مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

جمائی لینے سے نہ شرمائیں!‏

ہسپانوی ہفت‌روزہ رسالہ سالود بیان کرتا ہے کہ ماں کے رحم میں بچہ استقرارِحمل کے صرف ۱۱ ہفتوں بعد جمائی لینے لگتا ہے۔‏ بدیہی طور پر بیشتر ممالیہ سمیت بعض پرندے اور رینگنے والے جانور بھی اس غیرارادی ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔‏ اگرچہ جمائی لینے کی بنیادی وجہ تو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی توبھی محققین کے مطابق انگڑائی لینے جیسے عمل اکثر جمائی لینے کیساتھ منسوب کئے جاتے ہیں۔‏ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حرکات ”‏جکڑے ہوئے پٹھوں اور جوڑوں کو سکون دینے کے علاوہ فشارِخون اور دل کی دھڑکن کی رفتار کو تیز“‏ کرتی ہیں۔‏ جب ہم جمائی روکنے کیلئے اپنے جبڑے بھینچتے ہیں تو ہم اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔‏ پس محققین کی ٹیم مشورہ دیتی ہے کہ اگر حالات اجازت دیں تو ہمیں جمائی کے ذریعے ”‏اپنے جبڑے اور چہرے کے عضلات کو عام حالات میں کھینچنا“‏ چاہئے۔‏ کُھل کر جمائی لینا آپکو دن‌بھر تروتازہ رکھ سکتا ہے!‏

دل کے مریضوں کیلئے دماغی تحفظ

کینیڈا کے ٹرانٹو سٹار اخبار کی ایک رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”‏دو اہم مطالعوں کے مطابق،‏ دل کا دورہ پڑنے والے مریضوں کے جسم کے درجۂ‌حرارت کو چند ڈگری کم کر دینے سے دماغی نقصان اور موت کا خطرہ قدرے کم ہو جاتا ہے۔‏“‏ پانچ یورپی ممالک اور آسٹریلیا پر کئے جانے والے مطالعوں میں دریافت کِیا گیا کہ ہلکا سا ہایپوتھرمیا اعصابی اور ادراکی کارکردگی کے اعتبار سے مریضوں کی بہتر صحتیابی پر منتج ہوتا ہے۔‏ دل کے دورے کے بعد بیہوشی کے عالم میں ہسپتال پہنچنے والے مریضوں کے جسمانی درجۂ‌حرارت کو ۱۲ سے ۲۴ گھنٹوں تک ٹھنڈی ہوا اور برف کے تھیلوں کے استعمال کے ذریعے کم کرکے ۳۳ ڈگری سیلسیس [‏۹۰ ڈگری فارن‌ہیٹ)‏ پر لایا گیا۔‏ کارڈیالوجسٹ بتھ ابرامسن کے مطابق،‏ یہ سستا اور سادہ تکنیکی علاج ”‏دماغ میں آکسیجن کی ضرورت کو کم اور دماغی خلیوں کو تباہ کرنے والے کیمیائی عمل کو روکتا ہے۔‏“‏ سٹار بیان کرتا ہے،‏ ”‏جسم کو ٹھنڈا کرنے والی یہ تکنیک اسقدر مؤثر ثابت ہوئی ہے کہ کینیڈا،‏ ریاستہائےمتحدہ،‏ آسٹریلیا اور یورپ کے ڈاکٹر ہسپتال میں داخل ہونے والے دل کے دورے کے تمام مریضوں کیلئے اس عمل کو باقاعدہ علاج کے طور پر استعمال کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔‏“‏

