہم کرتا ہے۔
[صفحہ ۶ پر بکس/تصویر]
ایک مکار وائرس خلیے پر حاوی ہو جاتا ہے
لمحےبھر کیلئے ہیومن ایمینوڈیفیشنسی وائرس (ایچآئیوی) کی چھوٹی سی دُنیا کا جائزہ لیں۔ ایک سائنسدان لکھتا ہے: ”الیکٹرون مائیکروسکوپ کے ذریعے کئی سال تک وائرس کے دقیق حصوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد، مَیں ابھی تک پیچیدہ اور مخصوص طریقے سے تیارکردہ اِن چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بابت حیرت اور تجسّس سے باہر نہیں نکل سکا۔“
ایک وائرس بیکٹیریم سے بھی چھوٹا ہوتا ہے جوکہ اوسط انسانی خلیے کی نسبت کہیں زیادہ چھوٹا ہوتا ہے۔ ایک معتبر ذرائع کے مطابق، ایچآئیوی وائرس اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ”ایچآئیوی کے ۲۳۰ ملین [دقیق حصے] اس جملے کے آخر میں لگائے گئے کامل وقفے پر پورے آ سکتے ہیں۔“ وائرس کی تعداد میں اُس وقت تک اضافہ نہیں ہوتا جبتک کہ یہ متاثرہ خلیے کے اندر داخل ہو کر اُسکے وسائل پر حاوی نہیں ہو جاتا۔
جب ایچآئیوی انسانی جسم پر حملہآور ہوتا ہے تو اسے مدافعتی نظام میں موجود قوتوں کا سخت مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ * خون کے سفید خلیوں پر مشتمل دفاعی نیٹورک ہڈی کے گودے میں پیدا ہوتا ہے۔ سفید خلیوں میں بنیادی طور پر دو قسم کے لمفی خلیے ہوتے ہیں جنہیں ٹی سیل اور بی سیل کہا جاتا ہے۔ بعض دوسرے سفید خلیے فیگوسائٹس یعنی اکال خلیہ یا ”سیل ایٹرز“ کہلاتے ہیں۔
ٹی سیلز کے مختلف گروہوں کے مختلف کام ہوتے ہیں۔ معاون ٹی سیلز جنگی حکمتِعملی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ معاون ٹی سیلز خارجی حملہآوروں کی شناخت کرنے اور دُشمن پر حملہ کرنے اور اُسے مار ڈالنے والے سیلز پیدا کرنے کیلئے ہدایات جاری کرتے ہیں۔ حملہ کرتے وقت ایچآئیوی بالخصوص اِن معاون ٹی سیلز کو نشانہ بناتے ہیں۔ قاتل ٹی سیلز اُن خلیوں کو ہلاک کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں جن پر حملہ ہو چکا ہے۔ بی سیلز اینٹیباڈیز پیدا کرتے ہیں جنہیں انفیکشن کا مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔
مکارانہ حکمتِعملی
ایچآئیوی کی درجہبندی ریٹرووائرس کے طور پر کی جاتی ہے۔ ایچآئیوی کی جینیات کا بنیادی خاکہ ڈیایناے (ڈیوکسیریبونیوکلک ایسڈ) کی شکل میں ہونے کی بجائے آرایناے (ریبونیوکلک ایسڈ) کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایچآئیوی کا تعلق ریٹرووائرس کے ایک ایسے مخصوص ذیلی گروہ سے ہے جو لینٹیوائرس کہلاتے ہیں کیونکہ یہ بیماری کی سنگین علامات کے ظاہر ہونے سے قبل کافی عرصہ تک چھپے رہ سکتے ہیں۔
جب ایچآئیوی کو کسی خلیے میں داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے تو یہ اپنے مقاصد کے مطابق خلیے کے عمل کو اپنے طریقے سے استعمال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ایچآئیوی کی افزائش کے لئے یہ خلیے کے ڈیایناے کو ”نئے سرے سے ترتیب“ دیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ایسا کرے، ایچآئیوی کو مختلف ”جینیاتی کوڈ“ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لازم ہے کہ وہ اپنے آرایناے کو ڈیایناے میں تبدیل کرے تاکہ یہ میزبان خلیے کی ترکیبوترتیب کو سمجھ سکے۔ ایسا کرنے کیلئے، ایچآئیوی ایسے وائرل انزائم کو کام میں لاتا ہے جسے ریورس ٹرانسکرپٹیز کہا جاتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایچآئیوی کے ہزاروں نئے دقیق حصے پیدا کرنے کے بعد خلیہ خود ختم ہو جاتا ہے۔ یہ نئے پیداشُدہ دقیق حصے دوسرے خلیوں کو متاثر کرتے ہیں۔
جب معاون ٹی سیلز کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی ہے تو پھر دیگر قوتیں بھی بِلاخوفوخطر جسم پر حملہآور ہو سکتی ہیں۔ جسم ہر طرح کی بیماریوں اور انفیکشن کا گھر بن جاتا ہے۔ تب متاثرہ شخص پوری طرح ایڈز کی گرفت میں ہوتا ہے۔ ایچآئیوی پورے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
یہ بہت سادہ سی وضاحت ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ابھی تک ماہرین مدافعتی نظام اور ایچآئیوی کے طرزِعمل کی بابت کچھ نہیں جانتے۔
تقریباً دو عشروں سے یہ چھوٹا سا وائرس دُنیا کے ممتاز ماہرین کے دماغی اور جسمانی وسائل کو کھا رہا ہے جوکہ کثیر مالی اخراجات پر منتج ہوا ہے۔ نتیجتاً، ایچآئیوی کی بابت کافی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ چند سال پہلے، ایک سرجن ڈاکٹر شرون بی. نولینڈ نے تبصرہ کِیا: ”ہیومن ایمینوڈیفیشنسی وائرس کی بابت جتنی معلومات حاصل کی گئی ہیں اور اسکے حملہآور ہونے کے خلاف جتنا دفاعی بندوبست کِیا گیا ہے وہ واقعی حیرتانگیز ہے۔“
اس تمام کے باوجود، ایڈز کی مُہلک پیشقدمی خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔
[فٹنوٹ]
[صفحہ ۶ پر تصویر]
ایچآئیوی مدافعتی نظام کے لمفوسائٹس میں داخل ہو جاتا اور ایچآئیوی پیدا کرنے کیلئے اُنہیں نئے سرے سے ترتیب دیتا ہے
[تصویر کا حوالہ]
.CDC, Atlanta, Ga
[صفحہ ۷ پر تصویر]
ہزاروں نوجوان بائبل معیاروں کی پابندی کرتے ہیں