”انسانی تاریخ کی نہایت مُہلک وبا“
”انسانی تاریخ کی نہایت مُہلک وبا“
جنوبی افریقہ سے جـاگـو! کا رائٹر
”دُنیا کی کوئی جنگ ایڈز کی مُہلک وبا جیسی تباہکُن نہیں ہے۔“—یو۔ایس۔ سیکرٹری آف سٹیٹ کولن پاول۔
ایڈز (ایکوائرڈ ایمینوڈیفیشنسی سنڈروم) پر پہلی باضابطہ رپورٹ جون ۱۹۸۱ میں شائع ہوئی تھی۔ ایچآئیوی/ایڈز (UNAIDS) پر اقوامِمتحدہ کے مشترکہ پروگرام کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر پائیاوٹ کہتا ہے، ”ایڈز کے ابتدائی دَور میں ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ وبا اتنے بڑے پیمانے پر پھیل جائیگی۔“ بیس سالوں کے دوران یہ سب سے بڑی وبا بن گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہیگا۔
یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ۳۶ ملین سے زائد لوگ ایچآئیوی سے متاثر ہیں اور ۲۲ ملین ایڈز کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ * سن ۲۰۰۰ میں، دُنیابھر میں تین ملین لوگ ایڈز سے مرے جو اس وبا کے شروع ہونے کے بعد سب سے بڑی سالانہ شرح ہے۔ دولتمند ممالک میں اس وائرس کے خلاف ادویات استعمال کرنے کے باوجود یہ حال ہے۔
افریقہ پر ایڈز کا حملہ
صحرائےاعظم کے جنوب میں واقع افریقہ اندازاً ۳.۲۵ ملین متاثرین کیساتھ اس وبا کا مرکز بن گیا ہے۔ صرف اس خطے میں، سن ۲۰۰۰ کے دوران، ایڈز کی وجہ سے ۴.۲ ملین اموات واقع ہوئیں جوکہ دُنیابھر میں مجموعی تعداد کا ۸۰ فیصد ہے۔ اس خطے میں موت کی سب سے بڑی وجہ ایڈز ہے۔ *
دُنیا کے دیگر ممالک کی نسبت متاثرین کی سب سے بڑی تعداد جنوبی افریقہ میں ہے جو اندازاً ۷.۴ ملین ہے۔ یہاں ہر مہینے ایچآئیوی سے متاثرہ ۰۰۰،۵ بچے پیدا ہوتے ہیں۔
جولائی ۲۰۰۰ میں، ڈربن میں منعقد ہونے والے ۱۳ ویں انٹرنیشنل ایڈز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے، جنوبی افریقہ کے سابقہ صدر نیلسن منڈیلا نے کہا: ”ہم یہ جان کر حیران ہیں کہ صرف جنوبی افریقہ میں ۲ میں سے ۱ یعنی ہمارے نوجوانوں کی نصف تعداد ایڈز سے مر جائیگی۔ سب سے پریشانکُن بات یہ ہے کہ ان تمام بیماریوں اور ان سے وابستہ تکلیف سے جن کی بابت اعدادوشمار ہمیں آگاہ کرتے ہیں بچا جا سکتا تھا۔“دیگر ممالک میں ایڈز کا حملہ
مشرقی یورپ، ایشیا اور کریبیئن میں بھی یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سن ۱۹۹۹ کے اختتام پر، مشرقی یورپ میں اس بیماری سے متاثرہ لوگوں کی تعداد ۰۰۰،۲۰،۴ تھی۔ سن ۲۰۰۰ کے اختتام پر، یہ تعداد بڑھ کر اندازاً ۰۰۰،۰۰،۷ کو پہنچ گئی۔
امریکہ کے چھ بڑے شہروں میں کئے جانے والے سروے نے آشکارا کِیا کہ نوجوان ہمجنسپرستوں میں ایچآئیوی انفیکشن کی شرح ۳.۱۲ فیصد ہے۔ علاوہازیں، ایچآئیوی سے متاثرہ اشخاص میں سے صرف ۲۹ فیصد اس بات سے واقف تھے۔ سروے کی سربراہ اپیڈیمیالوجسٹ نے کہا: ”ہمیں یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ ایچآئیوی سے متاثرہ اتنے کم لوگ اس بات سے واقف ہیں۔ اسکا مطلب ہے کہ اس سے متاثرہ نئے لوگ لاعلمی میں اس وائرس کو منتقل کر رہے ہیں۔“
مئی ۲۰۰۱ میں، سوئٹزلینڈ میں ایڈز کے ماہرین نے اپنے ایک اجلاس میں اس بیماری کو ”انسانی تاریخ کی نہایت مُہلک وبا“ قرار دیا گیا۔ جیساکہ بیان کِیا گیا ہے صحرائےاعظم کے جنوب میں واقع افریقہ بالخصوص ایڈز کے حملہ کی زد میں ہے۔ ہمارا اگلا مضمون اسکے اسباب پر بات کریگا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 یہ اعدادوشمار UNAIDS کے شائعکردہ ہیں۔
^ پیراگراف 7 فروری ۲۲، ۲۰۰۱ کے جاگو! کے صفحہ ۱۴، ۱۵ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۳ پر تصویر]
”سب سے پریشانکُن بات یہ ہے کہ اِن تمام بیماریوں اور انسانی تکلیف سے بچا جا سکتا تھا۔“—نیلسن منڈیلا
[صفحہ ۳ پر تصویر]
ایچآئیوی سے متاثرہ بیشتر لوگ اس بات سے ناواقف ہیں
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
UN/DPI Photo 198594C/Greg Kinch