بچوں کی فوج میں بھرتی پر پابندی

اقوامِ‌متحدہ کی ایک پریس ریلیز مورخہ فروری ۱۲،‏ ۲۰۰۲ نے بیان کِیا،‏ ”‏آج سے بچوں کو فوج میں بھرتی کرنے پر پابندی عائد کرنے والے معاہدے کو عمل میں لایا جائیگا جو دُنیا میں انسانی حقوق کو پامال کرنے والے بنیادی عناصر میں سے ایک کے خلاف ۱۰ سالوں پر محیط بین‌الاقوامی کوششوں کا کامیاب انجام بھی ہے۔‏“‏ اِس اختیاری معاہدے پر ۹۶ ممالک کے دستخط ”‏اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ۱۸ سال سے کم‌عمر شخص کیلئے مسلح افواج میں بھرتی ہونا لازم نہیں اور حکومتوں پر یہ ذمہ‌داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رضاکارانہ فوجی خدمت کرنے کی عمر کو کم‌ازکم ۱۶ سال تک بڑھائیں۔‏“‏ ایک اندازے کے مطابق،‏ ”‏اس وقت پوری دُنیا کے اندر ۸۵ ممالک میں نصف ملین سے زائد بچے حکومت کی مسلح افواج،‏ پیراملٹری [‏نیم‌فوجی دستے]‏ اور مسلح گروہوں میں کام کر رہے ہیں؛‏ ان میں سے ۰۰۰،‏۰۰،‏۳ سے زیادہ بچے ۳۵ سے زائد ممالک میں لڑائی میں براہِ‌راست حصہ لے رہے ہیں۔‏“‏ یواین نیوز سروس ویب پیج کے مطابق،‏ ان میں سے بیشتر بچوں کو اغوا کِیا گیا ہے اور ”‏اگر وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں تشدد یا موت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‏ بالخصوص لڑکیوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے کیونکہ ان کیساتھ اکثر جنسی بدسلوکی بھی کی جاتی ہے۔‏“‏

عمررسیدہ لوگ اور علاج‌معالجہ

جرمن نیوزمیگزین دار شپیگل بیان کرتا ہے،‏ ”‏۶۰ سال سے زائد عمر کے لوگ اوسطاً تین مختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں جوکہ کم‌عمر مریضوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔‏ تاہم [‏ادویات کے]‏ تعامل اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے مضر اثرات کا خطرہ ادویات کی مقدار کے ساتھ حیرت‌انگیز طور پر بڑھ جاتا ہے۔‏“‏ پیچیدگی کا ایک اَور امکان یہ ہے کہ ”‏خاندانی ڈاکٹر .‏ .‏ .‏ اکثر بڑھاپے میں گردوں کی سُست کارکردگی پر غور کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔‏“‏ نتیجتاً ادویات جسم میں جمع ہو سکتی ہیں۔‏ لہٰذا،‏ دار شپیگل بیان کرتا ہے کہ ”‏جو مقدار ایک ۴۰ سالہ شخص کیلئے مناسب ہوتی ہے وہ ایک ۷۰ سالہ شخص کیلئے زہر ثابت ہو سکتی ہے۔‏ بہتیرے عمررسیدہ اشخاص کافی مقدار میں پانی نہ پینے سے بھی اس مسئلے کو اَور سنگین بنا دیتے ہیں۔‏“‏ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے کہ صرف پانی کی کمی ہی درد کو دُور کرنے،‏ آرام پہنچانے اور خون کے دباؤ کو متوازن رکھنے والی گولیوں کی طرح کے مضر اثرات پیدا کر سکتی ہے۔‏ اسکی علامات میں پریشانی،‏ ہذیان اور چکر آنا شامل ہیں جنکا ذمہ‌دار اکثر بڑھاپے کو ٹھہرایا جاتا ہے۔‏

مُہلک ایکس‌ٹیسی

سپینش اخبار ایل پیز کی رپورٹ کے مطابق،‏ رویز کہلانے والی رقص‌وسرود کی محفلوں میں جانے والے ہر ۱۰ میں سے نو اشخاص ایم‌فیٹامائن سے بنی منشیات ایکس‌ٹیسی کا استعمال کرتے ہیں۔‏ حال ہی میں سپین کی ایک ایسی ہی رقص‌وسرود کی محفل میں دو نوجوانوں کی ایکس‌ٹیسی کا بےتحاشا استعمال کرنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی۔‏ مُتوَفّی اشخاص کا ایک دوست یاد کرتا ہے،‏ ”‏ہمیں متواتر منشیات کی پیشکش کی جا رہی تھی۔‏“‏ نوجوان لوگ یہ نشہ کیوں کرتے ہیں؟‏ اس کی وجہ ہمسروں کے دباؤ کے علاوہ موافقت اور عزتِ‌نفس کا احساس ہے جسے ایکس‌ٹیسی فروغ دیتی ہے۔‏ نوجوان لوگ اکثر ایکس‌ٹیسی کو حشیش اور کوکین جیسی منشیات یا الکحل کیساتھ ملا کر استعمال کرتے ہیں جوکہ اسکے مضر اثرات میں اضافہ کرتا ہے۔‏ سپین کا نیشنل اینٹی‌ڈرگ پروگرام خبردار کرتا ہے کہ یادداشت کی کمی اور افسردگی کے علاوہ،‏ ایکس‌ٹیسی ’‏عملِ‌تنفّس سے تعلق رکھنے والے مسائل،‏ دماغ کی نس پھٹنے اور موت‘‏ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔‏

کرین‌بیری انفیکشن ختم کرنے میں معاون ہیں

لندن کے دی ٹائمز کے مطابق،‏ ”‏کرین‌بیری کے رس کی تاریخ قدیم ہونے کے علاوہ منفرد بھی ہے۔‏ یہ مقامی امریکیوں میں دوا اور مشروب کے طور پر بہت مشہور تھا [‏اور]‏ امریکی ملاح اسے اسکروی سے بچنے کیلئے استعمال کِیا کرتے تھے۔‏“‏ وٹامن سی اور مانع‌تکسید مادّے سے بھرپور ”‏کرین‌بیری کے رس میں خوردبینی جرثوموں کی افزائش نمودو پر قابو پانے والی دافع خصوصیات بھی شامل ہیں جو اسے یورینری‌ٹریکٹ انفیکشن کے سلسلے میں خاص طور پر مؤثر بناتی ہیں۔‏“‏ تاہم،‏ جیساکہ پہلے خیال کِیا جاتا تھا اسکی وجہ پیشاب میں پائی جانے والی تیزابیت پر اس رس کا اثر نہیں۔‏ درحقیقت دی ٹائمز کے مطابق اسکی وجہ اس رس میں پائے جانے والے ایسے اجزا ہیں جو ”‏[‏ورمِ‌مثانہ سمیت بہتیری بیماریوں کا سبب بننے والے]‏ ای.‏ کولائی بیکٹیریا کو پیشاب کی نالی کی دیوار کیساتھ چپکنے سے روکتے ہیں اور یوں کسی بیماری کا باعث بنے سے پہلے بیکٹیریا خارج کر دئے جاتے ہیں۔‏“‏ محققین نے یہ بھی دریافت کِیا ہے کہ کرین‌بیری کا رس مسوڑوں کی بیماری کے امکانات کو بھی کم کر سکتا ہے۔‏

ملازمت کی جگہ پر گالی‌گلوچ

مونٹریال،‏ کینیڈا کے دی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق ملازمت کی بہتیری جگہوں پر بدکلامی بہت عام ہے۔‏ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ گالی‌گلوچ درحقیقت ملازمت کی جگہ پر موجود دباؤ میں اضافہ کرتا ہے۔‏ میک‌گل یونیورسٹی میں تنظیمی طرزِعمل کی پروفیسر کیرن ہارلس بیان کرتی ہے:‏ ”‏اگر بدکلامی تنقید کا حصہ ہے تو یہ ملازم کی کارکردگی،‏ عزتِ‌نفس یا صحت پر بُرا اثر ڈال سکتی ہے۔‏“‏ اخبار کے مطابق،‏ جائےملازمت پر ”‏آجر اکثر اسکا نمونہ قائم کرتا ہے“‏ جبکہ دیگر اسکے نقشِ‌قدم پر چلتے ہیں۔‏ اگر آپ اپنی ملازمت کی جگہ پر گالی‌گلوچ کی وجہ سے پریشان ہیں تو دی گزٹ مشورہ دیتا ہے کہ سب سے پہلے آپ اُس شخص کے پاس جائیں جو ”‏آپکے خیال میں حد سے آگے بڑھ رہا ہے اور خوش‌اخلاقی سے درخواست کریں کہ وہ آپکی موجودگی میں گندی زبان استعمال کرنے سے اجتناب کرے۔‏“‏

گھریلو کام‌کاج اچھی ورزش ہے

کیا گھر میں جھاڑو لگانے،‏ کھڑکیاں صاف کرنے یا بچے کے اسٹرالر (‏بچہ گاڑی)‏ دھکیلنے کو صحتمند ورزش کا نام دیا جا سکتا ہے؟‏ آسٹریلیا میں کوئنزلینڈ کی یونیورسٹی کا منعقدکردہ ایک حالیہ مطالعہ اسکی تصدیق کرتا ہے۔‏ دی کینبرا ٹائمز کی رپورٹ بیان کرتی ہے کہ محققین نے پانچ سال سے کم عمر بچوں والی سات ماؤں پر یہ جاننے کیلئے گیس اینالائزر لگائے کہ وہ اپنے روزمرّہ کے معمول کے دوران کتنی آکسیجن استعمال کرتی ہیں۔‏ محققین کے مطابق،‏ ”‏گھر کی ذمہ‌داریاں پوری کرنے سے متعلق بعض کام اتنے مشقت‌طلب ہیں کہ اُن سے صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔‏“‏ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ پروفیسر وینڈی براؤن نے دریافت کِیا کہ ”‏عورتوں کے گھریلو کام چلنے،‏ سائیکل چلانے یا تیراکی جیسی معتدل ورزش کے برابر ہیں۔‏“‏ براؤن کے مطابق ”‏یہ محض ابتدائی تحقیق ہے تاہم،‏ آپ دن‌بھر کام‌کاج میں مصروف رہنے والی خواتین کو کسی بھی صورت سُست قرار نہیں دے سکتے۔‏“‏

چاول کا چھلکا سیمنٹ کو مضبوطی بخشتا ہے

برازیل کا جرنل ڈا یوایس‌پی بیان کرتا ہے،‏ ”‏محققین موسم اور ماحول کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے والی زیادہ دیرپا عمارتوں کیلئے تعمیری صنعت میں ایک انقلاب کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔‏ اس کی وجہ ایک نیا سیمنٹ ہے جو [‏برازیل میں]‏ ساؤ پاؤلو کی یونیورسٹی کے سکول آف انجینیئرنگ کے محققین نے تیار کِیا ہے۔‏ ان سائنسدانوں نے چاولوں کے چھلکوں کی راکھ اور عام سیمنٹ کی آمیزش سے نہایت باریک اور معیاری مسالہ تیار کِیا ہے۔‏ اس طریقے سے تیارکردہ سیمنٹ میں مسامات کم ہوتے ہیں،‏ یہ بہتر طور پر آلودگی اور موسمی اثرات کی مزاحمت کرنے کے قابل ہوتا ہے اور عام سیمنٹ کے مقابلے میں کم‌ازکم تین یا چار گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔‏ پس جرنل ڈا یوایس‌پی بیان کرتا ہے کہ اسکی مدد سے وہ سہارا دینے والے ستونوں کے حجم کو ۳۰ فیصد کم کرنے کے قابل ہوئے ہیں،‏ ”‏جنکی مضبوطی اُتنی ہی رہتی ہے [‏اور]‏ نتائج زیادہ جگہ بچانے کے علاوہ وزن،‏ تعمیراتی وقت،‏ اخراجات اور مزدوروں میں کمی پر منتج ہونگے۔‏“‏ دُنیابھر میں چاول کے چھلکوں کی سالانہ پیداوار تقریباً ۸۰ ملین ٹن ہے جوکہ ۲.‏۳ ملین ٹن سلیکا فراہم کرتی ہے۔‏